قراردادیں
19 کروڑ عوام کے لیے اضافی بجلی، غذا، پانی، تعلیم، صحت کے لیے کیا عمل حکمرانوں نے کیا؟
ایک حکومت رخصت ہوئی دوسری فرینڈلی اپوزیشن براجمان ہوئی، کچھ نہ بدلا بلکہ اس حکومت کا ''جن'' اس حکومت پر سواری کرنے لگا، اصل میں جنوں کے بھی آقا ہوتے ہیں ان کے تابع جو مخلوق ہوتی ہے اس پر آجاتے ہیں۔ عام طور پر مشرق کے پسماندہ ترین ممالک میں یہ جن چڑھتے ہیں، یہ جن مغربی ہوتے ہیں یا امریکی جو ایشیائی ممالک کے مسلم ممالک میں خاص طور پر پائے جاتے ہیں۔
آپ غور کریں کچھ نہ بدلا ۔ علامہ طاہر القادری نے اس جن کو اتارنے کی کوشش کی مگر وہ بھی نہ اتار سکے۔ جیسے کہ انتخابات بعض ممالک کو خوش کرنے کے لیے ہوئے اور ان کی امیدوں پر پاکستان پورا اترے، سو ویسا ہی ہوگیا لہٰذا بجٹ ابھی ایوان میں پیش بھی نہ ہوا اس پر عمل شروع ہوگیا۔ جاتے جاتے راجہ رینٹل کی حکومت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کرکے آنے والی حکومت کے لیے آسانیاں پیدا کرتی گئی، جو کسر رہ گئی وہ انھوں نے پوری کردی۔ خواب دکھانے والے لیڈر جو مزدور کی تنخواہ 15000/- ماہانہ کرنے کو تھے صرف گورنمنٹ ملازمین ان کو بادل نخواستہ یاد رہے اور جاگیرداری سماج کا بجٹ عوام پر نافذ کردیا گیا۔
پاکستان دنیا کے ان پسماندہ ملکوں میں سے ہے جو گنے سے شکر تیار کرنے والے مالکان کے ہاتھوں یا کپاس کے مالک ہیں ملک پر قابض ہیں اور اپنا من کا پسند بجٹ بناتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کاروباری حاکم نہیں ہوتے اس لیے اس پر اتفاق رائے نہیں ہوتا، پاکستان میں بجلی کا منصوبہ اور اس کی کمی اچانک نہیں ہوگئی۔ 1970 سے پہلے جو بڑے ڈیم بننے تھے وہ بن گئے جب کہ 1970 میں موجودہ پاکستان کی آبادی تقریباً 6.5 کروڑ تھی اور آج 18 کروڑ سے زائد۔ اچانک ملک میں 10 کروڑ عوام چند ماہ میں نہیں پیدا ہوگئے۔
19 کروڑ عوام کے لیے اضافی بجلی، غذا، پانی، تعلیم، صحت کے لیے کیا عمل حکمرانوں نے کیا؟ پاکستان کے ایکسپورٹ بل، امپورٹ بل سے کہیں زیادہ ہیں، پر حکمرانوں پر کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا، یہ معیشت اور ملک کے حالات دیکھ کر بجٹ نہیں بناتے بلکہ اپنے فائدے اور نقصان کی بنیاد پر بجٹ بناتے ہیں، اسی لیے پاکستان جیسے زرعی ملک پر کوئی ٹیکس نافذ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کیٹل فارمنگ پر، پھر بھی دودھ کی قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ عوام پر حکومت کی رٹ ختم ہوگئی ہے۔
حکومت کی خامیاں زیادہ اور پختہ کاری کہیں نظر نہیں آتی بلکہ بقول حسرت موہانی کے قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستان جاگیرداروں، سرداروں، اور انگریزوں کے مراعات یافتہ طبقات کے ہاتھوں یرغمال ہوجائے گا۔ اور اب کچھ ایسا ہی ہوا۔ حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد ہے، یہ ایک مداری کی طرح 5 برس بعد آتے ہیں اور مجمع جمع کرتے ہیں، جس کو مینڈیٹ کہتے ہیں اور پھر وعدوں سے مکر جاتے ہیں۔ مزدور کی کم ازکم تنخواہ 18 ہزار روپے کا وعدہ مگر مزدور کو 8 روپے کا فرق نہ پڑا بلکہ اجناس کی شکل میں وہ لٹتا جارہا ہے، پھر بھی دائیں اور بائیں جانب سے دودھ کی نہریں بہنے والی ہیں کے نعرے لگائے جارہے ہیں اور ان منصوبوں کی پذیرائی اور عملدرآمد کی باتیں کی جارہی ہیں جن میں حساب کتاب لاگو نہ ہوتا ہو اور معاشی گنجائش کے امکانات روشن ہوں مثلاً لیپ ٹاپ، اس کا پیمانہ کیا ہے؟ اس کا استعمال کرنے والا کون ہے؟ پارٹی کے ارکان، انکم سپورٹ پروگرام، قرض، جناب عالی! جتنی دکانیں ایک علاقے میں موجود ہیں ان میں خسارے شروع ہوچکے ہیں۔
کیونکہ صارف کے پاس رقم گھٹ چکی ہے وہ بجلی گیس اور ٹرانسپورٹ میں ہی دب چکا ہے۔ شہر میں رکشے ملے مگر 12 اور 14 گھنٹے رکشہ چلانے کے بعد بھی ان رکشہ چلانے والوں کا ہدف پورا نہیں ہوتا لہٰذا شہر کے بیشتر علاقوں میں 6 سیٹر رکشہ چل پڑے ہیں تاکہ لوگ 15 یا 20 روپے دے کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں لہٰذا ایسی صورت میں ایسے لوگوں کی ایک فوج پیدا کی جارہی ہے جس کا حشر وہی ہوگا جو یلوکیب کا ہوا۔ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو چھوٹی ہنرمند مرد و زن کی الیکٹرانک انڈسٹری قائم کرتی جہاں موبائل فون، کمپیوٹر اور دیگر چیزوں کو اسمبل کیا جاسکتا ہو تاکہ روزگار کے ساتھ ساتھ ملکی سرمایہ بچے۔ جس ملک میں گیس اور بجلی کا بحران ہو وہاں کس طرح غیرملکی سرمایہ لگ سکتا ہے جب کہ حکمران خود بیرون ملک اپنا سرمایہ رکھتے ہیں اور اپنی پسند کی انڈسٹری لگاتے ہیں اور بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ تعلیم اور صحت کی مد میں سب سے کم کرچ کیا جارہا ہے اور عوام کے ساتھ دہرا سلوک کیا جارہا ہے۔ جو حکومت بھی آتی ہے وہ گورنمنٹ سرونٹ کی تنخواہ بڑھاتی ہے،
میں حکومت وقت سے یہ سوال کرتا ہوں کہ جو غیر سرکاری ملازمین ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ کیا وہ پاکستانی شہری نہیں ہیں؟ ان کے ساتھ کون انصاف کرے گا، انصاف کے تقاضے کون پورے کرے گا؟ کیا خدانخواستہ غیرملکی حاکم ان کو انصاف دلائیں گے۔ پھر یہی ہوگا اگلے 5 برس بعد جو بھی آئے گا وہ بھی یہی کہے گا کہ اب تو نوٹ چھاپنے کی بھی قوت نہیں۔ اگر پاکستانی سرمایہ اسی طرح خستہ حال کرپشن اور تنگ نظر مالیاتی وزرا کے تحت رہا تو کوئی تعجب نہیں کہ آیندہ 5 برسوں سے قبل ہی ایک ڈالر 150 روپے کا ہوجائے گا۔ وزراء تمام وہ کام کرنے میں مصروف ہوتے ہیں وہ منصوبے بناتے ہیں جن میں انھیں کھلی چھوٹ ملے مثلاً زمین، مکان کی فروخت، غرض کوئی یہ کہے کہ کس طرح یہ حکومت پچھلی حکومت کا عکس نہیں ہے ، اگر کرپشن کے الزامات ماضی کے حکمرانوں پر فرینڈلی اپوزیشن لگاتی تھی تو اب وقت قریب آگیا ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردے مگر کچھ بھی نہ ہوگا، عوام کو دھوکے میں رکھا جارہا ہے جیسے پاکستانی لیڈر ڈرون حملوں کے گرانے کی بات کرتے ہیں،
یہ عوام کو فریب دے رہے ہیں کیونکہ ان لیڈروں کو عوامی جذبات سے کھیلنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ یہ امریکا کشکول لے کے جانے کو ہیں، بھلا یہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔ پاکستان مغربی بلاک کا اتحادی ہے وہ بھلا ایسی جرأت کیوں کرسکتا ہے۔ محض عوام کو فریب دینا اور ڈرون حملوں کے خلاف قراردادوں کی کثرت اور عمل سے کوسوں دور ہے، ہر مسئلے پر قرارداد اور مذمتی قرارداد محض دو سطروں کا بیان اور بس مداوائے الم ہوگیا۔ اس قسم کی بے سروپا قراردادوں سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان ڈرون حملوں میں خود ان حکمرانوں کا کھلا ہاتھ ہے کیونکہ منطقی طور پر وار آن ٹیرر خود ان کی لڑائی ہے اور امریکا ان کے اہداف کے تحت کام کر رہا ہے مگر اس دو رخی بیان بازی سے پاکستانی عوام کنفیوژ ہوگئے ہیں، ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ امریکا حق پر ہے یا ہمارے لیڈر۔ خارجہ پالیسی کا قلم دان خاموش ہے۔ کسی قسم کی پریس کانفرنس ان کی عالمی امور پر نہیں ہوتی، نہ ان کو معلوم ہے کہ کوریا کے تصادم پر ان کی نگاہ کیا ہے، نہ شام کے مسئلے پر کوئی نظر ہے، نہ افغانستان کے مسئلے پر کوئی نظر ہے اور نہ واضح نکات ہیں، بس ایک نعرہ ہے کہ ہم سب سے دوستی چاہتے ہیں، خصوصاً پڑوسی ممالک سے۔ مگر پڑوسی ممالک تذبذب کا شکار ہیں، بشمول چین کے... اس کا یہ خیال ہے چین کے مسلم اکثریتی علاقے میں انتہا پسندانہ کارروائیاں پاکستانی بارڈر کے ذریعے شب خون مارا جاتا ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک اور عوام سے پاکستانی رہنما پیار ہرگز نہیں کرتے البتہ بلوچستان کے قوم پرست لیڈران کے لیے کچھ کہنا درست نہیں کہ کافی عرصے کے بعد اقتدار ان کے پاس آیا ہے اور ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ دل دہلا دینے والا قتل عام خصوصاً لڑکیوں کا، پاکستان کی تاریخ کی یہ نئی دردناک مثال ہے۔
اب اس قتل عام اور کوئٹہ کی بربریت کے پس پشت کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے تو ممکن ہے زیارت ریزیڈنسی جو قائد کی آخری آرام گاہ تھی اس کو نشانہ بنانے والے تو شاید پہاڑوں پر موجود مورچہ زن ہوسکتے ہیں مگر وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ لڑکیوں کی اموات میں دوسرا کوئی نیا گروپ ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ خواتین کی موت سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ بہرصورت کہتے ہیں کہ تخریب کاروں میں سے ایک زندہ گرفتار کیا گیا ہے ممکن ہے کہ شواہد سامنے آئیں البتہ ہمیشہ کی طرح ایک مرصع قرارداد حکومت وقت نے سنادی جو اکثر ہر موقع پر سنائی جاتی ہے لیکن حقائق کا سامنے آنا مشکل ہے۔