علامہ اقبالؒ کا تعلیمی سفر اور آغاز شاعری
حیاتِ اقبال کا سبق ہے کہ اصولوں پر استقلال سے چلتے رہنا ہی کامیابی کا لازمی جزو ہے
عام طور پر ہم اپنی زندگی میں کوئی مقام حاصل کرنے کےلیے کسی خاص شخصیت کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں، خود کو اس کے طرز زندگی کے مطابق ڈھالتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو ہمارے آئیڈیل کے عمدہ اوصاف کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کا شمار دنیا کے نجانے کتنے لوگوں کی آئیڈیل لسٹ میں شامل ہے جو آج خود کو کسی بلند مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی طرح تعلیم اور شاعری کے شعبے میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں۔ اس کےلیے یہ علم رکھنا بہت ضروری ہے کہ کس طرح اقبالؒ نے اپنے تعلیمی دور کا آغاز کیا اور اپنا بلند مقام بنایا۔
6 مئی 1893 میں اقبالؒ نے میٹرک کیا، 1895 میں ایف اے، اور مزید تعلیم کی غرض سے لاہور تشریف لے آئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے کو ترجیح دی۔ اپنے لیے عربی، فلسفہ اور انگریزی کے مضامین منتخب کیے۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری جیسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے۔ اس وقت اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون و اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔ 1898 میں اقبالؒ نے بی اے پاس کیا اور ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا۔ یہاں پروفیسر ''ٹی ڈبلیو آرنلڈ'' کا ساتھ میسر آیا جنہوں نے آگے چل کر اقبالؒ کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔
مارچ 1899 میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کرلی۔ اس دوران شاعری کا سلسلہ بھی پروان چڑھتا رہا لیکن وہ مشاعروں میں جانے کو کم ہی ترجیح دیتے تھے۔ نومبر 1899 کی ایک شام کچھ بے تکلف دوست (جنہیں اقبالؒ کا ہم جماعت کہا جاسکتا ہے) انہیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں لےگئے۔ بڑے بڑے سکہ بند اساتذہ، اپنے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے۔ سننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبالؒ چونکہ بلکل نئے تھے اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے طور پر پکارا گیا۔ غزل پڑھنی شروع کی اور جب اس شعر پر پہنچے کہ
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
تو اچھے اچھے استاد اچھل پڑے۔ بے اختیار ہوکر داد دینے لگے۔ یہاں سے پھر اقبالؒ کی شہرت کا آغاز بحیثیت شاعر ہوا۔ مشاعروں میں بالاصرار بلائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن جماعت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبالؒ کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے بگڑے کاموں کو آسان کر دیا اور سنوار دیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں اقبالؒ کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبالؒ 13 مئی 1899 کو اورینٹل کالج میں ''میکلو عربک ریڈر'' کی حیثیت سے متعین ہوئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ تقریباً چار سال تک یہاں رہے۔
ایک مرتبہ طلبا کا ایک گروپ ان سے ملنے آیا، انہوں نے عجیب سا سوال کردیا کہ آپ کو نوبل پرائز کیوں نہیں ملا؟ طلبا کا خیال تھا کہ جب دنیا کی بڑی بڑی سرکردہ شخصیتوں کو نوبل پرائز مل سکتا ہے تو اقبالؒ اس قدر ممتاز اور مشہور شخصیت ہونے کے باوجود اس اعزاز سے کیوں محروم ہیں۔ علامہؒ نے جواب دیا کہ اگر مجھے نوبل پرائز مل چکا ہوتا تو پھر مجھ سے سوال کیا جاتا کہ میں نے کونسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جن پر اس کا مستحق سمجھا گیا ہوں... لیکن نہ ملنے پر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آپ پنجاب، علی گڑھ، آلہ آباد، اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن تھے تو آپ کا اٹل اصول تھا کہ سفارش کسی قریب ترین دوست کی بھی قبول نہ کرتے، ساری زندگی اپنے اصولوں کے پابند رہے۔ نوجوانوں کےلیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ اصولوں پر استقلال سے چلتے رہنا ہی کامیابی کا لازمی جزو ہے۔ تب ہی انسان زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
6 مئی 1893 میں اقبالؒ نے میٹرک کیا، 1895 میں ایف اے، اور مزید تعلیم کی غرض سے لاہور تشریف لے آئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے کو ترجیح دی۔ اپنے لیے عربی، فلسفہ اور انگریزی کے مضامین منتخب کیے۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری جیسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے۔ اس وقت اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون و اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔ 1898 میں اقبالؒ نے بی اے پاس کیا اور ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا۔ یہاں پروفیسر ''ٹی ڈبلیو آرنلڈ'' کا ساتھ میسر آیا جنہوں نے آگے چل کر اقبالؒ کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔
مارچ 1899 میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کرلی۔ اس دوران شاعری کا سلسلہ بھی پروان چڑھتا رہا لیکن وہ مشاعروں میں جانے کو کم ہی ترجیح دیتے تھے۔ نومبر 1899 کی ایک شام کچھ بے تکلف دوست (جنہیں اقبالؒ کا ہم جماعت کہا جاسکتا ہے) انہیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں لےگئے۔ بڑے بڑے سکہ بند اساتذہ، اپنے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے۔ سننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبالؒ چونکہ بلکل نئے تھے اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے طور پر پکارا گیا۔ غزل پڑھنی شروع کی اور جب اس شعر پر پہنچے کہ
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
تو اچھے اچھے استاد اچھل پڑے۔ بے اختیار ہوکر داد دینے لگے۔ یہاں سے پھر اقبالؒ کی شہرت کا آغاز بحیثیت شاعر ہوا۔ مشاعروں میں بالاصرار بلائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن جماعت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبالؒ کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے بگڑے کاموں کو آسان کر دیا اور سنوار دیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جس میں اقبالؒ کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبالؒ 13 مئی 1899 کو اورینٹل کالج میں ''میکلو عربک ریڈر'' کی حیثیت سے متعین ہوئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ تقریباً چار سال تک یہاں رہے۔
ایک مرتبہ طلبا کا ایک گروپ ان سے ملنے آیا، انہوں نے عجیب سا سوال کردیا کہ آپ کو نوبل پرائز کیوں نہیں ملا؟ طلبا کا خیال تھا کہ جب دنیا کی بڑی بڑی سرکردہ شخصیتوں کو نوبل پرائز مل سکتا ہے تو اقبالؒ اس قدر ممتاز اور مشہور شخصیت ہونے کے باوجود اس اعزاز سے کیوں محروم ہیں۔ علامہؒ نے جواب دیا کہ اگر مجھے نوبل پرائز مل چکا ہوتا تو پھر مجھ سے سوال کیا جاتا کہ میں نے کونسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جن پر اس کا مستحق سمجھا گیا ہوں... لیکن نہ ملنے پر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آپ پنجاب، علی گڑھ، آلہ آباد، اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن تھے تو آپ کا اٹل اصول تھا کہ سفارش کسی قریب ترین دوست کی بھی قبول نہ کرتے، ساری زندگی اپنے اصولوں کے پابند رہے۔ نوجوانوں کےلیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ اصولوں پر استقلال سے چلتے رہنا ہی کامیابی کا لازمی جزو ہے۔ تب ہی انسان زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔