ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے
نفرتوں کے قلعوں میں دراڑڈال کرامن کی جوت جگانا مشکل کام ضرور ہے۔ مگرناممکن نہیں۔
لاہور:
قندھارکاسب سے طاقتورلیڈرجنرل رازق ہی تھا۔ سپاہی سے ترقی کرکے اوپرآنے والے شخص نے ہرطریقے کاتجربہ حاصل کررکھاتھا۔طالبان اوررازق کی باہمی دشمنی کسی سے بھی پوشیدہ نہیں تھی۔متعددبار،اسے قتل کرنے کی ناکام کوشش ہوچکی تھی۔
مگرآج سے تقریباًایک ماہ قبل، قندھارمیں اہم ترین میٹنگ ختم ہونے کے بعد،جنرل رازق کے ایک وفادارگارڈنے فائرنگ کرکے نہ صرف رازق کوہلاک کرڈالا،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قندھار ہی کاپولیس چیف عبدالمومن بھی ماراگیا۔امریکی جنرل ملر، اتفاقیہ طورپربچ گیا۔کیونکہ وہ ہیلی کاپٹرمیں بیٹھ چکاتھا۔ واقعہ کے فوراًبعدطالبان نے اس کی ذمے داری قبول کرلی۔ افغانستان میں قتل وغارت کاکھیل اب اتناپراناہوچکاہے کہ کسی کواس طرح کی خبروں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔اس بدقسمت ملک میں جنگ وجدل کانہ ہونا خبر ہے۔اس کے دگرگوںحالات روزمرہ کامعمول ہیں۔
آج سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے نیویارک ٹائمزمیں اس اندوہناک واقعہ کی تفصیل شایع ہوئی تھی۔ہرزاویہ سے اس مشکل واقعہ کی جزئیات درج تھیں۔توجہ اس وقت ایک اہم لائن پرجم گئی۔ درج تھاکہ جس سپاہی نے جنرل رازق کوقتل کیا۔اسکواس اہم ترین جگہ پربھرتی کروانے والافوج ہی کا ایک ساتھی اہلکارتھا۔مزیدیہ کہ وہ طالبان کاقریبی ساتھی تھا۔یہ بھی لکھاہواتھاکہ وہ شخص واقعہ سے پہلے طالبان سے موبائل فون پررابطہ میں تھا۔ان لوگوں کی موجودگی پاکستان کی سرزمین میںبتائی گئی تھی۔افغان حکومت نے بھی بھرپورطریقے سے کہاکہ اس قتل کے پیچھے طالبان کاوہ گروہ ہے جسکاتعلق کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے ملک سے ہے۔
پاکستان میں اعلیٰ ترین سطح پراس کی تردیدکی گئی ہے۔مجھے پاکستانی بیانیے پرمکمل اعتماد ہے۔ یقین ہے کہ موجودہ حالات میں ہماری سرزمین سے کوئی بھی گروہ،اس طرح کی مشکل حرکت کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔مگرچندضمنی سوالات ذہن میں ضرور آئے۔ بلکہ مسلسل آرہے ہیں۔اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہمارے تعلقات اپنے ہمسایہ ملکوں سے اس قدرکشیدہ کیوں ہیں۔ کیاوجہ ہے کہ افغانستان یابھارت میں کسی قسم کی کوئی دہشت گردی کی واردات ہو توفوراًالزام ہم پردھردیا جاتا ہے۔
سوال صرف اورصرف یہ ہے کہ ہم ہمسایوں کے ساتھ پُرامن طریقے سے کیوں نہیں رہ پارہے۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ ہمارایقین کرنے کے لیے بین الاقوامی طاقتوں میں سے کوئی بھی تیارنہیں ۔یہ حددرجہ سنجیدہ صورتحال ہے۔ اس تمام صورتحال کوہمارے ملک میں اس مرکزیت اورتوجہ سے نہیں دیکھاجاتاجسکی وہ اہل ہے۔ہم صرف ایک تردید کرنے کوکافی سمجھتے ہیں اوراس کے بعدایک دووفودکے دورے اوراس کے بعد ایک طویل خاموشی۔مگرمعاملات اس طرح چل نہیں سکتے۔دوسرے لفظوں میں دنیامیں طاقت ترین ممالک، ہماری اس ڈگرکوہرقیمت پربدل کررکھ دینگے۔
چلیے، افغانستان سے شروع کرلیجیے۔ موجودہ افغانستان میں گزشتہ دودہائیوں سے پاکستان کے خلاف جس قدر شدت پسندانہ جذبات ہیں،اسکاادراک ہمیں بہت کم سطح پر ہے۔ افغانستان میں نوجوان نسل اوراکابرین اس نکتہ پر یقین کرچکے ہیں کہ ان کی داخلی تباہی میں ہمسایہ ملک کابہت زیادہ عمل دخل ہے۔کسی بین الاقوامی فورم پرچلے جائیے۔ وہ برملاپاکستان کواپنی خانہ جنگی کابنیادی محرک گردانتے ہیں۔ کوئی لگی لپیٹی بات نہیں رکھتے۔
ہندوستان سے ان کی قربت کی بہت بڑی وجہ،ہمارے خلاف وہ جذبہ ہے جو ان کے دلوں میں لاوے کی طرح پک رہاہے۔علم نہیں کہ ہمارے ملک میں اتنی پیچیدہ صورتحال کااصل ادراک ہے بھی کہ نہیں۔مگرجس بھی جگہ بات ہوتی ہے۔افغانستان کے متعلق اس سنجیدگی اور توازن سے بات نہیں ہوتی جسکی ضرورت ہے۔انڈیاکی طرف آئیے۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دونوں ممالک یعنی پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے کے سخت ترین حریف ہیں۔انڈیامیں اگر پاکستان کے متعلق مثبت بات کی جائے تووہ غداری کے زمرے میں آتی ہے۔
جیتا جاگتا ثبوت، بھارتی سیاستدان اور کرکٹر سدھوکے ساتھ وہ نارواسلوک ہے جوانھیں واپس جا کر ہندوستان میں سہناپڑا۔پوراانڈین میڈیا،سدھوکے خلاف ہوگیا۔انھیں ہندوستان کادشمن قراردیدیا گیا۔ بعینہ یہی صورتحال ہمارے ملک میں ہے۔ اگرکوئی اس ہمسایہ ملک کی تعریف کرے،تواس کے لیے بھی حددرجہ مشکلات ہیں۔
ہندوستان سے ہم ہروقت حالتِ جنگ میں رہتے ہیں۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجودایک دوسرے سے خائف ہیں۔ہروقت ایک دوسرے کو فنا کرنے کے منصوبہ بناتے رہتے ہیں۔تین جنگوں کے باوجودکسی قسم کاکوئی مسئلہ حل نہیں ہوپایا۔بلکہ ہرجنگ کے بعدمسائل حل ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے۔ صورتحال جتنی سنگین دودہائیاں پہلے تھی،آج بھی اتنی ہی ہے۔بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد تو ہمارے خلاف معاملات اورشدت پکڑچکے ہیں۔ ایران کے ساتھ معاملات کبھی کشیدہ ہوجاتے ہیں توکبھی درست۔ کبھی طفتان بارڈرپران کی طرف سے فائرنگ ہونے لگتی ہے توکبھی ہماری طرف سے گولہ باری۔
ہمیںسوچنے کاحق توہے کہ پاکستان کے تعلقات اپنے پڑوسی ممالک سے اتنے خراب کیوں ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں خطے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے۔قطعاًیہ عرض نہیں کررہاکہ دوسرے ممالک اس ادنیٰ صورتحال کے ذمے دار نہیں۔ بلکہ میری دانست میں توہندوستان،ہماری مخالفت اوردشمنی میں ہر اخلاقی اورغیراخلاقی حدکوپارکرچکاہے۔
وہاں آپکو پاکستان کے حق میں کلمہ خیرکہنے والے لوگ ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے۔نفرت کاایک سیلاب ہے جس نے تمام امن کو ڈبوکررکھ ڈالاہے۔مگرفیصلہ کرناتوپڑے گاکہ کیاامن کے بغیر رہنا ہمارے لیے درست ہے۔کیاہم اتنے بڑے اور مہیب خطرات سے کھیلنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ کیا اقتصادی، سماجی اورمعاشی ترقی اتنی بدامنی میں واقعی ہوبھی سکتی ہے یا نہیں۔یہ حددرجہ نازک سوالات ہیں اوران پر کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ پاکستان سے محبت کاتقاضہ ہے کہ اسے درپیش تمام مشکلات پربات ہواورپھراسکاحل نکالا جائے۔دشمنی اوراجنبیت کی دیوارکوپار کرنا اَزحد ضروری ہے۔
اس سے قبل کہ آگے بات بڑھاؤں۔ایک اور معاملہ بھی حددرجہ اہمیت کاحامل ہے۔امریکا دنیاکے ہر ملک کا ہمسایہ ہے۔مانیں یانہ مانیں ۔پورے کرہِ ارض پر ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جوکسی نہ کسی طرح اس سُپرپاور کے ساتھ وابستہ نہ ہوں۔مثبت یامنفی کی عرض نہیں کر رہا۔ امریکا ہرملک کے ساتھ موجودہے۔مگرہماری صورتحال اس معاملے میں حددرجہ عجیب ہے۔طویل عرصے تک ہم امریکا کے اتحادی رہے۔
نان نیٹودوست کادرجہ بھی حاصل رہا۔مگرگزشتہ چندبرسوں میں ہمارے اس مضبوط ترین ملک سے معاملات منفی ڈگرپرچل پڑے۔وہ ملک جس نے آج تک پاکستان کوسب سے زیادہ مالی امداد دی۔ جس نے ہمارے لاکھوں شہریوں کواپناشہری بنایا۔جس نے بھرپورطریقے سے ہمارے ملک کی ہرلحاظ سے مدد کی۔آج وہ ہماراحلیف نہیںبلکہ دشمنوں کی صف میں کھڑا ہوا ہے۔کیایہ ہمارے ملکی مفادمیں ہے کہ ہم امریکا سے تعلقات کوبالکل پسِ پشت ڈال دیں۔یہ ناممکن بات ہے۔اس رویہ یاسوچ سے ہمیں حددرجہ نقصان ہوسکتا ہے۔ہماری جغرافیائی سالمیت بھی داؤپرلگ سکتی ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ امریکا کی بدولت روسی تسلط کوختم کرنے کی جنگ میں ایسے پھنسے،کہ ہماری اخلاقی اورسماجی ساخت ہی تبدیل ہوگئی۔ہمارااپناملک تباہ ہوگیا۔مگراس سب کے باوجودکیاواقعی ہم امریکا سے دشمنی مول لے سکتے ہیں۔ ہرصاحبِ نظرجانتاہے کہ امریکی طاقت کے سامنے دنیا کا کوئی ملک کھڑا نہیں ہوسکتا۔ہم ہروقت چین چین کرتے ہیں۔ہمارے رہنمااسے مسیحاکادرجہ دیتے ہیں۔یہ بات کافی حدتک درست بھی ہے۔مگرچین کی اقتصادی طاقت، امریکا کے مقابلے میںآدھی سے کم ہے۔چین کو امریکا بننے میں بہت وقت لگے گا۔مگراس مدت میں امریکا بذاتِ خودکتنی مزیدترقی کر چکاہو گا۔
اس کو سوچنابھی کم ازکم اس وقت محال ہے۔چین کے لیے پاکستان کومیدانِ جنگ بنانا کتنا زیرک فیصلہ ہے۔ اس پرکم ازکم طالبعلم کی رائے ہے کہ ہمیں توازن اور احتیاط سے چلنا چاہیے۔کسی بھی وجہ سے یہ تاثرنہیں ہوناچاہیے کہ پاکستان پہلے امریکا کابغل بچہ تھا اوراب چین کا۔ اس کیفیت میں ہماراحددرجہ نقصان ہو سکتاہے اور ہو بھی رہاہے۔سفارتی طورپر پاکستان کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں اوراقتصادی طور پر ہماری معیشت بے دم ہوچکی ہے۔
موجودہ صورتحال حددرجہ نازک ہے۔ہماری افواج انتہائی محنت اورمشکل سے اندرونی دہشت گردی پر قابو پا رہی ہیں۔یہ فتح صرف اورصرف ہمارے عسکری اداروں کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ دنیاکاکوئی بھی ملک، اندرونی دہشت گردی کاقلع قمع نہیں کرسکا۔یہ اعزاز صرف اورصرف ہمارے پاس ہے۔مگراس تمام کیفیت کو اب نئے طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔افغانستان اور ہندوستان ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں۔ان سے پُرامن تعلقات ہمارے اپنے قومی مفادمیں ہیں۔
نفرتوں کے قلعوں میں دراڑڈال کرامن کی جوت جگانا مشکل کام ضرور ہے۔ مگرناممکن نہیں۔ہمارے پاس اتنے ذہین، تجربہ کار اور محب وطن لوگ ہیں جواس کام میں معاونت کرسکتے ہیں۔ پاکستان مسلسل دشمنی کے حصارمیں نہیں رہ سکتا۔ یہ قدرتی اُصول کے خلاف ہے۔ہمیں ہرقیمت پر اپنے اردگرد کے ممالک سے پائیدارامن قائم کرنا چاہیے۔ اس لیے بھی، کہ دنیامیں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ مگر ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے۔
قندھارکاسب سے طاقتورلیڈرجنرل رازق ہی تھا۔ سپاہی سے ترقی کرکے اوپرآنے والے شخص نے ہرطریقے کاتجربہ حاصل کررکھاتھا۔طالبان اوررازق کی باہمی دشمنی کسی سے بھی پوشیدہ نہیں تھی۔متعددبار،اسے قتل کرنے کی ناکام کوشش ہوچکی تھی۔
مگرآج سے تقریباًایک ماہ قبل، قندھارمیں اہم ترین میٹنگ ختم ہونے کے بعد،جنرل رازق کے ایک وفادارگارڈنے فائرنگ کرکے نہ صرف رازق کوہلاک کرڈالا،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قندھار ہی کاپولیس چیف عبدالمومن بھی ماراگیا۔امریکی جنرل ملر، اتفاقیہ طورپربچ گیا۔کیونکہ وہ ہیلی کاپٹرمیں بیٹھ چکاتھا۔ واقعہ کے فوراًبعدطالبان نے اس کی ذمے داری قبول کرلی۔ افغانستان میں قتل وغارت کاکھیل اب اتناپراناہوچکاہے کہ کسی کواس طرح کی خبروں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔اس بدقسمت ملک میں جنگ وجدل کانہ ہونا خبر ہے۔اس کے دگرگوںحالات روزمرہ کامعمول ہیں۔
آج سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے نیویارک ٹائمزمیں اس اندوہناک واقعہ کی تفصیل شایع ہوئی تھی۔ہرزاویہ سے اس مشکل واقعہ کی جزئیات درج تھیں۔توجہ اس وقت ایک اہم لائن پرجم گئی۔ درج تھاکہ جس سپاہی نے جنرل رازق کوقتل کیا۔اسکواس اہم ترین جگہ پربھرتی کروانے والافوج ہی کا ایک ساتھی اہلکارتھا۔مزیدیہ کہ وہ طالبان کاقریبی ساتھی تھا۔یہ بھی لکھاہواتھاکہ وہ شخص واقعہ سے پہلے طالبان سے موبائل فون پررابطہ میں تھا۔ان لوگوں کی موجودگی پاکستان کی سرزمین میںبتائی گئی تھی۔افغان حکومت نے بھی بھرپورطریقے سے کہاکہ اس قتل کے پیچھے طالبان کاوہ گروہ ہے جسکاتعلق کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے ملک سے ہے۔
پاکستان میں اعلیٰ ترین سطح پراس کی تردیدکی گئی ہے۔مجھے پاکستانی بیانیے پرمکمل اعتماد ہے۔ یقین ہے کہ موجودہ حالات میں ہماری سرزمین سے کوئی بھی گروہ،اس طرح کی مشکل حرکت کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔مگرچندضمنی سوالات ذہن میں ضرور آئے۔ بلکہ مسلسل آرہے ہیں۔اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہمارے تعلقات اپنے ہمسایہ ملکوں سے اس قدرکشیدہ کیوں ہیں۔ کیاوجہ ہے کہ افغانستان یابھارت میں کسی قسم کی کوئی دہشت گردی کی واردات ہو توفوراًالزام ہم پردھردیا جاتا ہے۔
سوال صرف اورصرف یہ ہے کہ ہم ہمسایوں کے ساتھ پُرامن طریقے سے کیوں نہیں رہ پارہے۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ ہمارایقین کرنے کے لیے بین الاقوامی طاقتوں میں سے کوئی بھی تیارنہیں ۔یہ حددرجہ سنجیدہ صورتحال ہے۔ اس تمام صورتحال کوہمارے ملک میں اس مرکزیت اورتوجہ سے نہیں دیکھاجاتاجسکی وہ اہل ہے۔ہم صرف ایک تردید کرنے کوکافی سمجھتے ہیں اوراس کے بعدایک دووفودکے دورے اوراس کے بعد ایک طویل خاموشی۔مگرمعاملات اس طرح چل نہیں سکتے۔دوسرے لفظوں میں دنیامیں طاقت ترین ممالک، ہماری اس ڈگرکوہرقیمت پربدل کررکھ دینگے۔
چلیے، افغانستان سے شروع کرلیجیے۔ موجودہ افغانستان میں گزشتہ دودہائیوں سے پاکستان کے خلاف جس قدر شدت پسندانہ جذبات ہیں،اسکاادراک ہمیں بہت کم سطح پر ہے۔ افغانستان میں نوجوان نسل اوراکابرین اس نکتہ پر یقین کرچکے ہیں کہ ان کی داخلی تباہی میں ہمسایہ ملک کابہت زیادہ عمل دخل ہے۔کسی بین الاقوامی فورم پرچلے جائیے۔ وہ برملاپاکستان کواپنی خانہ جنگی کابنیادی محرک گردانتے ہیں۔ کوئی لگی لپیٹی بات نہیں رکھتے۔
ہندوستان سے ان کی قربت کی بہت بڑی وجہ،ہمارے خلاف وہ جذبہ ہے جو ان کے دلوں میں لاوے کی طرح پک رہاہے۔علم نہیں کہ ہمارے ملک میں اتنی پیچیدہ صورتحال کااصل ادراک ہے بھی کہ نہیں۔مگرجس بھی جگہ بات ہوتی ہے۔افغانستان کے متعلق اس سنجیدگی اور توازن سے بات نہیں ہوتی جسکی ضرورت ہے۔انڈیاکی طرف آئیے۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دونوں ممالک یعنی پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے کے سخت ترین حریف ہیں۔انڈیامیں اگر پاکستان کے متعلق مثبت بات کی جائے تووہ غداری کے زمرے میں آتی ہے۔
جیتا جاگتا ثبوت، بھارتی سیاستدان اور کرکٹر سدھوکے ساتھ وہ نارواسلوک ہے جوانھیں واپس جا کر ہندوستان میں سہناپڑا۔پوراانڈین میڈیا،سدھوکے خلاف ہوگیا۔انھیں ہندوستان کادشمن قراردیدیا گیا۔ بعینہ یہی صورتحال ہمارے ملک میں ہے۔ اگرکوئی اس ہمسایہ ملک کی تعریف کرے،تواس کے لیے بھی حددرجہ مشکلات ہیں۔
ہندوستان سے ہم ہروقت حالتِ جنگ میں رہتے ہیں۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجودایک دوسرے سے خائف ہیں۔ہروقت ایک دوسرے کو فنا کرنے کے منصوبہ بناتے رہتے ہیں۔تین جنگوں کے باوجودکسی قسم کاکوئی مسئلہ حل نہیں ہوپایا۔بلکہ ہرجنگ کے بعدمسائل حل ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے۔ صورتحال جتنی سنگین دودہائیاں پہلے تھی،آج بھی اتنی ہی ہے۔بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد تو ہمارے خلاف معاملات اورشدت پکڑچکے ہیں۔ ایران کے ساتھ معاملات کبھی کشیدہ ہوجاتے ہیں توکبھی درست۔ کبھی طفتان بارڈرپران کی طرف سے فائرنگ ہونے لگتی ہے توکبھی ہماری طرف سے گولہ باری۔
ہمیںسوچنے کاحق توہے کہ پاکستان کے تعلقات اپنے پڑوسی ممالک سے اتنے خراب کیوں ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں خطے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے۔قطعاًیہ عرض نہیں کررہاکہ دوسرے ممالک اس ادنیٰ صورتحال کے ذمے دار نہیں۔ بلکہ میری دانست میں توہندوستان،ہماری مخالفت اوردشمنی میں ہر اخلاقی اورغیراخلاقی حدکوپارکرچکاہے۔
وہاں آپکو پاکستان کے حق میں کلمہ خیرکہنے والے لوگ ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے۔نفرت کاایک سیلاب ہے جس نے تمام امن کو ڈبوکررکھ ڈالاہے۔مگرفیصلہ کرناتوپڑے گاکہ کیاامن کے بغیر رہنا ہمارے لیے درست ہے۔کیاہم اتنے بڑے اور مہیب خطرات سے کھیلنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ کیا اقتصادی، سماجی اورمعاشی ترقی اتنی بدامنی میں واقعی ہوبھی سکتی ہے یا نہیں۔یہ حددرجہ نازک سوالات ہیں اوران پر کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ پاکستان سے محبت کاتقاضہ ہے کہ اسے درپیش تمام مشکلات پربات ہواورپھراسکاحل نکالا جائے۔دشمنی اوراجنبیت کی دیوارکوپار کرنا اَزحد ضروری ہے۔
اس سے قبل کہ آگے بات بڑھاؤں۔ایک اور معاملہ بھی حددرجہ اہمیت کاحامل ہے۔امریکا دنیاکے ہر ملک کا ہمسایہ ہے۔مانیں یانہ مانیں ۔پورے کرہِ ارض پر ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جوکسی نہ کسی طرح اس سُپرپاور کے ساتھ وابستہ نہ ہوں۔مثبت یامنفی کی عرض نہیں کر رہا۔ امریکا ہرملک کے ساتھ موجودہے۔مگرہماری صورتحال اس معاملے میں حددرجہ عجیب ہے۔طویل عرصے تک ہم امریکا کے اتحادی رہے۔
نان نیٹودوست کادرجہ بھی حاصل رہا۔مگرگزشتہ چندبرسوں میں ہمارے اس مضبوط ترین ملک سے معاملات منفی ڈگرپرچل پڑے۔وہ ملک جس نے آج تک پاکستان کوسب سے زیادہ مالی امداد دی۔ جس نے ہمارے لاکھوں شہریوں کواپناشہری بنایا۔جس نے بھرپورطریقے سے ہمارے ملک کی ہرلحاظ سے مدد کی۔آج وہ ہماراحلیف نہیںبلکہ دشمنوں کی صف میں کھڑا ہوا ہے۔کیایہ ہمارے ملکی مفادمیں ہے کہ ہم امریکا سے تعلقات کوبالکل پسِ پشت ڈال دیں۔یہ ناممکن بات ہے۔اس رویہ یاسوچ سے ہمیں حددرجہ نقصان ہوسکتا ہے۔ہماری جغرافیائی سالمیت بھی داؤپرلگ سکتی ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ امریکا کی بدولت روسی تسلط کوختم کرنے کی جنگ میں ایسے پھنسے،کہ ہماری اخلاقی اورسماجی ساخت ہی تبدیل ہوگئی۔ہمارااپناملک تباہ ہوگیا۔مگراس سب کے باوجودکیاواقعی ہم امریکا سے دشمنی مول لے سکتے ہیں۔ ہرصاحبِ نظرجانتاہے کہ امریکی طاقت کے سامنے دنیا کا کوئی ملک کھڑا نہیں ہوسکتا۔ہم ہروقت چین چین کرتے ہیں۔ہمارے رہنمااسے مسیحاکادرجہ دیتے ہیں۔یہ بات کافی حدتک درست بھی ہے۔مگرچین کی اقتصادی طاقت، امریکا کے مقابلے میںآدھی سے کم ہے۔چین کو امریکا بننے میں بہت وقت لگے گا۔مگراس مدت میں امریکا بذاتِ خودکتنی مزیدترقی کر چکاہو گا۔
اس کو سوچنابھی کم ازکم اس وقت محال ہے۔چین کے لیے پاکستان کومیدانِ جنگ بنانا کتنا زیرک فیصلہ ہے۔ اس پرکم ازکم طالبعلم کی رائے ہے کہ ہمیں توازن اور احتیاط سے چلنا چاہیے۔کسی بھی وجہ سے یہ تاثرنہیں ہوناچاہیے کہ پاکستان پہلے امریکا کابغل بچہ تھا اوراب چین کا۔ اس کیفیت میں ہماراحددرجہ نقصان ہو سکتاہے اور ہو بھی رہاہے۔سفارتی طورپر پاکستان کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں اوراقتصادی طور پر ہماری معیشت بے دم ہوچکی ہے۔
موجودہ صورتحال حددرجہ نازک ہے۔ہماری افواج انتہائی محنت اورمشکل سے اندرونی دہشت گردی پر قابو پا رہی ہیں۔یہ فتح صرف اورصرف ہمارے عسکری اداروں کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ دنیاکاکوئی بھی ملک، اندرونی دہشت گردی کاقلع قمع نہیں کرسکا۔یہ اعزاز صرف اورصرف ہمارے پاس ہے۔مگراس تمام کیفیت کو اب نئے طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔افغانستان اور ہندوستان ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں۔ان سے پُرامن تعلقات ہمارے اپنے قومی مفادمیں ہیں۔
نفرتوں کے قلعوں میں دراڑڈال کرامن کی جوت جگانا مشکل کام ضرور ہے۔ مگرناممکن نہیں۔ہمارے پاس اتنے ذہین، تجربہ کار اور محب وطن لوگ ہیں جواس کام میں معاونت کرسکتے ہیں۔ پاکستان مسلسل دشمنی کے حصارمیں نہیں رہ سکتا۔ یہ قدرتی اُصول کے خلاف ہے۔ہمیں ہرقیمت پر اپنے اردگرد کے ممالک سے پائیدارامن قائم کرنا چاہیے۔ اس لیے بھی، کہ دنیامیں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ مگر ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے۔