میڈیا کی آزادی
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔
حکومت نے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام پر غور شروع کردیا ہے۔ اس خبر نے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے میڈیا کی آزادی پر یقین رکھنے والوں کو تشویش میں مبتلا کردیا اور یہ تصور مزید تقویت پا گیا کہ میڈیا کے موجودہ بحران کی بنیادی وجہ آزادئ صحافت پر نئی پابندیاں عائد کرنا ہے۔
اخبارات کے احتساب کے لیے 2002میں قائم کیے جانے والے ادارے پریس کونسل کے اراکین کو ملنے والے ایک مسودہ قانون کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پرنٹ میڈیا اتھارٹی کے نام سے ایک نیا سرکاری ادارہ قائم ہوگا ۔ یہ ادارہ اخبارات ، ریڈیو، ٹیلی وژن اور ڈیجیٹل میڈیا کو لائسنس جاری کرے گا ۔
اس ادارے کے قیام سے پریس کونسل آف پاکستان آرڈیننس، پریس نیوز پیپر، نیوزایجنسی، بکس رجسٹریشن آرڈیننس اور پیمرا آرڈیننس کالعدم ہوجائیں گے، یوں نیا قانون میڈیا کے تمام ستونوں کو ریگولیٹ کرے گا ۔ مسلم لیگ کے سابقہ دور میں بھی ایسے ہی ایک قانون کا مسودہ پریس کونسل کے اراکین کو منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا مگر پریس کونسل کے اراکین نے اس مسودے کو آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم قرار دیا تھا اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے ذمے داروں نے موقف اختیار کیا کہ وہ اس اہم قانونی مسودے سے لاعلم تھے۔
ایک افسر کو معطل بھی کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے دورِ حکومت کے اختتام تک یہ مسودہ کسی فائل کے نیچے محفوظ کردیا گیا، مگر تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد اب یہ اطلاعات ہیں کہ پریس کونسل کو ختم کرنے کے بارے میں کسی اعلیٰ سطح کے اجلاس میں غور و فکر ہوگا ۔
پاکستان میں میڈیا شدید بحران کا شکار ہے۔ایک طرف ڈالرکی قیمت بڑھنے سے نہ صرف پرنٹ بلکہ الیکٹرانک میڈیا کا خسارہ بھی بڑھ گیا ہے تو دوسری طرف حکومتی پالیسی کے باعث میڈیا کے تمام ستون ایک نئے قسم کے اقتصادی بحران میں مبتلا ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں کے پریس کلب میں بیروزگار صحافیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد دنیا کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اب نئی صورتحال صحافیوں میں مزید مایوسی پیدا کررہی ہے۔
میڈیا کی آزادی کو پابند کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں اخبارات جاری ہوئے۔ پہلے کمپنی کے ملازمین نے انگریزی اخبارات جاری کیے، پھر مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے۔ تب کمپنی کے اہلکاروں نے محسوس کیا کہ اب مقامی اخبارات ہندوستان کی رائے عامہ کو متاثر کر رہے ہیں تو 1822میں لائسنس کا قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت پرمٹ کے بغیر اخبارکی اشاعت کو جرم قرار دیا گیا۔
اس قانون میں اخبارات کو شایع کرنے پر اخبار پر ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر کے نام اور دفترکا پتہ شایع کرنے کی پابندی عائد کی گئی۔ معروف ریفارمر راجہ موہن رائے جو ہندی اور دیگر زبانوں میں اخبارات شایع کرتے تھے نے اس قانون کو ہندوستان کے شہریوں کی تذلیل قرار دیا۔ انھوں نے کلکتہ کی انگریزی عدالت میں اس قانون کو چیلنج کیا۔ پھر یہاں سے مایوس ہو کر وہ لندن گئے اور برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت پریوی کونسل میں ایک پٹیشن دائر کی۔
اس پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں شہریوں اور اخبار کی اشاعت کے لیے کسی پرمٹ یا لائسنس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اخبار کو شایع ہونے سے پہلے سرکاری افسر سے سنسر کرایا جاتا ہے تو پھر ہندوستان کے شہریوں سے یہ حق کیوں چھینا گیا؟ پریوی کونسل نے راجہ صاحب کی اس پٹیشن کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کردیا کہ برطانیہ کے شہریوں اورکالونی کے شہریوں کے حقوق یکساں نہیں۔ راجہ صاحب نے اس موقعے پر تاریخی اعلان کیا کہ پرمٹ حاصل کرنے اور اخبار کو سنسر کرانے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اخبار کو بند کردیا جائے۔
کچھ عرصے بعد صحافیوں کے احتجاج پر کمپنی کی حکومت نے قانون میں تبدیلی کی اور پرمٹ کی جگہ ڈیکلریشن کا لفظ استعمال کیا مگر حکومت کی جانب سے ڈیکلریشن کی تصدیق تک اخبار کی اشاعت کو فوجداری جرم قرار دیا گیا۔ برطانوی ہند حکومت نے پریس پر کنٹرول کرنے کے لیے مزید سخت قوانین نافذ کیے۔ ان قوانین میں 1822 کے قانون کی شقیں ہر صورت میں شامل رہیں۔ برطانوی دورِ حکومت کا 1931 کا پریس ایکٹ ایک سیاہ قانون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں اس قانون کو استعمال کیا جاتا رہا۔ جنرل ایوب خان حکومت نے 1963 میں پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس (P.P.O) ترمیم کے ساتھ نافذ کیا۔ اس قانون میں کمپنی کی حکومت سے لے کر برطانوی ہند حکومت کے دور کے تمام متنازعہ قوانین کو سمو دیا گیا تھا۔ تمام اخباری مالکان، ایڈیٹروں اور صحافیوں نے اس قانون کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے اس قانون کو سیاہ قانون قرار دیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاقی شریعت کورٹ نے پی پی او کی بعض شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا ۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ایک نیا مسودہ تیارکیا۔ غلام اسحاق خان کی عبوری حکومت نے پی پی او منسوخ کیا اور رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس نافذ ہوا۔ اخبارات کے ڈیکلریشن کا طریقہ آسان ہوا، مگر 1988 سے 1999 تک قائم ہونے والی حکومتیں اس آڑڈیننس کو پارلیمنٹ سے منظورکرانے میں ناکام ہوئیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرف دور کے قوانین بہت زیادہ برے نہیں ہیں مگر یہ قوانین آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-A کی مکمل طور پر پاسداری نہیں کرتے۔
یہی وجہ تھی کہ صحافی، ایڈیٹر اور سول سوسائٹی کے اراکین یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان قوانین کو مزید بہتر بنایا جائے مگر ان قوانین کو مزید بہتر بنانے کے بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قانون کو ایک نئی شکل میں نافذکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تحریک کے کارکن آئی اے رحمن نے لکھا ہے کہ پہلے سول سوسائٹی کو مفلوج کیا گیا اور اب میڈیا کوکمزورکیا جا رہا ہے جس کا سارا نقصان عوام کا ہے۔
اخبارات کے احتساب کے لیے 2002میں قائم کیے جانے والے ادارے پریس کونسل کے اراکین کو ملنے والے ایک مسودہ قانون کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پرنٹ میڈیا اتھارٹی کے نام سے ایک نیا سرکاری ادارہ قائم ہوگا ۔ یہ ادارہ اخبارات ، ریڈیو، ٹیلی وژن اور ڈیجیٹل میڈیا کو لائسنس جاری کرے گا ۔
اس ادارے کے قیام سے پریس کونسل آف پاکستان آرڈیننس، پریس نیوز پیپر، نیوزایجنسی، بکس رجسٹریشن آرڈیننس اور پیمرا آرڈیننس کالعدم ہوجائیں گے، یوں نیا قانون میڈیا کے تمام ستونوں کو ریگولیٹ کرے گا ۔ مسلم لیگ کے سابقہ دور میں بھی ایسے ہی ایک قانون کا مسودہ پریس کونسل کے اراکین کو منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا مگر پریس کونسل کے اراکین نے اس مسودے کو آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم قرار دیا تھا اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے ذمے داروں نے موقف اختیار کیا کہ وہ اس اہم قانونی مسودے سے لاعلم تھے۔
ایک افسر کو معطل بھی کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے دورِ حکومت کے اختتام تک یہ مسودہ کسی فائل کے نیچے محفوظ کردیا گیا، مگر تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد اب یہ اطلاعات ہیں کہ پریس کونسل کو ختم کرنے کے بارے میں کسی اعلیٰ سطح کے اجلاس میں غور و فکر ہوگا ۔
پاکستان میں میڈیا شدید بحران کا شکار ہے۔ایک طرف ڈالرکی قیمت بڑھنے سے نہ صرف پرنٹ بلکہ الیکٹرانک میڈیا کا خسارہ بھی بڑھ گیا ہے تو دوسری طرف حکومتی پالیسی کے باعث میڈیا کے تمام ستون ایک نئے قسم کے اقتصادی بحران میں مبتلا ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں کے پریس کلب میں بیروزگار صحافیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد دنیا کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اب نئی صورتحال صحافیوں میں مزید مایوسی پیدا کررہی ہے۔
میڈیا کی آزادی کو پابند کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں اخبارات جاری ہوئے۔ پہلے کمپنی کے ملازمین نے انگریزی اخبارات جاری کیے، پھر مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے۔ تب کمپنی کے اہلکاروں نے محسوس کیا کہ اب مقامی اخبارات ہندوستان کی رائے عامہ کو متاثر کر رہے ہیں تو 1822میں لائسنس کا قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت پرمٹ کے بغیر اخبارکی اشاعت کو جرم قرار دیا گیا۔
اس قانون میں اخبارات کو شایع کرنے پر اخبار پر ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر کے نام اور دفترکا پتہ شایع کرنے کی پابندی عائد کی گئی۔ معروف ریفارمر راجہ موہن رائے جو ہندی اور دیگر زبانوں میں اخبارات شایع کرتے تھے نے اس قانون کو ہندوستان کے شہریوں کی تذلیل قرار دیا۔ انھوں نے کلکتہ کی انگریزی عدالت میں اس قانون کو چیلنج کیا۔ پھر یہاں سے مایوس ہو کر وہ لندن گئے اور برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت پریوی کونسل میں ایک پٹیشن دائر کی۔
اس پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں شہریوں اور اخبار کی اشاعت کے لیے کسی پرمٹ یا لائسنس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اخبار کو شایع ہونے سے پہلے سرکاری افسر سے سنسر کرایا جاتا ہے تو پھر ہندوستان کے شہریوں سے یہ حق کیوں چھینا گیا؟ پریوی کونسل نے راجہ صاحب کی اس پٹیشن کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کردیا کہ برطانیہ کے شہریوں اورکالونی کے شہریوں کے حقوق یکساں نہیں۔ راجہ صاحب نے اس موقعے پر تاریخی اعلان کیا کہ پرمٹ حاصل کرنے اور اخبار کو سنسر کرانے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اخبار کو بند کردیا جائے۔
کچھ عرصے بعد صحافیوں کے احتجاج پر کمپنی کی حکومت نے قانون میں تبدیلی کی اور پرمٹ کی جگہ ڈیکلریشن کا لفظ استعمال کیا مگر حکومت کی جانب سے ڈیکلریشن کی تصدیق تک اخبار کی اشاعت کو فوجداری جرم قرار دیا گیا۔ برطانوی ہند حکومت نے پریس پر کنٹرول کرنے کے لیے مزید سخت قوانین نافذ کیے۔ ان قوانین میں 1822 کے قانون کی شقیں ہر صورت میں شامل رہیں۔ برطانوی دورِ حکومت کا 1931 کا پریس ایکٹ ایک سیاہ قانون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں اس قانون کو استعمال کیا جاتا رہا۔ جنرل ایوب خان حکومت نے 1963 میں پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس (P.P.O) ترمیم کے ساتھ نافذ کیا۔ اس قانون میں کمپنی کی حکومت سے لے کر برطانوی ہند حکومت کے دور کے تمام متنازعہ قوانین کو سمو دیا گیا تھا۔ تمام اخباری مالکان، ایڈیٹروں اور صحافیوں نے اس قانون کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے اس قانون کو سیاہ قانون قرار دیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاقی شریعت کورٹ نے پی پی او کی بعض شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا ۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ایک نیا مسودہ تیارکیا۔ غلام اسحاق خان کی عبوری حکومت نے پی پی او منسوخ کیا اور رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس نافذ ہوا۔ اخبارات کے ڈیکلریشن کا طریقہ آسان ہوا، مگر 1988 سے 1999 تک قائم ہونے والی حکومتیں اس آڑڈیننس کو پارلیمنٹ سے منظورکرانے میں ناکام ہوئیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشرف دور کے قوانین بہت زیادہ برے نہیں ہیں مگر یہ قوانین آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-A کی مکمل طور پر پاسداری نہیں کرتے۔
یہی وجہ تھی کہ صحافی، ایڈیٹر اور سول سوسائٹی کے اراکین یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان قوانین کو مزید بہتر بنایا جائے مگر ان قوانین کو مزید بہتر بنانے کے بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قانون کو ایک نئی شکل میں نافذکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تحریک کے کارکن آئی اے رحمن نے لکھا ہے کہ پہلے سول سوسائٹی کو مفلوج کیا گیا اور اب میڈیا کوکمزورکیا جا رہا ہے جس کا سارا نقصان عوام کا ہے۔