کھلاڑیوں کو سہولتیں دیئے بغیر ہاکی کا بھلا نہیں ہو سکتا

کھیل کا وقار بحال کرنے کے لئے ہر سطح پر مسلسل کام کرنا ہوگا


Abbas Raza June 23, 2013
کھیل کا وقار بحال کرنے کے لئے ہر سطح پر مسلسل کام کرنا ہوگا۔ فوٹو: فائل

پاکستان ہاکی زوال کی گہرائی میں ایسے ڈوبی ہے کہ نکلنے کی امیدیں بھی دم توڑنے لگی ہیں۔

4ورلڈ کپ اور 3اولمپکس ٹائٹلز سمیت کامیابیوں کا شاندار ریکارڈ رکھنے والے ملک کی ٹیم اب کئی میگا ایونٹس کے لئے کوالیفائی کرنے کی تشویش میں مبتلا رہتی ہے، اکا دکا فتوحات مقدر بن بھی جائیں تو کارکردگی میں تسلسل نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، قاسم ضیاء کی سربراہی میں پاکستان ہاکی فیڈریشن نے انقلابی اقدامات اٹھانے کا نعرہ لگا کر قومی کھیل کا وقار بحال کرنے کی جو مہم شروع کی تھی اس کے بھی کوئی دور رس نتائج سامنے نہیں آئے، سابق اولمپئن حکمران پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے وہ پی ایچ ایف کے لئے 80 کروڑ کے لگ بھگ فنڈز حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے،ملک میں کھیل کے فروغ کے لئے گراس روٹ لیول سے اعلیٰ سطح تک کے کئی پرگراموں کا اعلان کیا گیا۔

ارباب اختیار کے دفتروں کی رونقوں میں اضافہ ہوا لیکن کارکردگی میں بہتری لانے کے وعدے وفا نہ کئے جاسکے، بے دریغ اخراجات سے مال پانی ختم ہوا، بعد ازاں صورتحال ایسی ہوئی کہ ٹیم کو اذلان شاہ کپ ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے ملائیشیا بھجوانے کے وسائل فیڈریشن کے پاس نہیں تھے،ایونٹ میں بلند بانگ دعووں کے ساتھ متعارف کروائے جانے والے نئے ٹیلنٹ کی موجودگی میں گرین شرٹس نے آخری اور چھٹی پوزیشن کے ساتھ اختتام کیا، فنڈز کی ریل پیل ختم ہونے کے بعد ملک میں دستیاب بہترین کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کا سلسلہ بھی شروع ہوا، بڑی فراخ دلی دکھاتے ہوئے کرکٹ کی طرح سینٹرل کنٹریکٹ متعارف کرواتے ہوئے اے کیٹگری میں شامل پلیئرز کو 50 ، بی والوں کو 40اور سی میں جگہ پانے والوں کو 30 ہزار روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا،ایک سال بیت گیا، کھلاڑیوں کو تنخواہیں نہیں مل رہیں، نئے معاہدے بھی کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں، فیڈریشن ایک بار پھر نئی حکومت سے امداد کی منتظر ہے، قبل ازیں حاصل ہونے والے فنڈز سے بنیادی معاملات درست کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ہمارا انفراسٹرکچر اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے، ہاکی کھیلنے والے ملکوں کے کئی کلبز کے پاس ہمارے ملک سے زیادہ آسٹروٹرف ہیں، عہدوں کی بقا کے لئے جنگ لڑنے والے ارباب اختیار کی مسلسل عدم توجہی کے سبب گلی محلوں اور اسکولوں کالجوں میں ہاکی نہ ہونے کے برابر رہ گئی، چند کھلاڑی دھول سے اٹے میدانوں میں صلاحیتوں نکھارنے کے لئے آبھی جائیں تو کیا خاک ٹیلنٹ سامنے آئے گا، ہمارا حال تو یہ ہے کہ اولمپکس کی تیاری کے لئے بلو ٹرف کی منظوری ہوجانے کے بعد بھی افسر شاہی کی طرف سے ڈالی جانے والی مختلف رکاوٹیں منصوبہ بر وقت مکمل نہیں ہونے دیتیں، ہاکی کی بدولت نام کمانے کے خواہشمند کھلاڑیوں سے زیادہ فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے تو نئے ٹیلنٹ کی کھیل میں دلچسپی کم ہوتی جائے گی،موجودہ صورتحال میں قومی کھیل کے وقار کی بحالی کوئی آسان کام نہیں، مخلص افراد کی ٹیم ایک مشن کے ساتھ مسلسل کئی سال کام کرے، انفراسٹرکچر کو عالمی معیار کے مطابق لانے کے لئے بھرپور حکومتی تعاون حاصل ہو۔



کھیل کو نوجوانوں کے لئے پرکشش بنانے کی خاطر اسکولوں کالجوں، نجی و سرکاری اداروں میں ٹیموں کی تشکیل لازمی قرار دی جائے، باصلاحیت کھلاڑیوں کو مستقل ملازمتیں دی جائیں، ہماری قومی ٹیم کے کئی پلیئرز کو ابھی تک کنٹریکٹ پر ہونے کی وجہ سے مستقبل غیر یقینی ہونے کی اذیت میں مبتلا ہیں، چند ایک تو نوکری کے انتظار میں ہیں، گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوں تو جذبات بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ فیڈریشن، حکومت اور عوام کو ٹیم سے توقعات کی ون وے ٹریفک چلانے کے بجائے سوچنا ہوگا کہ ہم کھیل کے فروغ کے لئے کتنے حقیقی اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہر شکست کے بعد روایتی فرسودہ انداز میں ٹیم میں چند تبدیلیاں کرکے کیمپ میں خامیاں درست کرلینے کے دعوے مزید کتنی بار کئے جائیں گے۔ہاکی کو نیا خون، نیا جوش، نیا جذبہ دینے کے لئے نئے ٹیلنٹ کی اشد ضرورت ہے، کھیل اور کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کرنے والے رویوں سے بقا کی جنگ لڑنے والی ہاکی دم توڑ جائے گی، قومی کھیل کو ہر سطح پر مقبول بنانے کے لئے تمام ادروں کو برابر کا حصہ ڈالنے کی ضروت ہے۔

فی الحال اگلے معرکے میں قومی ٹیم کو ورلڈ ہاکی لیگ کا چیلنج درپیش ہے چیف کوچ و منیجر اولمپئن اختر رسول کے زیر نگرانی تربیتی کیمپ کا پہلا مرحلہ ایبٹ آباد میں مکمل ہوا، دوسرا کراچی میں جاری ہے، منتخب ٹیم 29جون سے7 جولائی تک ملائیشیاکے شہر جوہر بارو میں 8ملکی ایونٹ میں شرکت کرے گی،ٹاپ تھری 3ٹیموں کو ورلڈ کپ2014ء میں شرکت کا حق مل جائے گا، پاکستان کو پول بی میں میزبان ملائیشیا،انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ پول اے میں جرمنی، ارجنٹائن، کوریا اور روس شامل ہیں،کیمپ کے دوران فزیکل ٹریننر عدنان ذاکر کی خدمات بھی حاصل رہیں، پی سی بی کے ماہر نفسیات اور سابق انٹرنیشنل کرکٹر معین العتیق نے پلیئرز کو ذہنی مضبوطی اور مثبت سوچ کے حوالے سے لیکچر دیا۔

ورلڈ ہاکی لیگ میں ہر روز 4،4 میچ رکھے گئے ہیں،افتتاحی مقابلہ جرمنی اور ارجنٹائن کے درمیان ہو گا،اسی روز پاکستان کا سامنا میزبان ملائیشیا سے ہونا ہے، انگلینڈ کی ٹیم روس اور کورین سائیڈکوالیفائر کیخلاف ایکشن میں دکھائی دے گی، 30 جون کو ارجنٹائن کا میچ جنوبی افریقہ سے ہوگا، کورین سائیڈ جرمنی کے خلاف میدان میں اترے گی، پاکستان کا سامنا انگلینڈ کے ساتھ ہوگا جبکہ روسی ٹیم ملائیشیا کے خلاف ایکشن میں دکھائی دے گی۔ایک دن آرام کے بعد 2 جولائی کو جرمنی کا میچ جنوبی افریقہ کے ساتھ ہوگا،ارجنٹائن وکوریا، انگلینڈ و ملائیشیا اور پاکستان و روس بھی آمنے سامنے ہوں گے۔ 4 جولائی سے کوارٹر فائنلزکا آغاز ہوگا، سیمی فائنلز 6 اور فائنل 7 جولائی کو کھیلا جائے گا۔پاکستان کے پول میں شامل ٹیمیں آسان نہیں، تاہم کوچ اور منیجمنٹ کا ایک بار بھر دعویٰ ہے کہ اذلان شاہ کپ میں سامنے آنے والی خامیوں پر قابو پانے کے لئے سخت محنت کی ہے، قوم کو اس بار مایوس نہیں کریں گے۔ ان کے دعوے میں کس قدر صداقت اور تیاریاں کتنی بھرپور ہیں، اس کا اندازہ تو تب ہی ہوگا جب گرین شرٹس میدان میں اتریں گے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں