جدا ہو دیں سیاست سے تو…

اس کے علاوہ سب سے موثر اور خطرناک ہتھیار جسے ہم عالمی میڈیا کے نام سے جانتے ہیں.


سمحان غازی June 21, 2013

یہ بات تو مسلم ہے کہ پاکستانی معاشرہ بالعموم ایک اسلام پسند معاشرہ ہے۔ اس حقیقت کے باوجود حالیہ انتخابی نتائج مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزا ثابت نہیں ہوئے۔ اب اگر ہم اس ساری صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کریں کہ پاکستانی عوام اب دین اور سیاست کو الگ الگ دیکھنا چاہتے ہیں تو شاید یہ نظریہ درست نہ ہو، بلکہ اگر ہم یہ تبصرہ کریں کہ عوام کی بڑی تعداد پاکستان میں اسلام ہی کا متعارف کردہ نظام سیاست، نظام حکومت اور نظام عدل پر قائم معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں مگر موجودہ مذہبی سیاسی جماعتوں سے یا تو ناامید ہوگئے ہیں یا ان کے پیش کردہ اسلام کے ورژن سے متفق نہیں تو یہ حقیقت سے زیادہ قریب تر ہوگا۔

ویسے بھی اگر کوئی مذہب اور سیاست کو الگ کرنے کی کوشش کرے تو مجھ سمیت اکثر لوگ لہلہاتے ہوئے پرجوش انداز میں علامہ کا یہ مصرعہ دہراتے ہیں کہ ''جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی'' مگرآج ہم فیصلہ نہیں کرپا رہے ہیں کہ سیاست کے دین سے جدا ہونے کے نتیجے میں چنگیزی کا عنصر کہاں زیادہ غالب آیا، روایتی سیاسی طبقات میں یا مذہبی طبقات میں؟ معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ ادوار میں مذہب کے نام لیواؤں نے توعلامہ اقبال کے اس مصرعے کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف تو اسلام کے داعیٔ اکبر، نبیٔ رحمت ﷺ کی امت کے لیے وہ رہنمائی ہے کہ حالت جنگ میں بھی بوڑھوں، بچوں، عورتوں یہاں تک کہ درختوں کو بھی نقصان نہ پہنچاؤ اور ایک طرف دھماکوں اور گولیوں سے بے گناہ مسلمانوں کا سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں قتلِ عام ہے، اور اس پر ہمارے مذہبی سیاسی رہنماؤں کی یہ دلیل کہ یہ سب کچھ محض طاغوت کی طرف سے کی گئی اسلامی ممالک پر یلغار اور ان پر زبردستی مسلط کردہ جنگ کا ردعمل ہے تو اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ چاہے کیسی ہی جنگ کیوں نہ ہو، اسوۂ پاک کی نقل اور رحمت اللعالمین ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کے سوا ایک مسلمان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں۔

اب جو لوگ اسلام کی بنیادی جدوجہد میں ہی ہادیٔ اعظم ﷺ کی سنت کو اور ان کے پیش کیے گئے رحمدلی اور انصاف کے عالمی فلسفے کو فراموش کر بیٹھے ہوں ان سے غلبہ پالینے کے بعد کون سے اسلامی نظام کے نفاذ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ صرف اس جماعت کے ذریعے ہی ہوگی جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور قومیت کے اختلافات سے بالاتر ہو کر عالمی سطح پر اتحاد اور اخوت کو قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ناکہ کوئی ایسا گروہ جو محض اپنے تصورِ اسلام کو ہی حقیقی دین سمجھے اور اپنے علاوہ باقی سب کو باطل اور گمراہ۔ اور متشدد اس قدر کہ اپنے مخصوص نظریات کو زبردستی مسلط کرنے کے لیے انسانیت سوز اقدامات کرنے سے بھی گریز نہ کرے۔

واقعہ فتح مکہ سے ہمیں کامیابی کے بعد عام معافی اور بخشش کی بے نظیر مثال تو ملتی ہی ہے مگر ایک عظیم حکمت عملی کا سبق بھی ملتا ہے جس کے ذریعے لڑے بغیر نہ صرف علاقے فتح کیے جاسکتے ہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے دلوں کو بھی فتح کیا جاسکتا ہے۔ آج مسلمانوں کا مفتوحہ بہت سا علاقہ مسلمانوں کے کنٹرول میں نہیں مگر آج بھی دنیا کے ہر کونے میں دلوں کی دنیا پر محمد عربی ﷺ کی ہی حکومت اور سلطنت قائم ہے۔ افسوس صد افسوس کہ آج مسلمان دلوں پہ حکومت کرنے کی عظیم تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ طویل مدتی حکمت عملی اور جدید جنگی تراکیب سے جس قدر مسلمان بے بہرہ ہیں، دشمن اتنے ہی چالاک اور وسیع النظرہیں۔ وہ ایک طرف عالمی مالیاتی نظام، عالمی وسائل اور کاروبار پر پوری طرح اپنا تسلط قائم کررہے ہیں دوسری طرف مسلمان ممالک میں فرقہ واریت، مذہبی انتہاپسندی اور دوسرے تعصبات کی مدد سے انتشار پھیلا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک میں معاشی اور معاشرتی انحطاط بڑھتا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ سب سے موثر اور خطرناک ہتھیار جسے ہم عالمی میڈیا کے نام سے جانتے ہیں اس وقت بڑی حد تک ہمارے دشمنوں کے قبضے میں ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان کی دانشمندی سے زیادہ ہماری اپنی کج فہمی اور تنگ نظری ہے۔ کیسا ظلم ہے کہ اﷲ نے جن کے ذمے امت کی رہنمائی کا عظیم کام لگایا تھا وہ آج بھی بہت سے اہم معاملات پہ منقسم ہیں جب کہ امت اہم ترین مسائل کے معاملے میں حرام اور حلال کے درمیان الجھی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ معاملات فروعی نوعیت کے نہیںکہ جن پہ امت میں پایا جانے والااختلاف رحمت کہلائے بلکہ یہ مسائل حرام اور حلال کے درمیان انتہائی نازک چناؤ سے متعلق ہیں۔ اس صورتحال میں ایک عام مسلمان ان حساس معاملات میں بھی''اِستَفتِک قَلبِک'' کی روسے خود ہی فیصلہ کرنے پر مجبور ہے اور یہ رویہ معاشرے میںایک ہی مسلک کے لوگوں کے درمیان بھی اتحاد کے عمل کو پروان نہیں چڑھنے دیتا۔ یہاں سوال حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کو موثر انداز میں ادا کرنے کا ہے نہ کہ غیر ضروری نظریات کی وجہ سے خائف ہو کر خود کو مزید پستی کی طرف دھکیلنے کا۔

کسی بھی قیمت پر ہمیں آپس کے اختلافات ختم کرکے اتحاد اور اخوت کو فروغ دینا ہوگا۔ ایک بڑے مقصد کے حصول کی خاطر نسبتاً ثانوی اور کم اہمیت کے حامل نظریات کو بالائے طاق رکھ کر وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن کے پیغام کو موثر ترین ذرایع کا استعمال کرتے ہوئے تیزی سے پھیلانا ہوگا۔ کیونکہ قرآن و حدیث تو بذات خود ایک ایسی کائنات علم و حکمت ہیں کہ جس میں لامتناہی خزائن نور پنہاں ہیں اور ان سے کشید کیے ہوئے جواہرات جتنے زیادہ پھیلیں گے اتنی ہی ارواح اور اتنے ہی قلوب نور ہدایت سے منور ہوں گے۔ اس عظیم کام کی ذمے داری سب سے زیادہ ہر فرقے اور مسلک سے تعلق رکھنے والے علمائے اکرام پر عائد ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ شخصیات ہیں جو 14 سو سال سے ہر دور میں انبیاء کی وارث رہی ہیں اور بلاشبہ اپنی بیش بہا قربانیوں کے ذریعے دورِ حاضر تک تاریخ کے ہر حصے میں دین کی حفاظت پر مامور رہی ہیں۔ اگر آج بھی متذکرہ تمام صاحبان علم و دانش اپنی ذمے داریوں کا ادراک کریں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور حقیقی محبت و اخوت کو فروغ دینے میں جت جائیں اور میڈیا کو قرآن و حدیث اور اسوۂ رسول معظم ﷺ کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنائیں تو پھر دین حق کو پھیلنے سے اور غلبہ اسلام کو برپا ہونے سے کوئی بھی طاقت نہ روک سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔