فتنے کو فتنے سے نہیں مارا جا سکتا
یہ ایک مسلسل لڑائی ہے۔مگر کوئی بھی لڑائی عوام کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔اور عوام تک پہنچے کا راستہ میڈیا ہے۔
حیوان اور انسان میں سوائے اس کے کیا فرق ہے کہ حیوان کے تمام افعال جبلت کے تابع ہوتے ہیں اور انسان کے افعال عقل کے۔اگر انسان بھی عقل کو معطل کر کے محض جبلت پر اتر آئے تو پھر دونوں مساوی ہیں۔
قانونِ فطرت کے دو ستون ہیں۔طاقت اور کمزوری۔چونکہ جانور جبلت کے تابع ہیں لہذا جنگل کا قانون بھی جبلت کے انھی دو ستونوں پر استوار ہے یعنی طاقت اور کمزوری۔یہ عقل ہی بتاتی ہے کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں۔یا جبلت کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے جانور کے ہم پلہ بنے رہو یا جبلت کو عقل کے تابع کر کے طاقت کی ناک میں نتھ ڈالو اور کمزور کو بھی جینے کا حق دو اور اس کام کے لیے ایسے قوانین اور ادارے تشکیل دو جو طاقت بے لگام نہ ہونے دیں اور کمزور کو طاقت کا نوالہ نہ بننے دیں۔ لہذا جسے ہم انسانی تہذیبی ارتقا کہتے ہیں وہ جبلت کا نہیں عقل کا تحفہ ہے۔
( فی الحال میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ عقل کامل ہے کہ ناقص یا عقل کے پردے میں انسان نے ایک دوسرے کو کس طرح جبلی انداز میں نیچا دکھانے کے لیے ظلم کا کاروبار گرم کیا۔عقل جیسی بھی ہے فی الحال ہمیں جبلت کی زیادتیوں سے بچانے کے لیے یہی میسر ہے۔ اگر کوئی عقل سے ماورا نظام تلاش کر لے جو عقل کی خرابیوں سے پاک ہو تو نہایت خوشی ہوگی۔لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا۔ بے لگام جبلت کے مقابلے کے لیے عقل پر ہی تکیہ کرنا ہماری مجبوری ہے)۔
چنانچہ اندھی طاقت سے کمزور کو بچانے کے لیے انسانی تہذیب نے ارتقائی سفر میں جو ادارے تشکیل دیے ان میں سب سے پہلے ریاست اور پھر عدالت ہے۔ ریاست کی تشکیل کے لیے فرد اور طاقتور کے درمیان روسو کے نظریہِ معاہدِہِ عمرانی (سوشل کنٹریکٹ) اور قدیم تصورِ ریاست میں بادشاہ اور عدالت کی یکجائی سے پیدا ہونے والے مسائل ِ عدل کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہوئے جدید ریاست اور جدید عدالتی تصور کی جانب آتا ہوں۔یہ دونوں تصورات اگرچہ مغربی نشاۃ ثانیہ کی پیداوار ہیں مگر آج کی دنیا میں قائم دو سو سے زائد ریاستیں اسی جدید تصور کی پیداوار ہیں بھلے ان کا طرز ِ حکومت و نظریہ و نظام کچھ بھی ہو۔
ہر ملک میں بسنے والا ہر گروہ بلاامتیاز طبقہ رنگ و نسل ریاستی یکجہتی کی قیمت کے طور پر ایک ہی عدالتی نظام پر اتفاق کرنے پر مجبور ہے۔اس عدالتی نظام کی خوبیوں اور خامیوں پر قیامت تک بحث ہو سکتی ہے۔اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے لاتعداد تجاویز دی جا سکتی ہیں۔اس کے فیصلوں سے شدید اختلاف و اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر ریاستی حدود کے اندر یا باہر کسی شہری، گروہ، تنظیم یا ادارے کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ عدلیہ کے ادارے کو ہی چیلنج کر دے یا اس کا وجود ماننے سے ہی انکار کردے۔
کیونکہ عدلیہ ریاستی دیوار کے بیچ کی وہ اینٹ ہے اور ایک ایسے زاویے پر نصب ہے کہ اسے نکال دینے کا مطلب ہے کہ ہر ریاستی ادارہ دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے اور ریاست دیکھتے ہیں دیکھتے ملبے کا ڈھیر بن جائے گی۔حکومتیں ختم ہو جائیں تو پھر تشکیل دی جا سکتی ہیں۔ فوج ختم ہو جائے تو دوبارہ کھڑی کی جا سکتی ہے مگر ناقص سے ناقص متفق علیہہ عدلیہ بھی ختم ہو جائے تو ہر طرف انارکی کا جنگل چشمِ زدن میں نمودار ہو جاتا ہے۔ایک بار انارکی کا جن بوتل سے نکل جائے تو اسے سوائے قانون اور عدالت کے کوئی بوتل میں نہیں ڈال سکتا۔ لیکن اگر عدل کی بوتل ہی توڑ دی جائے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا۔
اگر تمام مذاہب و نظریات عدل کے قیام اور معیار پر تواتر سے زور دیتے ہیں۔اگر ہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول لاکھوں بار دوہرانے سے نہیں تھکتے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ناانصاف ریاست نہیں چل سکتی ، اگر ہم چرچل سے منسوب یہ بات اپنے بچوں کو سناتے ہوئے بیزار نہیں ہوتے کہ ملک چلے نہ چلے عدالت کا کام نہیں رکنا چاہیے توان تمام باتوں کے کچھ معنی ہیں۔ عدالت عام آدمی اور ریاست اور فرد و فرد کے درمیان وہ چھلنی ہے جس کا کام ظلم و ناانصافی کو روکنا ہے۔اور جب کوئی اس چھلنی کو ہی توڑنا چاہے تو اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔
پاکستان کا نظامِ انصاف پاکستانی آئین کے تابع ہے۔جیسا آئین ہوگا ویسی عدلیہ ہو گی۔عدلیہ بالائے آئین فیصلے نہیں کر سکتی۔عدلیہ نیچرل لا کے بنیادی اصولوں سے بھی انحراف نہیں کر سکتی۔عدلیہ آئینی و قانونی سقم کی جانب توجہ ضرور دلا سکتی ہے ، آئین و قانون کی تشریح کر سکتی ہے مگر نہ قانون بنا سکتی ہے نہ ازخود بدل سکتی ہے۔عدلیہ کسی مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، ہندو ، احمدی ، پارسی کو انصاف نہیں دیتی بلکہ ریاست کے شہریوں ، انسانوں اور جانوروں کے لیے مساوی نگاہ سے دستیاب حقائق و منطق کی روشنی میں فیصلے کرتی ہے۔
چونکہ جج بھی انسان ہیں اور انسان سے غلطی ہوتی ہے لہذا غلطی کا امکان کم سے کم رکھنے کے لیے فیصلوں کے خلاف اپیل اور جج کے اخلاقی و قانونی کنڈکٹ کی جانب توجہ دلانے اور شنوائی کے لیے بھی باقاعدہ فورم موجود ہیں۔
اس کے باوجود اگر کوئی فرد ، گروہ ، ادارہ یا تنظیم بھلے کتنے ہی اعلی مقاصد کے نام پر سہی کسی عدالت کا حتمی فیصلہ ماننے سے انکار کردے یا عدالت کو ہی جڑ سے اکھاڑ دینے کی دھمکی دے اور اس کے نتیجے میں سماجی و قانونی نظام تتر بتر ہونے لگے تو یہ توہینِ عدالت نہیں فتنہ ہے ، ہر اعتبار سے فتنہ۔اور فتنے کے تدارک کے لیے آئین و قانون میں جو طریقہ موجود ہے اس کا پوری قوت سے حرکت میں آنا لازم ہے بصورتِ دیگر صرف عدلیہ کا نہیں ریاست کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
بات چیت مخالف سے ممکن ہے مگر فتنہ گروں سے نہیں اگر وہ اظہار ندامت نہ کریں اور ریاستی آئین و قانون و عدلیہ پر مکمل اعتماد کا حلف نہ اٹھائیں۔فتنہ گر صرف وہی نہیں جو ریاست و ریاستی اداروں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دے بلکہ وہ عناصر اور گروہ بھی ہیں جو بظاہر آئین و قانون و ریاست سے وفاداری کا دم بھریں مگر اپنے قول و فعل سے فتنہ پردازوں کی مدد کریں اور ریاست کی جڑیں کھوکھلی کریں۔
جب ریاست وسیع تر مفاد میں اور افراتفری سے بچنے کے لیے فتنہ گروں کے سامنے لچک دکھاتی ہے تو فتنہ گر اسے ریاست کی کمزوری سمجھتے ہیں۔جب ریاست ان کے چند ناجائز مطالبات فساد کو پھیلنے سے روکنے کا سوچ کے مان لیتی ہے تو فتنہ گر اسے اخلاقی فتح سمجھ کر مزید مطالبات پیش کر دیتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ ریاست پر قبضے یا ریاست کے خاتمے پر ہی منتج ہوتا ہے۔
فتنہ گر کی نشانی یہ ہے کہ آپ انھیں بوٹی دیں گے تو یہ اگلا مطالبہ بکرے کا کریں گے۔ آپ بکرا پیش کریں گے تو یہ ریوڑ مانگیں گے ، آپ ریوڑ ان کے حوالے کریں گے تو یہ طویلے پر قبضہ کرنے کا سوچیں گے۔وائرس بات چیت کے جوشاندے سے نہیں اینٹی بائیوٹک سے بھاگتا ہے۔
یہ ایک مسلسل لڑائی ہے۔مگر کوئی بھی لڑائی عوام کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔اور عوام تک پہنچے کا راستہ میڈیا ہے۔اگر ریاست کو واقعی انتہا پسندی کو باندھنا ہے تو پھر میڈیا کو اپنے اور عام آدمی کے درمیان پل بنانا ہوگا۔ اگر ریاست چلانے والوں نے یہ پل ہی توڑ دیا یا اس پر کانٹے بکھیر دیے تو پھر ریاست اور فتنہ گروں کے درمیان سوائے افواہ اور جھوٹ کی دھند کے کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔
آخری بات۔فتنے کو فتنے سے نہیں مارا جا سکتا۔ فتنے کو صرف سچائی اور سچائی کی بنیاد پر ثابت قدمی ہی مار سکتی ہے۔کیا آپ یہ قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)