سندھ بجٹ غریب پرورہےحکومتی ارکاندیہی بجٹ ہےمتحدہ
بحث میں 16ارکان نے حصہ لیا،صحت اور تعلیم کے شعبوں کی حالت زار پرافسوس کا اظہار
سندھ اسمبلی میں جمعرات کو آئندہ مالی سال 2013-14 کے بجٹ پر عام بحث کا آغاز ہوا ، جس میں16ارکان نے حصہ لیا۔
پیپلزپارٹی کے ارکان نے بجٹ کوعوام دوست اورغریب پرور قرار دیا تاہم بعض ارکان نے صحت اور تعلیم کے شعبوں کے لیے زیادہ رقم مختص ہونے کے باوجودان شعبوں کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کیا۔ سندھ اسمبلی میں بڑی اپوزیشن ہونے کے باوجود ایوان کا ماحول خوشگواررہا اور کوئی تلخی اورکشیدگی نظر نہیں آئی ۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ارکان نے سندھ کے بجٹ کو دیہی بجٹ قرار دیا اور کہا کہ شہری علاقے سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں لیکن شہری علاقوں کے لیے اتنی رقوم مختص نہیں کی گئیں ، جتنی ہونی چاہیے تھیں ۔ انھوں نے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس2 گھنٹے تاخیر سے اسپیکرآغا سراج درانی کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ پیپلز پارٹی کے رکن ڈاکٹر سہراب سرکی نے کہاکہ مرنے اور مارنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
ٹھل میں متاثرین سیلاب کوریلیف فراہم کیا جائے۔ایم کیو ایم خالد بن ولایت نے کہا کہ ترقیاتی اسکیموں کے بارے میں ارکان سندھ اسمبلی کی رائے نہیں لی گئی۔ میری تجویز ہے کہ محکمہ تعلیم کو ختم کردیا جائے اور پرائیویٹ اسکولوں کو سبسڈی دی جائے اس سے تعلیم کا معیاربلند ہوگا اورحکومت کی رقم بھی بچے گی۔ انھوں نے ایوان میں ایم کیو ایم کے ان کارکنوں کی فہرست بھی پیش کی،جنھیں پہلے اغواکیا گیا اور بعد میں ان کی لاشیں ملیں۔فنکنشنل لیگ کے رکن شہریار مہر نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بجلی ہے۔ تھرکول کی ترقی کے لیے بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ پولیس سے رزلٹ لیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے رکن میر اللہ بخش تالپور نے کہا کہ کالا باغ ڈیم بننے نہیں دیں گے۔ایم کیوایم کے خالد احمد نے کہاکہ سندھ کا بجٹ غریب اورعوام دوست بجٹ نہیں ہے۔ لوگوں پر ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس 2012 کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
پیپلز پارٹی کے رکن سردار احمد علی پتافی نے کہا کہ تھرکول اتھارٹی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان نے کہا کہ میرے حلقے میں پینے کا پانی میسر نہیں۔ سیوریج سسٹم تباہ ہوگیا ہے ۔ سندھ خصوصاً کراچی میں بلدیاتی انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوں۔ایم کیو ایم کے رکن سید دلاور حسین نے امن و امان کے قیام کے لیے پولیس کو خصوصی تربیت دی جائے ۔ دیگر فورسز کو آہستہ آہستہ واپس کردیا جائے ۔ پراپرٹی ٹیکس اضلاع کو وصول کرنے کا اختیار دیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ضلعی سطح پر تعلیمی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں ۔سولرٹیوب ویلز کی خریداری پرسبسڈیز میں اضافہ کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹرارشد عبداللہ وہرہ نے کہ ایفلوئنٹ ٹرٹمینٹ پلانٹس کے لیے کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔ پیپلزپارٹی کی خاتون رکن غزالہ سیال نے کہا کہ بجٹ سے سندھ کے عوام کے لیے روزگار اور ترقی کے راستے کھلیں گے۔
ایم کیو ایم کی خاتون رکن رعنا انصار نقوی نے کہا کہ حکومت شہروں پر توجہ دے گی۔ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے کوئی رقم نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ڈاکٹرسکندر شورو نے کہا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ایم کیو ایم کے رکن وقار حسین شاہ نے کہا کہ آئین کی آرٹیکل 158 کے تحت صنعتوں کو گیس فراہم کی جائے ۔ سندھ72 فیصد گیس ملک کو فراہم کر رہا ہے لیکن اسے اس کا حصہ نہیں ملتا۔ سندھ اسمبلی یہ مسئلہ حل کرے ۔بحث میں پیپلزپارٹی کی خاتون رکن شمیم ممتاز،ایم کیو ایم کی خاتون رکن ناہید بیگم ، پیپلز پارٹی کی خاتون رکن ریحانہ لغاری نے بھی حصہ لیا۔ بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس ہفتے کی سہ پہر2 بجے تک ملتوی کردیا ۔