برصغیر کا المیہ

دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کے غریب طبقات اشرافیہ کے خلاف نہیں ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

جب کوئی ''فکری بیماری کا مریض'' دنیا اور اپنے اردگرد کے منظرنامے پر نظر ڈالتا ہے تو وہ اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان کی حیوانیت پر حیران رہ جاتا ہے، کہیں جنگیں ہیں کہیں جنگوں کی تیاری ہے کہیں جنگوں کا سا ماحول ہے، کہیں زبان کے نام پر انسان ایک دوسرے سے متصادم ہے، کہیں رنگ کے نام پر ایک دوسرے سے متنفر ہے، کہیں قومیت کے حوالے سے ایک دوسرے کا دشمن ہے، کہیں ملک و ملت کے نام پر برسر پیکار ہے، کہیں مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہا رہا ہے، کہیں ذات پات کے حوالے سے تعصب میں مبتلا ہے۔

اس پس منظر میں اسلحہ انڈسٹریز کے مالک دھڑا دھڑ اسلحہ تیار کر رہے ہیں اور قومی مفاد اور ملکی سالمیت کے محافظ عوام کا پیٹ کاٹ کر اربوں روپوں کا اسلحہ خرید رہے ہیں۔

90 فیصد سے زیادہ انسان دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن محنت کر رہے ہیں، 50 فیصد سے زیادہ انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، دو فیصد انسان ملک کی 60 فیصد سے زیادہ دولت پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، دن بھر محنت کرنے والوں کی ساری زندگی دال روٹی پیاز روٹی پر گزر رہی ہے اور دو فیصد ہاتھ پیر ہلائے بغیر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ طبقاتی ناانصافی ہے اور اس ناانصافی کے خلاف غریب طبقات کے ذہن میں ایک خطرناک لاوا پک رہا ہے۔

جو معاشی ناانصافیاں آج پاکستان میں ہیں وہ 1789 میں فرانس میں تھیں، ان معاشی مظالم سے تنگ آئے ہوئے فرانسیسی عوام چھریاں، چاقو اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہاتھ میں لے کر گھروں سے نکلے، ان کا رخ غریب طبقات کا خون پی کر سرخ و سپید ہونے والے وحشیوں کی پوش بستیوں کی طرف تھا، جن کے محلوں کے گیٹوں پر درجنوں مسلح جوان پہرہ دیتے تھے۔

صدیوں سے نسل در نسل بھوک افلاس کے مارے ہوئے غریب عوام خون پی کر سرخ و سپید ہونے والی فرانسیسی ایلیٹ کی محلاتی بستیوں کی طرف چل پڑے اور پھر فرانس کی سڑکیں فرانس کے زرداروں کے خون سے سرخ ہوگئیں۔ دنیا میں کئی انقلاب آئے ہیں جن میں 1917 کا انقلاب روس 1949 کا انقلاب چین سرفہرست ہیں لیکن ان انقلابات میں انقلاب فرانس کو اس لیے زبردست اہمیت حاصل ہے کہ اس انقلاب کی قیادت فرانس کے عوام نے کی اور استحصالی طبقات کے خلاف گھریلو ہتھیاروں سے لڑائی لڑی۔ اس انقلاب میں حکومتی حربی طاقت کو شکست سے دوچار کیا۔

دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کے غریب طبقات اشرافیہ کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن غریب طبقات اس لیے بے دست و پا ہیں کہ انھیں ایسی قیادت نصیب نہیں۔ قیادت سے محرومی کی وجہ عوامی طاقت ایک مرکز پر نہیں، اشرافیہ نے مختلف طریقوں سے عوام کو تقسیم ہی نہیں کیا بلکہ انھیں آپس میں برسر پیکار کرکے ان کی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کردیا، انھیں مختلف سیاسی جماعتوں بانٹ کر ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار کردیا۔ خاص طور پر پسماندہ ملکوں کے عوام کو اس طرح تقسیم کردیا کہ نہ صرف ان کی اجتماعی طاقت پارہ پارہ ہوگئی بلکہ ان کا طبقاتی ٹارگٹ پس منظر میں چلا گیا۔


انقلاب فرانس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے قومی مفاد کے نظریے کو اس قدر مضبوط کیا کہ طبقاتی مفادات قومی مفاد کی دھول میں گم ہوکر رہ گئے۔ طبقاتی استحصال کا مسئلہ نہ کسی کمیونٹی کا ہے نہ صرف کسی ایک ملک کا، یہ مسئلہ دنیا کے 7 ارب غریب انسانوں کا مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے عوام کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنا ضروری ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ عوام کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے والی جماعتیں ذاتی اور جماعتی مفادات میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔

جب تک ملک اور معاشرے طبقات میں بٹے رہیں گے طبقاتی تضادات موجود رہیں گے، جب تک طبقاتی تضادات موجود رہیں گے طبقاتی سیاست کی ضرورت رہے گی۔ طبقاتی تضادات کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے سیاسی منظر سے غائب ہونے کے بعد ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرنے والی جماعتیں غریبوں کے مسائل حل کرنے کے نام پر بورژوا سیاست کر رہی ہیں اور غریبوں کے مفادات کے تحفظ کے نام پر اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے بڑی چالاکی سے عوام کو علاقائی تنازعات کے حوالے سے اس طرح جکڑ کر رکھ دیا ہے کہ وہ علاقائی مسائل کی دھول میں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر فلسطین کا مسئلہ ہے اس مسئلے کی آڑ میں عرب ملکوں کو ہتھیاروں کی سیاست میں الجھا دیا گیا ہے اور وہ اپنے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ مغربی ملکوں سے جدید ہتھیاروں کی خریداری پر لگا رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سامراجی ملکوں کے پیدا کردہ اس مسئلے کو عوام کی تقسیم کے لیے بڑی چالاکی سے استعمال کیا جاتا ہے، اب مشرق وسطیٰ کے عوام کا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا ترجیحی مسئلہ مسئلہ فلسطین بن کر رہ گیا ہے۔

برصغیر کے غریب عوام کا اجتماعی مسئلہ غربت سے نجات ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے اس مسئلے کو ہندو مسلمان، پاکستانی اور ہندوستانی مسئلہ بنا کر اس خطے کے غریب عوام کو اس مسئلے میں اس طرح جکڑ کر رکھ دیا ہے کہ طبقاتی استحصالی کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ہے۔ پاکستان کا دورہ کرنے والے کئی ہندو دانشور بھی مسئلہ کشمیر پر ہندوستانی موقف کی حمایت کرتے نظر آئے۔

اس مسئلے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ برصغیر کے عوام کو اس مسئلے کے حوالے سے تقسیم کرکے مذہبی جذبات اور مذہبی سیاست کو اس طرح بڑھاوا دیا کہ طبقاتی استحصال کا مسئلہ پس پشت چلا گیا اور دونوں ملکوں میں مذہبی سیاست مضبوط ہوتی چلی گئی۔

ہندوستان کو ہندوستانی دانشور سیکولر ملک قرار دیتے ہیں لیکن کشمیر کے مسئلے کا اثر ہندوستانی عوام پر اس قدر گہرا ہوگیا ہے کہ ہندوستانی عوام نے ایک کٹر مذہبی جماعت بی جے پی کو انتخابات میں کامیاب کرایا اب یہ جماعت ہندوتوا کی سیاست کر رہی ہے جس کے خلاف کوئی توانا آواز نہیں اٹھ رہی ہے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے برصغیر کے عوام کو تقسیم در تقسیم کرکے عوام کو کمزور ہی نہیں کیا بلکہ مذہبی سیاست کرنے والوں کو مضبوط کر دیا ہے یہی برصغیر کا المیہ ہے۔
Load Next Story