ذکاء اشرف عہدہ بچا پائیں گے…
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ 3 ہفتے سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود خالی پڑا ہے۔
یہ اپریل1993ء کی بات ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم وسیم اکرم کی قیادت میں ویسٹ انڈیز کے دورے پرہے،گرینڈا کے ساحل پرکپتان وسیم اکرم سمیت چار پاکستانی کھلاڑیوں پر چرس پینے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
مشکل کی اس گھڑی میں اگر کوئی اور ہوتا تو اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے، زبان لڑکھڑا جاتی اور دماغ کام کرنا بند کر دیتا اور ٹیم کا حال وہی ہوتا جو 2009ء میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر بعض شدت پسند حملے کے بعد ہوا، یا نتیجہ دورئہ انگلینڈ کے دوران اسپاٹ فکسنگ سکینڈل کی طرح بھیانک نکلتا جس کی وجہ سے ہماری رہی سہی آن بان شان اور عزت وآبرو بھی خاک میں مل گئی لیکن دورئہ ویسٹ انڈیز کے دوران ٹیم منیجر کی ذمے داری ہارورڈ لاء اسکول سے ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والی دور اندیش اور خود اعتماد شخصیت کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نے معاملے کو اس خوش اسلوبی، دانش مندی اور ہوش مندی کے ساتھ نبھایا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔
اسی طرح ورلڈ کپ 1992ء کے انگلینڈ کا دورئہ کرنے والی ٹیم پر انگلش میڈیا نے بال ٹمپرنگ کے الزامات لگا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ٹیم منیجر نے اس گمبھیر معاملے کو بھی انتہائی خوش اسلوبی سے حل کروا کر پاکستان کو بڑی بدنامی سے بچایا۔دو بار قومی کرکٹ ٹیم کو عالمی سطح پر بڑی بدنامی سے بچانے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے یہ منیجر خالد محمود تھے جو 1999ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ان کے دور میں قومی ٹیم نے 1999ء کے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا جو 1992ء کے بعد سے قومی ٹیم کی اب تک کی بہترین کارکردگی ہے، اس میگا ایونٹ کے دوران بنگلہ دیش کے ہاتھوں قومی ٹیم کی شکست پر انہوں نے تحقیقات کا اعلان کیا مگر اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی انھیں پی سی بی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ 3 ہفتے سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود خالی پڑا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ ذکاء اشرف کو 24 جون تک بورڈ کے مزید کام کرنے سے روک چکی ہے، اب آگے ان کا مستقبل کیا ہوگا، وہ اس عہدے پر بدستور کام کرتے رہیں گے یا ان کی جگہ کوئی اور جگہ سنبھال لے گا اس کا فیصلہ آنے والے چند روز تک ہو جائے گا لیکن ذکاء اشرف کی کمزور پوزیشن کو دیکھ کر متعدد شخصیات کرکٹ بورڈ کے سیاہ وسفید کا مالک بننے کے لئے میدان میں ہیں اس کی وجہ بڑی سیدھی سادی یہ ہے کہ پاکستان میں دوسرے شعبوں کی طرح اسپورٹس میں بھی اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ذاتی تعلقات، رشتہ داریاں اور پرانی جان پہچان کی وجہ سے اسپورٹس تنظیموں کے عہدوں پر براجمان ہونا ہماری روایت کا حصہ بن چکا ہے، نئی حکومت آتی ہے تو بڑے بڑوں کے منہ سے رال ٹپکنا شروع ہو جاتی ہے اور اگر عہدہ چیئرمین پی سی بی کا ہو تو ہر ایک کے منہ میں پانی آنا لازمی سی بات ہے۔
ایسا کیوں نہ ہو ، وزیر اعظم، صدر، وزیر خارجہ،وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور آرمی چیف کے بعد یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم عہدہ ہوتا ہے چیئرمین پی سی بی بولتاہے تو اس کی ہر بات ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز بنتی ہے اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ پاتی ہے ۔دبئی ، انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، ملائشیا، ویسٹ انڈیز سمیت دنیا بھر کے دورے اس کے شیڈول کا حصہ ہوتے ہیں، چیئرمین ٹور پر ہوتا ہے تو اسے وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے، سیون اسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا ہے، دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں گھمایا جاتا ہے، سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور تو اور چیئرمین اپنے عزیز رشتہ دار، دوست احباب یاکسی بھی ایرے غیرے نتھو خیرے کو لاکھوں روپے کی ماہانہ ملازمت دینے کااختیار بھی رکھتا ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کھیلوں کی ایک تنظیم کے ایک اعلی عہدیدار کی فیکٹری ملازمین کی تنخواہیں اس کی فیڈریشن سے جاتی ہیں اور اس کے بیوی بچے اسی فیڈریشن کی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں، یہی حال دوسری متعددکھیلوں کی فیڈریشنزکا بھی ہے جن کے ملازم اپنے افسران کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔
ذکاء اشرف پی سی بی کا عہدہ بچانے میں کامیاب رہتے ہیں یا کوئی اور ان کی جگہ لیتا ہے لیکن یہ کڑوا سچ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات کو احسن طریقے سے چلانا کسی بھی چیئرمین کے لئے کسی بڑے چیلنج سے کم اس لئے بھی نہیں ہوگا کہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم تباہی و بربادی کے اس دہانے پر پہنچ چکی ہے کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حنیف محمد، ظہیرعباس، جاوید میانداد، انضمام الحق اورمحمد یوسف جیسے عظیم بلے باز پیدا کرنے والی پاکستانی سرزمین شاید بانجھ ہو گئی ہے۔ہماری بیٹنگ لائن کا یہ عالم ہے کہ ملکی و غیر ملکی کوچز کی بھر مار کے باوجود ہمارے بلے بازعالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں کے دوران حریف ٹیموں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ گرین شرٹس کو عمران خان، وسیم اکرم، مدثر نذر، عبدالرزاق، شاہد آفریدی جیسا ایک بھی آل رائونڈر دستیاب نہیں۔ سانحہ لاہور کی وجہ سے گزشتہ چار برسوں سے پاکستانی گرائونڈز سونے پڑے ہیں، ماضی کے چیئرمینوں کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے پی سی بی کے خزانے خالی پڑے ہیں،کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل میچوں کی بروقت ادائیگیاں ہوتی ہیں، نہ ہی انھیں وقت پر سینٹرل کنٹریکٹ ملتے ہیں۔
آئی پی ایل سمیت عالمی سطح پر ہونے والی لیگز نے پاکستانی کھلاڑیوں کے لئے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ بورڈ میں براجمان سب اچھا ہے کہ راگ الاپنے والوں نے شرفاء کے کھیل کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے۔ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والی سلیکشن کمیٹی کی عقل پر پردے پڑ چکے ہیں اور انھیں 19 کروڑ کے اس ملک میں کوئی باصلاحیت کھلاڑی ہی نظر نہیں آتا۔ غیر ملکی کوچزسفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ کھلاڑیوں کی ترجیحات ملک کی بجائے ذاتی مفادات بن چکے ہیں، المختصر سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین نے اپنی جیبیں تو بھر لی ہیں لیکن کرکٹ بورڈ کے ہرے بھرے درخت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، ایسے میں مجھے یہ کہنے میں کوئی شرمندگی نہیں کہ جب باڑ ہی فصل کو کھانے لگے، جب چوکیدار ہی چور بن جائے، مسجد کا رکھوالا اینٹیں، سیمنٹ، بجری اور سریا بیچنے لگے، پولیس ڈاکو بن جائے، جج نا انصافی کرنے لگے، فوج اپنے ہی شہروں کو فتح کرنے لگے، قانون ساز قانون توڑنے لگیں، سیاستدان سیاست کو کاروبار بنانے لگیں، میڈیا کے لوگ پلاٹوں اور بین الاقوامی دوروں کے لئے اپنے ضمیر کو بیچنے لگیں، گلہ بان خود ہی بکریاں ذبح کرنے لگے اور عوام ملک کو لوٹنے اور برباد کرنے لگیں تو اس ملک اور اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ کا بھی اس وقت کوئی والی وارث نہیں ہے، اس ملک کے دوسرے اداروں کی طرح پی سی بی بھی اللہ کے سہارے ہی چل رہا ہے لیکن یہ سلسلہ کب تک اور آخر کب تک چلے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے جمہوری آئین کے خالق ذکاء اشرف عہدہ چھوڑنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے، بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر جنرل عارف حسن کی طرح وہ بھی آئی سی سی سے رجوع کر سکتے ہیں۔ذکاء اشرف کے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے یا کسی اور وجوہ کی بنا پر رخصتی کی صورت میں نیا چیئرمین پی سی بی مقرر کرنے کا اختیارحکومت کے پاس ہوگا، ایسی صورت میں یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کسی چہیتے کو نوازنے کی بجائے خالد محمود، شہریار خان جیسی ایسی شخصیت کا انتخاب کرے جو بورڈ میں پہلے سے بیٹھے مفاد پرستوں کی چاپلوسی، جی حضوری میں آنے کی بجائے اپنی عقل وذہانت اور دانشمندی سے ملکی کرکٹ کو زمین کی پستیوں سے نکال کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا سکے۔
[email protected]