آئی ایم ایف اور ہمارا سیاسی منڈوا
خود کفیل ہیں کسی عالمی ادارے کے خواہ مخواہ مقروض کیوں بنیں۔
ISLAMABAD:
عالمی اسلامی شعور بیدار ہوا تو پتہ چلا کہ ہمارے شمال میں افغانستان سے آگے ایک وسیع اسلامی دنیا موجود ہے جو کئی ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے اور سمر قند و بخارا بھی اسی دنیا کے شہر ہیں۔ روس جیسے مسلمان دشمن ملک نے ان ریاستوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ مثلاً زبان اور رسم الخط تک بدل دیے گئے ہیں اور بھی بہت کچھ۔
شمال کی یہ مسلم دنیا امیر تیمور اور امام بخاری سے وابستہ ہمارے خوابوں کی دنیا رہی اور پھر ایسا ہوا کہ پاکستان نے روس کے سیاسی دشمن امریکا جیسے ملکوں سے مدد لے کر نہ صرف ان ریاستوں کو آزاد کرایا بلکہ ان پر قابض سوویت یونین کا نام تک ختم کر دیا۔ اب یہ نام صرف تاریخ کی کتابوں کا موضوع ہے بہر حال سوویت یونین ایک الگ موضوع ہے میں اس وقت 1990ء کا ذکر کر رہا ہوں جب دنیا نے ان مسلمان ریاستوں کو آزاد دیکھا اور وہ آوازیں سنیں جو ان ریاستوں کے شہروں میں ایستادہ لینن اور اسٹالین وغیرہ کے بت گرانے سے پیدا ہوئیں اور اس پر مسلمانوں کی یہ دنیا آزادی کے نعروں سے گونج اٹھی۔ میں ایک برس بعد 1991ء میں اسلام آباد سے چند قدم دور تاشقند پہنچا۔ اسلام آباد سے کراچی اس سے زیادہ فاصلہ پر ہے۔
اس وقت میں آپ کو اپنی اس یاد گار سیاحت کا حال نہیں سنانا چاہتا بلکہ ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو مجھے ان دنوں IMF کے ذکر سے یاد آ رہا ہے۔ ازبکستان میں ہمارے بابو قسم کے سفیر کو اسلام آباد سے ہدایات ملیں کہ اس نام کا ایک پاکستانی صحافی تاشقند جا رہا ہے وہاں اس کے قیام کے دوران اس کی عزت افزائی ضروری ہے چنانچہ ایک رات کھانے کی دعوت ملی اور دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ سفیر موصوف نے پہلے تو مجھ سے پوچھا کہ آپ کون اور کیا ہیں کہ اسلام آباد سے آپ کے لیے فون پر فون چلے آ رہے ہیں۔ میں نے انھیں اپنے نام اور پیشے سے زیادہ کچھ نہیں بتایا کہ یہ مزید کچھ جاننے کے اہل ہی نہیں تھے۔
اس دعوت میں ہمارے ایک ریٹائرڈ سی ایس پی افسر بھی موجود تھے جن سے میرا تعارف تھا میری درخواست پر انھوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں ریٹائرمنٹ کے بعد IMF کے لیے کام کر رہے ہیں اور اسی سلسلے میں ازبکستان آئے ہیں کیونکہ یہ ریاست ہم سے قرض لینے سے انکار کر رہی ہے اور کہتی کہ ہمیں قرض کی ضرورت ہی نہیں، خود کفیل ہیں کسی عالمی ادارے کے خواہ مخواہ مقروض کیوں بنیں۔ اس پاکستانی افسر نے ہنس کر کہا میں انھیں پھنسانے آیا ہوں۔ اچھا خاصا لالچ لے کر۔
اس افسر کو کامیابی ہوئی یا نہیں مجھے اس سے غرض نہیں تھی لیکن آج جب ہم ازبکستان سے کہیں زیادہ وسائل اور دولت خیزی کے مالک ہیں بھکاری بن کر اس عالمی مالیاتی ادارے کی خوشامد کر رہے ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ ہم اس گداگری میں کامیاب رہے ہیں۔ اس ادارے نے ہمیں اس طرح پھنسا رکھا ہے کہ ہم اس کے آہنی چنگل سے نکل نہیں سکتے۔ نکلنے کی کوشش کریں تو امریکا موجود ہے جو اس ادارے کا سرپرست اعلیٰ ہے ہمیں اگر کبھی کوئی درویش قلندر اور بدتمیز حکمران نصیب ہوا تو ہم شاید اس ادارے سے باہر آنے کا کوئی راستہ تلاش کر سکیں۔
ہوتا تو یہ بھی رہا ہے کہ یہ عالمی قرضے ہمارے اوپر سے نیچے تک کے لوگ کھا گئے ہیں اور ادھار ملک کے گلے میں ڈال دیا۔ میں معاشیات سے بالکل نابلد ہوں اور بے سروسامان زندگی گزارنے کا عادی ہوں۔ ہماری حکومت کو چند دن ہی ہوئے ہیں اور یہ کفائت شعاری کی طرف مائل نظر آتی ہے لیکن حکمران اور وزراء وغیرہ سے کسی قلندرانہ صفت کی توقع سراسر حماقت ہے پہلے تو سرکاری شاہانہ اخراجات تھے اب ان میں کمی آ رہی ہے اور یہ بھی غنیمت ہے۔ ممکن ہے چند قطرے عوام کے خشک ہونٹوں تک بھی پہنچ کر انھیں تر کر دیں تا کہ وہ زندہ باد کے نعرے لگا سکیں۔
قرض کے اس سرسری سے ذکر کے بعد ایک حیران کن واقعہ دہراتا ہوں کہ گزشتہ دنوں ایک بہروپئے جلسوں پر پاکستان تشریف لائے۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کے جلسوں کے سلسلے میں حکومت پاکستان کے پندرہ کروڑ روپے صرف ہوئے ہیں۔ ان کے دھواں دھار جلسوں کو دیکھ کر سیاستدانوں نے کہا کہ ان پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ وہ سیاستدان تھے جو جلسے کرتے آئے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے اخراجات عموماً کیا ہوتے ہیں ویسے بہت ہی پرانے زمانوں کی بات میں کروں تو موچی دروازے پر جلسے کے انتظامات صرف سو ڈیڑھ سو روپے میں ہو جاتے تھے۔ ایک تو زمانہ سستا تھا صرف پچاس ساٹھ روپے لائوڈ اسپیکر کا کرایہ ہوتا تھا اور کچھ خرچ اسٹیج کی کرسیوں پر۔ ہم رپورٹر تو بعض اوقات کرسی کم پڑنے پر قریب کے تھانے سے مانگ لیتے تھے۔
اس طرح جلسہ ہو جاتا تھا لیکن آج تو سیاسی جلسے جلوس کے اتنے لوازمات ہو گئے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کروڑوں تک تو میڈیا کو دینا ہوتا ہے پروپیگنڈے کے دوسرے طریقے الگ ہیں جو بہت مہنگے ہیں۔ میں نے آج کے زبردست جلسوں کو دیکھ اور پرانے جلسے یاد کیے تو سوچا کہ پرانے زمانے میں لیڈروں کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا تھا اور لوگ شوق کے ساتھ ان کے خیالات سننے آتے تھے۔ خود بخود پیدل چل کر یا کسی ٹانگے پر اب تو دنیا ہی بدل گئی ہے۔ گاڑیوں کی ہی میلوں تک قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اب جلسوں میں رقص اور موسیقی بھی رائج ہو گئی ہے اور نہ جانے کیا کچھ تب کہیں جا کر مصرع تر کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ اب نیا انکشاف یہ ہوا ہے کہ جہاں جلسہ والوں نے اربوں خرچ کر دیے وہاں اس ملک کے غریبوں کے بھی پندرہ کروڑ خرچ ہو گئے۔ یعنی ہم نے اپنے خرچ پر یہ منڈوا دیکھا۔
عالمی اسلامی شعور بیدار ہوا تو پتہ چلا کہ ہمارے شمال میں افغانستان سے آگے ایک وسیع اسلامی دنیا موجود ہے جو کئی ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے اور سمر قند و بخارا بھی اسی دنیا کے شہر ہیں۔ روس جیسے مسلمان دشمن ملک نے ان ریاستوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ مثلاً زبان اور رسم الخط تک بدل دیے گئے ہیں اور بھی بہت کچھ۔
شمال کی یہ مسلم دنیا امیر تیمور اور امام بخاری سے وابستہ ہمارے خوابوں کی دنیا رہی اور پھر ایسا ہوا کہ پاکستان نے روس کے سیاسی دشمن امریکا جیسے ملکوں سے مدد لے کر نہ صرف ان ریاستوں کو آزاد کرایا بلکہ ان پر قابض سوویت یونین کا نام تک ختم کر دیا۔ اب یہ نام صرف تاریخ کی کتابوں کا موضوع ہے بہر حال سوویت یونین ایک الگ موضوع ہے میں اس وقت 1990ء کا ذکر کر رہا ہوں جب دنیا نے ان مسلمان ریاستوں کو آزاد دیکھا اور وہ آوازیں سنیں جو ان ریاستوں کے شہروں میں ایستادہ لینن اور اسٹالین وغیرہ کے بت گرانے سے پیدا ہوئیں اور اس پر مسلمانوں کی یہ دنیا آزادی کے نعروں سے گونج اٹھی۔ میں ایک برس بعد 1991ء میں اسلام آباد سے چند قدم دور تاشقند پہنچا۔ اسلام آباد سے کراچی اس سے زیادہ فاصلہ پر ہے۔
اس وقت میں آپ کو اپنی اس یاد گار سیاحت کا حال نہیں سنانا چاہتا بلکہ ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو مجھے ان دنوں IMF کے ذکر سے یاد آ رہا ہے۔ ازبکستان میں ہمارے بابو قسم کے سفیر کو اسلام آباد سے ہدایات ملیں کہ اس نام کا ایک پاکستانی صحافی تاشقند جا رہا ہے وہاں اس کے قیام کے دوران اس کی عزت افزائی ضروری ہے چنانچہ ایک رات کھانے کی دعوت ملی اور دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ سفیر موصوف نے پہلے تو مجھ سے پوچھا کہ آپ کون اور کیا ہیں کہ اسلام آباد سے آپ کے لیے فون پر فون چلے آ رہے ہیں۔ میں نے انھیں اپنے نام اور پیشے سے زیادہ کچھ نہیں بتایا کہ یہ مزید کچھ جاننے کے اہل ہی نہیں تھے۔
اس دعوت میں ہمارے ایک ریٹائرڈ سی ایس پی افسر بھی موجود تھے جن سے میرا تعارف تھا میری درخواست پر انھوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں ریٹائرمنٹ کے بعد IMF کے لیے کام کر رہے ہیں اور اسی سلسلے میں ازبکستان آئے ہیں کیونکہ یہ ریاست ہم سے قرض لینے سے انکار کر رہی ہے اور کہتی کہ ہمیں قرض کی ضرورت ہی نہیں، خود کفیل ہیں کسی عالمی ادارے کے خواہ مخواہ مقروض کیوں بنیں۔ اس پاکستانی افسر نے ہنس کر کہا میں انھیں پھنسانے آیا ہوں۔ اچھا خاصا لالچ لے کر۔
اس افسر کو کامیابی ہوئی یا نہیں مجھے اس سے غرض نہیں تھی لیکن آج جب ہم ازبکستان سے کہیں زیادہ وسائل اور دولت خیزی کے مالک ہیں بھکاری بن کر اس عالمی مالیاتی ادارے کی خوشامد کر رہے ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ ہم اس گداگری میں کامیاب رہے ہیں۔ اس ادارے نے ہمیں اس طرح پھنسا رکھا ہے کہ ہم اس کے آہنی چنگل سے نکل نہیں سکتے۔ نکلنے کی کوشش کریں تو امریکا موجود ہے جو اس ادارے کا سرپرست اعلیٰ ہے ہمیں اگر کبھی کوئی درویش قلندر اور بدتمیز حکمران نصیب ہوا تو ہم شاید اس ادارے سے باہر آنے کا کوئی راستہ تلاش کر سکیں۔
ہوتا تو یہ بھی رہا ہے کہ یہ عالمی قرضے ہمارے اوپر سے نیچے تک کے لوگ کھا گئے ہیں اور ادھار ملک کے گلے میں ڈال دیا۔ میں معاشیات سے بالکل نابلد ہوں اور بے سروسامان زندگی گزارنے کا عادی ہوں۔ ہماری حکومت کو چند دن ہی ہوئے ہیں اور یہ کفائت شعاری کی طرف مائل نظر آتی ہے لیکن حکمران اور وزراء وغیرہ سے کسی قلندرانہ صفت کی توقع سراسر حماقت ہے پہلے تو سرکاری شاہانہ اخراجات تھے اب ان میں کمی آ رہی ہے اور یہ بھی غنیمت ہے۔ ممکن ہے چند قطرے عوام کے خشک ہونٹوں تک بھی پہنچ کر انھیں تر کر دیں تا کہ وہ زندہ باد کے نعرے لگا سکیں۔
قرض کے اس سرسری سے ذکر کے بعد ایک حیران کن واقعہ دہراتا ہوں کہ گزشتہ دنوں ایک بہروپئے جلسوں پر پاکستان تشریف لائے۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کے جلسوں کے سلسلے میں حکومت پاکستان کے پندرہ کروڑ روپے صرف ہوئے ہیں۔ ان کے دھواں دھار جلسوں کو دیکھ کر سیاستدانوں نے کہا کہ ان پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ وہ سیاستدان تھے جو جلسے کرتے آئے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے اخراجات عموماً کیا ہوتے ہیں ویسے بہت ہی پرانے زمانوں کی بات میں کروں تو موچی دروازے پر جلسے کے انتظامات صرف سو ڈیڑھ سو روپے میں ہو جاتے تھے۔ ایک تو زمانہ سستا تھا صرف پچاس ساٹھ روپے لائوڈ اسپیکر کا کرایہ ہوتا تھا اور کچھ خرچ اسٹیج کی کرسیوں پر۔ ہم رپورٹر تو بعض اوقات کرسی کم پڑنے پر قریب کے تھانے سے مانگ لیتے تھے۔
اس طرح جلسہ ہو جاتا تھا لیکن آج تو سیاسی جلسے جلوس کے اتنے لوازمات ہو گئے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کروڑوں تک تو میڈیا کو دینا ہوتا ہے پروپیگنڈے کے دوسرے طریقے الگ ہیں جو بہت مہنگے ہیں۔ میں نے آج کے زبردست جلسوں کو دیکھ اور پرانے جلسے یاد کیے تو سوچا کہ پرانے زمانے میں لیڈروں کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا تھا اور لوگ شوق کے ساتھ ان کے خیالات سننے آتے تھے۔ خود بخود پیدل چل کر یا کسی ٹانگے پر اب تو دنیا ہی بدل گئی ہے۔ گاڑیوں کی ہی میلوں تک قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اب جلسوں میں رقص اور موسیقی بھی رائج ہو گئی ہے اور نہ جانے کیا کچھ تب کہیں جا کر مصرع تر کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ اب نیا انکشاف یہ ہوا ہے کہ جہاں جلسہ والوں نے اربوں خرچ کر دیے وہاں اس ملک کے غریبوں کے بھی پندرہ کروڑ خرچ ہو گئے۔ یعنی ہم نے اپنے خرچ پر یہ منڈوا دیکھا۔