دھرنوں کے مارے عوام

ملک کا ہر شہری پُر امن ماحول چاہتا ہے۔ لیکن جو ملک میں پُرامن ماحول نہیں چاہتے وہ ملک کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔



''دھرنا ''ہندی زبان کا لفظ ہے جو بنیادی طور پر سنسکرت زبان کے لفظ ''دھرنام'' سے نکلا ہے۔ دھرنا کا مفہوم ہے کہ کوئی ارادہ یا مطالبہ لیکر پُرامن طریقے سے بیٹھ جانا اور اس کا مقصد مطالبے کی جانب بھرپور توجہ مبذول کرانا ہوتا ہے۔ یہ عدم تشدد کا ایک مؤثر طریقہ ٔ احتجاج ہے ، جب کہ لفظ دھرنا کے لغوی معنیٰ میں دیگر کے ساتھ ساتھ ایک معنیٰ قبضہ کرنا اور کسی جگہ زبردستی بیٹھ جانا بھی ہے ۔ شاید اسی لیے حالیہ دھرنوں کے دوران ہر چیز پر قبضہ و اجارہ داری اور زبردستی کا عنصر نمایاں رہا۔

ماضی قریب میں طاہر القادری اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے ڈی چوک جیسے حساس مقام پر دھرنے دیے ، انھوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اس طریقہ کوتعلیمی اداروں سمیت ملک و بڑے صوبہ کے دارالحکومت کو مفلوج کرنے کی سطح تک استعمال کیا۔ لیکن پھر فیض آباد والا دھرنا دیکھنے میں آیا جس کے ذریعے نہ صرف اسلام آباد بلکہ آہستہ آہستہ ملک کے دیگر حصوں کو بھی جام کردیا گیا اور اس میں بڑے پیمانے پر پُرتشدد کارروائیاں بھی نظر آئیں، لیکن حالیہ دھرنوں میں تو ملک بھر کو جام کرنے کے ساتھ ساتھ کھلے عام پُرتشدد کاروائیاں اور دھرنا دینے والوں کی جانب سے لوٹ کھسوٹ بھی نظر آئی ۔

ملکی تاریخ کی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی ملک میں بائیں بازو کی کسی سیاسی جماعت نے دھرنے دیے یا احتجاج کیا تو باوجود پُرامن احتجاج ہونے کے اُسے ریاستی طاقت سے بیدردی سے کچلا گیا۔ جس کی مثالیں ہمیں 1968میں ایوب خان کے خلاف NSFکی تحریک کی صورت میں ملتی ہیں جس میں ریاست کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ و گولیوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا ۔یا پھر 1981 میں جمہوریت کی بحالی کی MRDتحریک کو کچلنے کے لیے پھانسی گھاٹ ، زندانوں و کوڑوں کو ہمیشہ فعال دیکھا گیا جب کہ جلسوں جلوسوں اور ریلیوں و کاروانوں پر فائرنگ کرکے سیکڑوں لوگوں کو قتل کردیا گیا لیکن دوسری جانب جب بھی دائیں بازو کی کسی سیاسی جماعت بالخصوص مذہبی جماعتوں نے دھرنے دیے یا احتجاج کیا تو ان کی سپورٹ میں تمام کی تمام ریاستی مشنری مستعد نظر آئی اور اکثر و بیشتر ان دھرنوں کے نتائج براہ ِ راست مارشل لاء کے نفاذ یا غیر جمہوری حکومتی راج قائم کرنے کی صورت میں ظاہر ہوئے اور اب ان 70سالہ تجربات نے ہمیں دہشت گردی اور معاشی بحران کے ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اب ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ملک کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں انتہا پسندی چاہیے یا امن اور معصوم عوام ؟ 4روز تک کاروبار ، شاہراہیں اور ریلوے کو بند کرکے ملک کو یرغمال بناکے رکھا گیا۔

اس کے بعد بھی ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ''اپنے بھائی ہیں '' کی غیر اعلانیہ پالیسی کے تحت ان سے معاہدے کیے گئے ۔حالیہ دھرنوں کے دوران کراچی اور لاہور سمیت بڑے شہروں میںسیکشن 144نافذ تھا اور رینجرز و پولیس کو الرٹ کردیا گیا تھا لیکن پھر بھی صرف انگلیوں پر گنتی جتنے لوگ ملک کو نہ صرف آسانی سے یرغمال بنائے بیٹھے رہے بلکہ عوامی املاک کوجلانے اور لوٹنے جیسی کارروائیاں بھی سینہ ٹھوک کر کرتے رہے لیکن نہ انھیں روکا گیا اور نہ ہی عوام کو تحفظ فراہم کیا گیا ۔ دنیا بھر میں جنگی حالات میں بھی ایمبولنس کو نہیں روکا جاتا لیکن ان دھرنوں میں ایمبولنس میں موجود بیماروں تک کو ہسپتال نہیں جانے دیا گیا۔

دہاڑی پر کام کرنے والے اور ٹھیلے چلانے والے غریبوں تک کو روکاگیا،کیلے والا بچہ منظر عام پر آنیوالا تو ایک تھا لیکن ایسے کئی تھے جنھیں کسی کیمرہ کی آنکھ محفوظ نہیں کرپائی ۔ مجبوری میں گھر سے نکلنے والوں کی گاڑیوں کوتوڑا پھوڑا گیا ، ڈنڈا بردار افراد کی ایسی ہی ایک کارروائی میں کار میں بیٹھی خاتون کی گود میں موجود شیر خوار بچے کی آنکھ شیشہ لگنے سے پھٹ گئی ، حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام کارروائیاں مذہب کے نام پر کی جا رہی تھیں۔

عوام کی جان و مال کے تحفظ اور سرکاری و عوامی املاک کے تحفظ کے لیے فیصلے سے قبل پیشگی اقدامات کیے جاتے یا پھر فوری ایکشن لیا جاتا تو شاید عوام کو اتنی تکلیف اور ملک کی اتنی بدنامی نہ ہوتی لیکن حکومت نے اپنی یہ آئینی ذمے داری پوری نہیں کی۔ اب شکایتی سیل قائم کرنا ، گرفتاریاں اور شرپسندوں کی تصاویر جاری کرنے جیسے دکھاوے کے کام کیے جارہے ہیں ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میںقومی حقوق کی تحریکوں کے دوران بھی پُرامن احتجاج کا حق نہیں دیا جاتا ، جب کراچی شہر میں احتجاج کے نام پر ایم کیو ایم کو فساد کرنے اور شہر کا نظام درہم برہم کرنے پر دن میں تارے دکھائے جاسکتے ہیں تو پھر مذہب کے نام پر پورے ملک کا نظام درہم برہم کرنے کی اجازت و چُھوٹ کیوں دی گئی ؟ اگر اس کی ذمے دار حکومت ہے تو اُسے پارلیمنٹ میں اس کی وجوہات بتانی ہوں گی اور اگر اس کی ذمے دار حکومت نہیں ہے تو پھر بھی حکومت کو بتانا چاہیے کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ دوسری جانب حزب ِ اختلاف کی جماعتوں کو بھی اس بات پر آواز بلند کرنی چاہیے ۔

مذہب یا دین جو انسانی زندگی کے لیے بہترین دستور بن کر آیا تھا ، اسے اس خطے میں جنون کی صورت میں پروان چڑھایا گیا ۔ پھربچوں ، خواتین و بزرگوں سمیت ہزاروں انسانی زندگیاں ہارنے کے بعد اُس سے ہونیوالی تباہی کا جب احساس ہوا تو اس کا حل نکالنے کے لیے جو تبدیلی کی گئی وہ بھی اسی سکے کا دوسرارُخ ثابت ہوئی ہے ۔ جن کو ماضی میں پالا وہ آج کا بوجھ محسوس ہورہے ہیں لیکن ان کی جگہ جنھیں آج پالا جارہا ہے وہ مستقبل کا بوجھ ثابت ہوں گے ۔ اپنے مفادات کی خاطرملک میں مذہبی تنگ نظری کو اس قدر پروان چڑھایا گیا ہے کہ مذہب کے اصل مقصد سلامتی کا نکتہ معدوم ہوکر رہ گیا ہے ۔ تنگ نظری اس قدر ہمارے سماج میں گھر کر گئی ہے کہ بات بات پر شدید رد عمل دینے کے لیے ہر وقت ماحول تیار نظر آتا ہے۔

اتنی تباہی کے بعد بھی اس نظریے کو ترک کرنے کے بجائے صرف اس کے مختلف گوشوں کو بہتری کا ذریعہ ثابت کرنے کی کوششوں کو تبدیلی کہا جارہا ہے ۔ یہ گروہ پالنے والی پالیسی ترک کر کے ملک کے غریب عوام کو پالنے کی پالیسی اپنائی جائے تو وہ ملکی بوجھ اٹھانے میں معاون ہوں گے ورنہ مستقبل میں شاید ملکی کندھوں میں یہ منافرتی گروہوں کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہ رہے۔

ملک کا ہر شہری پُر امن ماحول چاہتا ہے۔ لیکن جو ملک میں پُرامن ماحول نہیں چاہتے وہ ملک کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ اور ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے جنھوں نے شہریوں کی زندگی عذاب بنائے رکھی ۔ جمہوری ملک ہونے کے ناطے یہاں پُر امن احتجاج کرنا ہر شہری ، جماعت یا گروہ کا حق ہے مگر احتجاج کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ریاستی اداروں کے فرائض میں شامل ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ ملک کو انتہاپسندی کے نظریات سے پاک کرنے کی پالیسی اپنائی جائے اور پھر ملک میں بلا رنگ و نسل اور مذہب و فرقہ عوام کو یکساں حقوق کی فراہمی اور تمام ریاستی اداروں کو عملی طور پر پارلیمنٹ کے ماتحت رہ کر کام کرنے کا پابند بنانا ہی ملک میں حقیقی تبدیلی اور ملک و ملت کے باقی رہنے کی اُمید ثابت ہوگی ۔ ورنہ تاریخ میں ایسی قوموں کی داستانیں رقم ہیں جو ملک میں ریاستی سرپرستی میںلسانی ، مذہبی و فرقہ وارانہ عناد برتنے کے باعث نیست و نابود ہوگئیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں