چند دن امریکا میں 2
جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے وہ لوگ ہم سے زیادہ اسلام پر عمل کرتے ہیں۔
دنیا میں ترقی کرنے اور تباہ ہونے کی بڑی کلیئر وجوہات موجود ہیں،جو عادات آپ اپنائیں گے وہی گریڈ آپ کو مل جائے گا۔ آپ ہندو ہیں، سکھ ہیں، عیسائی ہیں یا مسلمان ہیں جیسی عادات اپنائیں گے دنیا بھر میں آپ کی ویسی ہی پہچان بنے گی۔
اور یہ بات بھی تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ جن ملکوں میں مذہب شدت سے موجود ہے، اُس ملک کے عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جیسے ایتھوپیا، ملاوی، نائیجر، سری لنکا، یمن، برنڈی، موریتانیا، صومالیہ،افغانستان، لاؤس، میانمار، کمبوڈیا، کیمرون اور لبنان وغیرہ۔ یہ بھی سچ نہیں ہے کہ صرف عیسائی ملکوں نے ترقی کی ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ صرف انھی عیسائی ملکوں نے ترقی کی ہے جنہوں نے کامیابی کے اصول اپنائے ہیں ۔ امریکا ان ممالک میں سے بہترین مثال ہے۔البتہ مجھے یہ جان کر ''مایوسی'' ہوئی کہ امریکا کے کلیساؤں میں بڑے بڑے پادریوں کی اسلام کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
امریکا کے سفر میں یہ بات مجھ پر واضح ہوئی کہ امریکا میں اخلاقیات کا معیار ہم سے بہت اچھا ہے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے وہ لوگ ہم سے زیادہ اسلام پر عمل کرتے ہیں۔ ہیلو، سوری، معافی چاہتا ہوں، شکریہ۔ جیسے کلمات امریکا میں لوگوں کی گفتگو کا لازمی حصہ ہیں۔
وہاں کے سیاستدان کچھ بھی کر رہے ہوں لیکن امریکی عوام اچھے ہیں۔ انھیں اگر کوئی ''تبلیغ'' بھی کر رہا ہو تو وہ خیر امریکا میں لوگ دن رات کام میں مصروف ہیں ، لیکن آغا صالح امریکا میں بھی اپنا ''ڈیرہ'' سجا ئے بیٹھے رہتے ہیں اور پاکستانیوں کے مسئلے حل کرانے میںپیش پیش رہتے ہیں ،وہ'' سکھی نیویارک'' کے نام سے تنظیم چلاتے ہیں جس کی بنیاد 2012ء میں آغا صالح اور ان کی بیٹی فاطمہ نے رکھی تھی۔
اس کا مقصد 37th روڈ کو اپنانا تھا جسے میئر بلوم برگ کی انتظامیہ کی جانب سے ٹریفک کے لیے بند کرکے پیدل چلنے والے راستے میں تبدیل کیا جارہا تھا، جو کسی ڈرؤانے خواب سے کم نہ تھا۔ انھوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور اسے جیکسن ہائٹس ورکنگ کلاس تارکین وطن کی حق تلفی قرار دیا۔یہ تنظیم سبھی تہذیبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ میں نیویارک میں انھی کے پاس رکا تھا، انھوں نے اپنی بے انتہا مصروفیات میں سے وقت نکال کر میرے ساتھ وقت گزارا اور اپنی مہمان نوازی کا ثبوت دیا۔ اُن کے چرچے محض نیویارک ہی میں نہیں بلکہ پورے امریکا میں ہیں، جہاں جہاں پاکستانی بستے ہیں وہ اُن کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔
''مسافر'' امریکا میں ہر چیز کو ''جائزے'' کی آنکھ سے ٹٹول رہا تھا۔ وہاں جس بات نے مجھے تشویش میں مبتلا کیا وہ یہ تھا کہ جس شہر میں بھی ہوٹل میں ٹھہرے وہاں فرنٹ ڈیسک سے ریسٹورنٹ میں بیرے اور ہر چھوٹا کام کرنے والے ملازمین کا تعلق میکسیکو، انڈیا، پاکستان، افغانستان یا بنگلہ دیش سے ہی پایا۔ کوڑا کرکٹ اٹھانے والے، سڑکوں کی مرمت کرنے والے ہمیشہ سیاہ فام امریکی ہی نظر آتے ہیں۔ یعنی سفید فام امریکی چھوٹا کام نہیں کرتے۔ واشنگٹن، شکاگو، نیویارک اور دوسرے بڑے شہروں میں ٹیکسی ڈرائیور بھی ایشیائی ہیں یا سیاہ فام امریکی۔
امریکا بطور سسٹم، بطور قوم اور بطور جمہوری ملک ہم سے بہت آگے ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ وہاں بینکوں کے اندر جانے کی ضرورت نہیں۔بلکہ ہر بینک کے کاؤنٹر کی کھڑکی سڑک سے لگی ہوئی ہوتی ہے۔ وہاں ایک ملازم رہتا ہے۔کھڑکی کے باہر مائیکرو فون لگا ہے۔جو بھی پوچھنا ہے اپنی کار میں بیٹھے بیٹھے سارا کام چند منٹوں میں ختم کر کے آدمی وہاں سے روانہ ہو جاتا ہے۔یہ نظام امریکا میں 35سال پہلے سے ہے،اور پاکستان میں ابھی ایسے نظام کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکا میں ترقی کا کتنا فرق ہے۔
ہمارے ہاں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر بغیر خوف کے ٹی وی چینلز کو بتا رہے تھے کہ ہمارے بینکنگ نظام میں سے کچھ لوگوں نے تمام اکاؤنٹ ہولڈرز کی معلومات چوری کر لی ہیں اور یہ اکاؤنٹس ملک میں موجود تمام 22بینکوں کے ہیں۔ خیر چھوڑیں امریکا واپس آجائیں، جہاں ہر شہری چاہے وہ امریکن ہو یا غیر امریکن،جسے وہاں کی قومیت مل گئی ہے یا اقامہ مل گیا ہے ،اس کے پاس ایک کارڈ ہے جو اس کی حیثیت، اس کی ملازمت کی نشان دہی کرتا ہے،اسی پر اس کا اکاؤنٹ نمبر بھی ہے، اس کارڈ پر امریکا کے اندر جس شہر میں جس وقت جتنی مقدار یا تعدادمیں جو چیز خریدنی ہوں فوراً مل جائے گی۔اگر بینک میں جمع شدہ رقم سے زیادہ بھی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں بینک آیندہ کی مد پرادائیگی کر دے گا۔اس طرح کی سہولت پاکستان میں کہاں میسر؟
اگر پولیس کی بات کی جائے تو وہاں کی پولیس اور ڈرائیور گھر کے فرد کی طرح ہیں۔ امریکا میں پولیس والا عوام کے لیے معاون ہوتا ہے۔اگر وہاں کوئی راستے میں بیمار ہو گیا تو پولیس ایمبولینس کا بندوبست کرے گی ۔اگر گھر میں تنہا ہے اور بیمار تو بھی پولیس پوری مدد کرے گی، مریض کے ساتھ جائے گی۔وہاں علاج کا پورا بندوبست کر کے، مریض کے رشتے داروں کو خبر کر کے پھر واپس ہوگی۔ اس کے برعکس پاکستان کی پولیس کا تصور کیجیے، ایسا لگتا ہے کہ عوام کے لیے یہ عذاب ہیں۔اگر ہم امریکی نیشنلٹی کی بات کریں تو وہاں ہم اقرار کرتے اور ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہیں کہ ہماری سب سے زیادہ وفاداری امریکا کے ساتھ ہوگی، امریکا میں دوسری اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد کثرت سے موجود ہیں۔
امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر دوسرا آدمی مختلف قوم سے تعلق رکھتا ہے یا یوں کہیے کہ دنیا کے ہر ملک کے شہری امریکا میں ضرور رہائش پذیر ہوں گے اور وہ ''امریکی'' بھی بن چکے ہوں گے۔ وہاں آپ کو ہندو، چینی ، پاکستانی، بھارتی، افغانی، میکسیکن اور افریقین نژاد امریکی ملیں گے۔
لیکن وہاں جو کوئی بھی رہتا ہے وہ امریکی قوانین کے مطابق زندگی گزارتا ہے ۔ ایک بات جو میں نے وہاں محسوس کی وہ یہ ہے کہ (معذرت کے ساتھ )پاکستانی امریکی نیشنلٹی لینے کے لیے بڑے سے بڑا جھوٹ بولتے ہیں۔ اور ''امریکی '' بننے کے بعد سب سے زیادہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔وہاں پر بھی ہم پاکستانی ایک دوسرے کی خوب ٹانگیں کھینچتے ہیں، خوب لابنگ کرتے ہیں۔امریکا کی ایک اور خاص بات بتاتا چلوں کہ یہاں پارکوں کو بھی ''ایوارڈ''سے نوازا جاتا ہے۔
میرے خیال یہ ایوارڈ ان پارکوں کو نہیں ملتا ہوگا بلکہ یہ ایوارڈ شاید ان افراد کے لیے ہوگا جو ان کی خوبصورتی کو برقرار رکھتے ہوں گے۔اس لیے وہاں کے پارک کسی مصور کی تخلیق سے کم نہیں ہوتے۔آخر میں ایک محض ایک شکوہ کرتا چلوں کہ امریکا میں جب بھی کرسمس یا ایسٹر جیسے تہواروں کی آمد ہوتی ہے تو وہاں پر بڑی بڑی کمپنیاں سیل پوائنٹس کھول دیتی ہیںاور 75فیصد تک رعایت دیتی ہیں جب کہ یہاں عیدین اور دیگر تہواروں پر سب کچھ مہنگا کر دیا جاتا ہے ۔ باتیں تو بہت سی تھیں مگر اختصار میں لکھنے کے باعث کافی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے سے قاصر رہا لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ امریکا واقعی ایک ایسا ملک ہے جہاں زندگی میں ایک بار ضرور جانا چاہیے!!!