تعلیم کی دولت خوشحالی کی ضمانت
تعلیم کا معیار کسی بھی ملک کے بہترین مستقبل اور اقتصادی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات اور تعلیم۔۔۔
FAISALABAD:
تعلیم کا معیار کسی بھی ملک کے بہترین مستقبل اور اقتصادی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات اور تعلیم اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اقتصادی طاقت بننے کے لیے قوم کے پاس اعلیٰ تعلیمی ماحول اور عالمی معیار کے تعلیمی ادارے ہونا انتہائی ضروری ہیں۔ معاشی ترقی کے لیے تعلیمی شعبے میں بہتری لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گوکہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ایچ ای سی نے ہائر ایجوکیشن کے لیے بڑی مثالی خدمات انجام دیں لیکن اس دور میں نچلی سطح پر تعلیم کے لیے کوئی قابل ذکر کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ اس کی ترقی کے بجائے تنزلی کا سلسلہ دیکھنے میں آیا۔ تعلیم مہنگی اور طبقاتی ہوتی چلی گئی۔ نقل، رشوت، سفارش، میرٹ کی پامالی جڑیں پکڑتی گئیں۔
تعلیم کے معامے میں صوبہ سندھ سب سے بدقسمت صوبہ ہے جہاں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ خرابیوں سے ہمکنار ہوا۔ یہاں نقل، کرپشن، بدنظمی، بدانتظامی اور اہل طلبا کے استحصال میں منظم مافیا اور محکمہ تعلیم خود ملوث ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا میں مایوسی، بددلی، غصہ اور اچھے نمبروں سے امتحان پاس کرنے کے لیے غیرقانونی حربے استعمال کرنے کا رجحان پیدا ہوا ہے بلکہ اب تو والدین اور اساتذہ بھی یہ کہتے ہوئے دیکھے گئے ہیں کہ بچوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے یا سیلف فنانس اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں لاکھوں روپوں کی فیس ادا کرنے سے بہتر ہے کہ امتحانات کے دوران یا نتیجہ آنے سے پہلے یا نتیجہ آنے کے بعد ہزاروں کی رشوت دے کر اچھا رزلٹ حاصل کرلیا جائے اس سے اچھے سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ لاکھوں روپے بچالیے جائیں۔
تعلیم کے سلسلے میں طلبا، اساتذہ، والدین اور حکومت کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے لیکن افسوس اور فکر کا مقام ہے کہ طلبا اور ان کے والدین کے ساتھ تو ظلم و زیادتی ہوہی رہی تھی مگر اساتذہ اور اساتذہ بننے کے امیدواروں کے ساتھ بھی سرکار کا رویہ بڑا ظالمانہ اور سفاکانہ ہے، ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جارہا ہے۔ سندھ میں گزشتہ تین حکومتوں کے دور سے اساتذہ کی بھرتی کے نام پر اقربا پروری، سفارش، رشوت اور اہل امیدواروں کی حق تلفی کا سلسلہ سرکاری طور پر جاری ہے، لاکھوں امیدواروں کو کروڑوں کے فارم بیچے گئے، جن سے اپنی عیاشی کے لیے نئی نئی گاڑیاں خریدی گئیں، خواہشمند امیدواروں کے کئی مرتبہ انٹرویو اور ٹیسٹ کے اعلانات کیے گئے پھر انھیں تبدیل یا منسوخ کیا گیا۔
شدید بدنظمی اور بدانتظامی کی وجہ سے بہت سے امیدواروں کو ایڈمٹ کارڈ جاری نہیں ہوئے، جنھیں ایڈمٹ کارڈ نہیں ملے ان امیدواروں نے دوسرے امیدواروں کے ایڈمٹ کارڈ بھی پھاڑ دیے۔ امتحانی مراکز سے خواتین کے موبائل اور دیگر قیمتی اشیاء غائب کردی گئیں، خواتین روتی بھی رہیں اور بے ہوش ہوکر گرتی بھی رہیں، چپڑاسی اور کلرک ممتحن کے فرائض ادا کرتے رہے، طلبا کے تو پیپر آؤٹ ہونے کی روایت پڑ چکی ہے، اساتذہ کے امتحانی پرچہ آؤٹ ہونے پر ان کے ٹیسٹ اور انٹرویو منسوخ کردیے گئے۔ یہ تمام مناظر ٹی وی چینلز نے ساری دنیا کو براہ راست دکھائے۔ ان دھاندلیوں، بدانتظامی اور بدنظمی پر امیدواروں نے صوبہ بھر میں ریلوے لائنوں، چوراہوں، سڑکوں، انڈس ہائی وے، نیشنل ہائی وے پر دھرنے دیے، خودسوزی کی کوششیں کیں، پتھراؤ، شیلنگ اور فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے۔
بعض امیدواروں کو تقرری کے لیٹر دیے جانے کے باوجود انھیں جوائننگ نہیں دی گئی، جن امیدواروں کو جوائننگ دی گئیں انھیں مہینوں سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی اور تنخواہوں کے مطالبے پر ان کی جو درگت بنائی گئی وہ شرمناک عمل ٹی وی چینلز کے ذریعے ساری دنیا نے دیکھے۔ کچھ یہی رویہ لیکچرار اور پروفیسرز کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ حق تلفی کے شکار سیکڑوں امیدواروں نے حصول انصاف کے لیے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں آئینی درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں جن سے عدالتوں پر کام کا غیر ضروری بوجھ پڑا۔ ایک موقع پر چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ ''ہمارے پاس خواتین اساتذہ کی درخواستیں آتی ہیں کہ حکمرانوں کے گھوڑے تو بادام کھا رہے ہیں اور ہمارے بچے دودھ کو ترس رہے ہیں۔ حکمراں یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ انھیں سابقہ حکومت نے بھرتی کیا تھا تو وہ انھیں نکال دیں گے''۔
تعلیم کے امداد دینے والے بین الاقوامی ادارے حکومت کے اس طرز عمل سے نالاں ہیں، ورلڈبینک اور یورپین یونین کی ٹیمیں یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کئی مرتبہ ناپسندیدگی، عدم اعتماد اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی امداد کو شفافیت سے مشروط ہونے کی تنبیہہ بھی کرتی رہی ہیں بلکہ یورپی یونین نے تو اپنی ساڑھے تین ارب کی امداد بھی روک دی تھی لیکن مجال ہے وزارت تعلیم کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ میرٹ کے نام پر دوبارہ انٹرویوز اور ٹیسٹ کا انعقاد کراکے یونین کونسل، تعلقہ کونسل، ضلع کونسل اور ان میں اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتی کے نام پر تقرری کا جو فارمولا طے کیا گیا ہے وہ ایک قانونی دھاندلی کا راستہ فراہم کرتا ہے جس کے تحت 90 فیصد نمبر حاصل کرنے والے کی جگہ 60 فیصد نمبر حاصل کرنے والا امیدوار بھرتی کرلیا جائے گا، آسامی خالی ہونے یا نہ ہونے کا امیدواروں کے علاوہ خود محکمہ تعلیم کے پاس بھی کوئی مستند و مربوط ریکارڈ یا نظام نہیں ہے۔
اس فارمولے کو نااہل، سفارشی اور راشی امیدواروں کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ ایک تازہ خبر یا ڈرامہ یہ آیا ہے کہ محکمہ تعلیم کے سابق صوبائی وزیر تعلیم کے دور میں بھرتیوں کو ''سیریس مس کنڈیکٹ'' قرار دیتے ہوئے انھیں فارغ کردینے جب کہ بھرتی کے ذمے داران افسران کے خلاف کریمنل مقدمات قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ خبر کے مطابق بھرتیوں کے ذمے دار افسران نے 9 ہزار میں سے ڈھائی ہزار بھرتیاں کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر امیدواروں سے بھرتی کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپے لیے گئے ہیں لہٰذا ان افسران کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے، ان کا سابقہ اور موجودہ معیار زندگی پرکھا جائے اور امیدواروں کی کروڑوں روپے کی رقم ان افسران سے واپس دلوائی جائے۔
محکمہ تعلیم میں بدعنوانیاں اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر ہیں، اس میں خود حکومت، ارباب اختیار کے علاوہ منظم مافیا کے بھی ذاتی مفادات اور عزائم شامل ہیں، یہ معاملہ محض چند اوسط یا اعلیٰ درجے کے افسران کا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔ وزارت تعلیم کے دفتر میں سرگرم مافیا تقرری، تبدیلی اور تعیناتی جیسے اہم عوامل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں بیک وقت دو ای ڈی او ایجوکیشن کی تعیناتی کا تماشا بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ دونوں ای ڈی اوز اپنے اختیارات استعمال کرنے اور ای ڈی او دفتر پر قبضے کی جنگ لڑتے رہے تھے۔ دونوں کی پشت پر صوبے کی دو سب سے بڑی شخصیات کے ہاتھ تھے، یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ نئے تقرر شدہ ای ڈی او کے لیے اس سرگرم مافیا نے 50 لاکھ رشوت ادا کی تھی۔ محکمہ تعلیم، وزارت تعلیم اور حکومت اپنے اس خوش کن سلوگن ''تعلیم کی دولت خوشحالی کی ضمانت'' کی تعبیر صرف اس صورت میں حاصل کرسکتی ہے جب وہ اپنے ذاتی مفادات اور عزائم سے بالاتر ہوکر ملک و قوم اور اس کی آنے والی نسلوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ بچار کرے۔
تعلیم کا معیار کسی بھی ملک کے بہترین مستقبل اور اقتصادی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات اور تعلیم اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اقتصادی طاقت بننے کے لیے قوم کے پاس اعلیٰ تعلیمی ماحول اور عالمی معیار کے تعلیمی ادارے ہونا انتہائی ضروری ہیں۔ معاشی ترقی کے لیے تعلیمی شعبے میں بہتری لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گوکہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ایچ ای سی نے ہائر ایجوکیشن کے لیے بڑی مثالی خدمات انجام دیں لیکن اس دور میں نچلی سطح پر تعلیم کے لیے کوئی قابل ذکر کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ اس کی ترقی کے بجائے تنزلی کا سلسلہ دیکھنے میں آیا۔ تعلیم مہنگی اور طبقاتی ہوتی چلی گئی۔ نقل، رشوت، سفارش، میرٹ کی پامالی جڑیں پکڑتی گئیں۔
تعلیم کے معامے میں صوبہ سندھ سب سے بدقسمت صوبہ ہے جہاں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ خرابیوں سے ہمکنار ہوا۔ یہاں نقل، کرپشن، بدنظمی، بدانتظامی اور اہل طلبا کے استحصال میں منظم مافیا اور محکمہ تعلیم خود ملوث ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا میں مایوسی، بددلی، غصہ اور اچھے نمبروں سے امتحان پاس کرنے کے لیے غیرقانونی حربے استعمال کرنے کا رجحان پیدا ہوا ہے بلکہ اب تو والدین اور اساتذہ بھی یہ کہتے ہوئے دیکھے گئے ہیں کہ بچوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے یا سیلف فنانس اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں لاکھوں روپوں کی فیس ادا کرنے سے بہتر ہے کہ امتحانات کے دوران یا نتیجہ آنے سے پہلے یا نتیجہ آنے کے بعد ہزاروں کی رشوت دے کر اچھا رزلٹ حاصل کرلیا جائے اس سے اچھے سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ لاکھوں روپے بچالیے جائیں۔
تعلیم کے سلسلے میں طلبا، اساتذہ، والدین اور حکومت کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے لیکن افسوس اور فکر کا مقام ہے کہ طلبا اور ان کے والدین کے ساتھ تو ظلم و زیادتی ہوہی رہی تھی مگر اساتذہ اور اساتذہ بننے کے امیدواروں کے ساتھ بھی سرکار کا رویہ بڑا ظالمانہ اور سفاکانہ ہے، ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جارہا ہے۔ سندھ میں گزشتہ تین حکومتوں کے دور سے اساتذہ کی بھرتی کے نام پر اقربا پروری، سفارش، رشوت اور اہل امیدواروں کی حق تلفی کا سلسلہ سرکاری طور پر جاری ہے، لاکھوں امیدواروں کو کروڑوں کے فارم بیچے گئے، جن سے اپنی عیاشی کے لیے نئی نئی گاڑیاں خریدی گئیں، خواہشمند امیدواروں کے کئی مرتبہ انٹرویو اور ٹیسٹ کے اعلانات کیے گئے پھر انھیں تبدیل یا منسوخ کیا گیا۔
شدید بدنظمی اور بدانتظامی کی وجہ سے بہت سے امیدواروں کو ایڈمٹ کارڈ جاری نہیں ہوئے، جنھیں ایڈمٹ کارڈ نہیں ملے ان امیدواروں نے دوسرے امیدواروں کے ایڈمٹ کارڈ بھی پھاڑ دیے۔ امتحانی مراکز سے خواتین کے موبائل اور دیگر قیمتی اشیاء غائب کردی گئیں، خواتین روتی بھی رہیں اور بے ہوش ہوکر گرتی بھی رہیں، چپڑاسی اور کلرک ممتحن کے فرائض ادا کرتے رہے، طلبا کے تو پیپر آؤٹ ہونے کی روایت پڑ چکی ہے، اساتذہ کے امتحانی پرچہ آؤٹ ہونے پر ان کے ٹیسٹ اور انٹرویو منسوخ کردیے گئے۔ یہ تمام مناظر ٹی وی چینلز نے ساری دنیا کو براہ راست دکھائے۔ ان دھاندلیوں، بدانتظامی اور بدنظمی پر امیدواروں نے صوبہ بھر میں ریلوے لائنوں، چوراہوں، سڑکوں، انڈس ہائی وے، نیشنل ہائی وے پر دھرنے دیے، خودسوزی کی کوششیں کیں، پتھراؤ، شیلنگ اور فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے۔
بعض امیدواروں کو تقرری کے لیٹر دیے جانے کے باوجود انھیں جوائننگ نہیں دی گئی، جن امیدواروں کو جوائننگ دی گئیں انھیں مہینوں سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی اور تنخواہوں کے مطالبے پر ان کی جو درگت بنائی گئی وہ شرمناک عمل ٹی وی چینلز کے ذریعے ساری دنیا نے دیکھے۔ کچھ یہی رویہ لیکچرار اور پروفیسرز کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ حق تلفی کے شکار سیکڑوں امیدواروں نے حصول انصاف کے لیے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں آئینی درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں جن سے عدالتوں پر کام کا غیر ضروری بوجھ پڑا۔ ایک موقع پر چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ ''ہمارے پاس خواتین اساتذہ کی درخواستیں آتی ہیں کہ حکمرانوں کے گھوڑے تو بادام کھا رہے ہیں اور ہمارے بچے دودھ کو ترس رہے ہیں۔ حکمراں یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ انھیں سابقہ حکومت نے بھرتی کیا تھا تو وہ انھیں نکال دیں گے''۔
تعلیم کے امداد دینے والے بین الاقوامی ادارے حکومت کے اس طرز عمل سے نالاں ہیں، ورلڈبینک اور یورپین یونین کی ٹیمیں یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کئی مرتبہ ناپسندیدگی، عدم اعتماد اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی امداد کو شفافیت سے مشروط ہونے کی تنبیہہ بھی کرتی رہی ہیں بلکہ یورپی یونین نے تو اپنی ساڑھے تین ارب کی امداد بھی روک دی تھی لیکن مجال ہے وزارت تعلیم کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ میرٹ کے نام پر دوبارہ انٹرویوز اور ٹیسٹ کا انعقاد کراکے یونین کونسل، تعلقہ کونسل، ضلع کونسل اور ان میں اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتی کے نام پر تقرری کا جو فارمولا طے کیا گیا ہے وہ ایک قانونی دھاندلی کا راستہ فراہم کرتا ہے جس کے تحت 90 فیصد نمبر حاصل کرنے والے کی جگہ 60 فیصد نمبر حاصل کرنے والا امیدوار بھرتی کرلیا جائے گا، آسامی خالی ہونے یا نہ ہونے کا امیدواروں کے علاوہ خود محکمہ تعلیم کے پاس بھی کوئی مستند و مربوط ریکارڈ یا نظام نہیں ہے۔
اس فارمولے کو نااہل، سفارشی اور راشی امیدواروں کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ ایک تازہ خبر یا ڈرامہ یہ آیا ہے کہ محکمہ تعلیم کے سابق صوبائی وزیر تعلیم کے دور میں بھرتیوں کو ''سیریس مس کنڈیکٹ'' قرار دیتے ہوئے انھیں فارغ کردینے جب کہ بھرتی کے ذمے داران افسران کے خلاف کریمنل مقدمات قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ خبر کے مطابق بھرتیوں کے ذمے دار افسران نے 9 ہزار میں سے ڈھائی ہزار بھرتیاں کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیشتر امیدواروں سے بھرتی کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپے لیے گئے ہیں لہٰذا ان افسران کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے، ان کا سابقہ اور موجودہ معیار زندگی پرکھا جائے اور امیدواروں کی کروڑوں روپے کی رقم ان افسران سے واپس دلوائی جائے۔
محکمہ تعلیم میں بدعنوانیاں اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر ہیں، اس میں خود حکومت، ارباب اختیار کے علاوہ منظم مافیا کے بھی ذاتی مفادات اور عزائم شامل ہیں، یہ معاملہ محض چند اوسط یا اعلیٰ درجے کے افسران کا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔ وزارت تعلیم کے دفتر میں سرگرم مافیا تقرری، تبدیلی اور تعیناتی جیسے اہم عوامل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں بیک وقت دو ای ڈی او ایجوکیشن کی تعیناتی کا تماشا بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ دونوں ای ڈی اوز اپنے اختیارات استعمال کرنے اور ای ڈی او دفتر پر قبضے کی جنگ لڑتے رہے تھے۔ دونوں کی پشت پر صوبے کی دو سب سے بڑی شخصیات کے ہاتھ تھے، یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ نئے تقرر شدہ ای ڈی او کے لیے اس سرگرم مافیا نے 50 لاکھ رشوت ادا کی تھی۔ محکمہ تعلیم، وزارت تعلیم اور حکومت اپنے اس خوش کن سلوگن ''تعلیم کی دولت خوشحالی کی ضمانت'' کی تعبیر صرف اس صورت میں حاصل کرسکتی ہے جب وہ اپنے ذاتی مفادات اور عزائم سے بالاتر ہوکر ملک و قوم اور اس کی آنے والی نسلوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ بچار کرے۔