احتساب کا ڈھنڈورہ

قطع نظر کہ حقیقت منتظر کس مقام پر ہے۔ سچ تو یہ ہے احتساب کا عمل چل پڑا ہے، اسے اپنی منزل پر پہنچنا چاہیے۔


Hameed Ahmed Sethi November 11, 2018
[email protected]

ہماری دوستیوں اور تعلقات کا پیمانہ خلوص و محبت ہم خیالی، پسند، تعظیم، علم و حکمت کی طلب، بزرگی کا احترام ہوا کرتا تھا، اس کے علاوہ بھی کئی عوامل باعث قرب و یگانگت ہوتے تھے لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور مرتضیٰ برلاس نے حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے کہہ دیا ہے؎

ہے اب تو سارے مراسم کا انحصار یہی

کسی کی ذات سے ہم کو مفاد کتنا ہے

تقریباً گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے ملک میں احتساب کا چرچہ تواتر سے ہو رہا ہے اور اس حوالے سے عدلیہ کے ایوانوں میں بڑی گھن گرج ہے، اخبارات اور ٹیلیوژن چینلز پر اتنا کچھ پڑھنے، سننے کو مل رہا ہے کہ ملک کے گوشے گوشے اور دنیا کے ہرکونے میں ہمارے بارے میں ایک ہی تاثر ابھرتاہے، کرپشن یہاں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کیا ایوان ہائے بالا و اقتدار، کیا گنبد و محراب، کیا دفتر و بازار، بدبو سے لتھڑے نظر آتے ہیں۔ صرف علم و ادب کی عام درس گاہوں اور ان کے معلموں کی بابت ہی یہ کہنا نہیں پڑ رہا کہ؎

گرہمی مکتب و ہمی ملّا

کارِ طفلاں تمام خواہد شُد

بلکہ وائس چانسلروں کے خلاف بھی سچے جھوٹے مقدمات درج کر کے اور انھیں ہتھکڑیاں لگا کر رسوا کیا جا رہا ہے۔ جعلی اور دنیا کی معروف یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کی سیل کے کارخانے کام کر رہے ہیں، لیکن ان نیلام گھروں کے مصدقہ مالکان مفرور یا ابھی تک بے قصور ہیں۔ جب اس فیکٹری کے مرکزی کردار پر مقدمہ چلا تو ملزم کو بے گناہی کی سند عطا کر دی۔

شاید اب تک لوگوں کے ذہنوں میں سے یہ حقیقت محو ہو چکی ہو کہ سرکاری ملازم کبھی قوانین و ضوابط کے پابند اور دیانت کے امانت دار ہوا کرتے تھے اور تنخواہ پر گزارہ کرتے تھے، سادہ زندگی بسر کرتے اور عزت دار کہلاتے تھے، غلط و ناجائز کام کرنے کے لیے اوپر سے دبائو بھی آتا تو انکار کر دیتے تھے۔ اعلیٰ افسر بھی حسب الحکم کیس کی سمری جو حاکم اعلیٰ کے پاس پیش ہونا ہوتی تو رول ریگولیشن کا حوالہ دے کر اختلافی نوٹ شامل کر دیا کرتے تھے۔

حاکم اعلیٰ مرضی کی کیس سمری پیش نہ کی جانے پر بااصول افسر کی سرزنش ہی نہیں کرتے اسے تبدیل کر کے اس کی کھڈے لائن پوسٹنگ کر دیتے بلکہ اس کی سالانہ رپورٹ (ACR) خراب کر دیتے تھے، دیانت دار افسر اس زیادتی کے خلاف Representation کرنے کی حد تک اکتفا کرتے لیکن قانون، اصول، ضابطے کے پابند رہتے۔ پھر یوں ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے افسروں کی ہمت جواب دینے لگی اور انھوں نے اچھی تعیناتی اور لالچ کی خاطر سر تسلیم خم کرنا شروع کر دیا۔

بتدریج اصول پسند بیوروکریٹوں نے دیکھا کہ حکم حاکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے والے افسروں کی گردنوں میں اکڑ کے علاوہ ان کے رہن سہن میں بے تحاشہ بہتری آ گئی ہے۔ ہر کوئی ان سے جھک کر ملتا اور سر سر کہہ کر ان سے مخاطب ہوتا ہے اور حاکمان وقت انھیں بیرون ملک دوروں پر بھی ساتھ لیے پھرتے ہیں اور ملک کے اندر اہم اور Lucrative کاموں کی ذمے داری بھی ان ہی کو سونپتے ہیں۔

گزشتہ بیس تیس سال میں بتدریج دیکھنے میں یہ بھی آیا کہ سیاسی حکمرانوں کی گرفت سیاست کے میدان میں حد سے زیادہ مضبوط تو ہوئی لیکن جمہوریت کی اصل روح کے برخلاف وراثت میں جا کر بادشاہت کا روپ دھارنے لگی۔ اس طرز حکومت کا نام تو جمہوریت ہی رہا لیکن چلن بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ میں ڈھلنے لگا۔ دراصل اس نئی جمہوریت کے نام لیوائوں نے سفارش، رشوت، اقربا پروری اور جی حضوری کے ماحول میں پلنے بڑھنے والوں کی ایک کھیپ تیار کر لی تھی۔ یہاں تک کہ وہ تیار ہی نہیں خونخوار بھی ہو چکی تھی بلکہ سچ پوچھئے تو وہ کھیپ اب بھی موجود اور موقع کی تلاش میں ہے۔

یہ کریڈٹ آج کی نوجوان نسل، وقت کی عدلیہ اور اسپورٹس مین عمران خان کو جاتا ہے کہ انھوں نے ملک کے عوام کی غرقابی کے حالات کے سامنے ایک بند، ایک پُل، ایک پہاڑ کھڑا کر دیا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ سابق حکمران سمجھتے تھے کہ وہ تاحیات حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مکافات عمل سے بے خبر تھے یا خود کو اس سے ماورا گردانتے تھے۔

قطع نظر کہ حقیقت منتظر کس مقام پر ہے۔ سچ تو یہ ہے احتساب کا عمل چل پڑا ہے، اسے اپنی منزل پر پہنچنا چاہیے اور اس میں حزب اقتدار اور حزب مخالف کی تخصیص بالکل نہیں ہوئی چاہیے۔ انصاف ہونا اور ہوتا نظر آنا چاہیے۔ میڈیا اور اقتدار کے ایوانوں میں جس شدت اور تواتر کے ساتھ احتساب کا ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس کاوش کو بریک یا ریورس گیئر نہ لگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں