صوبوں کے بجٹ اور عوام

پنجاب حکومت نے آیندہ مالی سال کے لیے 896 ارب 56 کروڑ 93 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا ہے.


ایم آئی خلیل June 21, 2013
[email protected]

اگر مرکزی حکومت کے اخراجات جس میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات دونوں شامل ہیں حکومتی وصولیوں سے بڑھ جائیں تو ایسے بجٹ کو مالیاتی خسارے والا بجٹ کہتے ہیں۔ اس بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کئی ذرایع اختیار کرتی ہے۔ ان میں اندرونی قرضے اور بیرونی قرضوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ نئے نوٹ چھاپے جاتے ہیں، ٹیکس کا دائرہ کار بڑھا دیا جاتا ہے، نئے ٹیکس عائد کردیے جاتے ہیں یا پہلے سے عائد ٹیکس کی شرح میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ لیکن ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر نہ پڑے۔ جب کہ جی ایس ٹی ایسا ٹیکس ہے جس کا بوجھ براہ راست عوام پر ہی پڑتا ہے۔ اگر وفاقی بجٹ کا ایک بڑا حصہ مالیاتی خسارے پر مبنی ہے تو تینوں صوبوں کے بجٹ میں بھی اربوں روپے کا مالیاتی خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت نے آیندہ مالی سال کے لیے 896 ارب 56 کروڑ 93 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا ہے جس میں مجموعی آمدنی 871 ارب 95 کروڑ روپے کی ظاہر کی گئی ہے۔ 25 ارب 61 کروڑ روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ سندھ کے بجٹ کی مالیت6 کھرب 17 ارب 21 کروڑ روپے ظاہر کی گئی ہے، جس میں 21 ارب 63 کروڑ 75 لاکھ روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ گریڈ ایک سے 15 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں کیا گیا ہے۔ جب کہ پنجاب میں وفاقی حکومت کے مطابق 10 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ پنجاب کے بجٹ کی یہ خاصیت ہے کہ بڑی بڑی عالیشان کوٹھیوں اور رہائش گاہوں پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے، دو سے چار کنال کے بنگلوں اور کوٹھیوں پر 5 لاکھ روپے اور 4سے 8 کنال کی رہائش گاہوں پر 10 لاکھ روپے کا ٹیکس جب کہ اس سے زائد پر ٹیکس 15 لاکھ روپے عائد کیا گیا ہے۔

ایک اور خاص بات یہ ہے کہ دیہی خواتین کو خود کفالت کے لیے مال مویشی خرید کردیے جائیں گے، اس سے بیوہ خواتین اور دیگر غریب عورتوں کی اشک شوئی ہوگی۔ پنجاب میں دیہی علاقوں کی خواتین کھیتوں میں مزدوری کرنے کے علاوہ مال مویشی پال کر اپنا گزارا کررہی ہوتی ہیں۔ اگر ایسی نادار عورتوں کو دودھ والی گائیں یا بھینسیں خرید کر دی جائیں تو صوبے بھر میں غربت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر اس اعلان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہوتا ہے اور اس قسم کی غریب اور نادار عورتوں کی نشاندہی کرکے صوبائی حکومت انھیں مال مویشی خرید کردیتی ہے تو بلاشبہ غریب اور بیوہ خواتین کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ پنجاب کے بجٹ میں انرجی سیکٹر کے لیے پہلے 2012-13 کے بجٹ میں 9 ارب روپے رکھے گئے تھے، لیکن وفاق کی جانب سے بعض پابندیوں کے باعث ان پر عملدرآمد نہ ہوسکا، اس دفعہ 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

6 دانش اسکول مزید قائم کیے جائیں گے جو اپنی جگہ خوش آیند ہے لیکن صوبے میں جہاں 30 فی صد بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں، جہاں کے ہزاروں اسکولوں میں بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں ہیں، جہاں دیہی علاقوں کے سیکڑوں اسکول ایسے ہیں جہاں کے بااثر افراد کے مال مویشی باندھے جاتے ہوں یا ان کے زیر استعمال ہوں۔ لہٰذا ان اسکولوں کو تمام تر سہولیات مہیا کرکے تمام اسکولوں کو دانش اسکولوں کے معیار پر لانا چاہیے۔ اس کے لیے صوبہ خیبرپختونخوا کی طرز پر تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ توانائی منصوبوں پر 20 ارب 43 کروڑ روپے رکھتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جہاں گنے کے پھوک سے توانائی کے منصوبے بنائے جارہے ہوں وہیں گاؤں دیہاتوں میں گوبر کے ذریعے توانائی پیدا کرنے کی طرف پوری توجہ دی جائے۔ 2012-13 کے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 250 ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن بتایا جاتا ہے دراصل 166 ارب 85 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔

ترقیاتی منصوبوں کے لیے دس دفعہ 290 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں سے جنوبی پنجاب کے لیے 93 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی بجٹوں کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان میں بجٹ میں ٹیکسوں اور قرضوں کے ذریعے معیشت میں مجموعی طلب کا تعین عالمی مالیاتی اداروں کی منشا کے مطابق کیا گیا ہے۔ جب حکومت آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ کر رہی ہو اور اسے ٹیکسوں اور قرضے حاصل کرکے پورا کرلیا جاتا ہو اور پھر مالیت کی کمی دور کرنے کے لیے نوٹ چھاپ لیے جائیں تو اس کی وجہ سے افراط زر بڑھ کر قیمتوںمیں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب جی ایس ٹی میں اضافہ، اس طرح اشیاء کی لاگت میں بھی اضافہ ہوکر عوام کے لیے جینا دوبھر ہوجائے گا۔ بہرحال آئی ایم ایف کے وفد سے مذاکرات کے بعد اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ عوام کے لیے مزید کتنی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ اگر اس پس منظر کو مدنظر رکھا جائے تو خیبرپختونخوا جس کا 1,344 ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کیا گیا ہے جہاں تعلیمی اور توانائی ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

البتہ صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر ایک فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے اور عوام ٹیلی فون پر ایف آئی آر درج کراسکیں گے، موبائل عدالتیں قائم ہوں گی، غیر ترقیاتی اخراجات میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے اخراجات میں 50 فی صد کمی کی جائے گی، صوبائی حکومت نے بجٹ کو ترقیاتی فلاحی اور انتظامی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 118ارب روپے ہے، صحت کے لیے 22 ارب 80 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی صوبائی حکومت کو صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلی لانے کے لیے تمام اسپتالوں اور اس شعبے میں نہ ہونے والی کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی تعلیم کے لیے 66 ارب 60کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ فنی تعلیم اور افرادی قوت کی تربیت کے لیے ایک ارب 97 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام اعلیٰ حکام، وزراء ممبران اسمبلی سرکاری افسران و ملازمین وغیرہ کی بیرون ملک سرکاری علاج معالجے پر مکمل پابندی ہوگی۔ نئی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔

اس کے علاوہ تمام صوبائی سرکاری مہمان خانوں، ریسٹ ہاؤسوں، ڈاک بنگلوں وغیرہ میں مفت قیام پر مکمل پابندی ہوگی۔ موبائل عدالتوں اور ایف آئی آر درج کرانے کی سہولت کے باعث عوام کو انصاف کی فراہمی جلد ممکن ہوگی۔ ایف آئی اور درج کرانے کے لیے تھانہ جانے کے بجائے ٹیلی فون پر اور آن لائن شکایت درج کراکے ٹوکن نمبر حاصل کرنے کے بعد ساری ذمے داری تھانہ انچارج کی ہوگی۔ اس طرح کے کئی اقدامات ایسے ہیں جن پر بعینہ عمل درآمد ہوجائے تو صوبے کے عوام کے لیے سکون کا باعث ہوگی۔صوبہ سندھ کے بجٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کے تحت ہزاروں نوجوانوں کو فنی تربیت دی جائے گی۔ ''وسیلہ حق سندھ'' پروگرام کے تحت 34 ہزار خاندانوں کو 3 لاکھ روپے فی کس بلاسود قرضہ دیا جائے گا۔ تعلیم کے لیے 132 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ہرسال تعلیم پر رقم مختص کی جاتی ہے لیکن اس بات کی طرف بھرپور توجہ نہیں دی جاتی کہ آخر اسکول ویران کیسے پڑے ہیں، نہ طلبا ہیں نہ اساتذہ حاضر ہونے کا نام لیتے ہیں۔ تمام بورڈز کے امتحانات کے موقع پر یہ منظر دیکھا جاتا ہے کہ طلبا نقل کرتے ہوئے کتابیں اور دیگر مواد سامنے رکھ کر نکل کرتے ہیں۔ اول تو پورا سال انھیں تعلیم نہیں دی جاتی، اگر کسی اسکول میں تعلیم دی جارہی ہو تو وہاں چھٹیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں کہ نصاب مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ نیز اساتذہ کی عدم توجہی کے باعث طلبا میں پڑھنے کا رجحان بھی باقی نہیں رہتا۔ اساتذہ کی بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ لہٰذا سندھ کا بجٹ پیش کرتے ہوئے یہ کہنا تیسری ترجیح معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ ہر شخص اس بات کو سمجھنے لگا ہے کہ خصوصاً دیہی علاقوں میں تعلیم کی جو درگت بنادی گئی ہے اس صورت حال میں معیاری تعلیم کس طرح فراہم کی جائے گی۔

چوتھی ترجیح غریبوں کو صحت کی بہتر فراہمی کو قرار دیا گیا ہے، صحت کے لیے بھی ہر سال اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسپتالوں کی کیا صورت حال ہے، دوائیں کس حد تک فراہم کی جاتی ہیں اور بعض اوقات عملے کا رویہ بھی مریض کے لیے ناقابل فہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ صرف اعلان کردینا کہ صحت کو ترجیح دی جائے گی۔ لیکن اس کے لیے بہت زیادہ انقلابی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی بجٹ تقریر میں 7 ترجیحات کا ذکر کیا تھا۔ پہلی ترجیح امن وامان کو قرار دیا۔ اس کے لیے اپنی پہلی کارکردگی کو ہی سامنے رکھ کر اصلاح کرلینی چاہیے اور آخری ترجیح ٹریفک کے مسائل اور سرکلر ریلوے ہے۔ کراچی شہر میں جس طرح ٹریفک جام کے مسائل ہیں اور امن وامان کے مسائل ہیں انھیں سب سے پہلے ٹھیک کرنا موجودہ صوبائی حکومت کی اہم ذمے داری ہے۔ صوبوں کے بجٹ کے صرف چند نکات کا جائزہ پیش کیا جاسکا ہے۔ جس سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ رقوم تو مختص کیے جاتے ہیں لیکن بجٹ میں رکھے گئے رقوم کا اگر صحیح ایمانداری اور نیک نیتی سے استعمال کیا جائے تو اس کے مثبت اثرات عوام پر پڑتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔