غیر ملکی فلموں پر ود ہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ
فلمی شخصیات کی اکثریت نے اس اقدام کی مخالفت کردی
ملک میں انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی حکومت جسے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری نے اس کا زبردست خیر مقدم کیا،متعدد فنکاروں،پروڈیوسرز نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ فلم انڈسٹری جو ایک طویل عرصہ سے شدید بحران اور مشکلات کا شکار ہے اور تباہی کے کنارے تک پہنچ گئی ہے،کیا اب اس کے مستقبل میں بہتری کے امکانات ہیں؟ کیا نئی منتخب حکومت دیگر شعبوں کی طرح فلم انڈسٹری کی بہتری اور ترقی کے لیے اہم اقدامات کرے گی؟ہم اپنے گزشتہ مضامین میں اس بات کی نشاندہی بھی کرچکے ہیںبہت سے ایسے مسائل ہیں جو فوری حل طلب ہیں اگر حکومت اس پر توجہ دے گی تو فلم انڈسٹری کو ایک بار پھر نئی زندگی مل جائے گی،نئی منتخب حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ کا فلم انڈسٹری کے لوگوں کو بھی شدت سے انتظار تھا کہ اس بجٹ میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے سہولتوں کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں، کیاانھیں ٹیکس میںسہولت دی جائے گی۔
جدید مشینری، لیبارٹری،فلم سازوں کے لیے قرضوں کا حصول ممکن ہوگا، فنکاروں کی فلاح وبہبود کے لیے فنڈ قائم کیا جائے گا؟اور بہت کچھ لیکن ہوااس کے برعکس فلم انڈسٹری کے لیے لوگوں کو اس وقت مایوسی کا سامناکرنا پڑا جب حکومت نے غیر ملکی فلموں پر دس لاکھ روپے ود ہولڈنگ ٹیکس لگادیا جبکہ غیر ملکی ڈراموں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا، گزشتہ حکومت نے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دے کر فلم انڈسٹری کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے نتائج تو بہت بھانک نکلے اوراب تک لوگ بھگت رہے ہیں ۔فلم اسٹوڈیو ویران ہوگئے، ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے، بھارتی فلموں کی نمائش کے خلاف احتجاج کے باوجود اس کی روک تھام نہ ہوسکی اور ان فلموں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ اب تک نہ سنبھل سکی،غیر ملکی فلموں پر لگائے جانے والے ٹیکس پر فلم ٹریڈ میں ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔
سنیما مالکان نے اسے مسترد کردیا، ان کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں جب عوام کے لیے تفریح ذرائع ختم ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے بعد لوگوں نے سنیمائوں کا رخ کیا، نئے سنیما، گھر تعمیر ہوئے عوام کی جانب سے بھارتی فلموں کی مخالفت نہیں کی گئی اس صورتحال ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلموں کا دس لاکھ روپے کا ٹیکس لگانا مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے منفی اثرات مرتب ہوں گے، مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے روح رواں نواب حسن صدیقی نے کہا کہ یہ قدم چند لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اٹھایا گیا ،غیر ملکی فلمیں غیر قانونی طریقہ سے سی ڈی پر فروخت ہورہی ہیں ان پر کیوں ٹیکس نہیں لگایا جاتا، ان کی روک تھام کیوں نہیں کی گئی، سنیما اونر عدیل امتیاز نے بھی غیر ملکی فلموں پر ٹیکس کودرست قدم قرار نہیں دیا۔
فلم پروڈیوسرز کے سابق چئیرمین اور فلم ساز سعید رضوی نے کہا حکومتی اقدام درست نہیں غیر ملکی فلموں پر ٹیکس لگاکر انھیں قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا،اب غیر ملکی فلمیں درآمد کرنے والے دھڑلے سے فلمیں منگوا کرسکون سے کام کریں گے،انھیں کسی کا ڈرخوف نہیں ہوگا، ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ غیر ملکی خاص طور سے بھارتی فلموں پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی جائے اور پاکستانی فلمیں بنانے والوں کو تفریحی ٹیکس میں سہولت دی جائے، پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے حکومت فلمیں بنانے والوں کو آسان اقساط پر قرضے فراہم کرے۔ جدید مشینری اور خاص طور سے فلم لیبارٹری کی درآمد پر ٹیکس فری کردیا جائے، جو لوگ فلم انڈسٹری کے بحران سے بے روز گار ہوئے ان کی مالی مدد کی جائے، ویران اسٹوڈیو کو آباد کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
فلمساز شوکت زمان نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی مخالفت کی ہے۔ دس لاکھ روپے ٹیکس لگانے سے اب اس کی قانونی شکل بن گئی ہے، فلم انڈسٹری کی جانب سے فنکاروں نے کہا کہ غیر ملکی فلموں کو روکنے کے لیے یہ کافی نہیںاس پر مکمل پابندی ہونی چاہیئے، مصطفی قریشی نے کہا فلم انڈسٹری کو جنتا نقصان بھارتی فلموں نے پہنچایا ہے اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا،حکومت پاکستانی فلمیں بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کرے، ہدایتکارہ سنگیتا نے کہا یہ اچھا فیصلہ ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بہتری اور ترقی کے لیے بھی کوئی اہم اعلان کرتی، فلم انڈسٹری کی بقاء اور اسی کی بحالی کے لیے پیکیج کا ا علان ہوتا،غیر ملکی فلموں سے ہماری کوئی دلچسپی نہیںہم اپنی فلموں کی بہتری کے منتظر ہیں۔
اداکار غلام محی الدین نے کہا غیر ملکی فلموں نے فلم انڈسٹری کی ساکھ کو خراب کیا ہے ،ہم کسی بھی صورت میں غیر ملکی فلموں کی نمائش کے حق میں نہیں ہیں ،اداکار سعود کا کہا کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی کوئی گنجائش نہیں، یہ تاثر درست نہیں کہ بھارتی فلموں کی نمائش کی وجہ سے فلم انڈسٹری کو فائدہ ہوگا ہمیں تو ابھی تک نقصان ہی ہوا، غیر ملکی فلموں پر ٹیکس اچھی بات ہے لیکن یہ فلم انڈسٹری کی بہتری کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، حکومت پاکستان فلم انڈسٹری کی بہتری کے لیے کوئی اہم فیصلے کرے تو ہم اس کا خیر مقدم کریںگے، ہدایت کار جرار رضوی نے کہا کہ بھارتی فلموں نے ہمیں نہ قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ہم کسی بھی صورت میں حکومتی فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتے، حکومت سے فلم انڈسٹری کو جوتوقعات وابستہ ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرے،اس وقت پاکستان کی فلم انڈسٹری کو حکومت کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔
اداکار وہدایتکار جاوید شیخ کا کہنا ہے پاکستان میں جو لوگ فلمسازی کی کوشش کررہے ہیں انھیں تحفظ فراہم کیا جائے ۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ،پاکستانی فلمیں بنیں گی تو سنیما انڈسٹری کو بھی فائدہ ہوگا غیر ملکی فلمیں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں،حکومت فوری طور پر واضح پالیسی کا اعلان کرے ،تاکہ مستقبل میں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد اپنا لائحہ عمل تیار کرسکیں، فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کو اب بھی امید ہے حکومت جلد فلم انڈسٹری کی موجودہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اس کی بحالی اور بقاء کے لیے اہم اقدامات کرے گی!!!۔
پاکستان کی فلم انڈسٹری نے اس کا زبردست خیر مقدم کیا،متعدد فنکاروں،پروڈیوسرز نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ فلم انڈسٹری جو ایک طویل عرصہ سے شدید بحران اور مشکلات کا شکار ہے اور تباہی کے کنارے تک پہنچ گئی ہے،کیا اب اس کے مستقبل میں بہتری کے امکانات ہیں؟ کیا نئی منتخب حکومت دیگر شعبوں کی طرح فلم انڈسٹری کی بہتری اور ترقی کے لیے اہم اقدامات کرے گی؟ہم اپنے گزشتہ مضامین میں اس بات کی نشاندہی بھی کرچکے ہیںبہت سے ایسے مسائل ہیں جو فوری حل طلب ہیں اگر حکومت اس پر توجہ دے گی تو فلم انڈسٹری کو ایک بار پھر نئی زندگی مل جائے گی،نئی منتخب حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ کا فلم انڈسٹری کے لوگوں کو بھی شدت سے انتظار تھا کہ اس بجٹ میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے سہولتوں کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں، کیاانھیں ٹیکس میںسہولت دی جائے گی۔
جدید مشینری، لیبارٹری،فلم سازوں کے لیے قرضوں کا حصول ممکن ہوگا، فنکاروں کی فلاح وبہبود کے لیے فنڈ قائم کیا جائے گا؟اور بہت کچھ لیکن ہوااس کے برعکس فلم انڈسٹری کے لیے لوگوں کو اس وقت مایوسی کا سامناکرنا پڑا جب حکومت نے غیر ملکی فلموں پر دس لاکھ روپے ود ہولڈنگ ٹیکس لگادیا جبکہ غیر ملکی ڈراموں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا، گزشتہ حکومت نے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دے کر فلم انڈسٹری کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے نتائج تو بہت بھانک نکلے اوراب تک لوگ بھگت رہے ہیں ۔فلم اسٹوڈیو ویران ہوگئے، ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے، بھارتی فلموں کی نمائش کے خلاف احتجاج کے باوجود اس کی روک تھام نہ ہوسکی اور ان فلموں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ اب تک نہ سنبھل سکی،غیر ملکی فلموں پر لگائے جانے والے ٹیکس پر فلم ٹریڈ میں ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔
سنیما مالکان نے اسے مسترد کردیا، ان کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں جب عوام کے لیے تفریح ذرائع ختم ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے بعد لوگوں نے سنیمائوں کا رخ کیا، نئے سنیما، گھر تعمیر ہوئے عوام کی جانب سے بھارتی فلموں کی مخالفت نہیں کی گئی اس صورتحال ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلموں کا دس لاکھ روپے کا ٹیکس لگانا مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے منفی اثرات مرتب ہوں گے، مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے روح رواں نواب حسن صدیقی نے کہا کہ یہ قدم چند لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اٹھایا گیا ،غیر ملکی فلمیں غیر قانونی طریقہ سے سی ڈی پر فروخت ہورہی ہیں ان پر کیوں ٹیکس نہیں لگایا جاتا، ان کی روک تھام کیوں نہیں کی گئی، سنیما اونر عدیل امتیاز نے بھی غیر ملکی فلموں پر ٹیکس کودرست قدم قرار نہیں دیا۔
فلم پروڈیوسرز کے سابق چئیرمین اور فلم ساز سعید رضوی نے کہا حکومتی اقدام درست نہیں غیر ملکی فلموں پر ٹیکس لگاکر انھیں قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا،اب غیر ملکی فلمیں درآمد کرنے والے دھڑلے سے فلمیں منگوا کرسکون سے کام کریں گے،انھیں کسی کا ڈرخوف نہیں ہوگا، ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ غیر ملکی خاص طور سے بھارتی فلموں پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی جائے اور پاکستانی فلمیں بنانے والوں کو تفریحی ٹیکس میں سہولت دی جائے، پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے حکومت فلمیں بنانے والوں کو آسان اقساط پر قرضے فراہم کرے۔ جدید مشینری اور خاص طور سے فلم لیبارٹری کی درآمد پر ٹیکس فری کردیا جائے، جو لوگ فلم انڈسٹری کے بحران سے بے روز گار ہوئے ان کی مالی مدد کی جائے، ویران اسٹوڈیو کو آباد کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
فلمساز شوکت زمان نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی مخالفت کی ہے۔ دس لاکھ روپے ٹیکس لگانے سے اب اس کی قانونی شکل بن گئی ہے، فلم انڈسٹری کی جانب سے فنکاروں نے کہا کہ غیر ملکی فلموں کو روکنے کے لیے یہ کافی نہیںاس پر مکمل پابندی ہونی چاہیئے، مصطفی قریشی نے کہا فلم انڈسٹری کو جنتا نقصان بھارتی فلموں نے پہنچایا ہے اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا،حکومت پاکستانی فلمیں بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کرے، ہدایتکارہ سنگیتا نے کہا یہ اچھا فیصلہ ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بہتری اور ترقی کے لیے بھی کوئی اہم اعلان کرتی، فلم انڈسٹری کی بقاء اور اسی کی بحالی کے لیے پیکیج کا ا علان ہوتا،غیر ملکی فلموں سے ہماری کوئی دلچسپی نہیںہم اپنی فلموں کی بہتری کے منتظر ہیں۔
اداکار غلام محی الدین نے کہا غیر ملکی فلموں نے فلم انڈسٹری کی ساکھ کو خراب کیا ہے ،ہم کسی بھی صورت میں غیر ملکی فلموں کی نمائش کے حق میں نہیں ہیں ،اداکار سعود کا کہا کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی کوئی گنجائش نہیں، یہ تاثر درست نہیں کہ بھارتی فلموں کی نمائش کی وجہ سے فلم انڈسٹری کو فائدہ ہوگا ہمیں تو ابھی تک نقصان ہی ہوا، غیر ملکی فلموں پر ٹیکس اچھی بات ہے لیکن یہ فلم انڈسٹری کی بہتری کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، حکومت پاکستان فلم انڈسٹری کی بہتری کے لیے کوئی اہم فیصلے کرے تو ہم اس کا خیر مقدم کریںگے، ہدایت کار جرار رضوی نے کہا کہ بھارتی فلموں نے ہمیں نہ قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ہم کسی بھی صورت میں حکومتی فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتے، حکومت سے فلم انڈسٹری کو جوتوقعات وابستہ ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرے،اس وقت پاکستان کی فلم انڈسٹری کو حکومت کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔
اداکار وہدایتکار جاوید شیخ کا کہنا ہے پاکستان میں جو لوگ فلمسازی کی کوشش کررہے ہیں انھیں تحفظ فراہم کیا جائے ۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ،پاکستانی فلمیں بنیں گی تو سنیما انڈسٹری کو بھی فائدہ ہوگا غیر ملکی فلمیں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں،حکومت فوری طور پر واضح پالیسی کا اعلان کرے ،تاکہ مستقبل میں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد اپنا لائحہ عمل تیار کرسکیں، فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کو اب بھی امید ہے حکومت جلد فلم انڈسٹری کی موجودہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اس کی بحالی اور بقاء کے لیے اہم اقدامات کرے گی!!!۔