باپ اور بیٹیوں کے نام

اگر ایسے وکلاء کو کالم نگاری کا موقع ملتا ہے تو معاشرے کے زخموں سے باپ اور بیٹی کو آگاہ نہ کرنا ظلم ہو گا۔


[email protected]

NEW DELHI: یہ ان والد صاحبان کے لیے کالم ہے جو بیٹیوں کے باپ ہیں، ایسی بیٹیاں جن کی شادیاں ہونے والی ہیں یا حال ہی میں ہوئی ہیں۔ یہ کالم ان بچیوں کے نام ہے جن کی منگنیاں ہونے والی ہیں یا ہو چکی ہیں۔ وکالت اپنا پیشہ ہے جس میں خاندان کے لوگ ایسی باتیں قانون دان کو بتاتے ہیں جو شاید کسی کے علم میں نہ ہوں۔ جب شادی شدہ خواتین کے اپنے شوہر یا سسرال سے جھگڑے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے تفصیلی معاملات وکلاء کے سامنے آتے ہیں۔ خاتون کے ہاتھ کی لکھی ہوئی گھریلو جھگڑوں کی تفصیلات۔ اس میں وکیل کے دفتر میں میٹنگ کے دوران مزید نکات۔

کیس کی تیاری کے بعد اس میں مزید ترمیم و اضافہ۔ عدالت کے روبرو طلاق طلب کرنے والی خاتون کی پیشی۔ پھر میاں بیوی اور عدالت کے درمیان صلح کی کوشش۔ کامیابی کی صورت میں گھر کا بس جانا۔ بدقسمتی ہو تو خلع کا فیصلہ۔ پھر جہیز کا سامان، زیورات، نان نفقے کے لیے گواہی کے مراحل۔ اگر بچے ہوں تو ان کی تحویل، ملاقات اور اخراجات کے معاملات۔ گویا فیملی مقدمات سے جن وکلاء کو سابقہ پیش آتا ہے وہ معاشرے کی نبض کو جان رہے ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عائلی زندگی اس وقت کہاں جا رہی ہے۔ فیملی لائف میں کیا مسائل پیش آ رہے ہیں۔ اگر ایسے وکلاء کو کالم نگاری کا موقع ملتا ہے تو معاشرے کے زخموں سے باپ اور بیٹی کو آگاہ نہ کرنا ظلم ہو گا۔ یہ بتانا کہ غلطیاں کہاں ہوتی ہیں اور ان سے کس طرح بچا جا سکتا ہے، ایک مفید کاوش ہو سکتی ہے۔

پچھلے دس برسوں میں فیملی مقدمات کی نوعیت کچھ تبدیل ہوئی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک ہے لڑکیوں کے خلاف اور ایک ان کے حق میں۔ بچیوں کی شادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں پہل لڑکے والے کرتے ہیں اور لڑکی والے منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی رشتہ آئے۔ لڑکے والوں کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ الف کے ہاں رشتہ بھیجیں یا ب یا ج کے گھر۔ لڑکی والوں کے ہاں جب رشتہ آتا ہے تو انھیں ہاں یا نہ کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لڑکی کے والدین اپنی بچی کی عمر سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ اگر وقت نکل گیا تو مشکلات پیش آئیں گی۔

اگر دو تین بیٹیاں اوپر تلے ہیں تو خوف کی کیفیت بڑھ جاتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ جلد از جلد دھکا دینے والی منظر کشی ہوتی ہے۔ دوسری چیز لڑکیوں کے بظاہر حق میں جاتی ہے، جی ہاں بظاہر۔ لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلے میں تعلیم پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ معلومات کے ذرایع کمپیوٹر، موبائل، نیٹ نے لڑکوں کی برتری ختم کر دی ہے۔ امتحانات میں لڑکیوں کا مسلسل پوزیشن لینا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ذہنی سطح بلند ہو رہی ہے۔ یہ اعلیٰ تعلیم لڑکیوں کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ پہلے رشتہ ہونے کے معاملات میں اور بعد میں رشتہ نبھانے کی کشمکش میں۔

ایک ماہ میں چار ایک جیسے مقدمات نے حیران کر دیا۔ دو میں ہم لڑکے والے ہیں اور دو میں لڑکی والے۔ جن دو بچیوں کے مقدمات ہمارے پاس ہیں وہ انتہائی ذہین، سلجھی ہوئی اور پڑھی لکھی ہیں۔ پچھلے دس برسوں میں فرق کی بات کی گئی تھی وہ اب آ رہی ہے۔ ایک ڈیڑھ عشرے قبل کی لڑکیاں اتنی پڑھی لکھی نہ ہوتی تھیں۔ اب لڑکیاں نہ صرف اردو بلکہ انگریزی میں اپنے معاملات کی تفصیلات لکھتی ہیں۔ جب مقدمے کا ڈرافٹ تیار ہو جاتا ہے تو اس میں ان کی ترامیم و اضافے نہایت ذہانت کا اشارہ کرتے ہیں۔

وکلاء عموماً پہلے قانونی نوٹس بھجواتے ہیں کہ اگر کوئی راستہ نکل سکتا ہے تو عدالت جانے سے پہلے نکال لیا جائے۔ اگر ہم ایک فریق کے وکیل ہیں تو دوسرے کا سامنا عدالت میں ہوتا ہے۔ اب جن لڑکیوں کی ذہانت اور سلجھے ہوئے ہونے کی بات کی، جب ان کے شوہروں کو دیکھا تو مایوسی ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ رشتہ کیسے طے پا گیا؟ یہیں سے ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک کالم لکھا جائے باپ اور بیٹیوں کے نام۔

وہ مقدمات جن میں ہم لڑکے کی جانب ہوتے ہیں، ان میں صورت تھوڑی مختلف ہوتی ہے۔ لڑکی کی جانب سے ہم مدعی ہوتے ہیں جو مقدمہ دائر کرتی ہے۔ لڑکے کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل عموماً مدعا علیہ کی جانب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا کہ وکلاء دوسرے فریق کو عدالت میں ہی دیکھتے ہیں۔ یوں جن مقدمات میں ہم لڑکے کی جانب ہوتے ہیں جب لڑکی کو دیکھتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ ہمیں دل میں سوچنا پڑتا ہے کہ ہمارے موکل سے جس لڑکی کی شادی ہوئی ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے۔

نہ جانے کیسے اس کے گھر والوں نے رشتہ ڈالا اور کیسے لڑکی والوں نے ہاں کر دی۔ اگر آپ میری ایک نادانی کو سنجیدگی سے نہ لیں تو کہتا چلوں کہ ایک مرتبہ جس خاتون کو اپنے موکل کی بیوی سمجھ رہا تھا وہ اس کی ساس نکلی۔ پیش کار سے پوچھا کہ خاتون مقدمہ ہار گئیں ہیں تو اس کا اشارہ اس جانب تھا۔ ذہن میں کشمکش تھی اور لگا کہ شاید عمروں کا کچھ فرق ہو۔ جب خاتون کو دیکھا تو زبان سے اف نکلا۔ اس قدر شباہت، ذہانت میں فرق۔اچھی اچھی سمجھدار لڑکیاں ''گدھوں'' کے پلے باندھ دی جاتی ہیں، نہ تعلیم، نہ شکل، نہ ہنر، نہ تمیز۔ شاید کچھ پیسہ اور وہ بھی باپ کا۔

یہاں لڑکیوں کے وہ باپ جن کی بچیاں ٹین ایجز میں ہیں، پڑھی لکھی ہیں، اچھے نمبر لاتی ہیں وہ انھیں بیاہنے میں جلدی نہ کریں۔ ان کے جیسے سمجھدار اور سلجھے ہوئے لڑکے اس دور میں پڑھائی کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ پڑھنے والے اور نکھٹو قسم کے لڑکوں کے ماں باپ جلدی میں ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب دوسرا لڑکا پڑھ لکھ کر مارکیٹ میں آئے گا تو ان کا ناکام بیٹا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ ایک طرف ناسمجھ لڑکوں کے ماں باپ کی جلدی ہوتی ہے تو دوسری طرف سمجھدار لڑکیوں کے والدین کی جلدی۔ مسئلے کا حل کیا ہے؟

رشتے کے نوے فیصد مراحل طے کرنے کے بعد لڑکے اور لڑکی کو ایک آدھ بھائی بہن کی موجودگی میں ملاقات کا موقع دینا چاہیے۔ حتمی اور فائنل دس فیصد کا فیصلے کا حق بچیوں کو دینا چاہیے۔ حق نہیں ویٹو پاور، حق استرداد، یا مسترد کر دینے کا حق۔ بیٹی کا یہ حق باپ بیٹیوں کو وکیل کے دفتر اور عدالت کی سیڑھیوں سے بچائے گا۔ کیسا ہے یہ پیغام باپ بیٹیوں کے نام۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔