دوسروں کے خرچے پہ اپنا بیاہ
یہ خاتون آسٹریلیا کے شہر ملبورن سے تعلق رکھنے والی ایک دلہن ہیں، جنھوں نے دلہا سے کوئی مطالبہ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اپنی شادی میں شرکت کے خواہش مند خواتین و حضرات کو شرائط کی ایک لمبی فہرست دے دی ہے۔ انھوں نے مہمانوں سے کہا ہے کہ ان کی شادی میں شرکت کرنا ہے تو اپنا کھانا اور کیک ساتھ لے کر آئیں اور تقریب میں چمکتے دمکتے ملبوسات پہن کر شریک نہ ہوں۔
اس شادی میں مہمان چمک دار لباس ہی نہیں کوئی بھی ایسا ملبوس زیب تن کرکے شریک نہیں ہوسکتے جو دلہن بی بی کو منظور نہ ہو۔ انھوں نے حکم جاری کیا ہے کہ مہمان آرام دہ لباس پہن کر آئیں، اور جیکٹس اور گاؤن پہن کر آنے پر پابندی عاید کردی ہے۔ ان خاتون نے مہربانی فرماتے ہوئے لباس کا رنگ منتخب کرنے کے معاملے میں تو ٹانگ نہیں اَڑائی لیکن درخواست کی ہے کہ مہمان ایسے رنگ پہن کر آئیں جو اس تقریب کی تھیم ''سفیداور نقرئی'' سے ہم آہنگ ہو۔ لوگوں کو کیمرا لانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
یہی نہیں، مہمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہزار پاؤنڈ مالیت کی رقم اس تقریب پر خرچ کریں۔ اور صاحب! اگر آپ بھی بدقسمتی سے اس شرطوں بھری شادی میں مدعو ہیں اور موصوفہ کو شادی کا تحفہ دینا چاہتے ہیں تو اپنا ارادہ منسوخ کردیں، کیوں کہ محترمہ نے ہدایت جاری کی ہے کہ تحفہ دینے کے بہ جائے سوشل میڈیا پر ان کے ہنی مون کے اخراجات کی رقم حاصل کرنے کے لیے بنائے جانے والے پیج کو پیسے بہ طور چندہ دے دیں۔
اسے کہتے ہیں ''حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ''، یعنی یہ خاتون دوسروں کے خرچے پر اپنا بیاہ رچا رہی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بعض ایسے ''مہمان نواز'' پائے جاتے ہیں جو مہمان سے بڑی محبت سے پوچھتے ہیں''کھانا کھا کر آئے ہیں یا جا کر کھائیں گے''، لیکن ان دلہن صاحبہ سا میزبان ہمارے ہاں شاید ہی کوئی ہو، شاید وہ اپنی شادی کو اپنا عرص سمجھ بیٹھی ہیں اور توقع رکھتی ہیں کہ لوگ مہمان نہیں زائرین بن کر آئیں گے۔
یہ شادی پاکستان میں ہوتی تو ممکن ہے محترمہ کو ایسے جاں نثار مہمان مل جاتے جو رکشا ٹیکسی کا کرایہ، لفافہ دینے کا دُکھ، رات سفر کی خواری، کھانے کا طویل انتظار اور اس انتظار کے دوران خالی پیٹ ساتھ بیٹھے لوگوں سے مغزماری کے سارے مسائل جھیلتے ہیں مگر ہر شادی میں بن ٹھن کر پہنچنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ اگر آسٹریلیا میں بھی وہ مخلوق پائی جاتی ہے جسے ''پرائی شادی میں عبد اللہ دیوانہ'' کہتے ہیں تو ان دلہن صاحبہ کی شادی کام یاب ہوجائے گی، ورنہ خالی ہال میں دلہا دلہن اور اُلو ہی بول رہے ہوں گے۔