چند دن امریکا میں   1

یہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے الگ سے قبرستان بھی نہیں ہے۔

ali.dhillon@ymail.com

اس دفعہ امریکا جانے کی خوشی اس لیے پہلے سے زیادہ تھی کہ خزاں کے سحر انگیز موسم اور رنگوں کو دیکھنا نصیب ہوگا۔ میری فلائٹ لاہور سے براستہ دبئی نیویارک تھی ، اکتوبر 2017ء سے پہلے یہ فلائٹ براہ راست ہی ہوا کرتی تھی اور 56 سال تک بلاتعطل لاہور سے نیویارک پی آئی اے فلائٹ ہر سفارتی اُتار چڑھاؤ کے باوجود جاری ہے۔

اس فلائٹ کا آغاز 1961ء میں ہوا تھا۔ لیکن خسارے کو وجہ بنا کر اس روٹ کو بند کر دیا گیا جس سے امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کسی بزرگ ، خاتون یا بچے کو اکیلے نہیںبھیجا جا سکتا۔ حالانکہ بھارتی فضائی کمپنی ایئر انڈیا کے امریکا جانے والے تمام روٹس مکمل طور پر بحال ہیں اور منافع بھی کما رہے ہیں،آج بھی بھارت سے امریکا اور واپسی کے لیے ایئر انڈیا کی براہ راست پروازیں چلتی ہیں۔

خیر طویل سفر کے بعد تھکا ہارا انسان جب نیویارک پہنچتا ہے تو وہاں امیگریشن سے لے کر ائیرپورٹ سے باہر نکلنے تک آدھی تھکاوٹ اُتر جاتی ہے۔ اور بقیہ آدھی تھکاوٹ انسان کشادہ سڑکیں اور منظم نظام دیکھ کر اُتار لیتا ہے کیوں کہ نیویارک ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی سب کچھ بدلا بدلا لگتا ہے۔ صاف شفاف سڑکیں اور جگہ جگہ فلائی اوور پل۔ بعد میں جب امریکا کے ہر شہر میں ایسا ہی نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے تو لگتا ہے کہ امریکا میں فلائی اوورز کا جال بچھا ہوا ہے ، ویسے بھی لندن، یورپ کی نسبت امریکا ایک نیا ملک ہے۔ اس کی تاریخ نئی ہے۔

اس کی جوانی نئی ہے، اسے اپنی جوانی کا نشہ بھی اور شباب کی مستی بھی ہے ،ایک زمانہ برطانیہ کی جوانی کا تھا۔لیکن اب لندن کے چہرے پر جھریاں آگئیں، اس کے آنچل کے سائے میں امریکا کی نئی جوانی انگڑائیاں لے کر اٹھی ہے۔

نیویارک ائیر پورٹ پر آغا محمد صالح نے مجھے رسیو کیا۔ آغا صالح کے بارے میں اگلے کالم میں تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا ، نیویارک جیسے شہر میں جہاں دنیا کھنچی چلی آتی ہے آغا صالح جیسے دوست کی رہنمائی بہت ضروری ہوتی ہے۔ یہ امریکا کے شمال مشرق کی ایک ریاست ہے۔ نیویارک آبادی کے تناسب سے تیسری بڑی ریاست ہے۔ جنوب میں نیو جرسی اور پنسلوانیا اور مشرق میں کنیکٹیکٹ، میساچوسٹس اور ورمونٹ کی ریاستیں ہیں۔

نیویارک کی بین الاقوامی سرحد کینیڈا سے ملتی ہے اور شمال مغرب میں اونٹاریو اور شمال میں کیوبیک کے صوبے ہیں۔یہ شہر ایک کروڑ آبادی کے ساتھ امریکا کا سب سے گنجان آباد شہر ہے۔ یہ شہر سرمایہ کاری اور ثقافت کا مرکز ہے اور باب ہجرت (گیٹ وے آف امیگریشن) جانا جاتا ہے۔اور یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس شہر کا نام سترہویں صدی کے ڈیوک آف یارک، جیمس اسٹوارٹ اور مستقبل کے جیمس دوم اور ہفتم برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ پر رکھا گیا۔

نیویارک پہنچنے کے بعد بھرپور آرام کی ضرورت تھی، ویسے بھی امریکا میں ہمیشہ میرا ٹھکانہ نیو ہمپشائر ہوتا ہے، جہاں میرا بچپن کا دوست نوروز عارف ایک عرصہ سے رہائش پذیر ہے، نوروز عارف معروف شاعر عارف عبدالمتین کے بیٹے ہیں، عارف عبدالمتین اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز شاعر اور نقاد تھے۔انھوں نے قیام پاکستان کے بعد کئی ادبی جریدوں کی ادارت کی جن میں ادب لطیف، سویرا، جاوید، اوراق اور ماحول کے نام شامل ہیں۔


1970ء میں انھوں نے جامعہ پنجاب سے ایم اے کا امتحان پاس کیا، جس کے بعد انھوں نے ایم اے او کالج لاہور سے وابستگی اختیار کی اور پھر تمام عمر تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔نوروز عارف میں اُن کے والد کی جھلک نمایاں ہے، ملنساری میں وہ اپنے والد سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ چند ماہ قبل اُن کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا جس کی وجہ سے فاتحہ خوانی کے لیے بھی مجھے جانا تھا تو ہم چار گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد نیوہمپشائر پہنچے، جہاں ٹھنڈ کا یہ عالم تھا کہ آپ بغیر جیکٹ گھر کے اندر بھی نہیں بیٹھ سکتے تھے۔

نوروز سے اُن کی والدہ کی وفات کے حوالے سے افسوس کیا اور میں نے خواہش کی کہ چلیں قبرستان چل کر فاتحہ خوانی کر لی جائے۔ وہ فوراََ اُٹھے اور اُن کی گاڑی ایک کرسچن قبرستان کے سامنے رکی، میں نے سوچا کہ کرسچن قبرستان کے قریب ہی مسلم قبرستان بھی ہو گا جہاں اُن کی والدہ کی تدفین ہوئی ہوگی۔ لیکن وہ عیسائی قبرستان کے اندر چلے گئے، میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ والدہ یہیں مدفن ہیں۔

میں نے حیرت اور تعجب والے لہجے میں دو تین سوال جڑ دیے۔ میں نے پوچھا کہ یہاں کوئی مسلم قبرستان نہیں اور کیا کرسچن کمیونٹی نے آپ کو یہاں تدفین کی اجازت دے دی۔ تو انھوں نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ یہ پاکستان نہیں ہے ۔ ویسے یہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے الگ سے قبرستان بھی نہیں ہے۔

نوروز نے میرے لیے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ نیوہمپشائر میں چونکہ ہم چند مسلمان گھر ہیں، اور یہاں مسجد بھی نہیں ہے، اس لیے ہم نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے بھی چرچ کا انتخاب کرتے ہیں۔ میں پھر اُس سے مخاطب ہوا کہ یار یہاں کے پادری ''فتوے'' نہیں لگاتے؟ تو اُس نے کہا نہیں یہاں ایسا کلچر نہیں ہے۔

وہیں شکاگو سے میرا ایک بھتیجا جو ڈاکٹر ہے بھی ملنے آگیا، اُس نے کہا شکاگو میں جس اسپتال میں وہ پریکٹس کر رہا ہے اُس اسپتال میں ایک Pray روم بنایا گیا ہے ، جہاں سکھ، عیسائی، مسلمان اور یہودی اپنی اپنی عبادات کر سکتے ہیں۔ کئی مذاہب کے لوگ ایک ہی وقت میں وہاں عبادت کرنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ وہاں ایک ہی شیلف میں بائبل ، قرآن ، زبور اور دیگر الہامی کتب پڑی ہوتی ہیں۔

وہیں ہر مذہب کا فرد دوسرے کے ساتھ باہمی دلچسپی کی گفتگو کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن ایک دوسرے کے مذہب کے بارے میں کوئی دخل اندازی کی جرأت نہیں کرتا۔ الغرض قومیں ایسے ہی نہیں بنتیں قربانیوں کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے انسانیت کے نام پر رشتے قائم رکھنا اور ان کو پروان چڑھانا ہی آپ کی پہچان بنتا ہے جب کہ اس کے برعکس پاکستان بننے کے بعد کتنے مسلمان آپس میں لڑ کر مرے ہیں، یہاں جہاد کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے رہے۔

یہاں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کے نام سے جماعتیں کھڑی کر کے قطار اندر قطار مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ افغانستان میں شمالی اتحاد اور طالبان حکومت کے درمیان لڑائی میں دونوں مسلمان قوتوں نے ہزاروں مسلمان شہید کیے لیکن جن قوموں نے ترقی کی انھوں نے ایک دوسرے کی خطاؤں کو معاف کیا۔ درگزر کی پالیسی اپنائی ۔ لہٰذاجو چیز میں نے امریکا میں دیکھی، پرکھی اور محسوس کی وہ یہ ہے کہ دنیا میں ترقی کرنے اور تباہ ہونے کی بڑی کلیئر وجوہات موجود ہیں،جو عادات اور نظام آپ اپنائیں گے وہ گریڈ آپ کو مل جائے گا۔ آپ ہندو ہیں، سکھ ہیں، عیسائی ہیں یا مسلمان ہیں جیسی آپ عادات اور نظام اپنائیں گے دنیا بھر میں آپ کی ویسی ہی پہچان بنے گی۔ (باقی آیندہ)
Load Next Story