میری دھرتی میرے لوگ

ہم یہ بات فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بچے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔


Sharjeel Inam Memon June 20, 2013
شرجیل انعام میمن

یہ واقعہ 1960 کا ہے جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی عمر صرف 16 سال تھی۔ ان کے عظیم والد شہید ذوالفقار علی بھٹو انھیں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں لے گئے اور انھوں نے وہاں اپنی سب سے پیاری بیٹی کو ایک نصیحت کی۔ اس واقعے کے بارے میں خود شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ایک جگہ لکھتی ہیں کہ ''میرا داخلہ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہوگیا تھا۔

وہاں جانے سے کچھ دن پہلے بابا مجھے گڑھی خدا بخش کے قبرستان لے گئے اور کہا کہ بیٹی یاد رکھنا، آپ کے ساتھ زندگی میں کچھ بھی ہو، آپ کو بالآخر یہیں لوٹ کر آنا ہے آپ کی جگہ یہی ہے، لاڑکانہ کی گرد اور مٹی اور یہاں کی گرمی آپ کی ہڈیوں میں رچی ہوئی ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کو دفن ہونا ہے۔'' یہ ایک ایسے شخص کی نصیحت تھی، جسے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے اس قدر والہانہ اور دیوانہ وار عشق تھا، جسے کسی حد تک الفاظ کا جامہ تیلگو زبان کے عظیم شاعر ششدر شرما اپنی طویل نظم ''میری دھرتی میرے لوگ'' میں شاید اظہار کرسکے ہوں گے۔ بھٹو خاندان کے مٹی اور عوام کے ساتھ رومانس کو بیان کرنے کے لیے جذب اور مستی کی اسی کیفیت کا پیدا کرنا ضروری ہے۔

اس واقعے کے 10 سال بعد یعنی 1979 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو وطن اور عوام کی جنگ لڑتے لڑتے اسی گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں آکر ابدی نیند سوگئے۔ 26 سال کی عمر میں بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے غریب اور نہتے عوام کی اس جنگ کی کمان سنبھالی اور اگلے 28 سال تک انھوں نے جہد مسلسل میں گزارے اور وہ بھی صرف 54 سال کی عمر میں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں آکر دفن ہوگئیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنی خوشیاں قربان کیں بلکہ اپنی زندگی تک قربان کردی لیکن پاکستان کے عوام کو نہیں چھوڑا جن کے بارے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کال کوٹھڑی سے اپنی پیاری بیٹی کو خط میں لکھا تھا کہ میں اور تو کچھ نہیں دے سکتا لیکن پاکستان کے غریب عوام کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دیتا ہوں۔ جس طرح عوام کے ساتھ رشتے کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے نبھایا، اس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ عوام سے محبت کا ورثہ شہید بی بی کو اپنے عظیم والد سے ملا تھا۔ آج ہم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 60 ویں سالگرہ اس شدت احساس کے ساتھ منارہے ہیں کہ ہم سے بچھڑے ہوئے انھیں ساڑھے پانچ سال ہوگئے ہیں۔

ہم کسی کو سالگرہ مبارک بھی نہیں کہہ سکتے لیکن ہم یہ بات فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بچے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ جس عہد میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوام کی جمہوری جدوجہد کو آگے بڑھایا، وہ عہد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عہد سے بالکل مختلف اور انتہائی مشکل تھا۔ شہید بھٹو کا سیاسی عہد جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد شروع ہوتا ہے اور سرد جنگ کے اختتام تک چلتا ہے۔ سرد جنگ کے بعد اشتراکی بلاک کا شیرازہ بکھر گیا اور دنیا ''یک قطبی'' یعنی یونی پولر بن گئی اور ایک سپر پاور پوری دنیا پر راج کرنے لگی۔ اس سے تاریخ کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگیا۔ یہ عہد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے 6 سال بعد شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریباً پوری سیاسی جدوجہد اسی عہد میں گزر گئی۔ اس عہد کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ عالمی سامراجی اور مقامی عوام دشمن قوتوں نے عوامی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی طاقت کے ظاہری استعمال کے بجائے دہشت گردی، افراتفری اور خونریزی کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اپنے خفیہ اداروں کے کردار کو پہلے سے زیادہ وسعت دی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں عوام سے رابطہ کرنے میں اتنی مشکلات نہیں تھیں، جتنی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں تھیں۔

پہلے عہد میں عوام کے مقبول سیاسی رہنماؤں کو جلسے منعقد کرتے ہوئے یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ بم دھماکے یا خود کش حملے ہوں گے۔ اگر دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوتی تھی تو سب کو پتہ ہوتا تھا کہ کس نے کی اور ریاست پر دباؤ ہوتا تھا کہ وہ کارروائی کرنے والوں سے قانون کے مطابق سختی سے نمٹے لیکن سرد جنگ کے بعد کے عہد میں دنیا کے اکثر ترقی پذیر ممالک میں آزادی اور جمہوریت کے لیے تحریکوں کو دہشت گردی کے ذریعے کچلا گیا اور عوام کی حقیقی مقبول سیاسی جماعتوں اور قیادت کو عوام کے ساتھ رابطہ نہیں کرنے دیا گیا۔

صرف یہی نہیں، سامراجی اور عوام دشمن قوتوں نے سیاست میں اپنی پروردہ مصنوعی اور جعلی قیادت پیدا کی اور ''ادارہ جاتی انتظامات'' کے ذریعے آمریت نواز سیاستدانوں کے بڑے بڑے ''عوامی'' اجتماعات منعقد کیے اور ان اجتماعات میں موجود لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں اور اجتماعات میں جو تقریریں ہورہی ہوتی ہیں، ان کا مطلب کیا ہے۔ اس عہد میں ہم نے دیکھا کہ عرب ممالک، لاطینی امریکا اور افریقی ممالک میں جعلی انقلابات برپا کیے گئے اور ان ملکوں کی حقیقی سیاسی تحریکوں کا کیموفلاج کیا گیا۔

اسی عہد میں آمریت نواز سیاستدانوں کو ہیرو بناکر بڑے بڑے مینڈیٹ دلوائے گئے۔ اسی عہد میں عوام کا مینڈیٹ چرانے کے لیے سائنسی طریقے اختیار کیے گئے اور جعلی انتخابات کے ذریعے دنیا کی ترقی پسند اور روشن خیال قوموں کو ''بنیاد پرست'' بنا کر پیش کیا گیا۔ اسی عہد میں سامراجی اور عوام دشمن قوتوں نے اپنے حامی اور مخالف خود پیدا کیے اور انھیں کنٹرول کیا اور یہ تاثر دیا کہ عوام کی حقیقی نمائندہ قوتیں وجود ہی نہیں رکھتی ہیں اور اسی عہد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر تیسری دنیا کے عوام کی امنگوں پر ڈاکا ڈالا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ جنگ کا جواز پیدا کرنے کے لیے دہشت گردوں کی بالواسطہ یا براہ راست سرپرستی بھی کی گئی ۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے جدوجہد کی جبکہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوام کو ''آزادانہ ووٹ'' کا حق دلوانے کے لیے جدوجہد کی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کہتے تھے کہ آمرانہ قوتوں کا تسلط ختم کرنے کے لیے جمہوریت ضروری ہے جبکہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کہتی تھیں کہ دہشت گردوں کو کمزور کرنے کے لیے جمہوریت ضروری ہے۔ کراچی میں بی بی کی وطن واپسی پر 18 اکتوبر 2007 کو جو سانحہ رونما ہوا، اس جیسے سانحے کا تصور پہلے والے عہد میں شاید نہیں تھا۔

اگلے روز یعنی 19 اکتوبر کو بلاول ہاؤس میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہم اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں، ہم اپنی آزادیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اس بات کے لیے تیار نہیں ہیں کہ پاکستانیوں جیسی عظیم قوم کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں ... ہمیں اپنی عوامی رابطہ مہم میں کسی حد تک تبدیلی کرنا پڑے گی لیکن ہمارا عوام سے رابطہ جاری رہے گا اور کوئی ہمارا رشتہ عوام سے نہیں توڑ سکتا۔''

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ایک ایسی لیڈر ہیں، جنہوں نے تاریخ انسانی کی اب تک سب سے زیادہ وحشیانہ اور بربریت پر مبنی حکمت عملی کے مقابلے میں حقیقی آزادی اور جمہوریت کے لیے پرامن جدوجہد کا ایک نیا وژن دیا۔ انھوں نے مٹی اور عوام سے اپنا رشتہ نبھانے کے لیے اپنی جان قربان کردی اور لوٹ کر واپس گڑھی خدا بخش چلی گئیں۔ آج گڑھی خدا بخش کا قبرستان پاکستان کے تمام علاقوں پر مشتمل پوری وادی سندھ کے عوام کی مزاحمتی جدوجہد کا ایک عظیم قلعہ بن گیا ہے اور اس وادی کی عظمت کا وہ نشان ہے، جسے تاقیامت نہیں مٹایا جاسکے گا۔ 60 ویں یوم پیدائش پر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہم اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں اور اس عہد کا اعادہ کرتے ہیں کہ عوام کے حقوق کی جدوجہد میں ہم بھی اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

(شہید بے نظیر بھٹو کی 60 ویں سالگرہ پر خصووصی تحریر)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں