42B بہاولپور ہاؤس

انسیت بلکہ شدیدانسیت کے باوجود،انسان کوہرجگہ چھوڑکرجانی ہوتی ہے۔

raomanzar@hotmail.com

چھبیس برس پہلے بہاولپورسے لاہورپوسٹنگ ہوئی۔ اس شہرِنایاب میں پورے تین سال انتظامی عہدے پرفائز رہاتھا۔اکثرلوگ سمجھتے تھے کہ میراتعلق بہاولپور سے ہی ہے۔حالانکہ فیصل آبادکی مٹی میں گنداہواانسان ہوں۔ خیر لاہورآیاتوسب سے پہلے تکلیف دہ احساس یہ ہواکہ رہنے کے لیے چھت نہیں ہے۔سرکاری ملازم کے اندریہ احساس، ایک خوف کی حیثیت اختیارکر جاتا ہے۔نوے فیصدحکومتی اہلکارچھت کی تگ ودومیں زندگی گزاردیتے ہیں یا شائد ضایع کردیتے ہیں۔ویسے ضایع کالفظ زیادہ موضوع ہے۔

کیونکہ سرکارکی چاکری باہرسے بہت دیدہ زیب اور خوبصورت نظرآتی ہے مگر اندرسے انتہائی ادنیٰ اورمہمل سی ہے۔بے یقینی کی کیفیت سے لبریز۔بہرحال لاہورآکرکچھ عرصے بعد سرکاری گھرمل گیا۔الاٹمنٹ لیٹرپرگھرکاایڈریس لکھاہوا تھا۔ 42-B،بہاولپورہاؤسG.O.R II۔بہاولپور شہر سے آنے کے بعدبہاولپورہاؤس کالفظ انتہائی مانوس سامعلوم ہوا۔خیرپوچھتاپُچھاتا،جب پہنچاتومکمل طورپر اَبترحالت میں سرکاری گھرپایا۔رقبہ میں کشادہ مگر اندرسے انتہائی خستہ حال۔پہلے تودل چاہاکہ گھرنہ لوں اورحکومت کوشکریہ کے ساتھ واپس کردوں۔مگرپھرایک دوسرابلکہ متضادخیال اُبھراکہ نہیں، اسی کوٹھیک کرواکر رہناچاہیے۔دوسرے فیصلے پر قائم رہا۔

تین مہینے اس گھرکی مرمت نے صورتحال بھرپور طریقے سے بدل دی۔یہ ایک سرکاری گھرسے واقعی ایک گھرمیں تبدیل ہوگیا۔جس دن منتقل ہواتوپورے جی اوآر میں کسی بھی رہائش گاہ کے باہرپکی دیوارنہیں تھی۔حفاظت کے لحاظ سے معاملات اتنے بہترتھے کہ دہائیوں سے تعمیر شدہ اس کالونی میں کسی بھی مکین نے چاردیواری بنوانے کے متعلق سوچاہی نہیں تھا۔خیریہ ایک ابتدائی تاثرتھا۔ابھی گھر میں رہتے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ ہواتھاکہ لاہورمیں دہائی کی سب سے بھرپور بارش ہوئی۔یہ1996کی بات ہے۔ گھرکے باہرلان میں دودوفٹ پانی کھڑاہوگیا۔

عمارت میں پانی نہ آیا۔ رحمت کوکافی حدتک زحمت بنتے دیکھا۔ جب بارش عروج پرتھی تواسی دن بڑے بیٹے مبارزحیات کا ایچیسن کالج میں داخلے کاٹیسٹ تھا۔اب مسئلہ یہ تھاکہ بچے کو گھرسے باہرنکال کر،صحیح حالت میں گاڑی تک کیسے پہنچایاجائے۔اس زمانے میں ڈپٹی سیکریٹری تھا۔محکمہ زراعت میں۔ایک سرکاری جیپ ملی ہوئی تھی جسے عرف عام میں ڈبل کیبن کہاجاتاہے۔وہ برآمدے کے ساتھ کھڑی کی۔ مبارزکوگودمیں اُٹھایااورپانی میں چلتاہوا جیپ کے اندر بٹھا دیا۔

احتیاط اس لیے ضروری تھی کہ اس کے کپڑوں پرچھینٹے نہ پڑیں تاکہ اسکول میں انٹرویوکے مراحل میں کوئی منفی تاثرنہ اُبھرے۔خیریہ مرحلہ احسن طریقے سے طے ہوگیا۔ مبارزکو بغیرکسی سفارش کے ایچیسن کالج میں داخلہ مل گیا۔خیراب تو مبارزبڑاہوگیا ہے۔

اکثراوقات احساس ہی نہیں ہوتاکہ بچے کتنی جلدی جوان ہوجاتے ہیں یادوسرے لفظوں میں ماں باپ کتنی جلدی بوڑھے ہوجاتے ہیں۔باپ توخیربہت جلدبزرگی کی راہ پرسفرکرناشروع کردیتاہے۔ذمے داریاں اُٹھاتے اُٹھاتے شائدجوانی میں ہی بہت زیادہ بوڑھا ہوجاتا ہے۔اب توخیرمبارزملک سے باہرآئی ٹی کی ایک بین الاقوامی کمپنی میں کام کررہاہے۔اسے یادہی نہیں ہوگاکہ جس دن اسکاداخلہ ایچیسن کالج میں ہواتھا،اس دن میں نے گودمیں اٹھاکربارش میں اسے محفوظ طریقے سے گاڑی میں بٹھایا تھا۔پتہ نہیں کیوں، کہ جیسے جیسے انسان عمررسیدہ ہوتا جاتا ہے،اولاد کو گھر میں نہ دیکھ کربے چین ساہو جاتا ہے۔

اگر بیٹے یابیٹیاں ملک سے باہرہوں توپوراسال گن گن کران کے واپس آنے کی راہ دیکھتاہے۔دوچارہفتے میں ان سے دوبارہ مانوس ہوجاتاہے توان کی چھٹیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ایک دھچکا سالگتاہے کہ مہینہ اتنی جلدی کیسے گزرگیا۔ مبارز جب واپس چلاجاتاہے تومیں پوراسال روزانہ اس کے پاکستان آنے کا انتظارکرتاہوں۔ایک ایساتکلیف دہ انتظارجسے کسی سے بھی شیئرنہیں کرسکتا۔

جب میں42-Bمیں منتقل ہواتوحمزہ صرف تین سال کاتھا۔اس کے لیے تویہ پہلاگھرتھا۔نہیں دوسرا۔ کیونکہ میں جب سرکاری گھرکے ملنے کاانتظار کر رہا تھا تو نہرکے نزدیک ایک کشادہ ساگھرکرائے پرلے لیا تھا۔ اس میں تقریباًایک برس رہنے کاموقعہ ملا۔خیرحمزہ کو ہوش42-Bمیں ہی آیا۔اس نے نیانیاچلنا سیکھا تھا۔ اپنی طبیعت کے مطابق کافی وقت لان میں کھیلتا رہتا تھا۔ اسی گھرسے حمزہ بھی ایچیسن کالج میں گیااورپھر باہر پڑھنے چلاگیا۔اب تووہ بہت لمباہوگیا ہے۔


میرے سے بھی چارپانچ انچ لمبا۔اس کے لیے تویہ رہائش گاہ ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔42-Bآنے کے بعد،میں نے اس کے لانزپربے حدمحنت کی۔شائدمیں کافی حدتک غلط لکھ گیاہوںلانزپراصل محنت میری اہلیہ نے کی۔اس نے ہر طرح کے خوبصورت پودے لگاکرچمن کواس قدرخوبصورت بنا دیاکہ کئی باردل چاہتاتھاکہ باہر بیٹھا جائے۔

سردیوں میں اکثرہم لوگ باہرہی بیٹھتے تھے۔ وقت بڑی تیزی سے گزرتا گیا۔چارپانچ برس رہنے کے بعد، اس گھرمیں ایک بڑاکمرہ اورایک لاؤنج مزید بنوالیا۔اب یہ حددرجہ کشادہ اورآرام دہ ہوچکاتھا۔ میرے اکثردوست کہتے تھے کہ یہ جی اوآر کا سب سے اچھاگھرہے۔خیرمیں یہ دعوی نہیں کرسکتا۔ بہرحال میں اورمیری اہلیہ نے اس پرکافی محنت کی ہے۔ اکیس برس پہلے جس حالت میں یہ گھرملاتھا،آج اس سے بہت زیادہ بہترحالت میں ہے۔

اکیس یاشائد بائیس برس میں،اسی گھرمیں میرے چھوٹے بھائی مبشرکی شادی کی رسومات بھی ہوئیں۔والدہ حیات تھی۔آج تک یادہے کہ مبشرکی شادی پروہ کتنی خوش مگر اندرسے کتنی غمگین تھیں۔جج صاحب انتقال کرچکے تھے۔ہم سب اپنے والدکی کمی کو بے حدمحسوس کررہے تھے۔والدہ ظاہرنہیں کرتی تھیں۔ مگر بہرحال انکواس موقع پراکیلے ہونے کااحساس مکمل طور پر موجودتھا۔ہاں،ایک بات۔جج صاحب اس گھر میں کبھی نہیں آئے تھے۔اس لیے کہ وہ بہت جلدی انتقال کرچکے تھے۔ویسے ان کی عادت ایسی تھی کہ فیصل آباد میں اپنے گھرمیں رہناہی بہت پسندکرتے تھے۔عجیب مرددرویش تھے۔اتنے بڑے سرکاری عہدہ پررہنے کے باوجود، پیسے کی طرف نظراُٹھاکرنہیں دیکھا۔جب ریٹائر ہوئے تووالدہ نے بہت مشکل سے فیصل آبادوالا گھر بنایا۔

دس برس پہلے،جب والدہ کوفالج ہوا،توان کی طبیعت کے خلاف،انھیں اسی سرکاری گھرمیں لے آیا۔خیال تھاکہ انکاعلاج لاہورمیں بہترطریقے سے ہوگا۔ویسے یہ فیصلہ درست نکلا۔گھرکے ایک کمرے کو اسپتال بنادیا۔ہرطرح کی طبی سہولتوں سے آراستہ۔ کوشش کی کہ انھیں اپاہج ہونے کااحساس نہ ہو۔مجھے نہیں اندازہ کہ میں کس حدتک کامیاب ہوا۔مگرجب بھی ان کے کمرے میں جاتاتھاتووہ عبادت کرنے کے دوران بھی مجھے دیکھ کرہلکے طریقے سے مسکرانا شروع کر دیتی تھی۔

جب کبھی لاہورسے اُکتا جاتیں، تو پھر فیصل آباد،اپنے گھرچلی جاتیں۔میرے ضدکرنے پر پھر واپس آجاتیں۔گھرکایہ کمرہ میرے لیے آج بھی ایک مسجد کی حیثیت رکھتاہے۔جتنی عبادت اپنی والدہ کواس جگہ کرتے ہوئے دیکھاہے،بیان نہیں کرسکتا۔فالج کے دوران بھی تمام روزے رکھتی تھیں۔تمام نمازیں اورتہجدبھی اداکرتی تھی۔کبھی کبھی احساس ہوتاہے کہ شائدوہ اسی کمرے میں موجودہیں،میں موجودنہیں ہوں۔ان کی وفات کے بعداسی کمرے میں ایک میز لگا دی۔اسی ٹیبل پر اپنے کالم لکھتا ہوں۔بلکہ یہ کالم بھی وہیں لکھ رہاہوں۔

پرندے رکھنے کابہت شوق ہے۔یہ مناسب سا شوق،اسی مکان میں پوراہوا۔ مور، کونجیں رکھتا رہا۔ انکاایک پنجرہ پچھلے لان کے کونے میں بنوادیا۔تمام پرندے دن میں باہرپھرتے رہتے اورشام ہوتے ہی اپنے مسکن کی طرف چلے جاتے۔خودبخودپنجرے میں بیٹھ جاتے۔ویسے پرندے ہی کیا،تمام انسان بھی شام کواپنے مسکن کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ نہ پرندوں کواس اَمرکااحساس ہوتا ہے کہ انکامسکن عارضی ہے اورنہ ہی انسانوں کو۔ایک زمانے میں میرے ماموں زاد بھائی مجاہد نے مجھے دوہرن بھی بھجوا دیے۔

ان کوگھرمیں رکھنے کالائسنس بھی ساتھ تھا۔ دونوں ہرن بے حدخوبصورت تھے۔خصوصاً،نرکے سینگ، اس درجہ دلکش تھے کہ اسے چلتادیکھ کرمسحورہوجاتاتھا۔یہ بھی شام کوپنجرے میں چلے جاتے تھے۔شروع شروع میں مشکل پیش آئی مگردوچارہفتے کے بعد،یہ بھی دوسرے پرندے اور جانوروں کے عادی ہوگئے۔انھوں نے بھی پنجرے کو اپنا گھرگردان لیا۔تھوڑے عرصے بعد،ہرنی بیمارہوگئی۔اسے جانوروںکے اسپتال میں لے گیا۔دوائیاں دینے کے باوجود زندہ نہ رہ سکی۔اکیلے ہرن کودیکھ کر تکلیف ہوتی تھی۔چنانچہ اسے جلوپارک کے چڑیاگھرکوتحفے کے طورپردیدیا۔اب تک سوچتاہوں کہ وہ ہرن کس حال میں ہوگااور کیا کر رہا ہوگا۔شائدوہ بھی اس گھرکے متعلق کبھی کبھی سوچتا ہوگا۔ معلوم نہیں،یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

اکیس سال کے بعدسرکاری گھرچھوڑرہاہوں۔اس گھرکی ایک ایک اینٹ میں نے دوبارلگوائی ہے۔اس کے ایک ایک پودے اوردرخت پرمیرے اورمیرے خاندان کی انسیت کے نشان ہیں۔اس کی مٹی کاایک ایک ذرہ میرے وجودکاحصہ ہے۔میں نے اسے جس حالت میں لیاتھا،آج اس سے حددرجہ بہترحالت میں حکومت کوواپس کررہا ہوں۔ شائد زیست ہے ہی یہی۔شائدزندگی کامقصدبھی یہی ہے۔ شائدمیری سوچ بھی یہی ہے۔جوبھی چیزآپکوملے،اسے اپنے بعدآنے والوں کے لیے بہترحالت میں چھوڑ کر جائیں۔ لیکن ایک اورنکتہ بھی ہے۔

انسیت بلکہ شدیدانسیت کے باوجود،انسان کوہرجگہ چھوڑکرجانی ہوتی ہے۔یہی زندگی کا پیہم اُصول ہے اوراسی کے سہارے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔اتناعرصہ گزارنے کے بعد،گھرچھوڑتے ہوئے غم تو ہوتاہے،ایک عجیب سادکھ جوشائدبتایانھیں جاسکتا۔میں تو بالکل ہی نہیں بتاسکتا!خداحافظ،42-B۔
Load Next Story