بلوچستان میں دہشت گردی اور اس کا سدباب

ہمیں 1995ء کا وہ دور یاد آ گیا جب کوئٹہ میں امن و سکون تھا اور راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔


Shakeel Farooqi June 21, 2013
[email protected]

توقع کی جا رہی تھی کہ وفاق میں نئی حکومت کے باگ ڈور سنبھالنے اور اس کی مفاہمتی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے سب سے وسیع و عریض شورش زدہ صوبے بلوچستان میں، جو مدت دراز سے ایک چیستان بنا ہوا ہے، حالات بہتری کی جانب رخ اختیار کریں گے لیکن گزشتہ دنوں وہاں بدترین دہشت گردی کے واقعات نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور حکومت و حکومتی اہلکار محض تماشائی بن کر رہ گئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور ہر طرف Rule of Lawlessness اور اندھیر نگری چوپٹ راج کا سا سماں ہے۔

ہمیں 1995ء کا وہ دور یاد آ گیا جب کوئٹہ میں امن و سکون تھا اور راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں بحیثیت اسٹیشن ڈائریکٹر خدمت انجام دینے کا ہمارا یہ سنہری دور تھا۔ اسی زمانے میں سردار اختر مینگل صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے اور ہمارے قیام کے آخری ایام میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بلوچستان کا پہلا اور آخری طوفانی دورہ بھی کیا جس کی ہم نے اپنی OB ٹیم کے ساتھ اول تا آخر بھرپور کوریج کی تھی۔ بی بی صاحبہ کے اس تاریخی دورے کی خوشگوار یادیں ہمارے ذہن پر آج بھی نقش ہیں۔ اس وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حالات بدتری کی اس نہج پر بھی جا سکتے ہیں۔

محترم جسٹس امیر الملک مینگل صاحب بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے اور عوام کو خوب انصاف مل رہا تھا۔ ادھر چیف سیکریٹری کا عہدہ سید شاہد حسین جیسے تجربہ کار اور زیرک بیوروکریٹ نے سنبھالا ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کوئٹہ پریس کلب اور ریڈیو پاکستان گھر کا آنگن ہوا کرتے تھے اور پی آئی ڈی کوئٹہ کے دفتر میں محکمے کے ہر دلعزیز سربراہ شجاع زیدی کے یہاں ہماری محفلیں جما کرتی تھیں۔

کوئٹہ میں دہشت گردی کے حالیہ انسانیت سوز واقعے پر ہمارا دل آج بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔ یہ واقعہ انتہائی ہولناک ہی نہیں بلکہ حد سے زیادہ شرمناک بھی ہے۔ ہم جب اس واقعے کو اپنی چشم تصور سے دیکھتے ہیں تو ہمارے جسم پر ہی نہیں ہماری روح پر بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ایسا لرزہ تو ہم پر اس وقت بھی طاری نہیں ہوا تھا جب ہمارے قیام کے دوران فروری کے مہینے میں کوئٹہ کی تاریخ کا دوسرا ہولناک زلزلہ آیا تھا۔ سفاک دہشت گردوں نے درندوں کو بھی مات کر دیا اور انسانیت کی خدمت کے لیے ڈاکٹر بننے والی 14 طالبات، ایک ڈاکٹر اور 4 خدمت گزار نرسوں کو اپنے ظلم و ستم اور بربریت کا نشانہ بنا کر پوری انسانیت کی تذلیل کر دی۔ اور تو اور ان ظالموں نے ڈپٹی کمشنر اور 4 اہلکاروں کو بھی نہ بخشا اور دو چار نہیں پورے 29 معصوموں کو شہید کر دیا۔ دہشت گردوں کی یہ کارروائی انسانیت کے خلاف بدترین جرم ہی نہیں بلکہ ان کی سنگدلی کا بھی ثبوت ہے۔

دہشت گردوں نے دوسری بے حد قابل مذمت کارروائی زیارت ریزیڈنسی میں کی، جس کے نتیجے میں ہمارا انمول قومی اثاثہ دیکھتے ہی دیکھتے جل کر راکھ ہو گیا۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام اسی عمارت میں گزارے تھے۔ کوئٹہ میں اپنے طویل قیام کے دوران ہم جب بھی زیارت گئے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہم نے بابا خرواریؒ کے مزار اور ریزیڈنسی پر حاضری نہ دی ہو۔ ریزیڈنسی کی عمارت کا پورا نقشہ اس وقت بھی ہماری آنکھوں کے آگے گھوم رہا ہے اور دل یہ یقین کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ کوئی پاکستانی اس عظیم اور بے بدل تاریخی ورثے کو تباہ و برباد کرنے کا تصور بھی کر سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ریزیڈنسی کو دھماکوں سے اڑا کر دہشت گردوں نے یہ سگنل دیا ہے کہ وہ محض باغی نہیں بلکہ پاکستان کے وجود کے دشمن ہیں۔ ریزیڈنسی کی یہ عمارت محض لکڑی کا ڈھانچہ نہیں تھی بلکہ معمار پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت کی بھی ایک عظیم الشان علامت تھی۔ ریزیڈنسی دیکھنے سے قبل اکثر ذہن میں خیال آیا کرتا تھا کہ قائداعظم نے زیارت کا ہی انتخاب کیوں کیا تھا؟ کیونکہ دوران علالت وہ آرام کے لیے ملک کے کسی اور پُر فضا پہاڑی مقام پر بھی جا سکتے تھے؟ مگر جب اس پرُفضا مقام کو بہ نفس نفیس دیکھنے بلکہ اس کی زیارت کا موقع میسر آیا تو اپنے سوال کا خودبخود جواب مل گیا۔ زیارت کا انتخاب قائد نے اس لیے بھی کیا ہو گا کیونکہ انھیں بھی صوبہ بلوچستان سے بڑا گہرا لگاؤ تھا اور بلوچستان کے عوام بھی ان کے بڑے پرستار اور شیدائی تھے۔

زیارت ریزیڈنسی پر حملہ نظریہ پاکستان اور پوری پاکستانی قوم پر حملے کے مترادف ہے۔ اس حملے کے پس پشت ان ہی بین الاقوامی قوتوں کا ہاتھ ہے جو قیام پاکستان اور نظریہ پاکستان کی ازلی دشمن ہیں۔ یہ قوتیں ہرگز نہیں چاہتی تھیں کہ برصغیر تقسیم ہو اور مسلمانوں کی ایسی ریاست وجود میں آئے جہاں وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مکمل آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں آزادانہ طور پر بسر کر سکیں۔ مگر جب ان کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک خود مختار اور آزاد مملکت کی صورت میں ابھرا تو ان قوتوں نے اس مملکت نوزائیدہ کے خلاف سازشوں کے جال بچھانے شروع کر دیے۔

1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ ان ہی مذموم سازشوں کے سلسلے کی کڑی تھا۔ یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ وہی عناصر اب بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ عناصر اب بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) کو اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ بی ایل اے نے ریزیڈنسی پر لہرانے والے پاکستان کے قومی پرچم کو اتار کر اپنی علیحدگی پسند تنظیم کا پرچم لہرا دیا۔ یہ سانحہ بلوچستان کی نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے صرف چند روز بعد ہی رونما ہوا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وفاق میں برسر اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) نے عنان حکومت سنبھالتے ہی بلوچستان کے دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے تمام بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ ان رہنماؤں میں ناراض بلوچ رہنما بھی شامل ہیں۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نئی وفاقی حکومت اور بلوچستان کی نئی برسراقتدار حکومت بلوچستان کے پر امن حل کے لیے ایک ہی صفحے پر ہیں اور دونوں ہی اس معاملے میں اخلاص نیت کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ مدت دراز سے جاری ہے اور 2004ء سے 2013ء تک کے عرصے میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں جب کہ املاک کا نقصان اس کے علاوہ ہے جس میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں ہی قسم کی املاک شامل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور چوکیوں پر حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں، جس میں اب تک درجنوں اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔

قائداعظم کی ریزیڈنسی پر حملہ ایک چشم کشا سانحہ ہے، جس پر صرف صوبہ بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ سچ پوچھیے تویہ کارروائی پاکستان کی حکومت، ریاست اور محب وطن عوام کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ حملہ آوروں نے یہ کارروائی کر کے اتحاد و یکجہتی کو للکارا ہے۔ اس کارروائی پر پوری قوم انتہائی رنجیدہ و ملول اور سراپا احتجاج ہے۔ اس کے خلاف سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اتفاق رائے سے ایک قرارداد مذمت منظور کی گئی ہے ۔ دراصل اگر اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا گیا تو اسے حکومت کی کمزوری اور بزدلی سے تعبیر کیا جائے گا جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے حوصلے مزید بلند ہو سکتے ہیں۔

وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر ملک کی سلامتی اور سالمیت کے تحفظ کے لیے وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کا بھرپور ساتھ دے اور ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کی مہم میں سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔ اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ وطن عزیز اس وقت حالت جنگ میں ہے اور اس کی سالمیت اور خودمختاری کو شدید چیلنجز درپیش ہیں۔ چنانچہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بالکل بجا فرمایا کہ شدت پسندوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔

سچی بات یہ ہے کہ اب قراردادوں کا وقت گزر چکا اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور اور موثر آپریشن کا آغاز کیا جائے اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان تمام چینلز اور راستوں کو بھی بند کیا جائے جہاں سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے، اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں حکومت کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط تعاون کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔