غافلو‘ ہمارے مور مر رہے ہیں
تھرپارکر کے باسی پریشان ہیں اور دہائی دے رہے ہیں کہ ہمارے موروں کی کچھ دوا دارو کرو۔
تھرپارکر سے کوسوں دور لاہور میں بیٹھے ہم اس دیار کے موروں کے لیے دعائے خیر ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارا تو بس اتنا ہی مقدور ہے۔ ادھر سے خبریں اچھی نہیں آ رہیں۔ خبریں ابھی تھوڑا عرصہ پہلے بھی اچھی نہیں آ رہی تھیں۔ وہ کونسی وبا ہے جس نے ہمارے ان عزیز پرندوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پہلے اتنے خاصی بڑی تعداد میں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ پھر یہ خبریں آنی بند ہو گئیں۔ ہم سمجھے کہ وبا ٹل گئی۔ مگر اب پھر موروں کے مرنے کی خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں۔
تھرپارکر کے باسی پریشان ہیں اور دہائی دے رہے ہیں کہ ہمارے موروں کی کچھ دوا دارو کرو۔ انھیں مرنے سے بچاؤ مگر متعلقہ محکمہ کے افسران اس پریشانی میں ان کے شریک نہیں ہیں۔ ابھی ہم نے تھرپارکر کے ایک اسسٹنٹ کنزرویٹر کا بیان پڑھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میڈیا نے موروں کے بارے میں خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کی ہیں۔ ادھر پورے ضلع میں بس چار مور مرے ہیں۔
یہ اسسٹنٹ کنزرویٹر ہو یا کوئی بھی اس محکمہ کا چھوٹا بڑا افسر ہو۔ وہ تو بس موروں سے اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں کہ کوئی بڑا افسر' کوئی وزیر ادھر آن نکلے تو کوئی خوبصورت سا مور پکڑا کر اسے پیش کر دیں۔ مگر تھرپارکر کے لوگوں کا رشتہ اپنے موروں کے ساتھ بھائی چارے کا ہے۔ آج ہی ہم نے ایک رپورٹ پڑھی ہے جس میں اس ضمن میں وہاں کے لوگوں کے ردعمل قلم بند کیے گئے ہیں۔ ایک شاعر کا بیان سنئے۔ اس کا نام نصراللہ سومرو ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ایک مور روز ہمارے گھر کا پھیرا لگاتا اور ہماری منڈیر پر آ بیٹھتا۔ افسوس کہ اسے بیماری نے آ لیا۔ وہ مر گیا۔ ہمارے گھر میں سوگ کی فضا پیدا ہو گئی۔ سارا دن بھوکے بیٹھے رہے اور اس موت پر افسوس کرتے رہے۔
لیجیے ایک شاعر کی نظم بھی سن لیجیے۔ یہ مصطفیٰ ارباب ہیں۔ اسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں ؎
ماں نے ایک گیت گایا تھا
مور تھوٹلے رانا... مور تھوٹلے
اس گیت کے بنا
ہمارے خطے میں
کوئی بچہ چلنا نہیں سیکھتا
اس سال
ہماری ماؤں نے
ہمیشہ کی طرح
اپنے موروں کے ناچنے پر
یہ گیت گایا ہے
ہماری مائیں
بیٹوں کو مور کہتے ہوئے
رو رہی تھیں
ارے یہ تو صرف تھرپارکر کا ذکر ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ پاک ہند برصغیر کی پوری دھرتی میں یہ پرندہ خلقت کے دلوں میں راج کرتا ہے۔ جب ہی تو پرانی کہانیوں میں اور دیو مالا میں اس کا اتنا ذکر آتا ہے۔ ایسی ایسی کہانی بھی پڑھنے کو ملے گی کہ کوئی مور اڑتا اڑتا ایک محل کی منڈیر پر آن بیٹھا۔ شہزادی اسے دیکھ کر ایسی ریجھی کہ گلے میں پڑی موتیوں کی مالا اتاری۔ مالا کو توڑا اور موتی صحن میں بکھیر دیے۔ مور صحن میں اتر آیا' موتی چگے اور شہزادی کا بندہ بے دام بن گیا۔
قدیم ہند کی کہانیوں اور دیو مالائی قصوں کو پڑھو تو لگتا ہے کہ اس دھرتی کے رنگا رنگ پرندوں سے بڑھ کر دو پرندے اس کی فضاؤں میں چھائے ہوئے تھے۔ راج ہنس اور مور مگر جب اس دھرتی کی فضا جنگوں کی وجہ سے مسموم ہوتی چلی گئی تو پھر کیا ہوا؎
اُڑ گئے یہ شاخ سے کہہ کر طیور
اس گلستاں کی فضا میں زہر ہے
راج ہنس اڑ کر اس دیو مالائی جھیل کی طرف نکل گئے جسے مانسرو ور کہتے ہیں۔ اب ان فضاؤں میں قازیں تو اڑتی نظر آئیں گی۔ راج ہنس عنقا ہو گیا۔
مگر مور سخت جان نکلا۔ کتنی جنگوں کے دکھ سہہ چکا ہے اور زندہ ہے۔ جب پچھلے سالوں میں ہندوستان اور پاکستان نے اپنے اپنے علاقوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اس کے بعد راجستھان سے یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ وہاں مور مر رہے ہیں۔
جس رپورٹ کا ابھی ہم نے حوالہ دیا ہے اس میں ایک مقامی ادیب ارباب نیک محمد کا بیان نقل کیا گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ 1965ء اور 1971ء میں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ میں گولے چلے تھے اور بم پھٹے تھے تو کتنے مور موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔
خیر وہ جنگیں تو اب قصہ ماضی ہیں۔ مگر ہماری سر زمین پر گولے تو اب بھی چل رہے ہیں اور بم پھٹ رہے ہیں اور خالی بم ہی تھوڑا، ہم اپنی نئی ایجادات کے زور پر اپنی فضا کو مسموم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس مسموم فضا کا وبال سب سے بڑھ کر موروں پر پڑا ہے۔ کوئی ایسی بیماری پھیلی ہے جو موروں کی جان کو مستقل لگی ہوئی ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2010ء میں بھی موروں میں بیماری پھیلی تھی اور بہت مور مرے تھے لیکن خبروں کو دبا دیا گیا۔ 2011ء میں پھر اس بیماری نے زور پکڑا اور کتنے مور مر گئے۔ اب کے خبریں اخباروں میں اور ٹی وی پر آئیں۔ مگر متعلقہ محکمہ والے ان خبروں کی تردید کرتے رہے۔ 2012ء میں مور پھر بیمار پڑنے لگے اور مرنے لگے۔ رپورٹ کے مطابق اس برس 472 مور اپنی جان سے چلے گئے۔ اس بیماری کا نام نیوکاسل بیماری بتایا گیا ہے۔ ایک خبر میں ہم نے پڑھا کہ تھرپارکر والوں کے حساب سے اس بیماری کا نام ہے رانی کھیت۔ ارے بیماری کوئی بھی ہو۔ اس کے انسداد کے لیے متعلقہ محکمہ کیا کر رہا ہے۔
تھرپارکر کا علاقہ کتنا خوش قسمت ہے اور کتنا بدقسمت ہے۔ خوش قسمت اس اعتبار سے کہ اس دھرتی کا سب سے خوبصورت پرندہ یہاں شاد آباد ہے۔ بدقسمت اس اعتبار سے کہ وہ سرکاری محکمے جن کی ذمے داری ہے کہ ان پرندوں کے لیے مناسب حالات فراہم کریں، وہ اپنے فرض سے غافل نظر آتے ہیں۔ پھر سنا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں جو درخت بے دردی سے کاٹے گئے ہیں اور جنگل کے جنگل صاف کر دیے گئے ہیں اور ان کی وجہ سے بارشیں کم ہو گئیں، اس کے برے اثرات بھی موروں کی بیماری اور موت کے ذمے دار ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ موروں کی غذا باجرہ ہے۔ مگر یہاں کے کاشتکار اب باجرے کو چھوڑ کر گندم کی کاشت پر زور ے رہے ہیں۔
ہم شہری لوگ موروں کی قدر کیا جانیں۔ جن پرندوں کو ہم صبح و شام دیکھتے ہیں ان کی بھی کتنی قدر کرتے ہیں۔ موروں کی قدر تھرپارکر والے ہی جانتے ہیں اور قدر کرتے بھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تھرپارکر کی عورتیں۔ ارباب مصطفیٰ کی یہ نظم سنئے؎
عورت
صحرا کو مرد سے زیادہ جانتی ہے
عورت بخت کے پرندے کو دیکھ کر
اپنے دن کا آغاز کرتی ہے
عورت
مور کے پر چنتی ہے
اور اپنی مقدس کتاب میں
سنبھال کر رکھے دیتی ہے
مور
عورت کا محبوب ہے
تیتر اس کا بھائی
اور خرگوش داماد ہے
صحرائے تھر میں
کوئی نہیں جانتا
ایک عورت کا کنبہ
کتنا بڑا ہوتا ہے
اور آخر میں ایک اور نظم۔ ایک نوحہ؎
تھر سے خبر دیر سے آتی ہے
وہاں کے ماتمی موروں کا نوحہ
کسی نے نہیں سنا
موروں کی موت
صرف ایک خبر بن جاتی ہے
تھرپارکر کے باسی پریشان ہیں اور دہائی دے رہے ہیں کہ ہمارے موروں کی کچھ دوا دارو کرو۔ انھیں مرنے سے بچاؤ مگر متعلقہ محکمہ کے افسران اس پریشانی میں ان کے شریک نہیں ہیں۔ ابھی ہم نے تھرپارکر کے ایک اسسٹنٹ کنزرویٹر کا بیان پڑھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میڈیا نے موروں کے بارے میں خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کی ہیں۔ ادھر پورے ضلع میں بس چار مور مرے ہیں۔
یہ اسسٹنٹ کنزرویٹر ہو یا کوئی بھی اس محکمہ کا چھوٹا بڑا افسر ہو۔ وہ تو بس موروں سے اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں کہ کوئی بڑا افسر' کوئی وزیر ادھر آن نکلے تو کوئی خوبصورت سا مور پکڑا کر اسے پیش کر دیں۔ مگر تھرپارکر کے لوگوں کا رشتہ اپنے موروں کے ساتھ بھائی چارے کا ہے۔ آج ہی ہم نے ایک رپورٹ پڑھی ہے جس میں اس ضمن میں وہاں کے لوگوں کے ردعمل قلم بند کیے گئے ہیں۔ ایک شاعر کا بیان سنئے۔ اس کا نام نصراللہ سومرو ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ایک مور روز ہمارے گھر کا پھیرا لگاتا اور ہماری منڈیر پر آ بیٹھتا۔ افسوس کہ اسے بیماری نے آ لیا۔ وہ مر گیا۔ ہمارے گھر میں سوگ کی فضا پیدا ہو گئی۔ سارا دن بھوکے بیٹھے رہے اور اس موت پر افسوس کرتے رہے۔
لیجیے ایک شاعر کی نظم بھی سن لیجیے۔ یہ مصطفیٰ ارباب ہیں۔ اسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں ؎
ماں نے ایک گیت گایا تھا
مور تھوٹلے رانا... مور تھوٹلے
اس گیت کے بنا
ہمارے خطے میں
کوئی بچہ چلنا نہیں سیکھتا
اس سال
ہماری ماؤں نے
ہمیشہ کی طرح
اپنے موروں کے ناچنے پر
یہ گیت گایا ہے
ہماری مائیں
بیٹوں کو مور کہتے ہوئے
رو رہی تھیں
ارے یہ تو صرف تھرپارکر کا ذکر ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ پاک ہند برصغیر کی پوری دھرتی میں یہ پرندہ خلقت کے دلوں میں راج کرتا ہے۔ جب ہی تو پرانی کہانیوں میں اور دیو مالا میں اس کا اتنا ذکر آتا ہے۔ ایسی ایسی کہانی بھی پڑھنے کو ملے گی کہ کوئی مور اڑتا اڑتا ایک محل کی منڈیر پر آن بیٹھا۔ شہزادی اسے دیکھ کر ایسی ریجھی کہ گلے میں پڑی موتیوں کی مالا اتاری۔ مالا کو توڑا اور موتی صحن میں بکھیر دیے۔ مور صحن میں اتر آیا' موتی چگے اور شہزادی کا بندہ بے دام بن گیا۔
قدیم ہند کی کہانیوں اور دیو مالائی قصوں کو پڑھو تو لگتا ہے کہ اس دھرتی کے رنگا رنگ پرندوں سے بڑھ کر دو پرندے اس کی فضاؤں میں چھائے ہوئے تھے۔ راج ہنس اور مور مگر جب اس دھرتی کی فضا جنگوں کی وجہ سے مسموم ہوتی چلی گئی تو پھر کیا ہوا؎
اُڑ گئے یہ شاخ سے کہہ کر طیور
اس گلستاں کی فضا میں زہر ہے
راج ہنس اڑ کر اس دیو مالائی جھیل کی طرف نکل گئے جسے مانسرو ور کہتے ہیں۔ اب ان فضاؤں میں قازیں تو اڑتی نظر آئیں گی۔ راج ہنس عنقا ہو گیا۔
مگر مور سخت جان نکلا۔ کتنی جنگوں کے دکھ سہہ چکا ہے اور زندہ ہے۔ جب پچھلے سالوں میں ہندوستان اور پاکستان نے اپنے اپنے علاقوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اس کے بعد راجستھان سے یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ وہاں مور مر رہے ہیں۔
جس رپورٹ کا ابھی ہم نے حوالہ دیا ہے اس میں ایک مقامی ادیب ارباب نیک محمد کا بیان نقل کیا گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ 1965ء اور 1971ء میں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ میں گولے چلے تھے اور بم پھٹے تھے تو کتنے مور موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔
خیر وہ جنگیں تو اب قصہ ماضی ہیں۔ مگر ہماری سر زمین پر گولے تو اب بھی چل رہے ہیں اور بم پھٹ رہے ہیں اور خالی بم ہی تھوڑا، ہم اپنی نئی ایجادات کے زور پر اپنی فضا کو مسموم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس مسموم فضا کا وبال سب سے بڑھ کر موروں پر پڑا ہے۔ کوئی ایسی بیماری پھیلی ہے جو موروں کی جان کو مستقل لگی ہوئی ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2010ء میں بھی موروں میں بیماری پھیلی تھی اور بہت مور مرے تھے لیکن خبروں کو دبا دیا گیا۔ 2011ء میں پھر اس بیماری نے زور پکڑا اور کتنے مور مر گئے۔ اب کے خبریں اخباروں میں اور ٹی وی پر آئیں۔ مگر متعلقہ محکمہ والے ان خبروں کی تردید کرتے رہے۔ 2012ء میں مور پھر بیمار پڑنے لگے اور مرنے لگے۔ رپورٹ کے مطابق اس برس 472 مور اپنی جان سے چلے گئے۔ اس بیماری کا نام نیوکاسل بیماری بتایا گیا ہے۔ ایک خبر میں ہم نے پڑھا کہ تھرپارکر والوں کے حساب سے اس بیماری کا نام ہے رانی کھیت۔ ارے بیماری کوئی بھی ہو۔ اس کے انسداد کے لیے متعلقہ محکمہ کیا کر رہا ہے۔
تھرپارکر کا علاقہ کتنا خوش قسمت ہے اور کتنا بدقسمت ہے۔ خوش قسمت اس اعتبار سے کہ اس دھرتی کا سب سے خوبصورت پرندہ یہاں شاد آباد ہے۔ بدقسمت اس اعتبار سے کہ وہ سرکاری محکمے جن کی ذمے داری ہے کہ ان پرندوں کے لیے مناسب حالات فراہم کریں، وہ اپنے فرض سے غافل نظر آتے ہیں۔ پھر سنا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں جو درخت بے دردی سے کاٹے گئے ہیں اور جنگل کے جنگل صاف کر دیے گئے ہیں اور ان کی وجہ سے بارشیں کم ہو گئیں، اس کے برے اثرات بھی موروں کی بیماری اور موت کے ذمے دار ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ موروں کی غذا باجرہ ہے۔ مگر یہاں کے کاشتکار اب باجرے کو چھوڑ کر گندم کی کاشت پر زور ے رہے ہیں۔
ہم شہری لوگ موروں کی قدر کیا جانیں۔ جن پرندوں کو ہم صبح و شام دیکھتے ہیں ان کی بھی کتنی قدر کرتے ہیں۔ موروں کی قدر تھرپارکر والے ہی جانتے ہیں اور قدر کرتے بھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تھرپارکر کی عورتیں۔ ارباب مصطفیٰ کی یہ نظم سنئے؎
عورت
صحرا کو مرد سے زیادہ جانتی ہے
عورت بخت کے پرندے کو دیکھ کر
اپنے دن کا آغاز کرتی ہے
عورت
مور کے پر چنتی ہے
اور اپنی مقدس کتاب میں
سنبھال کر رکھے دیتی ہے
مور
عورت کا محبوب ہے
تیتر اس کا بھائی
اور خرگوش داماد ہے
صحرائے تھر میں
کوئی نہیں جانتا
ایک عورت کا کنبہ
کتنا بڑا ہوتا ہے
اور آخر میں ایک اور نظم۔ ایک نوحہ؎
تھر سے خبر دیر سے آتی ہے
وہاں کے ماتمی موروں کا نوحہ
کسی نے نہیں سنا
موروں کی موت
صرف ایک خبر بن جاتی ہے