غیروں کی جنگ اور ہم
غیروں کی جنگ لڑتے ہوئے جان دینے کوکیا واقعی قربانی قرار دیا جا سکتا ہے؟
ISLAMABAD:
یہ وہ دن ہیں جب پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے 100برس مکمل ہونے پر یورپ، جشن منا رہا ہے ۔ ہم اس خبر سے یوں سرسری گزرتے ہیں جیسے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات ہمیں یاد نہیں رہی کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان اپنی آزادی ہار چکا تھا۔ اس کے کارخانوں پر تالے پڑگئے تھے، اس کے کسان،اس کے کھیت برباد ہوچکے تھے، برٹش حکومت نے جس ہندوستانی اشرافیہ کو جنم دیا تھا، ان میں راجے، مہاراجے، نواب، تعلقہ دار اور بڑے بڑے زمیندار سب ہی شامل تھے۔
ان لوگوں کے لیے ہر دن عید تھا اور ہر رات شب برات ۔اس کے برعکس کیا ہندو اورکیا مسلمان، سب کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے تھے۔ بھوک عوام کی آنتیں کھرچ رہی تھی۔ یہی وہ دن تھے جب انھوں نے فاقے کے سامنے ہتھیار ڈالے اور ایک ایسی جنگ لڑنے چلے گئے جو ان کی نہ تھی اور جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ آج ہمیں شاید اس بات پر یقین نہ آئے کہ 1914ء سے 1918ء کے درمیان 10لاکھ سے زیادہ ہندوستانی، برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور یورپ ، مشرق وسطیٰ اور افریقا کے محاذوں پر لڑے ۔
اجنبی زمین ، بیگانہ آسمان، ہوائیں اپنی نہیں ، فضاؤں سے موت کی بو آتی تھی ۔ وہ چند روپوں کی اس تنخواہ کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر لڑتے رہے جو ان کے باپ ، ماں یا بیوی کے نام پابندی سے منی آرڈرکر دی جاتی تھی ۔ ان 10لاکھ سپاہیوں میں سے 74,187مختلف محاذوں پر مارے گئے۔ اجنبی گھاس کی پتیوں نے ان کے کاسۂ سر میں سے ، حلقہ چشم کے کھوکھلے پن سے سر نکالا اور وہ اجنبی سر زمین میں موت کا کھاجا بن گئے ۔
وقت کی کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس خلافت عثمانیہ کے لیے کیا مسلمان ،کیا ہندو سب ہی چندہ اکٹھا کررہے تھے، عورتیں اپنی چاندی کی بالیاں اور چوڑیاں چندے میں دے رہی تھیں، ان کے 7لاکھ باپ ، بیٹے اور شوہر سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑ رہے تھے ۔
یہ وہی سپاہی تھے جن میں سے پہلا خداداد خان تھا جسے وکٹوریہ کراس ملا۔ دس لاکھ سے زیادہ سپاہی جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں برطانوی فوج کا حصہ بن کر اپنے گھروں کے چولہے جلائے ، ان میں سے 74,187جان سے گئے اور 67,000گھائل ہوکر اپنے گھروں کو لوٹے ۔ ان میں سے بیشتر معذور ہوچکے تھے لیکن کیا بات تھی برطانوی راج کی کہ ان کو پنشن ملتی رہی اور جب وہ کھاٹ پر پڑے پڑے گھل کر ختم ہوگئے تو ان کی بیوہ یا ان کا بوڑھا باپ اس پنشن کا حقدار رہا ۔
ہندوستانیوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر انھیں ڈومنین اسٹیٹس ملے گا لیکن یہ وعدہ ، وعدۂ فردا رہا ۔کسی قسم کی نیم آزادی یا خود مختاری کے بجائے انھیں رولٹ ایکٹ کے ستم سے نوازا گیا ۔اخبارات پر سنسر شپ عائد کی گئی، سیاسی کارکنوں کو مقدمہ چلائے بغیر جیلوں میں رکھا گیا۔کسی بھی شخص کو برطانوی حکومت کے خلاف کام کرنے کے شبے میں وارنٹ کے بغیرگرفتارکرنا ایک معمول بن گیا ۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اپریل 1919ء میں جلیا نوالہ باغ کا سانحہ ہوا۔
امرتسرکے نہتے اور پُر امن شہری باغ کے احاطے میں مظاہرہ کرتے ہوئے بریگیڈئیر جنرل ڈائرکے حکم پرگولیوں سے بھون دیے گئے ۔ اس روز جلیانوالہ باغ سے 1499 لاشیں اٹھائی گئیں اور 1,137زخمی امرتسر کے اسپتالوں میں لائے گئے ۔ اس قتل عام نے لوگوں کی ان تمام اُمیدوں پر پانی پھیر دیا جو انھوں نے پہلی جنگ عظیم میں ہندوستانی فوجیوں کی قربانیوں سے وابستہ کر رکھی تھیں ۔
یہی وجہ تھی کہ ہندوستانی قوم پرستوں نے اپنے سپاہیوں کی اس قربانی کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ان کی کوئی یادگار بنائی ۔ یہ برطانوی حکومت تھی جس نے 1931ء میں نئی دہلی میں جنگ عظیم اول میں جان سے جانے والے ہندوستانی سپاہیوں کی یادگار تعمیرکرائی جسے انڈیا گیٹ کا نام دیا گیا ۔ روزانہ اس شاندار دروازے کے سامنے سے ہزاروں لوگ گزرتے ہیں ،کچھ شام کو اس کی دید کے لیے آتے ہیں، اس پر جلتی ہوئی امر جیوتی کو دیکھتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ کن بے گور و کفن لاشوں کی یادگار ہے ۔
ششی تھرور جو ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں ، انھیں اپنے ان لاکھوں سپاہیوں کی زندگی سے گہری دلچسپی رہی ہے جو ایک صدی پہلے چند ٹکوں کے لیے اجنبی زمینوں میں ایک ایسی جنگ لڑتے رہے جو ان کی نہ تھی ۔ ان میں سے ہزارہا مارے گئے اورکسی خندق ،کسی جوہڑ میں حشرات الارض کا کھاجا بنے ۔ وہ ان کے لیے بھی کڑھتے ہیں جو معذور ہوکر وطن لوٹے اور ان کا مقدرگھرکے چھپرکے نیچے کھری کھاٹ بنی ۔
انھوں نے وہ خطوط اکٹھے کیے جن میں لکھنے والوں نے سنسرکی پابندیوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنے گھر والوں کو یہ اشارہ دیا ہے کہ گھر کے دوسرے نوجوانوں کو اس جہنم میں نہ جھونکا جائے جس میں وہ جل رہے ہیں ۔
روم سے اور دوسرے شہروں سے لکھے جانے والے ایسے کئی پوسٹ کارڈ ملے ہیں جن میں سے اکثر اردو اورکچھ ہندی میں لکھے ہوئے ہیں ۔ ایک صدی سے گھروں کے صندوقوں میں رکھی ہوئی اور پیلی پڑجانے والی تصویریں بھی ملی ہیں جو ان غریب الوطن سپاہیوں کا نوحہ سناتی ہیں ۔ ششی نے بہ طور خاص ایک ایسے ہندوستانی سپاہی کی تصویرکو سو برس بعد زندہ کردیا ہے جس کے سر پر پگڑی ہے، چہرہ داڑھی سے ڈھکا ہوا ہے، وہ گھوڑے پر سوار ہے اورمسو پوٹمیا کے علاقے سے گزر رہا ہے ۔ سڑک کے کنارے بیٹھی ایک لڑکی کا ہاتھ پھیلا ہوا ہے ۔ وہی بھوک جس سے بھاگ کر وہ اجنبی سرزمین پر غیروں کی لڑائی لڑنے آیا ہے ۔ گمنام سپاہی گھوڑے پر سے جھک کر اس کسان لڑکی کے ہاتھ پر اپنا راشن رکھ رہا ہے ۔
ششی کو شکایت ہے کہ اتنے بڑے سانحے پر ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ادب نہیں لکھا گیا ۔ پھر وہ ہمارے ایک بڑے ادیب ملک راج آنند کا ذکرکرتے ہیں جنہوںنے Across the Black Water لکھی اور جس کا مرکزی کردار لالو جب گھر آتا ہے تو وہ اپنی زمین سے محروم ہوچکا ہے اور اس کے جتنے قریبی رشتے تھے وہ ختم ہوچکے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ششی کی نظر سے کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی اور بعض دوسرے ادیبوں کی کہانیاں نہیں گزریں ، جنھیں پڑھیے تو دل دہل جاتا ہے ۔
وہ ایک سپاہی رام سنگھ کے خط کا ذکرکرتے ہیں جوگڑھوال رائفل سے وابستہ تھا اور جس نے روم سے اردو میں لکھا تھا ، میرے پیارے والد صاحب ۔ یہ خط سنسر افسرکی مہارت کا شاہکار ہے ۔ ہمیں سب سے زیادہ جنگ مخالف برطانوی شاعر ولفرڈ اوون کا بھی یہاں ذکرکرنا چاہیے جو زخمی ہوکرگھر جاتا ہے لیکن جیسے ہی اس کے زخم بھر جاتے ہیں، اسے دوبارہ محاذ پر جانا پڑتا ہے جہاں وہ ایک لاحاصل جنگ کا نوالہ بن جاتا ہے۔
اس کی ہلاکت کے بعد اس کی ماں کو اوون کی ڈائری میں ٹیگورکی ایک نظم ملتی ہے جو اوون نے ماں کے لیے نقل کی ہے :
جب میں یہاں سے چلا جاؤں
اسے میرا الوداع جانیے
میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ ناقابل بیان ہے
ایک ایسی نظم جس نے اوون کی ماں کو صبح و شام رلایا ہوگا۔ دولت مشترکہ نے سارے برصغیر کے لیے ایک قبرستان کمیشن بنایا ہے جو گمنام سپاہیوں کی قبروں کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ ان میں سے بعض قبروں کے کتبے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شمال مشرقی ہندوستان میں ایسے ہی ایک قبر پر ایک کتبہ تحریر ہے :
تم جب گھر جاؤ
تو انھیں ہمارے بارے میں بتاؤ
ان سے کہوکہ تمہارے آنے والے کل کے لیے
ہم نے اپنا آج قربان کیا
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیروں کی جنگ لڑتے ہوئے جان دینے کوکیا واقعی قربانی قرار دیا جا سکتا ہے ؟ یہ سوال کل بھی موجود تھا اور آج بھی موجود ہے ۔ 100برس پہلے بھی ہم غیروں کی جنگ لڑ رہے تھے اور آج بھی اسی عذاب میں گرفتار ہیں۔