طالبات پھر نشانے پر

انتہا پسند مذہبی عناصر کی جانب سے طالبات کو نشانہ بنانے کی کہانی خاصی پرانی ہے۔

tauceeph@gmail.com

کوئٹہ میں طالبات کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا۔ خودکش دھماکے نے 25 افراد کی جان لے لی۔ ذرایع ابلاغ کا کہنا ہے کہ لشکر جھنگوی کی ایک خاتون خودکش حملہ آور نے طالبات کو نشانہ بنایا اور پھر زخمیوں اور ان کی عبادت کرنے والوں سے زندگی کا حق چھین لیا، اس ہی دن زیارت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیام گاہ کو نذر آتش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سردار بہادر خواتین یونیورسٹی کی بس پر حملے کی ذمے داری ان لوگوں پر عائد کی جو خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کوئٹہ میں دہشت گردی کو سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا۔

انھوں نے نئی سیکیورٹی پالیسی بنانے کے لیے گول میز کانفرنس کے انعقاد کا بھی عندیہ دیا۔ کوئٹہ میں خواتین یونیورسٹی کی بس پر خودکش بم دھماکے کے بعد بولان میڈیکل کمپلیکس میں دہشت گردی کو بعض صحافی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے قتل کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک گزشتہ 2 ماہ سے دہشت گردوں کے ٹارگٹ پر ہیں۔ گزشتہ ماہ انتخابی مہم کے دوران ان کے گھر پر حملہ ہوا پھر ان کی کار کو نقصان پہنچایا گیا۔ باخبر صحافی یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر مالک فوری طور پر بم دھماکے بعد بولان میڈیکل کمپلیکس چلے جاتے تو کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر کے بجائے وہ اس حملے کا نشانہ بن جاتے۔

انتہا پسند مذہبی عناصر کی جانب سے طالبات کو نشانہ بنانے کی کہانی خاصی پرانی ہے۔ کابل پر ملا عمر کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب عرب اور وسطی ایشیائی ممالک نے انتہا پسندوں کو شمالی وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں اپنی کمین گاہیں بنانے کا موقع فراہم کیا گیا تو ان انتہا پسندوں نے سب سے پہلے قبائلی علاقوں میں خواتین کے اسکولوں اور کالجوں کو نشانہ بنایا، پھر اقلیتی فرقوں کی عبادت گاہوں کو تباہ کیا جانے لگا، خواتین اساتذہ و طالبات کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے تعلیم سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔

کوئٹہ میں خواتین طالبات اور اساتذہ اور ہزارہ برادری کے افراد ان انتہا پسندوں کا مسلسل براہ راست نشانہ بن رہے ہیں۔ صرف تین سال کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بلوچستان یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سردار بہادر خواتین یونیورسٹی کے بہت سی اساتذہ، طالبات اور متعدد خودکش حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ انتہا پسندی کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے طالب علموں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ خواتین کا تعلیم حاصل کرنا اور زندگی کی دوڑ میں شریک ہونا ان انتہا پسندوں کے نزدیک سنگین جرم ہے۔

ان صاحبان علم کا کہنا ہے کہ سوات کی طالبہ ملالہ یوسف زئی کا جرم صرف یہ تھا کہ سوات پر طالبان کے قبضے کا آنکھوں دیکھا حال بی بی سی اردو سروس کی ویب سائٹ پر رقم کیا تھا مگر سوات میں فوجی آپریشن کے بعد ملالہ نے اپنی ساتھیوں کے ہمراہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول جانا شروع کیا تھا، ملالہ کی یہ جرات تھی کہ ان انتہا پسندوں نے اس سے زندگی کا حق چھیننے کی کوشش کی مگر عسکری اسٹبلشمنٹ سے طاقت حاصل کرنے والے دائیں بازو کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر ملالہ کے خلاف ایک مذموم مہم شروع کی تھی اور ملالہ پر حملے کو جعلی قرار دینے کی کوشش کی۔


یہ مہم بالکل اس نوعیت کی تھی جو سوات میں ایک نوجوان لڑکی کو کوڑے مارنے کی وڈیو کے خلاف چلائی گئی تھی مگر ملالہ پر حملے کو جعلی قرار دینے والے ان عقل کے دشمنوں کے لیے اب سردار بہادر یونیورسٹی کی معصوم طالبات اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں مریضوں کو قتل کرنے کے واقعے کو جعلی قرار دینے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اب یہ لوگ کوئٹہ کی اس دہشت گردی کو بھارت اور امریکا کی سازش قرار دینے کی کوشش کر کے گزارا کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کا بھی مضحکہ خیز بیان لوگوں کو مایوس کر رہا ہے، سید منور حسن طالبان اور انتہا پسندوں کی مذمت کرنے کی جرأت نہیں کر پاتے یوں وہ اس واقعے میں بھارت کے کردار کا ذکر کر کے انتہا پسندوں کو ایکسپوز ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بلوچستان اور عسکری مقتدرہ کے بارے میں تجزیہ کرنے والے صحافی زیارت میں محمد علی جناح کی ریذیڈنسی اور کوئٹہ میں دہشت گردوں کے واقعات کو وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک کے لاپتہ افراد کے کیمپ میں جانے اور احتجاج کرنے والوں سے یکجہتی کے خلاف مقتدرہ کا ردعمل قرار دے رہے ہیں مگر وزیر داخلہ چوہدری نثار کی یہ بات بہت زیادہ اہم ہے کہ زیارت اور کوئٹہ کے واقعات سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔ کوئٹہ گزشتہ پانچ سال سے سیکیورٹی ایجنسیوں کے حصار میں ہے۔

کوئٹہ کی دونوں بڑی سڑکوں بیروری روڈ اور سریاب روڈ کے علاوہ تمام اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے چوکیاں قائم ہیں، ان چوکیوں پر پولیس اور فرنٹیئر کانسٹبلری کے جوان نگراں کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ کوئٹہ کے صحافی کہتے ہیں اس سیکیورٹی کے حصار کے باوجود کوئٹہ میں اسلحہ اور بارود کی نقل و حمل اور خواتین کی بس میں ریموٹ کنٹرول بم کی تنصیب اور پھر جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح افراد کے بولان میڈیکل کمپلیکس پر قبضے سے کسی اور کہانی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اسلحہ اور بارود افغانستان یا ایران کی سرحد یا پنجاب سے کوئٹہ میں اسمگل ہوا ہو گا مگر اتنے بھاری اسلحے اور بارود کا کوئی بھی ایجنسی پتہ نہیں چلا سکی۔

دہشت گردی کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان انتہا پسندوں نے بولان میڈیکل کمپلیکس کی ریکی ضرور کی ہو گی کیونکہ دہشت گردی کے منصوبے کی کامیابی کے لیے ریکی ضروری ہوتی ہے، مگر پولیس اور متعلقہ عملہ اس ریکی کا پتہ چلانے میں ناکام رہا۔ گزشتہ دو سال کے دوران کوئٹہ کے سیکیورٹی زون میں ایف سی کے کمانڈنٹ اور آئی جی کی رہائش گاہوں پر ہونے والے حملوں کی سنجیدگی سے تحقیقات ہوتی تو پھر 15 جون کو اتنے سارے بے گناہ دہشت گردی کا شکار نہ ہوتے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مقتدرہ قوتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ انتہا پسندوں کی سرپرستی کرتا ہے، انتہا پسندوں کو سیکیورٹی ایجنسیوں کے اندرونی نظام سے مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر کو دہشت گردوں سے محفوظ نہیں کیا جا سکا۔ مگر پولیس اور فرنٹیئر کانسٹبلری کے جوانوں کی شہادتوں کے باوجود اس ناکامی کی ذمے داری پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی ہی ہو گی۔ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ نئی سیکیورٹی پالیسی کو تیار کرنے سے پہلے اس ناکامی کی وجوہات کو جاننا ضروری ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں نے کوئٹہ کے اطراف میں اپنی کمین گاہیں قائم کی ہوئی ہیں اور بعض با اثر سردار ان لوگوں کو پناہ دیتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان سرداروں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والوں نے بلوچستان کی تاریخی عمارت کو نذر آتش کر کے بلوچستان کے تاریخی ورثے کو تباہ کیا ہے جو بلوچستان کا نقصان ہے مگر ان علیحدگی پسندوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک کو مکمل طور پر خود مختار کیا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ان کی زیر نگرانی کام کریں، مسخ شدہ لاشوں اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو تاکہ صوبے میں امن و امان قائم ہو پھر عوام اس نئی سیکیورٹی پالیسی کی حمایت کریں گے، اس طرح بلوچستان میں ترقی کا نیا دور شروع ہو گا اور مذہبی انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
Load Next Story