اُلو کو عزت دو
جسے اپنا اُلو سیدھا کرنا آتا ہو اس کے لیے کسی کام میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔
اُلو بنانے والے تو بہت ہیں مگر بعض لوگ اُلو پالتے بھی ہیں، جیسے برطانیہ کے شہر پیٹرزبرگ کے ایک صاحب مارک اسمتھ۔ خبر یہ نہیں کہ انھوں نے الو پال رکھا ہے، خبر تو یہ ہے کہ اس اُلو کی محبت میں وہ دو دن چھت پر ٹنگے رہے۔
یہ خبر جب ہم نے اپنے دوست بابو نئیں کرانچوی کو سُنائی تو جھٹ بولے،''بھیے! می ں تو بوت پیلے سے کے ریا ہوں، ہمیں الو کی عزت کرنی چئییں، اسی لیے تو یہ گورے ہم سے آگے ہیں، یہ اُلو کی عزت کرتے ہیں۔ ایک ہم ہیں، اس پرندے کی بے عزتی پر تُلے رہتے ہیں، وہ جو ایک شاعر نے الو کی حالت پر، بڑے دکھ سے، شاید یہی کہا تھا ناں۔۔۔ ہمارے ملک میں ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، لیکن کوئی اُسے اُتارنے کو تیار نہیں۔'' ہم نے حیرت سے ان کا منہہ تکتے ہوئے کہا،''بابو بھائی! شعر یوں ہے:
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے
انجام گلستاں کیا ہوگا
اس میں اُلو کی توصیف اور بے قدری کا پہلو کہاں سے آگیا؟ شاعر نے تو ہر شاخ پر اُلوؤں کے بیٹھنے کی وجہ سے گلستان کے اُجڑ جانے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ہمارا جواب سُن کر مسکرائے اور پچکاری کا فوارہ چھوڑ کر گویا ہوئے،''بس رینے دو، تم کیا جانو شاعری، بھیے شاعر صاف صاف بول ریا ہے کہ اُلو بے چارے شاخ پر بیٹھے ہیں، کوئی انھیں پوچھ ہی نہیں ریا، بھئی انھیں اتار کر نیچے لاؤ تاکہ گلستاں کا کاروبار چلے۔ می ں تو اُلوؤں کی حمایت میں اس نعرے کے ساتھ مہم چلانے والا ہوں۔۔۔اُلو کو عزت دو۔''
ہم نے ان کی بات سُن کر سَر پیٹ لیا، اور اتنا کہہ کر ان کے پاس سے اُٹھ گئے''چلیے صاحب! آپ کی خواہش پوری ہوئی۔''
ہمارے ان دوست کا موقف اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم خوامخواہ ہی بے چارے اُلو سے بیر باندھے ہوئے ہیں، حالاں کہ اس پرندے کی تو آنکھیں بھی ہم انسانوں جیسی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے سے اپنائیت سی محسوس ہوتی ہے۔ پھر یہ ہمارے کام بھی کتنا آتا ہے، جیسے خالی گھروں میں بول کے سناٹا مٹاتا ہے، ملکی امور چلانے کے لیے جب چاہو دست یاب ہوتا ہے، جسے اپنا اُلو سیدھا کرنا آتا ہو اس کے لیے کسی کام میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی، لیکن اس کے لیے اپنا اُلو ہونا ضروری ہے۔ پھر سب سے اہم بات یہ کہ اور کوئی پرندہ آپ نہیں بناسکتے مگر اُلو بنانا بہت آسان ہے۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ اتنے کارآمد پرندے کو پالنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اس کے ساتھ اس کے پٹھے بھی پالنے پڑتے ہیں۔
دراصل ان کا پالتو اُلو چھت پر چلا گیا تھا اور اس روٹھے یار کو منانے اور واپس لانے کے لیے وہ دو دن تک چھت کے نیچے چھوٹے سے فرش پر بیٹھے کوششیں کرتے رہے۔ آخر دو دن کی محنت کے بعد اُلو نے ان کی سُن لی اور ان کے پاس آگیا۔
یہ خبر جب ہم نے اپنے دوست بابو نئیں کرانچوی کو سُنائی تو جھٹ بولے،''بھیے! می ں تو بوت پیلے سے کے ریا ہوں، ہمیں الو کی عزت کرنی چئییں، اسی لیے تو یہ گورے ہم سے آگے ہیں، یہ اُلو کی عزت کرتے ہیں۔ ایک ہم ہیں، اس پرندے کی بے عزتی پر تُلے رہتے ہیں، وہ جو ایک شاعر نے الو کی حالت پر، بڑے دکھ سے، شاید یہی کہا تھا ناں۔۔۔ ہمارے ملک میں ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، لیکن کوئی اُسے اُتارنے کو تیار نہیں۔'' ہم نے حیرت سے ان کا منہہ تکتے ہوئے کہا،''بابو بھائی! شعر یوں ہے:
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے
انجام گلستاں کیا ہوگا
اس میں اُلو کی توصیف اور بے قدری کا پہلو کہاں سے آگیا؟ شاعر نے تو ہر شاخ پر اُلوؤں کے بیٹھنے کی وجہ سے گلستان کے اُجڑ جانے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ہمارا جواب سُن کر مسکرائے اور پچکاری کا فوارہ چھوڑ کر گویا ہوئے،''بس رینے دو، تم کیا جانو شاعری، بھیے شاعر صاف صاف بول ریا ہے کہ اُلو بے چارے شاخ پر بیٹھے ہیں، کوئی انھیں پوچھ ہی نہیں ریا، بھئی انھیں اتار کر نیچے لاؤ تاکہ گلستاں کا کاروبار چلے۔ می ں تو اُلوؤں کی حمایت میں اس نعرے کے ساتھ مہم چلانے والا ہوں۔۔۔اُلو کو عزت دو۔''
ہم نے ان کی بات سُن کر سَر پیٹ لیا، اور اتنا کہہ کر ان کے پاس سے اُٹھ گئے''چلیے صاحب! آپ کی خواہش پوری ہوئی۔''
ہمارے ان دوست کا موقف اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم خوامخواہ ہی بے چارے اُلو سے بیر باندھے ہوئے ہیں، حالاں کہ اس پرندے کی تو آنکھیں بھی ہم انسانوں جیسی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے سے اپنائیت سی محسوس ہوتی ہے۔ پھر یہ ہمارے کام بھی کتنا آتا ہے، جیسے خالی گھروں میں بول کے سناٹا مٹاتا ہے، ملکی امور چلانے کے لیے جب چاہو دست یاب ہوتا ہے، جسے اپنا اُلو سیدھا کرنا آتا ہو اس کے لیے کسی کام میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی، لیکن اس کے لیے اپنا اُلو ہونا ضروری ہے۔ پھر سب سے اہم بات یہ کہ اور کوئی پرندہ آپ نہیں بناسکتے مگر اُلو بنانا بہت آسان ہے۔ بس مسئلہ یہ ہے کہ اتنے کارآمد پرندے کو پالنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اس کے ساتھ اس کے پٹھے بھی پالنے پڑتے ہیں۔