پاکستان کو درپیش ایک خاموش بحران
پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے اطفال کی تقریباً نصف آبادی مسلسل مطلوبہ غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔
پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے اطفال کی تقریباً نصف آبادی مسلسل مطلوبہ غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ یہ اعدادوشمار کئی افریقی ممالک سے بھی زیادہ تشوشناک ہیں۔ دنیا بھر میں قدرتی نشوونما سے محروم بیس بچوں میں سے ایک پاکستان میں رہتا ہے۔ پاکستان اس مسئلے کے حل سے بہت دور ہے اور انتہائی بھوک کے خاتمے کے مطلوبہ معیار MDGI کے قریب ہوتا بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
نئی منتخب حکومت کو اس موقع کا مناسب استعمال کرکے اس بحران سے نمٹنے کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔
مطلوبہ غذائیت میں کمی سے دوچار بچے، بیماریوں اور وبائی امراض کے آسانی سے شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ زندگی بھر کے لیے سیکھنے کی صلاحیت اور یادداشت میں کمی کے باعث آئی کیو میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور اسکول میں کم تر کارکردگی دکھا پاتے ہیں۔
ایسے بچے بڑے ہوکر صحت مند بچوں کے برابر محنت نہیں کرسکتے اس لیے ان کی آمدنی میں بھی چھیالیس فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس کا نتیجہ کم پیداواری اور کم تخلیقی پیشہ ور افراد کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ صورتحال قومی پیداوار کو تشویشناک حد تک کم کرکے پاکستان کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔
اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق کم غذائیت سے پاکستان کی جی ڈی پی دو سے تین فی صد کم ہوکر اربوں روپے کے سالانہ نقصان کے برابر ہوتی ہے۔ یہ توانائی کے بحران کے باعث جی ڈی پی کو پہنچنے والے نقصان کے مساوی ہے۔
نئی منتخب شدہ حکومت فوری کارروائی کرکے اس پر قابو پا سکتی ہے۔ اگلے چالیس سالوں میں پاکستان کی آبادی میں پچاس فیصد اضافہ متوقع ہے۔ اگر یہ نسل صحت مند اور تعلیم یافتہ ہوئی تو صلاحیت اور تخلیق کا ایک وسیع خزانہ ثابت ہوگی۔ مناسب نشوونما کے باعث ان کی سیکھنے، محنت سے کام کرنے، اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا اور دنیا کے منظر پہ پاکستان کے معاشی امکانات نمایاں ہوجائیں گے۔
ایک ہزار اہم ایام
خواتین کے حمل ٹھہرنے کے بعد سے بچے کی دوسری سالگرہ تک کے پہلے ایک ہزار ایام بہت اہم ہوتے ہیں اور بچے کی پوری زندگی کی تشکیل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران غذائیت میں کمی کے نقصانات طویل اور مستقل ہوتے ہیں۔ ان ہزار ایام کے دوران اچھی خوراک اسکول اور بعد کی زندگی میں کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔ مناسب غذائیت پانے والے بچے مہارت طلب ذریعہ روزگار اپنا کر بہتر آمدنی حاصل کرسکتے ہیں، جس کے ذریعے وہ اپنی، اپنے خاندان کی زندگی میں بہتری پیدا کرکے آخرکار اپنی برادری کو غربت سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
غذائیت کے مسئلے کے حل کو اخلاقی اور معاشی ضرورت سمجھ کر اولین ترجیح کے ساتھ اس کا سدباب کیا جانا چاہیے۔
بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں مدد کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے؟
دنیا بھر میں غذائیت کی کمی سے نمٹنا برطانوی حکومت اور ورلڈ بینک کی ترجیحات میں سے ہے۔
ورلڈ بینک، ڈی ایک آئی ڈی (DFID) آس ایڈ (AusAid) ، اقوام متحدہ کے اداروں، غیر سرکاری اداروں اور دیگر ان جیسے بین الاقوامی شریک کاروں پر مشتمل ایک گروپ کی سربراہی کررہا ہے جوکہ غذائیت کی کمی سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اس گروپ نے مالی اور تکنیکی امداد فراہم کی ہے اور غذائیت کی کمی کے بحران سے نمٹنے میں کارگر ثابت ہونے والے اقدامات میں باقاعدگی لانے کے ورلڈ بینک نے کروڑوں ڈالر کا ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے۔
پچھلے ہفتے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کی نائب سربراہی میں منعقد ہونے والے 'نیوٹریشن فار گرائوتھ سمٹ' میں برطانوی حکومت نے غذائیت میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کروڑوں اسٹرلنگ پائونڈ کا اعلان کیا ہے۔ اس سمٹ میں دیگر ذرائع سے بھی رقم حاصل ہوئی اور مجموعی طور پر چار ارب ڈالر کا فنڈ جمع ہوا۔ اس سمٹ کے شرکاء حکومتوں، کاروباری اداروں اور سائنس کے ساتھ کروڑوں زندگیوں کے حالات میں بہتری لانے، 2020 تک دو کروڑ اطفال کو نامناسب نشوونما سے تحفظ دینے، اور غذائیت میں کمی کے خاتمے کے لیے ایک نئی پیش رفت پر متفق ہوئے۔برطانوی حکومت اور ورلڈ بینک، پاکستان سمیت پوری دنیا میں غذائیت کی کمی پر قابو پانے کے لیے ترقیاتی مالی وسائل میں قابل قدر اضافہ کررہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور برطانوی حکومت ڈی ایف آئی ڈی کے ذریعے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں تاکہ انیمیا، زچگی اور بچپن کے ابتدائی ایام کے دوران دیگر غذائی قلتوں کے سدباب کے لیے درکار مائیکرو نیوٹرنٹ سپلیمنٹ مہیا کیے جاسکیں اور بچوں کے ابتدائی چھ ماہ تک ماں کے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرکے چھوٹے بچوں کے لیے مناسب غذا اور بچپن میں غذائیت کی کمی کا شکار ہونے والے بچوں کے علاج میں بہتری لائی جاسکے۔
برطانیہ غذائیت کی کمی کے سدباب کے لیے انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ تعاون کرکے لاکھوں غریب ترین خواتین اور اطفال کی مدد کرنے کے لیے ممکنات کا بھی جائزہ لے رہا ہے۔ ہم خوراک میں آئرن اور فولک ایسڈ جیسے صحت مند غذائی اجزاء شامل کیے جانے کے ممکنات پر بھی کام کررہے ہیں۔
اور ہم ہنگامی حالات میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ 2010 کے دوران برطانیہ نے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ کم غذائیت کے شکار پانچ لاکھ بچوں اور حاملہ خواتین کو توانائی سے بھرپور غذائی مرکبات فراہم کیے۔ انہی متاثرین کو ہم نے 2011 اور 2012 کے دوران بیج اور جانور مہیا کیے تاکہ وہ ایک نئی زندگی شروع کرسکیں۔ ورلڈ بینک نے سیلاب زدہ خاندانوں کو ہنگامی بنیادوں پر نقد امداد فراہم کی تاکہ وہ ان نامساعد حالات کے دوران اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکیں۔
نئی منتخب حکومت کو کیا آزمائشیں درپیش ہیں؟
اس معاملے میں بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان ماہ اپریل میں اسکیلنگ اپ نیوٹریشن کی عالمی تحریک (Scaling Up Nutrition - SUN) کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان 'ایک ہزار اہم گھنٹے' کے دوران حمل سے دوسال کی عمر تک کے بچوں کو مناسب غذا کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔ نئی حکومت کے لیے اس میں مزید پیش رفت ایک ہم چیلنج ہے۔ حکومت کو اس میں پیش رفت صرف صحت کے شعبے سے نہیں بلکہ تعلیم زراعت، صاف پانی کی فراہمی، غریب ترین افراد کی امداد اور دیگر معاملات میں اصلاحات کے ذریعے کرنی ہوگی۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو متعلقہ وزارتوں کی منتقلی غذائیت پر ان کے اپنے نقطہ نظر کو آگے لے جانے کے لیے ایک موقع فراہم کرتی ہے۔ اپنے ترقیاتی شریک کاروں سے تکنیکی معاونت کے ساتھ صوبائی حکومتوں نے ماں اور بچے کی غذائیت کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ اس سلسلے میں مالی ضروریات صوبائی حکومتوں کے اپنے بجٹ کے علاوہ آس ایڈ، ڈی ایف آئی ڈی اور ورلڈبینک جیسے ترقیاتی شریک کاروں سے بھی پوری کی جاتی ہیں۔
غذائیت کے معاملے پر عشروں پر محیط انجماد کے بعد اب ہم اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں سنجیدہ اقدامات دیکھ رہے ہیں۔
فوری کارروائی کرکے پاکستان کی نئی منتخب حکومت لاکھوں بچوں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کرکے ایک صحت مند، تعلیم یافتہ اور بار آور افرادی قوت کی بنیاد رکھ سکتی ہے جوکہ ترقی کو فروغ دیکر لاکھوں افراد کو غربت سے نکالتے ہوئے پاکستان کو عالمی افق پر مقابلے کے لیے تیار کرینگے۔یہ پاکستان کے مستقبل کی جانب بہتر راہ متعین کرنے کا وقت ہے۔
(مضمون نگار جارج ٹرکنگٹن، سربراہ،یوکے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ (DFID) اور ڈاکٹر راشد بن مسعود، کنٹری ڈائریکٹر، ورلڈ بینک ہیں)۔