مفت کی کار
ایک بار مجھے میرے ایک لاہوری دوست نے خوب خجل کروایا۔ تب مجھے اس سعی کے لاحاصل ہونے کا پتہ تھا لیکن مجھے اس بات کی۔۔۔
ایک بار مجھے میرے ایک لاہوری دوست نے خوب خجل کروایا۔ تب مجھے اس سعی کے لاحاصل ہونے کا پتہ تھا لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں نے مروت میں خوار ہونے کی حجت پوری کردی۔ یہ اور بات ہے کہ آخر میں، میں اپنے آپ سے یوں شرمندہ کھڑا تھا جیسے میں کسی آسیب زدہ سابق ڈکٹیٹر کی ناآسودہ خواہش ہوں یا پھر ایوان حکومت کی اداس دیواروں سے برآمد ہونے والا وہ سیاسی بھوت ہوں جس کے چراغ کا جادو کہیں کھوگیا ہے۔ دونوں صورت میں شرمندگی ہی مقدر ٹھہری۔
ہوا یوں کہ میرے ایک دوست کو اسلام آباد کے ایک نمبر سے فون آیا کہ دو ماہ قبل ہماری کمپنی نے اپنی پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کے لیے ایک سروے کیا تھا۔آپ کے گھر بھی آئے تھے۔ اب قرعہ اندازی ہوئی ہے تو آپ کی کار نکلی ہے۔ آپ ہمارے کراچی ہیڈ آفس میں فون کرکے اپنے کوائف لکھوادیں تاکہ آپ کو کار ڈیلیور کردی جائے۔ میرا دوست ایک ذہین اور پڑھا لکھا کاروباری شخص ہے۔ لیکن جب نصیب میں برے دن لکھے ہوں تو انھیں کون روک سکتا ہے۔ یہ میں اپنے برے دنوں کی بات کر رہا ہوں۔ اس نے بس ایک فون کی اخلاقی مار ماری تھی، حجت تو میں پوری کرتا رہا۔
ہاں تو جب میرے برے دن آئے تو میرے دوست کی مت ماری گئی۔ کار کی خبر سن کے اس کی بانچھیں کھل اور بانھیں کھل گئیں۔ چند ماہ قبل اس کی ایک کار چوری ہوگئی تھی۔ اس نے سوچا کہ یقینا ''درویش'' کی دعا نشانے پر لگ گئی ہے اور قدرت اس کی حلال کی کمائی ماڈل بدل کے لوٹا رہی ہے۔ اس نے مجھے فون کیا اور بولا ''یار! دیکھو میں کتنا خوش قسمت ہوں، میں نے کراچی فون کیا تھا انھوں نے تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ ہزار سی سی کی انڈاشیپ کار ٹرکوں کے اڈے پر پہنچا بھی دی گئی ہے۔ بس اب اڈے والے کو کرایے کے 21 ہزار روپے دینا ہیں اور گاڑی میرے پاس آجائے گی۔''
اس کی آواز میں اتنی کھنک اور اتنی چہک تھی کہ اس حزن آلود ماحول میں ایسا ترانہ مسرت میں نے کم ازکم دو تین سو برس کے بعد سنا ہوگا۔ پھر میں یک لخت اس کا دل کیسے توڑتا۔ میں نے کہا ''ٹھیک ہے میں اڈے والے کو رقم دے آتا ہوں لیکن اس بات کی گارنٹی کیا ہے کہ وہ گاڑی پہنچا دیں گے؟''
بولا ''ارے بھئی! تمہیں اسی لیے تو فون کیا ہے۔ تم ان کے دفتر جاکے گاڑی کے کاغذات دیکھ لو کہ میرے نام کے بن گئے ہیں یا نہیں۔ ویسے میں نے ٹرک اڈے پر بھی فون کیا تھا۔ وہاں حق نواز نے کنفرم کیا ہے کہ میری گاڑی ان کے پاس آگئی ہے۔ بس کرایے کا انتظار ہے۔ یار! تم یوں ہی وہم کرتے ہو۔ بس مولا نے کرم کرنا تھا کردیا۔ ویسے بھی مجھے آج کل بڑے اچھے خواب آرہے ہیں اور اب تم سے کیا چھپانا، جب سے میں نے علامہ اقبال ٹاؤن والے لیکچر سننا شروع کیے ہیں میرے اندر نئی صلاحیتیں بیدار ہورہی ہیں۔ میرے ڈرائیور کے اولاد نہیں تھی، میں نے اس کی بیوی کے سر پر ہاتھ پھیر کے دعا دی تو اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگیا۔''
اب ایک نئے اور بھرپور عزم کے ساتھ میرے خوار ہونے کا وقت آگیا تھا۔ سب سے پہلے میں نے اس کے بتائے ہوئے نمبروں پر فون کیا۔ ہیڈ آفس بات کی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ پورا پتہ لکھوایا اور اچھی طرح لوکیشن سمجھائی۔ وہ علاقہ میرا دیکھا بھالا تھا۔ چندریگر روڈ پر، یونی ٹاور سے ذرا آگے، پہلی بلڈنگ کے ساتھ۔ پھر میں نے ٹرک اڈے والے حق نواز سے بات کی۔ اس نے بتایا کہ کار تو موجود ہے پر کرایہ صرف ایڈوانس میں لیتے ہیں۔ جب چاہیں آکے کار دیکھ سکتے ہیں۔ اڈہ سپرہائی وے پر نوری آباد میں ہے۔
اب میں سوچ میں پڑگیا کہ یہ کیسا عجیب فراڈ ہے۔ کہیں سچ ہی نہ ہو۔ اب کیا کروں؟ کراچی سے نوری آباد کوئی 70 کلومیٹر دور ہے اور ویرانہ ہے۔ اتنی دور جاؤں اور کوئی واردات ہوجائے، اس سے بہتر ہے کہ ان کے ہیڈآفس جا کے اطمینان کرلوں۔ اس علاقے میں پارکنگ مشکل سے ملتی ہے اس لیے میں نے ڈرائیور کو ساتھ لیا اور چندریگر روڈ پہنچ گیا۔ ٹھیک بتائی ہوئی جگہ پر جاکے معلوم کیا تو آگے بھیج دیا گیا۔ آگے والوں نے پیچھے بھیج دیا۔ پیچھے والوں نے سامنے بھیج دیا۔ اتنی سی جگہ میں کئی کلومیٹر پیدل چل گیا۔ کڑکتی دھوپ میں پسینے سے میرے بوٹ بھرگئے۔ میرے پاس کمپنی کے مالک کا موبائل نمبر تھا۔ اسے فون کیا تو بولا کہ آپ ادھر ہی کھڑے رہیں میں تھوڑی دیر میں پورٹ قاسم سے روانہ ہورہا ہوں، آپ کو لے چلوں گا۔ لیکن وہ نہیں آیا۔ میں شاید مدتوں وہاں کھڑا رہا۔ بہرحال میرا یہ جان لیوا انتظار اس وقت ختم ہوگیا جب کچھ بھلے مانسوں نے مجھ پر رحم کھا کے وہیں کھڑے کھڑے ایک میٹنگ کی اور فیصلہ سنایا کہ اس نام کی نہ تو یہاں کوئی عمارت ہے اور نہ ہی کمپنی۔واپسی پر میں نے یہ بات اپنے دوست کو بتائی تو اس پر ذرا اثر نہ ہوا۔ بولا ''میرا دل کہتا ہے کہ وہ لوگ صحیح ہیں، تم ایسا کرو کہ نوری آباد جاؤ اور خود جاکے کار دیکھو'' پھر وہی حجت والا معاملہ۔ میں نے کہا اچھا چلو صبح جاتا ہوں۔
اگلی صبح اخبار آیا تو اس میں ایک خبر دیکھی ''ملک کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی بھی جعل سازوں کے ہاتھوں سے نہ بچ سکی۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے سینیٹر کے نام پر جعل سازوں نے پوزیشن ہولڈر طلبہ کو انعام دینے کے بہانے جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی آنکھ میں دھول جھونک دی اور طالب علموں کو انعام میں بیش قیمت گاڑیاں دینے کے نام پر لاکھوں روپے بٹور کر غائب ہوگئے۔''
تفصیل میں لکھا تھا کہ سینیٹر صاحب کے نام سے ایک فون کال یونیورسٹی میں آئی تھی کہ حکومت پوزیشن ہولڈر طلبہ کو قیمتی انعامات دینا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں اس وقت کے وائس چانسلر کے دفتر میں بات کرکے طلبہ کا ڈیٹا طلب کیا گیا تو دفتر مشیر امور طلبہ نے بزنس ایڈمنسٹریشن کے گولڈ میڈلسٹ فہد محمود اور شعبہ ریاضی کی گولڈ میڈلسٹ حنا ظہیر کی تفصیلات دے دیں۔ اگلے روز متعلقہ شخص نے کہا کہ انعام میں ملنے والی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس اور ٹیکس طلبا کو خود ادا کرنا ہوگا۔ انھیں ایک نجی بینک کا پتہ دیا گیا۔ اس کے منیجر سے بات کرکے وہاں ان لوگوں نے مذکورہ خطیر رقم جمع کروادی۔ انھیں بتایا گیا کہ فلاں روز ایک تقریب ہوگی۔ وہاں گاڑی کی چابی انعام یافتگان کو دی جائے گی۔ لیکن اس روز وہاں نہ تو کوئی تقریب تھی اور نہ ہی چابی۔ تب یونیورسٹی کی انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ لوگ جعل سازوں کے ہاتھوں بے وقوف بن چکے ہیں۔
میں نے یہ خبر پڑھ کے سکھ کا سانس لیا۔ اپنے دوست کو فون کیا اور قہقہہ لگا کے کہا کہ لو سنو! جو میں کہتا تھا وہی ہوا۔ یہ سب جعل ساز ہیں۔ شکر کرو کہ تمہارے پیسے بچ گئے۔ جواب میں اس نے ایک ٹھنڈا ٹھار سا ''اچھاآ آ آ'' کہا اور مری سی آواز میں بولا ''ہاں یار! ٹھیک کہتے ہو''۔ اور فون بند کر دیا۔
سارا دن گزر گیا۔ رات کے گیارہ بجے پھر اس کا فون آیا ''لیکن یار! میرا دل کہتا ہے کہ میری گاڑی ضرور نکلی ہے تم ایک بار۔۔۔۔۔!'' وہ ابھی تک وہیں اٹکا ہوا تھا۔