مستقبل میں بڑھتی سیاسی کشیدگی
پی ٹی آئی حکومت میں میڈیا کی جو حالت خراب ہوئی ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
ابھی حکومت کے دو ماہ ہی گزرے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے بھی تیور بدلنے لگے ہیں اور پارٹی چیئرمین بلاول زرداری نے تحریک انصاف کو تحریک انتقام قرار دے دیا ہے اور آصف زرداری نے تمام جماعتوں سے موجودہ حکومت کے خلاف قراردادیں منظور کرانے اور میاں نواز شریف کے قریب آنے کا بھی اظہار کیا ہے، جب کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مستقبل میں حکومت کے خلاف تحریک اعتماد لانے کا بھی اشارہ دے دیا ہے، کیونکہ حکومت عوامی اعتماد تیزی سے کھو رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان اختلافات سیاست سے ذاتیات پر آ جانے اور دونوں کی طرف سے ایک دوسرے کو قتل کروا دینے کی افواہیں بھی پھیلائی گئیں، جن کی مولانا نے تو واضح تردید کر دی اور اب سنا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر دونوں کے درمیان صلح یا معاملات کو مزید کشیدہ ہونے سے بچانے کے خواہاں ہیں۔
ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی اپنی تین قومی نشستیں گنوا چکی ہے جب کہ اپنی حکومت کے مضبوط صوبے کے پی کے میں گورنر اپنی نشست اپنے بھائی کو دلوانے میں ناکام رہے تو حکومتی ترجمان وزیر اطلاعات اپنی چھوڑی ہوئی صوبائی نشست سے پی ٹی آئی کو واپس نہ دلا سکے۔
پی ٹی آئی حکومت میں میڈیا کی جو حالت خراب ہوئی ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز مالی حالت خراب ہونے پر بند ہو رہے ہیں اور اپنے عملے کی چھانٹی کر رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان نے بھی نواز شریف کی طرح اپنی مرضی کے میڈیا پرسنز سے ملنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور ناپسندیدہ سوالات پوچھنے والے اینکروں سے دوری اختیار کرنی شروع کردی ہے اور میڈیا کو کنٹرول میں لانے کا بھی سوچا جا رہا ہے، جس پر میڈیا کی طرف سے حکومت پر واضح کردیا گیا ہے کہ حکومت ایسا سوچے بھی نہیں وگرنہ سخت مزاحمت ہوگی اور میڈیا کی مشاورت کے بغیر حکومت کے من مانے فیصلے قبول نہیں کیے جائیں گے۔
حکومت سے قبل میڈیا پی ٹی آئی کے جتنا قریب تھا وہ اب دور ہو رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیاں بھی اب ایک دوسرے کے قریب آنے پر مجبور کردی گئی ہیں جس کی ذمے دار یہ نئی حکومت ہے جس کے وزیراعظم، آصف زرداری کی ضد کی وجہ سے بھاری ووٹوں کے فرق سے منتخب ہوئے تھے اور اپوزیشن کے ووٹ دو جگہ تقسیم نہ ہوتے تو حلیفوں کی مدد کے باوجود عمران خان کم مارجن سے منتخب ہوتے۔
اب آصف زرداری کو خود جاکر مولانا فضل الرحمن سے ملنا پڑا ہے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کے دوسرے دور اور صوبے کے علاوہ وفاق میں اپنی حکومت ہوتے ہوئے تحریک انصاف ضمنی انتخاب میں اپنی نشستیں ہار کر اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کا ثبوت دے چکی ہے مگر وفاق اور پنجاب میں حکومتی تیور دیکھنے والے ہیں۔
دونوں جگہ جو وزرائے اطلاعات ہیں وہ اپنے شعلہ انگیز بیانات دے کر اپوزیشن کو باہمی اتحاد کا سنہری موقعہ فراہم کر رہے ہیں جب کہ باقی تین صوبوں میں ایسا نہیں ہے۔ کسی کو پکڑنا نیب اور ایف آئی اے کا کام اور چھوڑنا عدالتوں کا کام ہے۔ عدالتیں ہی کسی کو چھوڑنے یا سزا دینے کی قدرت رکھتی ہیں مگر وزیراعظم کا یہ کہنا اپوزیشن کو موقع دے رہا ہے کہ اپنے خلاف ہر اقدام کو حکومتی انتقام قرار دیں۔
اب وہ دور نہیں رہا ہے کہ وزیر اعظم جس کو چاہیں گرفتار کرادیں اور کہیں کہ ارکان اسمبلی میں بڑی تعداد میں مجرم موجود ہیں میں انھیں نہیں چھوڑوں گا۔ وزیراعظم اپوزیشن کو کمزور سمجھ رہے ہیں جب کہ وفاق اور پنجاب میں حکومتیں خود کمزور اور حلیفوں کی بے ساکھیوں پر کھڑی ہیں۔
متحدہ، فنکشنل لیگ اور بی ایس پی مینگل والے (ق) لیگ کی طرح حکومت کا حلیف بنے رہنے پر مجبور نہیں ہیں اور ان تینوں کی وجہ سے ہی وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو اکثریت حاصل ہے جن کا سہارا عارضی بھی ثابت ہوسکتا ہے اس لیے وزیراعظم عمران خان اپنے وزرا پر کنٹرول کریں اور وفاق اور پنجاب کے وزرائے اطلاعات کو اپوزیشن پر ہاتھ ہولا رکھ کر حکومت کے اچھے اقدامات کو عوام میں روشناس کرانے پر توجہ دینے کی ہدایت کریں کیونکہ دونوں روزانہ جذبات میں آکر اپنے اشتعال انگیز بیانات جو میڈیا پر دے رہے ہیں وہ کسی طرح بھی پی ٹی آئی حکومتوں کے مفاد میں نہیں ہوں گے بلکہ انھیں بھی اپوزیشن کی طرف سے کرائے کے وزیر جیسے بیانات سننے کو ملیں گے تو کوئی انھیں سات بار منہ دھو کر آصف زرداری کے خلاف منہ کھولنے کا مشورہ دے گا۔
پی ٹی آئی انتخابات سے قبل ملک کے حالات خراب قرار دیا کرتی تھی وہ کہنا بہت آسان تھا اور وہ اپوزیشن میں تھی مگر اب اقتدار میں آکر اگر انھیں ملکی حالات کی مزید سنگینی دیکھنے کا موقعہ مل گیا ہے تو انھیں وزیر خزانہ اسد عمر کی طرح محتاط انداز اختیار کرنا چاہیے۔ وزیر خزانہ موجودہ معاشی حالت کا ذمے دار اب سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی قرار نہیں دے رہے جنھوں نے جیسے بھی سہی ڈالر پر کنٹرول کیا ہوا تھا اور دو ماہ میں مہنگائی جتنی بڑھی ہے اس کا ذمے دار اب (ن) لیگ کو کب تک قرار دیا جاتا رہے گا۔
پنجاب میں اسپیکر جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ اپوزیشن لیڈر پنجاب کے مطابق تحریک انصاف کے لیے مسائل بڑھا رہے ہیں۔ انھیں (ن) لیگی ارکان کی معطلی کی جلدبازی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ وہ خود مسلم لیگ (ن) کے اسپیکر رہے ہیں اور ہر اسمبلی میں دھما چوکڑی ہوتی ہی ہے اور موجودہ صورتحال میں اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی بڑھنے کا ہی خدشہ ہے اس لیے وہ سیاسی مخالفت کو دشمن نہ بننے دیں اور اسپیکر قومی اسمبلی جیسی بردباری کا بھی مظاہرہ کریں وگرنہ پنجاب اسمبلی راتوں رات وفاداری بدلنے کا بھی ریکارڈ رکھتی ہے۔ یہ وقت آگ بھڑکانے کا نہیں آگ ٹھنڈی کرنے کا ہے وگرنہ بڑھتے شعلے سب کچھ جلاسکتے ہیں۔