امید ِبہار
گذشتہ جمعہ کے دن میرے پاس میرے ایک بیچ میٹ جن کا نام نامی میجر(ر) عبدالحمید ہے مجھے ملنے میری ہی دعوت پر۔۔۔
RAWALPINDI:
گذشتہ جمعہ کے دن میرے پاس میرے ایک بیچ میٹ جن کا نام نامی میجر(ر) عبدالحمید ہے مجھے ملنے میری ہی دعوت پر تشریف لائے ۔ ظاہر ہے جب دوست اکٹھے ہوں تو دنیا جہان کی باتیں ہوتی ہیں زندگی کے ہر مسئلے پر تفصیل سے گفتگو ہوتی ہے اور ان تمام باتوں کے لیے کسی سر پیرکی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی جاتی کیونکہ دوستوں میں کسی قسم کا تکلف روا نہیں رکھا جاتا۔ دوستوں کی محفل میں کسی ایجنڈے کے تحت گفتگو یا گپ شپ نہیں کی جاتی ۔ بس جو جی میں آئے اس پر بات شروع ہوجاتی ہے اور جب تک دل چاہے اُسے بڑھایا جاتا ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود آج کل اس قسم کی دوستانہ محفلوں کے موضوعات میںبھی ایک قدر مشترک ہے جس کا تعلق ملکی حالات و واقعات سے ہے یعنی ایسی بے تکلفانہ اور دوستانہ ملاقاتوں میں بھی گفتگو کا موضوع اپنا پیارا وطن اور اس کو درپیش مسائل اور مشکلات اور ان کا ممکنہ حل ہی ہوتا ہے۔ لہذا جمعہ کے روز ہونے والی اس ملاقات کا موضوع بھی بالآخر انھیں مسئلوں کی جانب پھر گیا اور گرمی کی حدت کی پرواہ کیے بغیر اپنے ملک کے بارے میں بہت ساری باتیں کی گئیں جنھوں نے باد نسیم کی طرح گرمی کی حدت کو بہت حد تک کم کردیا۔
چونکہ میجر (ر) عبدالحمید آج کل اکادمی ادبیات کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور خود ادیب اور شاعر نہ ہونے کے باوجود ان لکھاریوں کی فلاح وبہبود اور حوصلہ افزائی کے لیے انتہائی خُلوص اور محبت کے ساتھ کوشاں ہیں اور خود چل کے ان تک پہنچ جاتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعے ان مخصوص علاقوں اور پسماندہ بستیوں کی سوچ کے بارے میں بلاواسطہ رسائی حاصل ہوسکے جن کے بارے میں بقیہ پاکستان ناصرف بے خبر بلکہ بالکل ہی انجان بنا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ان دُور دراز علاقوں کے ادیب شاعر اور لکھاری اپنے وطن اور اس کی ہر ہر شناخت کے پہلوئوں سے وابستہ ہیں اور اس طور سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس بیٹھ کرہی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے اندر اِس کو جوڑنے والی قوتیں اب بھی اس ملک کو توڑنے والی قوتوں سے بہت زیادہ ہیں۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے وہ تمام ادارے جو اس ملک کو جوڑنے کا باعث ہونے چاہیے تھے وہ اب جگہ جگہ اس ملک کوتوڑنے کا باعث بنتے جا رہے ہیں مثلاً مسجد مسلمانوں کو جوڑنے کی جگہ ہونی چاہیے لیکن ہمارے ملک میں مسجد مسلمانوں کو توڑنے کی جگہ بنتی جا رہی ہے کیونکہ مسجد اب خدا کے گھرکے بجائے مولوی کا گھر بن گئی ہے اور اب ہر مولوی کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ مسجد میں کسے آنے دیتا ہے اور کسے نہیں۔ میں مشرق وسطیٰ کے اندر چار سال رہا ہوں اور تقریباً بہت سارے ملکوں میں گھوما ہوں جہاں مسجد میں جمعہ کا خطبہ حکومت کی طرف سے لکھا ہوا ملتاہے جس کا ایک ایک کوما اور فل اسٹاپ تک کو بدلنے کی کسی بھی مسجد کے امام کو جرات نہیں ہوسکتی کیونکہ مسجد کو وہاں کی حکومتیں عبادت اور صرف عبادت کا مقام سمجھتی ہیں اور ہمارے ملک کے برعکس اُسے سیاسی اکھاڑہ بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتیں۔
ہم نے چونکہ دین پورے کا پورا مولوی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے اس لیے اب ہم اُس کے ہاتھوں گروی ہوچکے ہیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر گلی گلی کشت و خون کا بازار گرم ہے۔ مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے، ایک دوسرے کو کافر کا خطاب دیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے کے خون کو حلال سمجھا جارہا ہے۔ جن باتوں کو ہمارے عظیم دین اسلام نے کفار کے لیے بھی رواء نہیں رکھا ان باتوں کو ہم نے اپنے لیے ایک باقاعدہ کھیل بنا لیا ہے اور ایک دوسرے کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی جا رہی ہے۔
باتوں باتوں میں ہم نے محسوس کیا کہ یہی وقت ہے ۔ جس میں ہمارے عظیم لکھاری قوم کو دوبارہ پٹری پر چڑھا سکتے ہیں، لکھاری کے اندر ایک درد مند اور حساس دل ہوتا ہے جو بعض اوقات اپنے سے زیادہ دوسروں کے لیے دھڑکتا ہے ۔
بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ لکھاری دماغ سے دھڑکنا اور دل سے سوچنے لگ جاتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں وہ شاہکار تخلیق کرتا ہے جو بچھڑے ہوئوں کو ملا دیتا ہے، جو گمشدہ کو بازیاب کرا دیتا ہے، جو بیماروں کو شفا عطاکردیتا ہے، جو تھکے ہوئوں کو نیا حوصلہ بخش دیتا ہے، جو مایوسیوں کو امیدوں میں بدل دیتا ہے اور جو بالآخر خزائوں کو بہاروں سے بدل دیتا ہے۔ یہ قوت اور طاقت قدرت نے لکھاری کے قلم کو عطا کر رکھی ہے۔ بس اسے صرف فیصلہ کرنے کا حوصلہ چاہیے۔ ایک مرتبہ کوئی لکھاری صدق دل اور خلوص نیت سے فیصلہ کرلے کہ وہ اپنے ارد گرد کی تمام غلاظتوں کو بے نقاب کرے گا، اپنے ماحول کو آلودہ نہیں ہونے دے گا۔ اپنے آس پاس کو گندہ نہیں ہونے دے گا۔ محض اُس کا یہ فیصلہ ہی ہمارے ملک کے شہروں اور گلی کوچوں کو گندی سوچوں سے پاک کرنے میں ایک انقلاب پیدا کرسکتا ہے۔ اور ہم لوگ پھر سے ایک دوسرے کے دوست بن جاسکتے ہیں۔ ہم شاید دوبارہ کندھے سے کندھا ملا کے چلنے لگ جائیں اور غم و اندوہ کی بجائے خوشیاں بکھیرنے لگ جائیں۔ اے ہمارے لکھاری تو کیوں چپ ہے تو فیصلہ کیوں نہیں کرلیتا تو فیصلہ کر تاکہ ہم سدھر جائیں۔
میجر (ر) عبدالحمید ایک نہایت مہربان دوست، شفیق اور محبت کرنے والے انسان اور ایک انتہائی ایماندار اور حوصلے والے سرکاری افسر ہیں جن کی موجودگی ملک و قوم دونوں کے لیے غنیمت ہے خدا انھیں ہمیشہ اپنے سایہء عافیت میں رکھے اور پاکستان کے عظیم اور غیور لکھاریوں کی خدمت کرنے کا مزید حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے۔
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
گذشتہ جمعہ کے دن میرے پاس میرے ایک بیچ میٹ جن کا نام نامی میجر(ر) عبدالحمید ہے مجھے ملنے میری ہی دعوت پر تشریف لائے ۔ ظاہر ہے جب دوست اکٹھے ہوں تو دنیا جہان کی باتیں ہوتی ہیں زندگی کے ہر مسئلے پر تفصیل سے گفتگو ہوتی ہے اور ان تمام باتوں کے لیے کسی سر پیرکی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی جاتی کیونکہ دوستوں میں کسی قسم کا تکلف روا نہیں رکھا جاتا۔ دوستوں کی محفل میں کسی ایجنڈے کے تحت گفتگو یا گپ شپ نہیں کی جاتی ۔ بس جو جی میں آئے اس پر بات شروع ہوجاتی ہے اور جب تک دل چاہے اُسے بڑھایا جاتا ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود آج کل اس قسم کی دوستانہ محفلوں کے موضوعات میںبھی ایک قدر مشترک ہے جس کا تعلق ملکی حالات و واقعات سے ہے یعنی ایسی بے تکلفانہ اور دوستانہ ملاقاتوں میں بھی گفتگو کا موضوع اپنا پیارا وطن اور اس کو درپیش مسائل اور مشکلات اور ان کا ممکنہ حل ہی ہوتا ہے۔ لہذا جمعہ کے روز ہونے والی اس ملاقات کا موضوع بھی بالآخر انھیں مسئلوں کی جانب پھر گیا اور گرمی کی حدت کی پرواہ کیے بغیر اپنے ملک کے بارے میں بہت ساری باتیں کی گئیں جنھوں نے باد نسیم کی طرح گرمی کی حدت کو بہت حد تک کم کردیا۔
چونکہ میجر (ر) عبدالحمید آج کل اکادمی ادبیات کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور خود ادیب اور شاعر نہ ہونے کے باوجود ان لکھاریوں کی فلاح وبہبود اور حوصلہ افزائی کے لیے انتہائی خُلوص اور محبت کے ساتھ کوشاں ہیں اور خود چل کے ان تک پہنچ جاتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعے ان مخصوص علاقوں اور پسماندہ بستیوں کی سوچ کے بارے میں بلاواسطہ رسائی حاصل ہوسکے جن کے بارے میں بقیہ پاکستان ناصرف بے خبر بلکہ بالکل ہی انجان بنا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ان دُور دراز علاقوں کے ادیب شاعر اور لکھاری اپنے وطن اور اس کی ہر ہر شناخت کے پہلوئوں سے وابستہ ہیں اور اس طور سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس بیٹھ کرہی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے اندر اِس کو جوڑنے والی قوتیں اب بھی اس ملک کو توڑنے والی قوتوں سے بہت زیادہ ہیں۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے وہ تمام ادارے جو اس ملک کو جوڑنے کا باعث ہونے چاہیے تھے وہ اب جگہ جگہ اس ملک کوتوڑنے کا باعث بنتے جا رہے ہیں مثلاً مسجد مسلمانوں کو جوڑنے کی جگہ ہونی چاہیے لیکن ہمارے ملک میں مسجد مسلمانوں کو توڑنے کی جگہ بنتی جا رہی ہے کیونکہ مسجد اب خدا کے گھرکے بجائے مولوی کا گھر بن گئی ہے اور اب ہر مولوی کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ مسجد میں کسے آنے دیتا ہے اور کسے نہیں۔ میں مشرق وسطیٰ کے اندر چار سال رہا ہوں اور تقریباً بہت سارے ملکوں میں گھوما ہوں جہاں مسجد میں جمعہ کا خطبہ حکومت کی طرف سے لکھا ہوا ملتاہے جس کا ایک ایک کوما اور فل اسٹاپ تک کو بدلنے کی کسی بھی مسجد کے امام کو جرات نہیں ہوسکتی کیونکہ مسجد کو وہاں کی حکومتیں عبادت اور صرف عبادت کا مقام سمجھتی ہیں اور ہمارے ملک کے برعکس اُسے سیاسی اکھاڑہ بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتیں۔
ہم نے چونکہ دین پورے کا پورا مولوی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے اس لیے اب ہم اُس کے ہاتھوں گروی ہوچکے ہیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر گلی گلی کشت و خون کا بازار گرم ہے۔ مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے، ایک دوسرے کو کافر کا خطاب دیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے کے خون کو حلال سمجھا جارہا ہے۔ جن باتوں کو ہمارے عظیم دین اسلام نے کفار کے لیے بھی رواء نہیں رکھا ان باتوں کو ہم نے اپنے لیے ایک باقاعدہ کھیل بنا لیا ہے اور ایک دوسرے کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی جا رہی ہے۔
باتوں باتوں میں ہم نے محسوس کیا کہ یہی وقت ہے ۔ جس میں ہمارے عظیم لکھاری قوم کو دوبارہ پٹری پر چڑھا سکتے ہیں، لکھاری کے اندر ایک درد مند اور حساس دل ہوتا ہے جو بعض اوقات اپنے سے زیادہ دوسروں کے لیے دھڑکتا ہے ۔
بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ لکھاری دماغ سے دھڑکنا اور دل سے سوچنے لگ جاتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں وہ شاہکار تخلیق کرتا ہے جو بچھڑے ہوئوں کو ملا دیتا ہے، جو گمشدہ کو بازیاب کرا دیتا ہے، جو بیماروں کو شفا عطاکردیتا ہے، جو تھکے ہوئوں کو نیا حوصلہ بخش دیتا ہے، جو مایوسیوں کو امیدوں میں بدل دیتا ہے اور جو بالآخر خزائوں کو بہاروں سے بدل دیتا ہے۔ یہ قوت اور طاقت قدرت نے لکھاری کے قلم کو عطا کر رکھی ہے۔ بس اسے صرف فیصلہ کرنے کا حوصلہ چاہیے۔ ایک مرتبہ کوئی لکھاری صدق دل اور خلوص نیت سے فیصلہ کرلے کہ وہ اپنے ارد گرد کی تمام غلاظتوں کو بے نقاب کرے گا، اپنے ماحول کو آلودہ نہیں ہونے دے گا۔ اپنے آس پاس کو گندہ نہیں ہونے دے گا۔ محض اُس کا یہ فیصلہ ہی ہمارے ملک کے شہروں اور گلی کوچوں کو گندی سوچوں سے پاک کرنے میں ایک انقلاب پیدا کرسکتا ہے۔ اور ہم لوگ پھر سے ایک دوسرے کے دوست بن جاسکتے ہیں۔ ہم شاید دوبارہ کندھے سے کندھا ملا کے چلنے لگ جائیں اور غم و اندوہ کی بجائے خوشیاں بکھیرنے لگ جائیں۔ اے ہمارے لکھاری تو کیوں چپ ہے تو فیصلہ کیوں نہیں کرلیتا تو فیصلہ کر تاکہ ہم سدھر جائیں۔
میجر (ر) عبدالحمید ایک نہایت مہربان دوست، شفیق اور محبت کرنے والے انسان اور ایک انتہائی ایماندار اور حوصلے والے سرکاری افسر ہیں جن کی موجودگی ملک و قوم دونوں کے لیے غنیمت ہے خدا انھیں ہمیشہ اپنے سایہء عافیت میں رکھے اور پاکستان کے عظیم اور غیور لکھاریوں کی خدمت کرنے کا مزید حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے۔
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔