پیار نہیں ہے سُر سے جس کو۔۔۔۔
اس میں بھلا کیا شک ہے کہ ’’موسیقی روح کی غذا ہے‘‘۔ 21 جون کو موسیقی کا عالمی دن منایا گیا۔
اس میں بھلا کیا شک ہے کہ ''موسیقی روح کی غذا ہے''۔ 21 جون کو موسیقی کا عالمی دن منایا گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں دیگر فنون لطیفہ کی طرح موسیقی کا جو حشر ہوا، اس سے بھلا کون واقف نہ ہو گا۔ موسیقی کی اہمیت اور اثر پذیری کو ساری دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ موسیقی انسانی وجود میں توانائی بھر دیتی ہے، روح کو سرشار اور تر و تازہ کر دیتی ہے، کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور، دریاؤں میں کشتیاں چلانے والے ملاح اور دھان کی کٹائی کرنے والے دہقان موسیقی ہی کا سہارا لے کر محنت طلب کام خوشی خوشی کر لیتے ہیں۔ ملاحوں، کسانوں اور مزدوروں کے لوک گیت ہماری موسیقی کا حصہ ہیں۔ لیکن آج وہ موسیقی کہیں کھو گئی جو اداس لمحوں میں جذبات سے ہم آہنگ ہو کر سکون دیتی تھی اور خوشی کے لمحات میں طبیعتوں کو نہال کر دیتی تھی۔
بھلا کون بد ذوق ہو گا جس کے کان سروں سے آشنا نہ ہوں گے۔ موسیقی کی اہمیت، جاذبیت اور تاثیر کے حوالے سے فلم ''برسات کی رات'' کی ایک قوالی اپنی مثال آپ ہے۔ شاعر نے کیا کمال بول لکھے ہیں۔ موسیقار نے کس طرح ان لفظوں کی گہرائی میں اتر کر انھیں سُروں میں ڈھالا ہے اور گانے والوں نے تو کمال ہی کر دیا، محمد رفیع، سُدھا ملہوترہ، آشا، ایس ڈی ہاتش، منا ڈے، کمل باروت اور سمن کلیان پور نے اس مہارت اور پختگی سے گایا ہے کہ سننے والے جھوم اٹھتے ہیں۔ اس لازوال فلم کی موسیقی مشہور موسیقار روشن لال نے دی تھی جو مشہور بھارتی اداکار ریتک روشن کے دادا تھے۔ فلم کے تمام گیت اور قوالیوں کے بول ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے اور کیا کمال کے لکھے تھے، خاص طور سے اس قوالی کے جس کا مکھڑا ہے ۔۔۔۔یہ عشق عشق ہے عشق عشق۔۔۔۔چند بول ملاحظہ کیجیے۔
اللہ اور رسول کا فرمان عشق ہے
یہ کائنات عشق ہے اور جان عشق ہے
عشق موسیٰ، عشق کوہ طور ہے
عشق سرمد، عشق ہی منصور ہے
آپ ساری قوالی سنتے جائیں اور سر دھنتے جائیں۔۔۔۔ اسی طرح ایک پاکستانی فلم میں استاد امانت علی خاں نے ایک ناقابل فراموش گیت گایا تھا جو اب صرف موسیقی کے قدر دانوں ہی کے پاس محفوظ ہو گا، ریڈیو اور ٹی وی نے تو اسے بالکل فراموش ہی کر دیا۔ اس کے بول تھے۔
پیار نہیں ہے سُر سے جس کو، وہ مُورکھ انسان نہیں
سُر انسان بنا دیتا ہے، سُر رحمٰن ملا دیتا ہے
پیار کی آگ میں جلنے والے پروانے نادان نہیں
آج نہ کسی کو امانت علی خاں یاد ہیں نہ خورشید، نہ کملا جھریا، نہ سہگل، نہ ہی جوتھیکا رائے، نہ پنکھج ملک، نہ مہدی ظہیر، بیگم اختر۔۔۔۔۔ یہ تو پھر ماضی کی آوازیں ہیں، ہم نے تو شمشاد بیگم، شہناز بیگم، اقبال بانو، ملکہ پکھراج، مہناز، ریشماں اور مہدی حسن کو بھی بھلا دیا۔ ریڈیو کے خاتمے کے ساتھ ہی موسیقی بھی پاکستان میں دفن ہو گئی۔ اب ریڈیو کے ملازمین صرف ''نوکری'' کر رہے ہیں اور بھرتی کے پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ ریڈیو کے عروج کے دور میں ہی جب ''پی ٹی وی'' نے جنم لیا تھا تو ''پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آ گئے تھے'' کیونکہ اس پالنے کے خالق زیڈ اے بخاری تھے۔ ریڈیو کی دنیا میں ان کا وجود ایک ''جائنٹ'' کی حیثیت رکھتا تھا۔ سونے پہ سہاگہ ان کی علم موسیقی کی معلومات جس پر انھوں نے ایک کتاب ''راگ دریا'' کے نام سے بھی لکھی جو موسیقی کے طالب علموں کے لیے ایک خزانے سے کم نہیں۔
بخاری صاحب کے بعد اسلم اظہر نے ''میرٹ'' پر کام کیا اور بخاری صاحب کے کام کو آگے بڑھایا۔۔۔۔ پی ٹی وی سے موسیقی کے جو پروگرام پیش کیے گئے ان کی نظیر نہیں ملتی۔ غزلیں، گیت، قوالیاں، گھریلو گیت، ساون اور شادی بیاہ کے لازوال گیت جنھیں معروف گلوکار اور گلوکاراؤں نے گایا، جن میں کجن بیگم، مہناز، عشرت جہاں، نگہت سیما اور دیگر نے بھرپور حصہ لیا۔۔۔۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے نجی چینلز کا دروازہ کھل گیا۔ تو تُو چل میں آیا کی گردان ہو گئی۔۔۔۔ لیکن اس افراتفری میں معیار اور مقدار کی جنگ نے بڑی تباہی مچائی۔ رہی سہی کسر ناکام لیکن طاقتور سیاستدانوں کے ٹاک شوز نے پوری کر دی۔۔۔۔
چلیے چھوڑیے اس تکلیف دہ ذکر کو کہ موسیقی اور ادب کا ماتم بپا کرنے میں نجی ٹیلی ویژن کے بقراطوں کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ بندر ادرک کا سواد نہیں جانتا۔ اس لیے شکوہ ہی فضول ہے۔ ہر شاخ پہ الّو بھی بیٹھا ہے اور ہر ادارے میں ایک ایک بندر بھی موجود ہے، جو ہاتھ میں ادرک کا ٹکڑا لیے سوچ رہا ہے کہ۔۔۔۔ یہ ہے کیا؟
فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ طاقتور اور پُر اثر شعبہ موسیقی ہی کا ہے جو دلوں میں ایک دم راحت پیدا کر دیتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں سہگل، خورشید، مہدی حسن، اقبال بانو، جو تھیکا رائے، فیروزہ بیگم، شہناز بیگم، فردوسی بیگم، مکیش، سی ایچ آتما، طاہرہ سید، بیگم اختر، ریشماں، ماسٹر مدن، آشا، لتا، ہیمنت کمار، مہندر کپور اور مبارک بیگم کی آوازیں میرے دل کو چھوتی ہیں۔ کیسے کیسے جوہر شناس لوگ تھے جو ان آوازوں کو سامنے لائے، خاص طور سے جوتھیکا رائے اور ریشماں دونوں پر قسمت خوب مہربان ہوئی، دونوں گلیوں اور محلوں کی گانے والیاں، جوتھیکا رائے پر ایک بنگالی موسیقار نے اپنا دست شفقت رکھا اور ریشماں کو سلیم گیلانی جیسے معتبر اور مخلص انسان نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ سچ ہے جوہری ہی ہیرے اور کنکر کا فرق سمجھ سکتا ہے۔موسیقی کا دن بھی یونہی گزر جاتا ہے۔ ہمارے گلوکاروں اور موسیقاروں کے جنم دن اور برسی بھی خاموشی سے گزر جاتی ہے۔ کسی چینل یا کسی اخبار کو یاد نہیں رہتا۔
بس ان کی موت کی خبر پٹی چلا کر نشر کر دی جاتی ہے۔۔۔۔ کبھی کسی چینل کو، کسی آرٹس کونسل کو خیال نہیں آتا کہ وہ موسیقی کو زندہ رکھے۔ ٹاک شوز کے ''گزیدہ'' لوگوں کے لیے کوئی اچھا سیمی کلاسیکل موسیقی کا پروگرام پیش کیا جائے۔۔۔۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مارے باندھے کوئی پروگرام موسیقی کے نام پر پیش بھی کیا جاتا ہے تو اس میں دو نمبر کے سفارشی گلوکار ہی اسٹیج پہ قبضہ جمائے ملتے ہیں۔ کیوں آرٹس کونسل کے ذمے داروں کو فنون لطیفہ یا باذوق ممبران سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کیونکہ جب ہلدی، مرچوں، گرم مصالحوں کے تاجر اور مافیا کے ارب پتی سیٹھ آرٹس کونسل کے لائف ٹائم ممبر بننے لگیں تو جینوین لوگوں کو ممبر کیوں بنایا جائے۔ ممبر بننا انہی کا حق ہے جو لاکھوں روپے دے کر ممبر شپ خرید سکتے ہیں۔ اصلی ادیب، شاعر اور فنکار کے لیے اب آرٹس کونسلوں میں بھی اسمبلی کی طرح کوئی جگہ نہیں۔ ہر جگہ پیسے کا کھیل ہے اور اداروں پر قبضہ کرنے والوں کے لیے یہی لوگ موزوں اور بہترین ہیں کہ انھیں صرف ''ممبر شپ'' چاہیے جس کے عوض وہ کسی گروپ کو الیکشن میں جتوا سکیں۔
ضیاء الحق نے یوں تو ہر شعبہ ہائے زندگی پہ شب خون مارا تھا۔ لیکن موسیقی کو جو ناقابل تلافی نقصان اس شخص نے پہنچایا، اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہر طرف خودکش حملوں نے دنیا بھر میں ہمیں نکو بنا دیا ہے، رسوا کر دیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے پانی کو اگر نکاسی کا راستہ نہ ملے تو وہ خود بخود اپنا راستہ بنا لیتا ہے، پھر کچھ بھی تباہ ہو یہ پانی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جب فنون لطیفہ پہ پابندیاں عائد کی گئیں اور مذہبی جماعتوں نے ضیاء الحق کے ہاتھ مضبوط کیے تو انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ''پرنالہ'' کہیں نہ کہیں ضرور گرے گا اور اس پرنالے نے راستہ بنایا خودکش بمبار بن کر، دہشت گردی کے نت نئے طریقے ایجاد کر کے، تشدد، مار دھاڑ اور توتکار کر کے۔
1980ء تک سب کچھ بہت اچھا تھا، لوگ فارغ وقت میں ریڈیو سنتے تھے، ٹی وی دیکھتے تھے، موسیقی کے بڑے اچھے پروگرام مختلف اسٹیشن پیش کیا کرتے تھے۔ ''سر ساگر'' اور ''سرسنگیت'' نامی پروگرام تو اپنی مثال آپ تھے۔ لیکن اب ہولناک مار دھاڑ اور گالم گلوچ سے بھرپور شاہکار ٹاک شوز ہر چینل پر موجود ہیں کہ ان میں نہ محنت ہوتی ہے نہ ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ مالی فائدے بہت ہیں۔ ایسے میں جب ہر چینل کے لیے صرف ''اشتہارات'' حاصل کرنا ہی سب سے بڑا مقصد ہو تو موسیقی کے پروگرام کون پیش کرے گا۔ یہ پروگرام تخلیقی ہوتے ہیں۔ دل کو سکون اور شانتی عطا کرتے ہیں۔ کاش! ایکسپریس ہی ان پروگرام کا آغاز کرے جو روح کی غذا ہوتے ہیں۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔!!