گواہی کی حفاظت

خطرناک نوعیت کے مقدمات میں گواہی دینے والے کو اگر دھمکیاں ملیں اور وہ خود کو ملک میں غیر محفوظ سمجھے


Sana Ghori June 21, 2013
[email protected]

اس نے بھرے بازار میں قتل کیا، کتنی ہی آنکھوں میں یہ منظر خوف بن کر اُترا، مگر ان آنکھوں والوں کے ہونٹوں نے کہا، ''میں نے کچھ نہیں دیکھا''

انھوں نے جس اجتماع پر گولیاں برسائیں تھیں، اس میں موجود کتنے ہی لوگ انھیں پہچان گئے، لیکن جب ان ملزمان کی شناخت کا مرحلہ آیا، تو ان سب کی زبان پر تھا، ''نہیں، یہ نہیں تھے۔''

دہشت گردی کے واقعات ہوں یا ٹارگٹ کلنگ کے سانحے، کسی زور آور کے ہاتھوں کوئی کم زور جان سے جائے یا کوئی دولت مند کسی غریب کی عزت تار تار کر دے۔۔۔۔ ان المیوں کو دیکھنے والی آنکھیں بصارت کھو بیٹھتی ہیںِ، کہ ان میں خوف اتر آتا ہے۔ ایسے واقعات کے عینی شاہدین جانتے ہیں کہ صرف ایک گولی گواہی کو ان کے سینے میں مار ڈالے گی، جرم ہوتے دیکھنے والی آنکھیں بجھا دی جائیں گی، نہ انھیں زندگی میں تحفظ ملے گا نہ موت کے بعد کوئی پوچھ ہو گی۔

یہی سبب ہے کہ جرم کی وارداتوں کے شاہد گواہ بننے پر تیار نہیں ہوتے اور اگر اس کی ہمت کر بھی لیں تو عدالتی کارروائی کے دوران اپنے بیان سے مکر جاتے ہیں یا بیان بدل لیتے ہیں۔

آج کے پاکستان کو ابتدا سے انتہا تک بدامنی کی ہر صورت کا سامنا ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی عبادت گاہوں کو لہو سے رنگین کر رہی اور سڑکیں گلیاں خون سے بھر رہی ہے، خود کش حملہ آور حکومتی اداروں سے شہریوں کے اجتماعات تک موت کا کھیل کھیل رہے ہیں، ٹارگٹ کلر پورے اطمینان سے اپنے اہداف مکمل کر رہے ہیں۔ ان وارداتوں کے ملزمان پکڑے بھی جاتے ہیں، مگر صرف اس لیے رہا ہو جاتے ہیں کہ

''کوئی گواہ نہ شہادت حساب پاک ہوا۔''

ایک ایسے ملک میں جہاں انسانی جان سے زیادہ سستی کوئی چیز نہ ہو، جہاں طاقت اور دولت کے بل پر جو چاہے کیا جا سکتا ہو، جہاں دہشت گرد گروہ مختلف صورتوں میں سرگرم ہوں، وہاں تو کوئی بھی سچ ''پل کے پل'' میں زندگی سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے، تو عدالت میں گواہی جیسا سچ کوئی بولے تو کیسے بولے۔ اس دیس کے باسیوں کو امن اور چین اس وقت ہی نصیب ہو سکتا ہے جب کم از کم قتل اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزا ملے اور انھیں سزا یاب کرنے کے لیے ضروری ہے معتبر اور بے خوف گواہی، اور بھری عدالت میں جرم کا سیاہ چہرہ بے نقاب کرنے والے گواہ تب ہی ایسا کر سکتے ہیں جب انھیں تحفظ فراہم کیا جائے، لیکن دوسرے وعدوں کی طرح ہماری حکومتیں یہ وعدہ بھی وفا نہیں کرتیں۔حال ہیں میں سندھ کے وزیر ِاعلیٰ سید قائم علی شاہ نے یہ خوش کُن اعلان کیا ہے کہ، ''جلد ہی قانونِ شہادت میں ترمیم کر کے گواہوں کے تحفظ کا بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، تا کہ گواہوں کا جانی و مالی تحفظ یقینی بنایا جائے۔''

مرحبا، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مسودۂ قانون سندھ اسمبلی میں کب تک پیش ہو کر منظوری کے مرحلے سے گزرنے کے بعد نافذ ہوتا ہے۔ گواہوں کی حفاظت کے لیے وفاقی سطح پر قانون سازی اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، تا کہ جرم کی کسی واردات کا عینی شاہد اپنی اور اپنے خاندان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت کے ساتھ پورے اطمینان سے گواہی دے سکے۔

دنیا کے کئی ممالک میں گواہوں کے تحفظ کے نہ صرف قوانین موجود ہیں بلکہ اس مقصد کے لیے باقاعدہ ادارے بھی تشکیل دیے گئے ہیں۔ مثلاً ہانگ کانگ میں سیکیوریٹی بیورو کے تحت ایک ادارہ ایسے گواہوں اور ان کے گھرانوں کی حفاظت کے لیے قائم ہے، جنھیں دھمکیاں مل رہی ہوں۔ اس کے علاوہ گواہی دینے والے افراد اگر عدم تحفظ کا شکار ہوں تو انھیں نئی شناخت دی جاتی ہے اور اگر اس کے بعد بھی گواہ خود کو غیر محفوظ سمجھے تو اس کے ہانگ کانگ چھوڑ کر کسی اور ملک میں بس جانے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔

ہانگ کانگ کے علاوہ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، تائیوان، جمہوریہ آئرلینڈ، سوئٹزر لینڈ، تھائی لینڈ اور یوکرائن میں بھی گواہوں کی حفاظت کے قوانین نافذ ہیں۔ ان ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے حالات ایسے قانون کے نفاذ کا کہیں زیادہ تقاضا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں قوانین بے جان تحریر بن کر رہ جاتے ہیں، جن کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اگر گواہوں سے متعلق قانون سازی میں بھی یہی روش اختیار کی گئی تو ایسا قانون بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ قانون بنا کر اسے مؤثر انداز میں نافذ کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔

قانون بنانے کے ساتھ ساتھ گواہوں کو جرائم میں ملوث افراد کی کسی کارروائی سے بچائے رکھنے کے لیے ہانگ کانگ کی طرح کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہمارے مخصوص حالات میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ گواہوں اور ان کے اہلِ خانہ کو تحفظ دینے کے لیے ایک خصوصی ادارہ قائم کیا جائے۔ کم از کم ایسے افراد اور ان کے گھرانوں کی حفاظت کے لیے تو یہ اقدام کرنا ناگزیر ہے جو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے مقدمات میں گواہ ہوں۔

خطرناک نوعیت کے مقدمات میں گواہی دینے والے کو اگر دھمکیاں ملیں اور وہ خود کو ملک میں غیر محفوظ سمجھے، تو اس معاملے کی مکمل تحقیق کے بعد اُس کی بیرون ملک منتقلی کا انتظام بھی قانون کا جزو بنانا ہو گا۔ خوف کے علاوہ گواہی دینے والوں کو اس راہ سے روکنے کا دوسرا بڑا سبب عدالتی کارروائی میں تاخیر ہے۔ برسوں بیت جاتے ہیں مگر مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ بعض اوقات تو مقدمات ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہو کر بھی فیصلے کے منتظر رہتے ہیں۔ ایسے میں مقدمے کے فریقین کے ساتھ گواہ بھی سال ہا سال عدالتوں کے پھیرے لگاتے رہتے ہیں۔ عدالتیں دن کے انھی اوقات میں لگتی ہیں جو سرکاری و نجی اداروں اور کاروبار کے اوقاتِ کار ہوتے ہیں۔ چنانچہ گواہ ملازمت پیشہ ہو یا تجارت پیشہ، طویل مقدمات اس کا کتنا ہی قیمتی وقت کھا جاتے ہیں۔

لوگوں کو گواہی پر آمادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عدالتی کارروائیوں میں تیزی لائی جائے اور اس ضمن میں گواہوں کے وقت کا خاص خیال رکھا جائے۔ پاکستان عام نوعیت کے جرائم کا شکار تو ہے ہی، اس کے ساتھ ہمیں بدامنی اور دہشت گردی کی خوف ناک ترین صورت حال کا بھی سامنا ہے۔ ایسے میں سنگین وارداتوں میں ملوث افراد کا محض گواہ نہ ملنے یا گواہوں کے بیان سے مکر جانے کی بنیاد پر چھوٹ جانا شہریوں، خاص کر ایسی وارداتوں کے متاثرین، کو مضطرب کر دیتا ہے۔ یہ اضطراب بعض اوقات ردعمل میں بدل کر دہشت گردوں کی تعداد بڑھا جاتا ہے۔ گواہوں کو تحفظ دے کر ہی اس صورت حال کا کسی حد تک سدباب ممکن ہے، اور ہماری حکومتیں اور منتخب نمایندے اب تک اس حقیقت کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں