چوہدری نثار کے پلان
اسلام آباد کہنے میں تو ایک چھوٹا سا شہر ہے مگر اس کے ہر کونے میں مگرمچھوں کے اڈے ہیں۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
KARACHI:
چوہدری نثار علی خان کی طرف سے داخلی امور سے متعلق جاری کردہ ابتدائی اصلاحات قابل تعریف ہیں۔ پولیس فوج اور رینجرز کو ذاتی ملازموں کی طرح تحفظ پر مامور کرنے کی روایت کا خاتمہ ضروری تھا۔ ایسے وقت میں جب عام شہری جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر ہو، محافظوں کو وی وی آئی پیز کی حفاظت کا حصار بنے ہوئے دیکھ کر جی جلتا تھا اور حیرت بھی ہوتی تھی کہ اس ملک میں حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں۔ اس طرح دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے نام پر دارالحکومت کی ہر سڑک کا بغداد میں امریکی سفارت خانے کا منظر پیش کرنا قومی تضحیک ہی تھا اور وسائل کا زیاں بھی۔
نہ صرف سفر درد سر بن چکا تھا بلکہ ان ناکوں نے شہریوں کا ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ بعض جگہیں رشوت بٹورنے کے پلیٹ فارم بن چکی ہیں۔ ٹول پلازوں کا خاتمہ بھی احسن قدم ہے۔ شہر میں آتے ہوئے جیل نما اور بے ڈھب چوکھٹوں میں سے گزرنے کا عمل ویسے بھی ذ ہنی عدم تحفظ کا باعث بن جاتا تھا۔ اور پھر کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ روزانہ لاکھوں روپے کی آمدن کدھر جاتی ہے؟ ہر گاڑی سے دس دس روپے کس قانون کے تحت وصول کیے جاتے ہیں؟ اور ادا نہ کرنے پر گاڑیوں کو روکنے کی طاقت ان ملازمین کو کس نے دی؟ اسلحے کے لائسنس کے اجراء اور اسلحے کی نمائش سے متعلق پالیسی کو منظم انداز سے لاگو کرنے کی ضرورت سے بھی کسی کو انکار نہیں مگر اس شعبے میں اسلحہ رکھنے کی ضرورت کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔
نجی گارڈز کے پاس موجود جدید ہتھیا ر بھی اتنے ہی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں جتنا گاڑی میں رکھا ہوا پستول یا بھاری اسلحہ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ جب پولیس شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہو تو ذاتی حفاظت کا کوئی نہ کوئی بندوبست تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ گھروں میں موجود اسلحہ اس وقت تک زندگی کا حصہ رہے گا جب تک چادر، چار دیواری اور حلال روزی کمانے والے ریاستی اداروں کے توسط سے خود کو محفوظ نہ سمجھیں گے۔ اس وجہ سے اسلحہ سے متعلق اقدامات کو کامیاب بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی کارکردگی کو بڑھائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
قومی سیکیورٹی پالیسی کو موثر بنانے کے لیے خفیہ اداروں کے معاملات کو سدھارنے اور ان کے کام میں ہم آہنگی لانے کا چیلنج بھی جلد سر کرنے کی ضرورت ہے۔ گمشدہ افراد کے مسئلے کے لیے کمیٹی بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی اگر یہ تمام ادارے اپنی کارروائیوں کو شفاف اور ایک جیسے قومی مفادات کے حصول کے لیے وضع کرتے۔ سویلین اور فوجی خفیہ اداروں کے درمیان ہر وقت کی چپقلش اور دونوں کی صلاحیتوں میں غلام اور آقا جیسا فرق مٹانے کی ضرورت بھی سب پر نمایاں ہے۔
مگر پھر یہ تمام اقدامات، خواہش، وعدے اور پلان پریس کانفرنسز میں تو ہمیشہ سے اچھے ہی لگتے رہے ہیں۔کیمروں کے سامنے تو رحمان ملک بھی معتبر دکھائی دیتے تھے اگرچہ ان کی کارکردگی سے اس ملک کے دوست ناراض اور دشمن مطمئن تھے۔ چوہدری نثار علی خان ظاہر ہے رحمان ملک نہیں ہیں۔ وہ ایک سخت گیر اور بد عنوانی کے شائبے سے پاک شہرت کے حامل عوامی سیاستدان ہیں جن کو اپنی عزت، اپنی پارٹی کی نیک نامی اور اس ملک کی فلاح عزیز ہے۔ مگر اس کے باوجود ان کا اصل امتحان عملی کارکردگی دکھانے اور ان اقدامات کو حقیقت کا روپ دینے میں پنہاں ہے۔
اسلام آباد کہنے میں تو ایک چھوٹا سا شہر ہے مگر اس کے ہر کونے میں مگرمچھوں کے اڈے ہیں۔ قبضہ گروپ ہوں،اغوا برائے تاوان مافیا، غیر قانونی کاروبار کرنے والے ہوں یا غیر ملکی سفارتکار جو یہاں کی سڑکوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، یہ سب یہاں آباد ہیں۔ اس شہر میں بدعنوان افسر شاہی (جس کی بہتر ین مثال CDA ہے) اور پٹواری اتنا ہی طاقتور ہے جتنا یہاں کا ایس ایچ او۔ اسی شہر میں حفیہ اداروں کا سکہ بھی چلتا ہے اور ان بڑ ے ہوٹلوں کا ڈنڈا بھی جو اپنی من پسند سڑکو ں پر ایسے قبضہ کر لیتے ہیں جیسے طالبان کسی زمانے میں چیک پوسٹوں پر کیا کر تے تھے۔
اس شہر کو ان تما م آلائشوں اور رکاوٹوں سے پاک کیے بغیر چوہدری نثار کامیابی کی اُڑان نہیں بھر سکتے اور نہ ہی ان کی حکومت یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ انتخابات کے بعد ملک میں حقیقی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے۔ چوہدری صاحب نے اسلام آباد میں پولیس تھانوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے اور زمین کے ریکارڈ کو پٹواری کے لٹھے سے اٹھا کر سوفٹ ویئر کے تابع کر نے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ خدا کر ے یہ ارادہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اس سے آدھے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔
چوہدری نثار نے کراچی میں قتل و غارت کا نو ٹس بھی لیا اور اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے مطابق سندھ حکومت کو ایک ماہ میں ٹارگٹ کلنگ نہ روکنے کی صورت میں مرکز کی طرف سے ممکنہ اقدامات کا بھی اشارہ دیا۔ یہ معاملہ ہے تو اہم اور فوری طور پر حل طلب بھی مگر اس کے گرد گھومتی ہوئی بے اصول سیاست اس قسم کے بیانات کو مرکز اور صوبوں کے درمیان خواہ مخواہ کے تنازعے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اگر مرکز اپنی آئینی سرحدوں کی آخری حدود کو چھونے پر مائل ہو چکا ہے تو اس سے متعلق بیانات وزیر اعظم کی طرف سے آنے چاہئیں۔ اگرچہ رینجرز کی حد تک اختیار وزارت داخلہ کا بنتا ہے۔
امن و امان قائم کی کوئی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو گی، جب تک ہم جرائم اور قا نون شکنی کی سب سے بڑ ی شاہراہ کو قابو میں نہیں لائیں گے اور وہ ہے ہمار ے ائیرپورٹ اور وہ تما م راستے جن سے ہمار ے شہر آپس میں اور ہمارا ملک بیرونی دنیا سے آمد و رفت کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ شاہراہیں سنبھالنا تو شاید ایک طویل المدت منصوبہ ہے مگر ہوائی اڈے پر متعین اسٹاف اور وہاں کے نظام کو فوری طور پر درست کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ ہو گا کیسے؟ ہوائی اڈوں پر سیکیورٹی کے نظام کو تو شاید شجاع عظیم دیکھ رہے ہیں۔
اور ہم شجاع عظیم کو د یکھ ر ہے ہیں، جو جنرل مشرف کی ٹیم میں بھی شامل تھے اور اب میاں نواز شریف کی ٹیم میں شامل ہو کر اہم ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ یقیناً چوہدری نثار کی ذمے داریاں ان حدود سے باہر ہیں جہاں سے سول ایوی ایشن ڈویژن کا آغاز ہوتا ہے۔ مگر شاید ایک مربوط سیکیورٹی پلان بنانے کے لیے ائیر پورٹس کے معاملات کو بھی وزارت داخلہ کے تابع کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا ہم یہ معمہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی شخص کورٹ مارشل ہونے کے باوجود اہم منصب پر کیسے فائز ہو سکتا ہے؟