سینما‘ تھیٹر اور اُوپرا آج بھی چین میں بے حد مقبول ہیں
چائنا نیشنل فلم میوزیم میں تیس ہزار سے زائد فلمیں اور دیگر اشیاء زیر نمائش ہیں۔
(چوتھی قسط)
ہم جو شروع سے ہی فلم بینی کے دلدادہ تھے۔ چین کے سینماؤں سے اپنے آپ کو دور نہ رکھ سکے۔ شروع ہی میںسائیکلنگ کے دوران مشاہدے میں آنے والے سینماگھروں کو دیکھ کر وہاں جانے کی خواہش نے انگڑائی لی تھی۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ ٹکٹ کے حصول کے طریقہ کار سے نا آشنائی تھی۔ اس مشکل کو ہماری اردو سروس کی ایک ساتھی ہو پھنگ پھنگ (Hu Pingping)نے دور کیا کہ جن کا اردو نام نورین ہے۔ایک روز ہم نے اپنی اس رفیقِ کارسے پوچھا کہ اگر فلم دیکھنا ہوتو سینما کیسے جائیں اور ٹکٹس کہاں سے ملیں گی۔
ان سے پوچھنے کا سبب یہ تھا کہ وہ فلمیں شوق سے دیکھا کرتی ہیں۔ پاکستانی، بھارتی ، چینی اور ہالی ووڈ فلموں کے متعلق انہیں بھر پور معلو مات ہیں۔طویل القامت ہو پھنگ پھنگ نے فورا ہمیں دو ٹکٹس دیے کہ یہ قریبی سینما میں دکھا کر مفت فلم دیکھیں۔( ان کی طویل القامتی کا خصوصی تذکرہ اس لیے کیا کہ ہمارے ہاں یہ عمومی تصور ہے کہ چینی خواتین پستہ قد کی ہوتی ہیں۔تو حضور اس غلط فہمی کا ازالہ فرما لیں۔پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں)۔ فلم دیکھنا اور وہ بھی مفت میں۔۔۔۔۔ واہ کمال ہوگیا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ہمارے تو وارے نیارے ہو گئے۔ اب جو محترمہ نورین نے ہمیں قریبی سینما کے متعلق بتایا تو ہم مزید حیران ہوئے کہ وہ جگہ تو ہمارے دفترا وررہائش گاہ کے بہت قریب تھی۔ ہم بارہا وہاں جا بھی چکے تھے مگر ہمیں وہاں سینما کی موجودگی کے اثرات نہ ملے تھے۔
مگرچونکہ وہ بتا رہی تھیںکہ سینما وہیں ہے توتشکیک کے ساتھ اس کو قبول کرلیا، گو کہ اس مقام پر بظاہر سنیما کے آثار نظر نہیں آتے تھے، جس جگہ کا انہوں نے بتایا کہ وہاں سینما ہے وہ ایک بہت بڑاشاپنگ مال ہے جہاں سے ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء ملاکرتی تھیں۔ ہم بیسیوں مرتبہ وہاںجا چکے تھے مگر سینما نظر سے نہ گزرا تھا۔ سو ان سے اسی شک کا اظہار کیا تو وہ مسکرا دیں اور کہنے لگیں کہ ذرا اوپر کے فلور پر بھی چکر لگائیں توآپ کی مراد بر آئے گی۔اب دوٹکٹس تھے اور میں اکیلا۔بیجنگ کی ایک جامعہ میں زیرتعلیم پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر امجد زریں سے کہا کہ وہ آ جائیں تو ہم مل کر فلم دیکھیں گے ۔ انہوں نے حامی بھرلی۔یوں ہم ایک روز سینما چل دیے۔ہمیں جس قریبی سینما کے متعلق بتایا گیا تھا اسی کی طرف بڑھے اور اس کو تلاش کرنے لگے۔اسی جانے پہچانے شاپنگ مال میں پہنچے۔
مگر اس روز وہاں آمد ذرا اور انداز کی تھی۔ اس کو آج ہم نے ایک نئے طریقے سے کھوجنا تھا۔سو سیدھا اوپر کے فلور کا رخ کیا۔وہاں دکانوں کے ساتھ ساتھ کچھ کھانے پینے کی اشیاء کے سٹال نظر آئے۔ایک چوڑی اور کھلی راہداری سے ہوتے ہوئے آگے بڑھے تووہاں دائیں جانب ایک سٹینڈ تھا جہاں جوسز وغیرہ فروخت کیے جارہے تھے ۔ سامنے کی جانب سے لفٹس نظر آرہی تھیں۔درمیان میں فرش پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیٹھنے کے لیے نشتیں نصب تھیں۔ پہلی نظر میںایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ جگہ پلازے میں خریداری کے دوران تھک جانے والوں کے کچھ دیر سستانے کے لیے بنائی گئی ہے کیونکہ مشروبات وغیرہ دستیاب تھے اور ہر عمر کے چینی مرد و زن خوش گپیوں اور آرام میں مصروف تھے۔وہاں کسی سینما کی موجودگی کے اثرات نظر نہ آئے۔
ہم نے وہاں موجود لوگوں سے سینما کی بابت پوچھا ۔سب نے اثبات میں سر ہلایا تو ہمیں اطمینان ہوا کہ مقام اور جگہ تودرست ہے مگر آخر یہ سینما کس جانب یا کس کارنر میں ہے کہ نظر ہی نہیں آرہا ۔کیونکہ ہم تو پاکستان میں سینما کی عمارت کو دور سے ہی دیکھ کر پہچان لیتے تھے۔مگر یہاں تو کچھ ایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ سات پردوں میں پوشیدہ ہے۔ رفتہ رفتہ وہاں موجود نوجوانوں کی تعدادمیں اضافہ ہونے لگا۔ تو امید بندھی کہ فلم یہیں کہیں دکھائی جا ئے گی۔پھر بھی اطمینانِ قلب کے لیے ایک صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ فلم کے ٹکٹس کہاں سے ملیں گے توانہو ں نے سامنے موجود ایک سٹال کی جانب اشارہ کیا۔ اب جو اس جانب دیکھا تو وہاں جوسزاور دیگر مشروبات وغیرہ فروخت کیے جارہے تھے۔ہمیں تو ٹکٹس کے آثار نظر نہ آئے۔مگر صبر کے سوا چارہ نہ تھا۔
بالاآخرفلم کے وقتِ مقررہ سے کچھ دیر پہلے ایک محترمہ تشریف لائیں تو دیکھا کہ جولوگ اورنوجوان وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان میں ارتعاش پیدا ہوا ا ور وہ لائن میں لگنا شروع ہو گئے۔ہمیں بھی یقین ہو گیا اور ہم بھی لائن میںلگ گئے۔اپنی باری آنے پر ہم نے اپنے ٹکٹس دکھائے ۔انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کونسی فلم دیکھنی ہے ۔ ہم حیران ہوئے کہ ہمار ے ہاں تو ایک وقت میں ایک ہی فلم سینما کی زینت بنتی ہے۔یہاں یہ کیا ماجرا ہے۔ہم نے اپنے پاس موجود تصویر دکھائی اورکہا کہ یہ والی۔ انہوں نے ہمارے ٹکٹس دیکھے اور کہا کہ قیمت ادا کریں۔ ہمیں ان کا یہ مطالبہ سمجھ نہ آیا۔ ہم نے ان سے گزارش کی ہمارے پاس موجود ٹکٹس مفت فلم دیکھنے والے ہیں۔ انہوں نے آگے سے چینی زبان میں کچھ طویل جملے ارشاد فرمائے جن کو ہم سمجھنے سے قاصر تھے کیونکہ 'زبانِ یارِ من چینی و من چینی نمی دانم والا معاملہ تھا'۔
سو ہم نے اپنے ایک کولیگ سے رابطہ کیا اوران سے بات کی۔انہوں نے کاونٹر پر کھڑی لڑکی سے بات کی اور پھر ہمیں بتایا کہ ٹکٹس تو مفت کے ہیں مگر جس فلم کو ہم نے دیکھنے کی خواہش کی ہے اس کا ٹکٹ زیادہ مالیت کا ہے۔اس لیے اگر وہی فلم دیکھنی ہے تواضافی پیسے ادا کریں اور فلم دیکھیں۔ چونکہ ہمیں تو اسی ایک ہی فلم کا اندازہ تھا سو ہم نے اضافی رقم ادا کی اور ٹکٹس لیے اور آگے کی جانب چل دیے۔آگے کاونٹر سے بائیں جانب ایک راہداری تھی۔راہداری کے داخلی مقام پر سٹاف بیٹھا ہوا تھا۔انہوں نے ہمارے ٹکٹس چیک کیے ، سکین کیے اور داخلے کا اذن جار ی کردیا۔ ہم آگے بڑھے تودائیں جانب ایک دروازہ تھا۔ ہم اسی کو سینما ہال کادروازہ سمجھ کر اس میں داخل ہونے لگے تو وہاں موجو د سٹاف نے ہمارے ٹکٹس دیکھ کر آگے بڑھنے کااشارہ کردیا۔سو ہم مزید آگے چل دیے۔
آگے بڑھے تو بائیں جانب ایک کھلی جگہ پر ایک کاونٹر کو پایا۔ وہاں دو تین لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ٹکٹس دیکھ کر مخصوص گلاسز دے رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ شاید ہم غلط جگہ پر آگئے ہیں۔کچھ انگلش، ٹوٹی پھوٹی چائینز اور اشاروں کی مدد سے انہیں بتایا کہ ہم تو فلم دیکھنے آئے ہیں نہ کہ کسی او ر مقصد کے لیے۔انہوں نے جوابا ًفرمایا کہ ہم بھی آپ کو فلم دیکھنے کے لیے ہی عینک دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔سو ہم نے بھی چشمے لیے اوران کے بتائے ہوئے راستے پر چل دیے۔ سیڑھیوں سے نیچے اترے تو خود کو ایک ہال میں موجود پایا۔ یہی سینما ہال تھا۔ ہم حیران ہوئے کہ کیسا ہال ہے ۔ ہمارے ہاں تو سینما گھروں میں ہال مختلف حصوں میں بٹا ہوتا ہے۔ یہاں پر توایک ہی چھوٹا سا ہا ل ہے۔یہاں پر نشتوں کی تعداد لگ بھک سو کے قریب ہوگی۔
ہم ہال میں بیٹھ گئے۔ لوگ آتے چلے گئے اور ہال بھرنا شروع ہو گیا۔ فلم شروع ہونے کے وقتِ مقررہ سے کچھ دیر پہلے سٹاف کا ایک فرد آیا اوراس نے ہال میں بیٹھے تمام افراد کے پاس گلاسز کی موجودگی کو یقینی بنایا اور چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہال کی سکرین متحر ک ہونا شروع ہوئی ۔ لیں جناب یہ فلم کا آغازتھا۔ ہمارے ہاں سینما گھروں میں فلم شروع ہونے سے پہلے عموما کچھ کمرشل اشتہارات چلتے ہیں ۔ بعد میں قومی ترانہ پیش کیا جاتا ہے ۔ جس کے شروع میں لکھا ہوتا ہے کہ قومی ترانہ کے احترام میں کھڑا ہونا لازمی ہے۔ لوگ کھڑے بھی ہوتے ہیںاورجب قومی ترانہ کے دوران قائد اعظم کی تصویر آتی ہے تولوگ بے ساختہ تالیاں بجا کر بابائے قوم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ فلم شروع ہونے سے قبل فلم کی متعلقہ ادارے سے منظوری، کاسٹ اور تیکنیکی عملے کے کریڈٹس کاذکر ہوا اور آغاز ہو گیا۔فلم شروع ہونے کے بعد گلاسز کی فراہمی اور ان کو پہننے کے فوائد کا علم ہوا۔ یہ چین کی ایک سپرہٹ ایکشن فلم تھی جس نے مقبولیت اور آمدنی کے تمام ریکارڈز توڑ دیے تھے۔
جب ہم نے یہ فلم دیکھی تو اس وقت تک یہ پانچ بلین یوان اور چھ سو ملین امریکن ڈالر کا کاروبار کرچکی تھی۔فلم میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی ۔ ایکشن کے مناظر سے بھر پور انداز میں لطف اندوز ہونے کے لیے گلاسز کا استعمال ضروری تھا۔اسی لیے سینما گھر کے عملے نے گلاسز دیے تھے۔گلاسز کی وجہ سے ایسا محسوس ہوا کہ فلم میں چلائی گئی گولی کا نشانہ شاید ہم ہی ہیں۔ یہ ایکشن فلم دیکھ کر لڑکپن اور جوانی کے دور کے بروس لی اور جیکی چن یاد آگئے جو کہ چینی فلمی صنعت کے معروف نام اور بیرون ِچین ، چین کی پہچان ہیں ۔فلم کے دوران ہال میں مکمل خاموشی رہی۔کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی۔نہ کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والے شخص کی انٹری ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ہال میں کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت ممنوع ہے۔ ہال میں بیٹھے تمام لوگ اپنی اپنی نشستوں پر خاموشی سے بیٹھے فلم سے محظوظ ہوتے رہے۔ ہمارے ہاں تو بعض اوقات ہال میں نشستوں کے اوپر بیٹھنے کے حوالے سے بھی تو تکار ہو جاتی ہے۔
وہاں کچھ ایسا نہیں تھا۔معلوم ہوا کہ لوگ ٹکٹس خریدتے وقت اپنی مرضی سے سکرین سے نشست کے فاصلے کے تعین کے حوالے سے نشتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔وہاں ٹکٹس آن لائن پیشگی بک کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ سیلف ٹکٹنگ مشینز بھی ہیںاور کاونٹر سے خریدنے کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ مگر لوگ عموما آن لائن ہی بکنگ کرواتے ہیں۔ ہمارے ہاں سینما ہال میں بیٹھے حضرات فلم میں بدلتے مناظر اور صورتحال کے مطابق اپنے جذبات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ تین درجوں سٹال ، گیلری اور باکس آفس میں بٹے ہمارے روایتی سینما میںجذبات کا اظہار بھی ان کی اسی درجہ بندی کے مطابق ہوتا ہے۔
سٹال میں عمومی طور پر ناخواندہ اور مزدور طبقہ بیٹھا ہوتا ہے تو وہ فلم میںپیش کیے جانے والے گانوں پر وفورِ جذبات میں آ کر وہیں سکرین کے سامنے یا بعض منچلے اپنی نشستوں پر ہی رقص شروع کردیتے ہیں اور اگر کہیں فلم کے بیچ میں لڑائی کا سین آتا ہے تو بھی ان کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں۔فلم میں ہیرو کی جانب سے شرپسند عناصر کو پڑنے والی مار پر بعض سینما بین اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ مٹھیاں بھینچ کر اپنی جانب سے لڑائی کا حصہ بننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ پھر گیلری میں بیٹھے لوگ اپنے آپ کو سٹال والوں سے بالاتر سمجھتے ہیں تو اس لیے سٹال اور گیلری کے درمیان بعض اوقات نوک جھونک اور شرارتیں ہوتی رہتی ہیں۔ گیلری میں سے بعض شرارتی افراد کبھی کبھار کوئی ادھ جلا سگریٹ یا جوس کا خالی پیکٹ اک شانِ بے نیازی سے نتائج کی پرواہ کیے بغیر سٹال کی طرف پھینک دیتے ہیں۔ سٹال سے پھر مغلظات کا ایک طوفان بر آ مد ہوتا ہے۔ گیلری سے بھی جواب دیا جاتا ہے ۔یوں وقتی طو ر پر ایک مچھلی منڈی کا سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ باکس آفس والے اپنی ہی دنیا میں مگن ہو کر اس شوروغوغا سے ماورا فلم کو دیکھتے ہیں۔
ہمارے سینما گھروں میں پا ئے جانی والی یہ درجہ بندی چین میں نظر نہ آئی۔ وہاں ہال میں بیٹھے لوگ بڑی خاموشی سے فلم دیکھتے ہیں۔ نہ ہی اونچی آواز میں بات کرتے ہیں۔ایک مکمل سکوت کا عالم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں فلم کے دوران وقفہ ہوتا ہے تو لوگ ہال سے باہر نکل کر بوتلیں یا جوس وغیرہ پی لیتے ہیں یا پھر کچھ حسبِ منشا سموسے یا کچھ اور کھا لیتے ہیں۔ وقفے کے بعد لوگ دوبارہ ہال میں آتے ہیں اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔بعض اوقات لوگ اس سے فائدہ اٹھا کر بغیر ٹکٹ بھی اندر گھس آتے ہیں۔
چین میں فلم کے دوران وقفہ نہیں ہوتا ۔ وہاں لوگ فلم ختم ہونے کے بعد ہی ہال سے باہر آتے ہیں۔ وہاں سینما گھروں میں ہمارے ہاںکی پوسٹر بینی کی کوئی روایت دیکھنے میں نہ آئی ۔ہمارے ہاں تولوگ وقت گزاری کے لیے سینما گھر کارخ کرتے ہیں اور فلموں کے بڑے بڑے پوسٹرز کو دیکھ کر ہی محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ وہاں سینما کی حدو د میں ہمارے ہاں کی طرح کی تصویر ی گیلری کاکوئی رواج نہیں ہے۔ہال میں موجود نشتیں بہت آرام دہ ہوتی ہیں۔ان کو اپنی سہولت کے مطابق ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
چین میں سینما میں مختلف ہالز ہوتے ہیں۔ ان ہالز میں نشستوں کی تعداد سو یا سو سے کم ہوتی ہے۔ اور بعض بڑے ہالز میں یہ تعداد شاید ہزاروں تک پہنچ جائے۔ ہالز کا اندرونی ماحول بڑا آرام دہ ہوتا ہے۔ شمالی چین میں سردی بہت پڑتی ہے۔ اس لیے اس پورے ریجن میں سنٹرل ہیٹنگ اور کولنگ کا سسٹم موجود ہے۔ہر عمارت میں یہ سہولت دستیاب ہے۔ سینما ہالز میں بھی یہی سسٹم پایا جاتا ہے۔اس لیے لوگ موسم اور درجہ حرارت کی شدت یا کمی سے بے نیاز ہو کر بڑے سکون سے فلم سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سینما ہالز بڑی بڑی عمارتوں پر مشتمل ہیں جبکہ چین میں بڑے بڑے شاپنگ مالز میں بھی سینما موجود ہیں۔سینما ہالز نہ صرف فلم دکھاتے ہیں بلکہ وہاں وہ فلم کی تعلیم اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔
بیجنگ کے ضلع تانگ چینگ ( Dongcheng) میں واقع ایک سینما نئی اور کلاسیک فلموں کی نمائش کے علاوہ مووی کے حوالے سے تعلیم بھی دیتا ہے۔وہاں موجود فلم لائبریری عوام کے لیے کھلی ہوتی ہے۔ جہاں دنیا بھر کے فلمی رسالے، فلم کے حوالے سے کتابیں، ڈی وی ڈیز اور ساونڈ ٹریکس بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں وقتا فوقتا فلم سازوں کے لیے تقاریب بھی منعقد ہوتی ہیں۔ اسی طرح چاو یانگ (Chaoyang) میں موجود ایک سینما صرف چین میں بنائی گئی فلموں کی نمائش کو ترجیح دیتا ہے۔اور فلم کے حوالے سے لیکچرز اور ایونٹس بھی ترتیب دیتا ہے۔ بیجنگ میں موجود چائنہ فلم آر کا ئیو ( China Film Archive) میں روزانہ کی بنیا د پر چینی اور بین الاقوامی کلاسیک فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ بیجنگ کے علاقے شی تان (Xidan) میںموجود کیپٹل سینما بہت پرانا ہے۔ یہ سینما پیکنگ اوپر ا کے ایک گلوکار نے بنایا تھا۔ انیس سو پچاس میں اس کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کیپٹل سینما کا نام چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی نے رکھا تھا۔چین کے ابتدائی فلم فیسٹیولز یہیں منعقد ہوا کرتے تھے ۔
چین میں موجود چائنہ نیشنل فلم میوزیم بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد میوزیم ہے۔ اس میوزیم میں تیس ہزار سے زائد فلموں کی کاپیاں، پوسٹرز اور فلمی صنعت میں استعمال ہونے والے آلات رکھے گئے ہیں۔اس میوزیم کے دو زونز ہیں۔ ایک ایگزیبیشن زون جبکہ دوسرا سینما زون ہے۔ میوزیم میں بیس ہالز ہیں ۔ ایک سے دس تک کے ہالز میںچینی فلم انڈسٹری کی سو سالہ تاریخ اور کامیابیوں کی داستان بتائی گئی ہے۔جب کہ گیارہ سے بیس تک کے ہالز میں چین کی فلمی صنعت کی ٹیکنالوجیکل ترقی کو محفوظ کیا گیا ہے۔ یہاں کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں آ نے والے سیاحوں کو فلم ریکارڈنگ اور مختصر دورانیے کی ویڈیوز کو شوٹ کرکے انہیں ایڈٹ کرنے کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ میوزیم کے سینما زون میں چھ ویڈیو ہالز ، پانچ روایتی ہالز جب کہ ایک آئی میکس کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہاں پر کم وبیش روزانہ ایک ہزار کے قریب لوگ آتے ہیں ۔ بیجنگ میں موجودایک فلم سٹی چین کی فلمی صنعت کی ترقی کی واضح مثال ہے۔
یہ پچھتر ایکڑ پر مشتمل ہے جہاں فلم سازی ، فلم کی تیاری کے سیٹس، تفریح، مووی ایجوکیشن اورثقافتی تبادلوں کی سہولیا ت دستیاب ہیں۔یہاں پر منگ اور چنگ سلطنتوں میں موجود عمارات کی طرز کی عمارتیں موجود ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ آٹھ سو کے قریب مشہور فلمیں اورڈرامے یہاں بنائے گئے ہیں۔ دوہزار سترہ کے اختتام تک بیجنگ میں موجود سینماگھروں کی تعداد دوسونو جبکہ سکرینز کی تعداد ایک ہزار چارسو بیس تھی جب کہ چین بھر میں مووی سکرینز کی تعداد چار لاکھ چوالیس ہزار ہے جو کہ پورے شمالی امریکہ سے زیادہ ہے۔دو ہزارسترہ میں چین کی فلمی صنعت کے کاروبار ی حجم میں تیرہ اعشاریہ پینتالیس فیصد اضافہ ہوا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پچپن اعشاریہ نو بلین سے زیادہ ر ہی جو کہ آٹھ اعشاریہ چھ بلین امریکی ڈالرز کے مساوی ہے۔ فلمی صنعت کی اس ترقی میں مقامی فلموں کا تناسب تقریباً چون فیصد رہا۔
یہ جدت اور ترقی صرف سینما ہالز تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ چین میں فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبہ جات میں بھی جدت اور اختراعات کا سفر جاری ہے۔ چین میں لوگ نہ صرف سینما ہالز میں جانا پسند کرتے ہیں بلکہ وہاں تھیٹر بھی بہت مقبول ہے۔ہماری طرح کا تھیٹر نہیں بلکہ ان کا روایتی تھیٹر ۔ اوپراز وہاں بہت مقبول ہیں۔
او پراز میں کام کرنیوالے بعض فنکار تو بہت ہی مقبول ہیں ۔ چین کی کئی نامورشخصیات چین کے مختلف علاقوں کے مقامی اوپراز کی بہت مداح اورگرویدہ رہی ہیں۔ ۔ پیکنگ اوپرا تو چین کی ثقافتی شناخت کے طور پر مشہور ہے۔ یہ ایک سو پچاس سال سے زائد عرصہ سے کام کر رہا ہے۔ اوپرا کی چار امتیازی خصوصیات ہیں گانا ، ؛مکالمہ، رقص اور مارشل آرٹس۔ راقم کو اوپرا کی مختلف پرفارمنسز دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اوپرا ز میں استعمال ہونے والے ماسکس، اداکاروں کے لباس ، صورتحال کے مطابق سیٹ کی فوری تبدیلی، مکالموں کی خوبصورت ادائیگی، گانے اور مارشل آرٹس کی مہارت شائقین کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔ چینی شہری بے اختیار ان کو داد دیتے ہیں اور اداکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان اوپراز میں چینی لوک کہانیاں پیش کی جاتی ہیں۔
جس طرح سینما گھرمختلف نوعیت کی فلموں کے لیے مشہور ہیں۔وہیں ان کا تھیٹر بھی اپنی اپنی امتیازی خصوصیات کی بنا پر معروف ہے۔ ریڈ تھیٹر (Red Theatre) کنگ فو اور مارشل آرٹس پرفارمنسز کے لیے مشہور ہے جبکہ پولی تھیٹر میوزک اور رقص کی پرفارمنسز کے لیے معروف ہے۔ اس تھیٹر میں روایتی چینی ڈرامے، افریقن رقص اور شیکسپیئر کے ڈرامے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ بیجنیگ میں تیا من سکوائر کے قریب واقع نیشنل سنٹر فاردی پرفارمنگ آرٹ ایک دیکھنے کی چیز ہے۔ باہر سے بیضوی شکل کی یہ عمارت اندر سے بہت خوبصورت اور دیدہ زیب ہے۔سب وے لائن نمبر ون اور بس نمبر ایک دونوں یہیں سے ہو کر گزرتی ہیں۔ سب وے لائن ون کے ایک سٹیشن کا اخراج براہ راست اس تھیٹر کی طرف جاتا ہے۔
اس میں داخل ہوں تو ہال تک پہنچنے کے درمیانی راستے میں دیواروں میں مختلف طرح کی آرٹ تصاویر آویزاں ہیں۔راہداری سے گزریں تو دائیں ہاتھ سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔اوپر کا فلور بہت دیدہ زیب ہے۔ کیونکہ شیشے کے اس پارایک مصنوعی جھیل ہے جو یہاں آنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔اس کے تین ہالز ہیں۔ اوپرا ہال جو کہ اوپراز اور بیلے ڈانس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ایک میوزک ہال ہے اور ایک تھیٹر ہال ہے۔ ہر ہال میں کم سے کم ایک ہزار نشستوں کی گنجائش ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ ڈھائی ہزار کے قریب نشستیں ہیں۔ یہ تمام ہال جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ نشتیں آرام دہ ہیں اور سب سے دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے کہ جو کہ غیر ضروری شور کو ختم کردیتی ہے۔
مثلا اگر کوئی فرد دورانِ پرفارمنس اٹھ کر چلا جائے تو اس کے نشست سے اٹھنے کی آواز نہیں آتی۔نشستوں کی ترتیب بھی طاق اور جفت کے حساب سے ہے۔ طاق نمبرز ایک طرف ہیں جبکہ جفت نمبرز دوسری طرف ہیں۔ہال میں داخلے کے مختلف دروازے ہیں۔ہال کے داخلی دروازے پر تعینات چینی عملہ ٹکٹس پر درج نمبرز کو دیکھ کر داخلے کے درست دروازے کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ یہ بیجنگ کے صفِ اول کے ہالز میں شامل ہے۔یہ انتیس ایکڑز پر مشتمل ہے۔ اس میں پیش کی جانے والی پرفارمنسز کی ڈی وی ڈیز بنا ان کو فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ دورانِ پرفارمنس موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاتی۔فنونِ لطیفہ کی ترقی و ترویج کا یہ سلسلہ صرف سینما ہالز ، تھیٹرز کی جدید انداز سے تعمیر تک ہی موقوف نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی ادارے اس کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
اگر دیوارِ چین، چین سے باہر چین کی شناخت ہے۔ توپیکنگ اوپرا چین کی ثقافتی شناخت ہے اس کے علاوہ بیجنگ کے چاو یانگ ضلع میں واقع 798 آرٹ ڈسڑکٹ بھی چین کے فنونِ لطیفہ کے فروغ کی ایک پہچان و نمایاں نام ہے۔798 آرٹ ڈسڑکٹ کے قیام کا پس منظر بھی بہت دلچسپ ہے ۔ یہاں پر کسی زمانے میں آرمی کی ایک فیکٹری ہوا کرتی تھی جو کہ فیکٹری 798کے نام سے جانی جاتی تھی۔ بعد میں مختلف انتظامی وجوہات کی بنا پر بیجنگ شہر میں موجود مختلف آرٹسٹوں کے دفاتر کو جب منتقل کرنے کے احکامات دیے گئے تو ان میں سے کئی ایک نے یہاں کارخ کیا کیونکہ اس وقت یہ فیکڑی بند تھی اور کسی قسم کا کام یہاں نہیں ہو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اور فنکار بھی یہاں منتقل ہوگئے تو یوں 798 آرٹ ڈسڑکٹ کا جنم ہوا۔ یہ ڈسڑکٹ ایک سو اڑتالیس ایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہاں پر گیلریز، آرٹ سٹوڈیوز، کلچرل کمپنیاں، فیشن شاپس ہیں۔ یہاں پر دو فیسٹیولز بھی منعقد ہوتے ہیں ۔
ایک 798 آرٹ فیسٹیول ہے جب کہ دوسرا 798 کریٹیو آرٹ فیسٹول ہے۔ یہاں بین الاقوامی آرٹ نمائش، آرٹ سرگرمیاں اور فیشن شوز منعقد ہوتے ہیں۔چار سو سے زائد ثقافتی تنظیمیں یہاں پر اپنے دفاتر چلا رہی ہیں۔ ان میں فرانس ، برطانیہ، سویڈن، اور دیگر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں بھی ہیں۔ سویڈن، سوئٹزر لینڈ، آسٹریا کے وزرائے اعظم اور کئی یورپی حکومتی زعماء یہاں کا دورہ کرچکے ہیں۔فنونِ لطیفہ کی تمام تر سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے چینی زبان میں مہارت ایک لازمی امر ہے۔کیونکہ زیادہ تر ثقافتی تقاریب کے حوالے سے معلومات اور لٹریچر چینی ز بان میں ہی دستیاب ہوتا ہے۔چینی زبان سے عدم واقفیت کے نقصانات کاتخمینہ زیادہ ہے کیونکہ یہ ایک فروغ پاتی زبان ہے ۔اگر کوئی ابھرتی ہوئی قوم کی زبان سیکھنے کاخواہشمند ہے تو چینی زبان بہترین آپشن ہے۔
(جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ
ہم جو شروع سے ہی فلم بینی کے دلدادہ تھے۔ چین کے سینماؤں سے اپنے آپ کو دور نہ رکھ سکے۔ شروع ہی میںسائیکلنگ کے دوران مشاہدے میں آنے والے سینماگھروں کو دیکھ کر وہاں جانے کی خواہش نے انگڑائی لی تھی۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ ٹکٹ کے حصول کے طریقہ کار سے نا آشنائی تھی۔ اس مشکل کو ہماری اردو سروس کی ایک ساتھی ہو پھنگ پھنگ (Hu Pingping)نے دور کیا کہ جن کا اردو نام نورین ہے۔ایک روز ہم نے اپنی اس رفیقِ کارسے پوچھا کہ اگر فلم دیکھنا ہوتو سینما کیسے جائیں اور ٹکٹس کہاں سے ملیں گی۔
ان سے پوچھنے کا سبب یہ تھا کہ وہ فلمیں شوق سے دیکھا کرتی ہیں۔ پاکستانی، بھارتی ، چینی اور ہالی ووڈ فلموں کے متعلق انہیں بھر پور معلو مات ہیں۔طویل القامت ہو پھنگ پھنگ نے فورا ہمیں دو ٹکٹس دیے کہ یہ قریبی سینما میں دکھا کر مفت فلم دیکھیں۔( ان کی طویل القامتی کا خصوصی تذکرہ اس لیے کیا کہ ہمارے ہاں یہ عمومی تصور ہے کہ چینی خواتین پستہ قد کی ہوتی ہیں۔تو حضور اس غلط فہمی کا ازالہ فرما لیں۔پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں)۔ فلم دیکھنا اور وہ بھی مفت میں۔۔۔۔۔ واہ کمال ہوگیا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ہمارے تو وارے نیارے ہو گئے۔ اب جو محترمہ نورین نے ہمیں قریبی سینما کے متعلق بتایا تو ہم مزید حیران ہوئے کہ وہ جگہ تو ہمارے دفترا وررہائش گاہ کے بہت قریب تھی۔ ہم بارہا وہاں جا بھی چکے تھے مگر ہمیں وہاں سینما کی موجودگی کے اثرات نہ ملے تھے۔
مگرچونکہ وہ بتا رہی تھیںکہ سینما وہیں ہے توتشکیک کے ساتھ اس کو قبول کرلیا، گو کہ اس مقام پر بظاہر سنیما کے آثار نظر نہیں آتے تھے، جس جگہ کا انہوں نے بتایا کہ وہاں سینما ہے وہ ایک بہت بڑاشاپنگ مال ہے جہاں سے ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء ملاکرتی تھیں۔ ہم بیسیوں مرتبہ وہاںجا چکے تھے مگر سینما نظر سے نہ گزرا تھا۔ سو ان سے اسی شک کا اظہار کیا تو وہ مسکرا دیں اور کہنے لگیں کہ ذرا اوپر کے فلور پر بھی چکر لگائیں توآپ کی مراد بر آئے گی۔اب دوٹکٹس تھے اور میں اکیلا۔بیجنگ کی ایک جامعہ میں زیرتعلیم پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر امجد زریں سے کہا کہ وہ آ جائیں تو ہم مل کر فلم دیکھیں گے ۔ انہوں نے حامی بھرلی۔یوں ہم ایک روز سینما چل دیے۔ہمیں جس قریبی سینما کے متعلق بتایا گیا تھا اسی کی طرف بڑھے اور اس کو تلاش کرنے لگے۔اسی جانے پہچانے شاپنگ مال میں پہنچے۔
مگر اس روز وہاں آمد ذرا اور انداز کی تھی۔ اس کو آج ہم نے ایک نئے طریقے سے کھوجنا تھا۔سو سیدھا اوپر کے فلور کا رخ کیا۔وہاں دکانوں کے ساتھ ساتھ کچھ کھانے پینے کی اشیاء کے سٹال نظر آئے۔ایک چوڑی اور کھلی راہداری سے ہوتے ہوئے آگے بڑھے تووہاں دائیں جانب ایک سٹینڈ تھا جہاں جوسز وغیرہ فروخت کیے جارہے تھے ۔ سامنے کی جانب سے لفٹس نظر آرہی تھیں۔درمیان میں فرش پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیٹھنے کے لیے نشتیں نصب تھیں۔ پہلی نظر میںایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ جگہ پلازے میں خریداری کے دوران تھک جانے والوں کے کچھ دیر سستانے کے لیے بنائی گئی ہے کیونکہ مشروبات وغیرہ دستیاب تھے اور ہر عمر کے چینی مرد و زن خوش گپیوں اور آرام میں مصروف تھے۔وہاں کسی سینما کی موجودگی کے اثرات نظر نہ آئے۔
ہم نے وہاں موجود لوگوں سے سینما کی بابت پوچھا ۔سب نے اثبات میں سر ہلایا تو ہمیں اطمینان ہوا کہ مقام اور جگہ تودرست ہے مگر آخر یہ سینما کس جانب یا کس کارنر میں ہے کہ نظر ہی نہیں آرہا ۔کیونکہ ہم تو پاکستان میں سینما کی عمارت کو دور سے ہی دیکھ کر پہچان لیتے تھے۔مگر یہاں تو کچھ ایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ سات پردوں میں پوشیدہ ہے۔ رفتہ رفتہ وہاں موجود نوجوانوں کی تعدادمیں اضافہ ہونے لگا۔ تو امید بندھی کہ فلم یہیں کہیں دکھائی جا ئے گی۔پھر بھی اطمینانِ قلب کے لیے ایک صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ فلم کے ٹکٹس کہاں سے ملیں گے توانہو ں نے سامنے موجود ایک سٹال کی جانب اشارہ کیا۔ اب جو اس جانب دیکھا تو وہاں جوسزاور دیگر مشروبات وغیرہ فروخت کیے جارہے تھے۔ہمیں تو ٹکٹس کے آثار نظر نہ آئے۔مگر صبر کے سوا چارہ نہ تھا۔
بالاآخرفلم کے وقتِ مقررہ سے کچھ دیر پہلے ایک محترمہ تشریف لائیں تو دیکھا کہ جولوگ اورنوجوان وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان میں ارتعاش پیدا ہوا ا ور وہ لائن میں لگنا شروع ہو گئے۔ہمیں بھی یقین ہو گیا اور ہم بھی لائن میںلگ گئے۔اپنی باری آنے پر ہم نے اپنے ٹکٹس دکھائے ۔انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کونسی فلم دیکھنی ہے ۔ ہم حیران ہوئے کہ ہمار ے ہاں تو ایک وقت میں ایک ہی فلم سینما کی زینت بنتی ہے۔یہاں یہ کیا ماجرا ہے۔ہم نے اپنے پاس موجود تصویر دکھائی اورکہا کہ یہ والی۔ انہوں نے ہمارے ٹکٹس دیکھے اور کہا کہ قیمت ادا کریں۔ ہمیں ان کا یہ مطالبہ سمجھ نہ آیا۔ ہم نے ان سے گزارش کی ہمارے پاس موجود ٹکٹس مفت فلم دیکھنے والے ہیں۔ انہوں نے آگے سے چینی زبان میں کچھ طویل جملے ارشاد فرمائے جن کو ہم سمجھنے سے قاصر تھے کیونکہ 'زبانِ یارِ من چینی و من چینی نمی دانم والا معاملہ تھا'۔
سو ہم نے اپنے ایک کولیگ سے رابطہ کیا اوران سے بات کی۔انہوں نے کاونٹر پر کھڑی لڑکی سے بات کی اور پھر ہمیں بتایا کہ ٹکٹس تو مفت کے ہیں مگر جس فلم کو ہم نے دیکھنے کی خواہش کی ہے اس کا ٹکٹ زیادہ مالیت کا ہے۔اس لیے اگر وہی فلم دیکھنی ہے تواضافی پیسے ادا کریں اور فلم دیکھیں۔ چونکہ ہمیں تو اسی ایک ہی فلم کا اندازہ تھا سو ہم نے اضافی رقم ادا کی اور ٹکٹس لیے اور آگے کی جانب چل دیے۔آگے کاونٹر سے بائیں جانب ایک راہداری تھی۔راہداری کے داخلی مقام پر سٹاف بیٹھا ہوا تھا۔انہوں نے ہمارے ٹکٹس چیک کیے ، سکین کیے اور داخلے کا اذن جار ی کردیا۔ ہم آگے بڑھے تودائیں جانب ایک دروازہ تھا۔ ہم اسی کو سینما ہال کادروازہ سمجھ کر اس میں داخل ہونے لگے تو وہاں موجو د سٹاف نے ہمارے ٹکٹس دیکھ کر آگے بڑھنے کااشارہ کردیا۔سو ہم مزید آگے چل دیے۔
آگے بڑھے تو بائیں جانب ایک کھلی جگہ پر ایک کاونٹر کو پایا۔ وہاں دو تین لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ٹکٹس دیکھ کر مخصوص گلاسز دے رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ شاید ہم غلط جگہ پر آگئے ہیں۔کچھ انگلش، ٹوٹی پھوٹی چائینز اور اشاروں کی مدد سے انہیں بتایا کہ ہم تو فلم دیکھنے آئے ہیں نہ کہ کسی او ر مقصد کے لیے۔انہوں نے جوابا ًفرمایا کہ ہم بھی آپ کو فلم دیکھنے کے لیے ہی عینک دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔سو ہم نے بھی چشمے لیے اوران کے بتائے ہوئے راستے پر چل دیے۔ سیڑھیوں سے نیچے اترے تو خود کو ایک ہال میں موجود پایا۔ یہی سینما ہال تھا۔ ہم حیران ہوئے کہ کیسا ہال ہے ۔ ہمارے ہاں تو سینما گھروں میں ہال مختلف حصوں میں بٹا ہوتا ہے۔ یہاں پر توایک ہی چھوٹا سا ہا ل ہے۔یہاں پر نشتوں کی تعداد لگ بھک سو کے قریب ہوگی۔
ہم ہال میں بیٹھ گئے۔ لوگ آتے چلے گئے اور ہال بھرنا شروع ہو گیا۔ فلم شروع ہونے کے وقتِ مقررہ سے کچھ دیر پہلے سٹاف کا ایک فرد آیا اوراس نے ہال میں بیٹھے تمام افراد کے پاس گلاسز کی موجودگی کو یقینی بنایا اور چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہال کی سکرین متحر ک ہونا شروع ہوئی ۔ لیں جناب یہ فلم کا آغازتھا۔ ہمارے ہاں سینما گھروں میں فلم شروع ہونے سے پہلے عموما کچھ کمرشل اشتہارات چلتے ہیں ۔ بعد میں قومی ترانہ پیش کیا جاتا ہے ۔ جس کے شروع میں لکھا ہوتا ہے کہ قومی ترانہ کے احترام میں کھڑا ہونا لازمی ہے۔ لوگ کھڑے بھی ہوتے ہیںاورجب قومی ترانہ کے دوران قائد اعظم کی تصویر آتی ہے تولوگ بے ساختہ تالیاں بجا کر بابائے قوم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ فلم شروع ہونے سے قبل فلم کی متعلقہ ادارے سے منظوری، کاسٹ اور تیکنیکی عملے کے کریڈٹس کاذکر ہوا اور آغاز ہو گیا۔فلم شروع ہونے کے بعد گلاسز کی فراہمی اور ان کو پہننے کے فوائد کا علم ہوا۔ یہ چین کی ایک سپرہٹ ایکشن فلم تھی جس نے مقبولیت اور آمدنی کے تمام ریکارڈز توڑ دیے تھے۔
جب ہم نے یہ فلم دیکھی تو اس وقت تک یہ پانچ بلین یوان اور چھ سو ملین امریکن ڈالر کا کاروبار کرچکی تھی۔فلم میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی ۔ ایکشن کے مناظر سے بھر پور انداز میں لطف اندوز ہونے کے لیے گلاسز کا استعمال ضروری تھا۔اسی لیے سینما گھر کے عملے نے گلاسز دیے تھے۔گلاسز کی وجہ سے ایسا محسوس ہوا کہ فلم میں چلائی گئی گولی کا نشانہ شاید ہم ہی ہیں۔ یہ ایکشن فلم دیکھ کر لڑکپن اور جوانی کے دور کے بروس لی اور جیکی چن یاد آگئے جو کہ چینی فلمی صنعت کے معروف نام اور بیرون ِچین ، چین کی پہچان ہیں ۔فلم کے دوران ہال میں مکمل خاموشی رہی۔کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی۔نہ کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والے شخص کی انٹری ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ہال میں کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت ممنوع ہے۔ ہال میں بیٹھے تمام لوگ اپنی اپنی نشستوں پر خاموشی سے بیٹھے فلم سے محظوظ ہوتے رہے۔ ہمارے ہاں تو بعض اوقات ہال میں نشستوں کے اوپر بیٹھنے کے حوالے سے بھی تو تکار ہو جاتی ہے۔
وہاں کچھ ایسا نہیں تھا۔معلوم ہوا کہ لوگ ٹکٹس خریدتے وقت اپنی مرضی سے سکرین سے نشست کے فاصلے کے تعین کے حوالے سے نشتوں کا انتخاب کرتے ہیں۔وہاں ٹکٹس آن لائن پیشگی بک کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ سیلف ٹکٹنگ مشینز بھی ہیںاور کاونٹر سے خریدنے کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ مگر لوگ عموما آن لائن ہی بکنگ کرواتے ہیں۔ ہمارے ہاں سینما ہال میں بیٹھے حضرات فلم میں بدلتے مناظر اور صورتحال کے مطابق اپنے جذبات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ تین درجوں سٹال ، گیلری اور باکس آفس میں بٹے ہمارے روایتی سینما میںجذبات کا اظہار بھی ان کی اسی درجہ بندی کے مطابق ہوتا ہے۔
سٹال میں عمومی طور پر ناخواندہ اور مزدور طبقہ بیٹھا ہوتا ہے تو وہ فلم میںپیش کیے جانے والے گانوں پر وفورِ جذبات میں آ کر وہیں سکرین کے سامنے یا بعض منچلے اپنی نشستوں پر ہی رقص شروع کردیتے ہیں اور اگر کہیں فلم کے بیچ میں لڑائی کا سین آتا ہے تو بھی ان کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں۔فلم میں ہیرو کی جانب سے شرپسند عناصر کو پڑنے والی مار پر بعض سینما بین اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ مٹھیاں بھینچ کر اپنی جانب سے لڑائی کا حصہ بننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ پھر گیلری میں بیٹھے لوگ اپنے آپ کو سٹال والوں سے بالاتر سمجھتے ہیں تو اس لیے سٹال اور گیلری کے درمیان بعض اوقات نوک جھونک اور شرارتیں ہوتی رہتی ہیں۔ گیلری میں سے بعض شرارتی افراد کبھی کبھار کوئی ادھ جلا سگریٹ یا جوس کا خالی پیکٹ اک شانِ بے نیازی سے نتائج کی پرواہ کیے بغیر سٹال کی طرف پھینک دیتے ہیں۔ سٹال سے پھر مغلظات کا ایک طوفان بر آ مد ہوتا ہے۔ گیلری سے بھی جواب دیا جاتا ہے ۔یوں وقتی طو ر پر ایک مچھلی منڈی کا سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ باکس آفس والے اپنی ہی دنیا میں مگن ہو کر اس شوروغوغا سے ماورا فلم کو دیکھتے ہیں۔
ہمارے سینما گھروں میں پا ئے جانی والی یہ درجہ بندی چین میں نظر نہ آئی۔ وہاں ہال میں بیٹھے لوگ بڑی خاموشی سے فلم دیکھتے ہیں۔ نہ ہی اونچی آواز میں بات کرتے ہیں۔ایک مکمل سکوت کا عالم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں فلم کے دوران وقفہ ہوتا ہے تو لوگ ہال سے باہر نکل کر بوتلیں یا جوس وغیرہ پی لیتے ہیں یا پھر کچھ حسبِ منشا سموسے یا کچھ اور کھا لیتے ہیں۔ وقفے کے بعد لوگ دوبارہ ہال میں آتے ہیں اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔بعض اوقات لوگ اس سے فائدہ اٹھا کر بغیر ٹکٹ بھی اندر گھس آتے ہیں۔
چین میں فلم کے دوران وقفہ نہیں ہوتا ۔ وہاں لوگ فلم ختم ہونے کے بعد ہی ہال سے باہر آتے ہیں۔ وہاں سینما گھروں میں ہمارے ہاںکی پوسٹر بینی کی کوئی روایت دیکھنے میں نہ آئی ۔ہمارے ہاں تولوگ وقت گزاری کے لیے سینما گھر کارخ کرتے ہیں اور فلموں کے بڑے بڑے پوسٹرز کو دیکھ کر ہی محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ وہاں سینما کی حدو د میں ہمارے ہاں کی طرح کی تصویر ی گیلری کاکوئی رواج نہیں ہے۔ہال میں موجود نشتیں بہت آرام دہ ہوتی ہیں۔ان کو اپنی سہولت کے مطابق ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
چین میں سینما میں مختلف ہالز ہوتے ہیں۔ ان ہالز میں نشستوں کی تعداد سو یا سو سے کم ہوتی ہے۔ اور بعض بڑے ہالز میں یہ تعداد شاید ہزاروں تک پہنچ جائے۔ ہالز کا اندرونی ماحول بڑا آرام دہ ہوتا ہے۔ شمالی چین میں سردی بہت پڑتی ہے۔ اس لیے اس پورے ریجن میں سنٹرل ہیٹنگ اور کولنگ کا سسٹم موجود ہے۔ہر عمارت میں یہ سہولت دستیاب ہے۔ سینما ہالز میں بھی یہی سسٹم پایا جاتا ہے۔اس لیے لوگ موسم اور درجہ حرارت کی شدت یا کمی سے بے نیاز ہو کر بڑے سکون سے فلم سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سینما ہالز بڑی بڑی عمارتوں پر مشتمل ہیں جبکہ چین میں بڑے بڑے شاپنگ مالز میں بھی سینما موجود ہیں۔سینما ہالز نہ صرف فلم دکھاتے ہیں بلکہ وہاں وہ فلم کی تعلیم اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔
بیجنگ کے ضلع تانگ چینگ ( Dongcheng) میں واقع ایک سینما نئی اور کلاسیک فلموں کی نمائش کے علاوہ مووی کے حوالے سے تعلیم بھی دیتا ہے۔وہاں موجود فلم لائبریری عوام کے لیے کھلی ہوتی ہے۔ جہاں دنیا بھر کے فلمی رسالے، فلم کے حوالے سے کتابیں، ڈی وی ڈیز اور ساونڈ ٹریکس بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں وقتا فوقتا فلم سازوں کے لیے تقاریب بھی منعقد ہوتی ہیں۔ اسی طرح چاو یانگ (Chaoyang) میں موجود ایک سینما صرف چین میں بنائی گئی فلموں کی نمائش کو ترجیح دیتا ہے۔اور فلم کے حوالے سے لیکچرز اور ایونٹس بھی ترتیب دیتا ہے۔ بیجنگ میں موجود چائنہ فلم آر کا ئیو ( China Film Archive) میں روزانہ کی بنیا د پر چینی اور بین الاقوامی کلاسیک فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ بیجنگ کے علاقے شی تان (Xidan) میںموجود کیپٹل سینما بہت پرانا ہے۔ یہ سینما پیکنگ اوپر ا کے ایک گلوکار نے بنایا تھا۔ انیس سو پچاس میں اس کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کیپٹل سینما کا نام چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی نے رکھا تھا۔چین کے ابتدائی فلم فیسٹیولز یہیں منعقد ہوا کرتے تھے ۔
چین میں موجود چائنہ نیشنل فلم میوزیم بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد میوزیم ہے۔ اس میوزیم میں تیس ہزار سے زائد فلموں کی کاپیاں، پوسٹرز اور فلمی صنعت میں استعمال ہونے والے آلات رکھے گئے ہیں۔اس میوزیم کے دو زونز ہیں۔ ایک ایگزیبیشن زون جبکہ دوسرا سینما زون ہے۔ میوزیم میں بیس ہالز ہیں ۔ ایک سے دس تک کے ہالز میںچینی فلم انڈسٹری کی سو سالہ تاریخ اور کامیابیوں کی داستان بتائی گئی ہے۔جب کہ گیارہ سے بیس تک کے ہالز میں چین کی فلمی صنعت کی ٹیکنالوجیکل ترقی کو محفوظ کیا گیا ہے۔ یہاں کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں آ نے والے سیاحوں کو فلم ریکارڈنگ اور مختصر دورانیے کی ویڈیوز کو شوٹ کرکے انہیں ایڈٹ کرنے کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ میوزیم کے سینما زون میں چھ ویڈیو ہالز ، پانچ روایتی ہالز جب کہ ایک آئی میکس کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہاں پر کم وبیش روزانہ ایک ہزار کے قریب لوگ آتے ہیں ۔ بیجنگ میں موجودایک فلم سٹی چین کی فلمی صنعت کی ترقی کی واضح مثال ہے۔
یہ پچھتر ایکڑ پر مشتمل ہے جہاں فلم سازی ، فلم کی تیاری کے سیٹس، تفریح، مووی ایجوکیشن اورثقافتی تبادلوں کی سہولیا ت دستیاب ہیں۔یہاں پر منگ اور چنگ سلطنتوں میں موجود عمارات کی طرز کی عمارتیں موجود ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ آٹھ سو کے قریب مشہور فلمیں اورڈرامے یہاں بنائے گئے ہیں۔ دوہزار سترہ کے اختتام تک بیجنگ میں موجود سینماگھروں کی تعداد دوسونو جبکہ سکرینز کی تعداد ایک ہزار چارسو بیس تھی جب کہ چین بھر میں مووی سکرینز کی تعداد چار لاکھ چوالیس ہزار ہے جو کہ پورے شمالی امریکہ سے زیادہ ہے۔دو ہزارسترہ میں چین کی فلمی صنعت کے کاروبار ی حجم میں تیرہ اعشاریہ پینتالیس فیصد اضافہ ہوا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پچپن اعشاریہ نو بلین سے زیادہ ر ہی جو کہ آٹھ اعشاریہ چھ بلین امریکی ڈالرز کے مساوی ہے۔ فلمی صنعت کی اس ترقی میں مقامی فلموں کا تناسب تقریباً چون فیصد رہا۔
یہ جدت اور ترقی صرف سینما ہالز تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ چین میں فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبہ جات میں بھی جدت اور اختراعات کا سفر جاری ہے۔ چین میں لوگ نہ صرف سینما ہالز میں جانا پسند کرتے ہیں بلکہ وہاں تھیٹر بھی بہت مقبول ہے۔ہماری طرح کا تھیٹر نہیں بلکہ ان کا روایتی تھیٹر ۔ اوپراز وہاں بہت مقبول ہیں۔
او پراز میں کام کرنیوالے بعض فنکار تو بہت ہی مقبول ہیں ۔ چین کی کئی نامورشخصیات چین کے مختلف علاقوں کے مقامی اوپراز کی بہت مداح اورگرویدہ رہی ہیں۔ ۔ پیکنگ اوپرا تو چین کی ثقافتی شناخت کے طور پر مشہور ہے۔ یہ ایک سو پچاس سال سے زائد عرصہ سے کام کر رہا ہے۔ اوپرا کی چار امتیازی خصوصیات ہیں گانا ، ؛مکالمہ، رقص اور مارشل آرٹس۔ راقم کو اوپرا کی مختلف پرفارمنسز دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اوپرا ز میں استعمال ہونے والے ماسکس، اداکاروں کے لباس ، صورتحال کے مطابق سیٹ کی فوری تبدیلی، مکالموں کی خوبصورت ادائیگی، گانے اور مارشل آرٹس کی مہارت شائقین کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔ چینی شہری بے اختیار ان کو داد دیتے ہیں اور اداکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان اوپراز میں چینی لوک کہانیاں پیش کی جاتی ہیں۔
جس طرح سینما گھرمختلف نوعیت کی فلموں کے لیے مشہور ہیں۔وہیں ان کا تھیٹر بھی اپنی اپنی امتیازی خصوصیات کی بنا پر معروف ہے۔ ریڈ تھیٹر (Red Theatre) کنگ فو اور مارشل آرٹس پرفارمنسز کے لیے مشہور ہے جبکہ پولی تھیٹر میوزک اور رقص کی پرفارمنسز کے لیے معروف ہے۔ اس تھیٹر میں روایتی چینی ڈرامے، افریقن رقص اور شیکسپیئر کے ڈرامے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ بیجنیگ میں تیا من سکوائر کے قریب واقع نیشنل سنٹر فاردی پرفارمنگ آرٹ ایک دیکھنے کی چیز ہے۔ باہر سے بیضوی شکل کی یہ عمارت اندر سے بہت خوبصورت اور دیدہ زیب ہے۔سب وے لائن نمبر ون اور بس نمبر ایک دونوں یہیں سے ہو کر گزرتی ہیں۔ سب وے لائن ون کے ایک سٹیشن کا اخراج براہ راست اس تھیٹر کی طرف جاتا ہے۔
اس میں داخل ہوں تو ہال تک پہنچنے کے درمیانی راستے میں دیواروں میں مختلف طرح کی آرٹ تصاویر آویزاں ہیں۔راہداری سے گزریں تو دائیں ہاتھ سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔اوپر کا فلور بہت دیدہ زیب ہے۔ کیونکہ شیشے کے اس پارایک مصنوعی جھیل ہے جو یہاں آنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔اس کے تین ہالز ہیں۔ اوپرا ہال جو کہ اوپراز اور بیلے ڈانس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ایک میوزک ہال ہے اور ایک تھیٹر ہال ہے۔ ہر ہال میں کم سے کم ایک ہزار نشستوں کی گنجائش ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ ڈھائی ہزار کے قریب نشستیں ہیں۔ یہ تمام ہال جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ نشتیں آرام دہ ہیں اور سب سے دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے کہ جو کہ غیر ضروری شور کو ختم کردیتی ہے۔
مثلا اگر کوئی فرد دورانِ پرفارمنس اٹھ کر چلا جائے تو اس کے نشست سے اٹھنے کی آواز نہیں آتی۔نشستوں کی ترتیب بھی طاق اور جفت کے حساب سے ہے۔ طاق نمبرز ایک طرف ہیں جبکہ جفت نمبرز دوسری طرف ہیں۔ہال میں داخلے کے مختلف دروازے ہیں۔ہال کے داخلی دروازے پر تعینات چینی عملہ ٹکٹس پر درج نمبرز کو دیکھ کر داخلے کے درست دروازے کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ یہ بیجنگ کے صفِ اول کے ہالز میں شامل ہے۔یہ انتیس ایکڑز پر مشتمل ہے۔ اس میں پیش کی جانے والی پرفارمنسز کی ڈی وی ڈیز بنا ان کو فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ دورانِ پرفارمنس موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاتی۔فنونِ لطیفہ کی ترقی و ترویج کا یہ سلسلہ صرف سینما ہالز ، تھیٹرز کی جدید انداز سے تعمیر تک ہی موقوف نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی ادارے اس کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
اگر دیوارِ چین، چین سے باہر چین کی شناخت ہے۔ توپیکنگ اوپرا چین کی ثقافتی شناخت ہے اس کے علاوہ بیجنگ کے چاو یانگ ضلع میں واقع 798 آرٹ ڈسڑکٹ بھی چین کے فنونِ لطیفہ کے فروغ کی ایک پہچان و نمایاں نام ہے۔798 آرٹ ڈسڑکٹ کے قیام کا پس منظر بھی بہت دلچسپ ہے ۔ یہاں پر کسی زمانے میں آرمی کی ایک فیکٹری ہوا کرتی تھی جو کہ فیکٹری 798کے نام سے جانی جاتی تھی۔ بعد میں مختلف انتظامی وجوہات کی بنا پر بیجنگ شہر میں موجود مختلف آرٹسٹوں کے دفاتر کو جب منتقل کرنے کے احکامات دیے گئے تو ان میں سے کئی ایک نے یہاں کارخ کیا کیونکہ اس وقت یہ فیکڑی بند تھی اور کسی قسم کا کام یہاں نہیں ہو رہا تھا۔ آہستہ آہستہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اور فنکار بھی یہاں منتقل ہوگئے تو یوں 798 آرٹ ڈسڑکٹ کا جنم ہوا۔ یہ ڈسڑکٹ ایک سو اڑتالیس ایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہاں پر گیلریز، آرٹ سٹوڈیوز، کلچرل کمپنیاں، فیشن شاپس ہیں۔ یہاں پر دو فیسٹیولز بھی منعقد ہوتے ہیں ۔
ایک 798 آرٹ فیسٹیول ہے جب کہ دوسرا 798 کریٹیو آرٹ فیسٹول ہے۔ یہاں بین الاقوامی آرٹ نمائش، آرٹ سرگرمیاں اور فیشن شوز منعقد ہوتے ہیں۔چار سو سے زائد ثقافتی تنظیمیں یہاں پر اپنے دفاتر چلا رہی ہیں۔ ان میں فرانس ، برطانیہ، سویڈن، اور دیگر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں بھی ہیں۔ سویڈن، سوئٹزر لینڈ، آسٹریا کے وزرائے اعظم اور کئی یورپی حکومتی زعماء یہاں کا دورہ کرچکے ہیں۔فنونِ لطیفہ کی تمام تر سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے چینی زبان میں مہارت ایک لازمی امر ہے۔کیونکہ زیادہ تر ثقافتی تقاریب کے حوالے سے معلومات اور لٹریچر چینی ز بان میں ہی دستیاب ہوتا ہے۔چینی زبان سے عدم واقفیت کے نقصانات کاتخمینہ زیادہ ہے کیونکہ یہ ایک فروغ پاتی زبان ہے ۔اگر کوئی ابھرتی ہوئی قوم کی زبان سیکھنے کاخواہشمند ہے تو چینی زبان بہترین آپشن ہے۔
(جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ