بھائی پٹیل پہ اتنا خرچہ

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی یہ سردار ولبھ بھائی پٹیل میں ایسی کیا بات تھی کہ انھیں اس اعزاز سے نوازا گیا؟

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی یہ سردار ولبھ بھائی پٹیل میں ایسی کیا بات تھی کہ انھیں اس اعزاز سے نوازا گیا؟ فوٹو: فائل

جب سیاست داں اقتدار میں آنے کے لیے بڑے بڑے دعوے اور پہاڑ جیسے وعدے کرکے اپنی قوم کو بے وقوف بناتے ہیں اور وعدے نبھا نہیں پاتے، تو اگلے انتخابات سے پہلے کچھ ایسا بنانا ہوتا ہے کہ قوم خوش ہوکر پھر ''بن'' جائے۔ یہی کچھ مودی سرکار نے کیا ہے۔

بھارتی پردھان منتری نریندر مودی غربت مٹانے اور دیش کو ترقی دینے کے بلندبانگ دعوؤں کے ساتھ راج سنگھاسن پر براجمان ہوئے تھے، لیکن مسلمانوں کو مٹانے اور پاکستان کو دھمکیاں دینے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ جب ان سے کچھ نہ بن سکا تو انھوں نے دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ بناکے کھڑا کردیا۔

یہ مجسمہ ہے ہندوستان کی تحریک آزادی کے راہ نما اور بھارت کے پہلے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا۔ 182میٹر بلند اس مجسمے کی اونچائی امریکا کے مجسمۂ آزادی سے دُگنی ہے اور اس کی تعمیر پر 430 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔ گجرات میں نصب کیے جانے والے اس مجسمے کی خاطر 185گھرانوں کو دربہ در کرکے زمین حاصل کی گئی، جس پر مقامی باشندے احتجاج کررہے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی یہ سردار ولبھ بھائی پٹیل میں ایسی کیا بات تھی کہ انھیں اس اعزاز سے نوازا گیا؟ امیرخسرو، غالب اور ٹیپوسلطان تو چلیے مسلمان ہونے کی وجہ سے مودی جی کے لیے اس تکریم کے سزاوار نہیں تھے لیکن ہندوستان کے لیے باعث فخر گاندھی جی اور رابندرناتھ ٹیگور کیوں اس عزت افزائی کے قابل نہ سمجھے گئے؟


بات اتنی سی ہے کہ پٹیل صاحب متعصب ہندو اور مسلم دشمن ہونے کی پہچان رکھتے ہیں اور ہندوتوا کے لیے سیاسی علامت ہیں۔ پھر آزادی کے وقت سے کانگریس کی قیادت سنبھالے نہرو خاندان کے مقابل ہندوانتہاپسند بھارتیہ جنتا پارٹی پٹیل کو کھڑا کرکے نہرو خاندان کا سیاسی اثرورسوخ ختم کرنا چاہتی ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ دنوں بعد ہم بھارت کا نیا ''اتہاس'' پڑھ رہے ہوں جو بتاتا ہو کہ ہندوستان کو تو پٹیل جی نے آزاد کرایا تھا، گاندھی جی تو لاٹھی ٹیکتے ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور نہرو اس موقع پر موجود نہیں تھے۔

یہ معاملہ سیاسی ہی نہیں نظریاتی بھی ہے، گاندھی جی اور پنڈت نہرو عدم تشدد کے قائل تھے، اور ولبھ بھائی پٹیل کی طرح مودی جی ''ہر دَم تشدد'' پر یقین رکھتے ہیں۔ پھر یوں بھی ہے کہ جب سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو کبھی مخالفین کے اور کبھی اپنے گڑے مُردے اکھاڑے جاتے اور کمپنی کی مشہوری کے لیے عوام کو پیش کیے جاتے ہیں۔ مودی جی نے یہ کام گڑے اور کھڑے مُردے سے لیا ہے۔

شاہ جہاں کو اپنی لاڈلی بیگم ممتاز بانو کے لیے تاج محل جیسا مقبرہ بنانے پر دل جلے شاعروں سے ''ایک قبر پر اتنا خرچہ۔۔۔ایک ہی پیار کا اتنا چرچا'' اور ''اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق'' جیسی جلی کٹی سُننا پڑی تھیں، تو ممکن ہے مودی جی کو بھی ایسی ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑے اور کہا جائے''بھائی پٹیل پہ اتنا خرچہ''، اچھا ہوتا کہ اتنا خرچہ کرنے کے بہ جائے وہ عوام کے لیے گورنرہاؤسوں کے دروازے کھول دیتے۔

جنتا اتنے سے بھی سہمت ہوجاتی۔ خیر اب جو ہو گیا سو ہوگیا۔ اب تو اتنے منہگے مجسمے کو جواز دینے کے لیے مودی جی یہی کہہ سکتے ہیں''مجسمے کی سِری پر بیٹھے ہمارے سینک دورمار عینک لگاکر چینک پیتے ہوئے پاکستان پر کڑی نظر رکھیں گے۔'' دوسرا جواز یہ ہوسکتا ہے کہ ''پاکستان نے ہمارے دیس میں اگر اُدھم باجی کی، بدماسی کی تو بھیا ہم پٹیل جی کو اُکھاڑ کر اس پر دے ماریں گے۔''
Load Next Story