مفادات کے اسیر اور ہمارا کشکول

کل کے دشمن آج کے دوست اورآج کے دوست آنے والے کل کے بہت بڑے دشمن بھی بن سکتے ہیں۔


Dr Mansoor Norani November 07, 2018
[email protected]

یہ بات تو اب ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ دنیا میں لوگوں کے آپس کے تعلقات خلوص،اخلاص، نیک نیتی کی بجائے صرف اور صرف ذاتی مقاصد اور مفادات کے تحت ہوا کرتے ہیں ۔ و ہ چاہے کرہ ارض پر بسنے والے ایک دوسرے سے بے پناہ بے لوث محبت کااظہارکرنے والے ممالک ہوں یا ہمارے جیسے جمہوری ملک میں وفاداریاں نبھانے کا دعویٰ کرنے والے سیاسی کارکن اور لیڈر ہوں۔ سب کے سب مطلب پرستی ، مصلحت پسندی اورخود غرضانہ سیاست کے امین اور پیروکار ہوچکے ہیں ۔ بے لوث محبت ، ایمانداری اور بے غرض سیاست کے سارے قصے اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔

شاذ و نادر ہی کوئی شخص اب ایسا ملے گا جو اِن قابل قدر قدیم روایتوں کا پاسدار اور امین ہوگا، ورنہ یہاں تو سارے کے سارے مادہ پرستی اور مفاد پرستی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں ۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں دنیا کے سارے ممالک بھی اِسی سوچ اور انداز فکرکے محتاج دکھائی دیتے ہیں ۔ و ہ زمانے لدگئے جب کوئی بڑا اور امیر ملک اپنے سے کمتر اور غریب ملک سے محض محبت و آشتی کی بنیاد پر تعلقات استوار کرلیاکرتا تھا ۔آج کے دور میں تو کوئی بنا کسی لالچ اور غرض کے دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کا بھی روا دار نہیں ہے ۔

جنرل ایوب خان کے دور تک ہمیں محبت اور دوستی کی ایسی کچھ مثالیں ملاکرتی تھیں لیکن تیزی سے بدلتے زمانے کی بے اعتنائی اور خود غرضیوں نے ساری دنیا کو مطلب پرست اور مفاد پرست بناکر رکھ دیا ہے ۔

جنرل ایوب نے 1964ء میں آر سی ڈی کے نام سے تین برادر اسلامی ممالک یعنی پاکستان ، ایران اور ترکی کے مابین تعلق اور اشتراک کی غرض سے ایک گروپ تشکیل دیا تھا ، جس نے کچھ سالوں تک تو بڑی گرم جوشی اور انہماک سے کئی منصوبے ترتیب دیے لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی زمانے کی بے اعتنائی اور خود غرضانہ سیاست کا شکار ہوگیا ۔ اِس کے بعد 1985ء میں ای سی او کے نام سے ایک دوسرا گروپ تشکیل دیاگیا جوسوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے کی صورت میں نئی نئی آزاد ہونے والی وسط ایشیائی ریاستوں اور پاکستان اور ایران کے درمیان اتحاد برائے تعاون اور اشتراک کی غرض سے ترتیب دیا گیا تھا، مگر افسوس کہ وہ بھی اپنا کوئی رنگ نہیں جما سکا۔

اِسی طرح جنرل ضیا الحق کی کوششوں سے جنوب مشرقی ایشیا کے سات ممالک کے مابین ایسا ہی ایک گروپ سارک کے نام سے بنایا گیا جو ہنوز صرف کاغذوں اور فائلوں پر توضرور موجود ہے لیکن عملاً اُس کے اعمال نامہ میں کوئی کارکردگی درج نہیں ہے ۔ پاکستان اور بھارت کی آپس کی چپقلش اِس کی ترقی اور فعالیت میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ جب تک پاکستان اور ہندوستان اپنے جھگڑے ختم نہیں کرلیتے ایسے کسی اتحاد کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں ہیں ۔

دوست ملک چائنہ جس کی دوستی اور بے لوث محبت کادم ہم ہروقت بھرتے رہتے ہیں اگر دیکھاجائے تو اُس کی ساری محبت و آشتی اور ہم پر ساری عنایتیں بھی کچھ یونہی بے غرض نہیں ہیں ۔اُن کے پیچھے بھی خود چائنہ کے اپنے اغراض و مقاصد موجود ہیں ۔ وہ بھی دنیا کی سیاست اور اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سے تعلقات کے اُصول اور ضابطے ترتیب دیتا ہے۔ہاں البتہ اُس نے ہمیں کبھی مایوس اور نااُمید نہیں کیا ۔

یہی حال سعودی عرب کا بھی رہا ہے۔وہ ایک برادر اسلامی ملک ہونے کے ناتے ہم پر ہمیشہ ہی مہربان رہا ہے۔ اُس کی اِن مہربانیوں کے پیچھے بھی بلاشبہ اُس کے اپنے کچھ مفادات بھی ضرور موجود ہیں اور وہ بدلے میں ہم سے کچھ ایسے مطالبوں کا متقاضی ہوتا ہے جن کا پورا کرنا بعض وقت ہمارے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارا کشکول ہمیشہ ہی خالی رہتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی خود داری اور خود مختاری کے دلکش احساسات کے ساتھ کبھی کسی ملک سے بات چیت نہیں کی ۔ ہمارا سر اُس کے سامنے ہمیشہ جھکا ہی رہتا ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ دوست ممالک بھی ہم سے بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ اُن کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہمیں قرض اور امداد دینے پر راضی اور رضامند کردیتی ہے۔

خود غرضانہ سیاست اور مفادات کا یہ کھیل ہم اپنے ملک کے اندر بھی دیکھتے رہتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان الحاق اور آپس میں میل جول صرف وقت اور مصلحت کے تحت استوارکیا جاتا ہے۔ان کے درمیان کوئی ذہنی ہم آہنگی اور خلوص و وارفتگی سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی ۔ وہ بس اپنے اپنے ذاتی مفادات کے تحت جب چاہیں یکجا اور متحد ہوجاتے ہیںاور جب چاہیں کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔یہ نظریہ اور اصولوں کی باتیں سب خیالی اور بے سروپا ہوچکی ہیں۔

کل کے دشمن آج کے دوست اورآج کے دوست آنے والے کل کے بہت بڑے دشمن بھی بن سکتے ہیں۔ انھیں دوستیاں بدلنے اور نظریں چرانے میں ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب پاناما کیس کی بازگشت ہماری سیاست میں گونج رہی تھی اور میاں صاحب کی حکومت انتہائی مشکلات میں گھری ہوئی تھی ۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ساتھ ساتھ میٹنگز اور پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے اور آج جب پی ٹی آئی حکومت میں ہے تو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی والے سر جوڑے بیٹھے ہیں ۔ جس طرح پارٹی کے قائدین وقت کے ساتھ ساتھ اپنا خیال اور نظریہ بدل لیتے ہیں اُسی طرح اُن کے کارکن بھی سیاسی وفاداریاں بدلنے میں لمحے بھی کی دیر نہیں کرتے ۔ جس کسی کو بھی تھوڑا سا فائدہ اور مفاد کسی دوسری پارٹی میں دکھائی دیتا ہے وہ فوراً سے پیشتر اپنا سیاسی قبلہ اوررخ بدل لیتا ہے۔

تحریک انصاف میں نصف سے زائد ارکان کی تعداد ایسے ہی سیاسی بے وفاؤں پر مبنی ہے۔انھیں خان صاحب اوراُن کی پارٹی سے کوئی لگاؤ اور محبت نہیں ہے اور نہ وہ اُن کے نظریے اور ویژن سے متاثر ہوکراُس میں شامل ہوئے ہیں ۔ اُن کا نظریہ اور ویژن توصرف اپنا ذاتی مفاد ہے۔ وہ اُس وقت تک اِس پارٹی سے جڑے رہیں گے ، جب تک انھیں یہاں کوئی آس واُمید باقی ہے یا پھر یوں کہیے کہ جب تک انھیں یہاں نیب کی گرفت سے تحفظ حاصل ہے یا پھر جب تک کسی نادیدہ قوت کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں مل جاتا وہ پی ٹی آئی ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھیں گے۔

ہم نے اپنی ستر سالہ سیاست میں یہی کچھ دیکھا ہے۔ یہ خلوص ، اخلاق ، پاسداری اور وفاداری کی باتیں محض افسانوں ہی میں ملا کرتی ہیں، حقیقت میں اِن کا کوئی وجود نہیں ۔ ساری دنیا ہی اب صرف اور صرف اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کی پجاری ہے۔ اِس کے لیے ہم صرف اپنی قوم کو دوش نہیں دے سکتے ۔ زمانے کے بدلتے رنگ اورڈھنگ نے ساری دنیا کو خود غرض اور مطلب پرست بناکے رکھ دیا ہے ۔

دنیا میں اگر کسی قوم کی کوئی عزت و تعظیم اگر باقی ہے تو وہ صرف اُسی کی باقی ہے جس نے خود داری سے جینا سیکھ لیا ہے۔ کشکول تھامے کسی قوم کی اب کوئی عزت نہیں ہے۔ قوم کو اب سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے اِس کشکول سے کب چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔خان صاحب کی اِس حکومت کو دوست ممالک سے اِس بار توکچھ امداد اورقرض مل گیا ہے لیکن یاد رہے کہ آنے والے وقتوں میں کوئی ملک ہمیں اپنے در پہ بھی کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں