دوحہ مذاکرات تعطل کی وجہ طالبان دفتر کے باہر تختی نہیں امریکی تضادات بنے
امریکا نے افغان حکومت کیساتھ مرکزی کردار دینے کا وعدہ کیا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری دوحہ مذاکرات کو جمود کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے سرگرم ہیں۔
بظاہر مذاکرات میں تعطل کی وجہ طالبان دفتر کا نام 'اسلامی امارات افغانستان' رکھنا بنا، تاہم امن عمل میں پیدا ہونیوالی رکاوٹوں کا تعلق دوحہ میں طالبان کی پیش قدمی سے کم اور واشنگٹن کے تضادات سے زیادہ ہے، ایک طرح سے جان کیری اپنے ہی پیدا کردہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ افغانستان میں امن کیلئے مذاکرات اور تمام شراکت داروں کو انتخابی عمل میں لانے کیلئے امریکہ نے اپنی پس پردہ سفاتکاری میں مختلف شراکت داروں سے مختلف وعدے کئے اور اس بات کا خیال نہ رکھا کہ یہ تمام اہداف ہم آہنگ نہیں ہیں۔ افغان حکومت کیساتھ مذاکرات میں مرکزی کردار دینے کا وعدہ کیا اور واشنگٹن مذاکرات کیلئے مشکوک مزاج کرزئی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
افغان صدر جوابی طور پر امریکہ کے افغانستان میں طویل المدت اہداف کے حصول کیلئے دوطرفہ سکیورٹی معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے راضی ہوگیا۔ معاہدے میں طے کیا جائیگا کہ اگلے سال انخلاء کے بعد امریکہ افغانستان میں کتنے فوجی رکھے گا۔ طالبان کیساتھ بھی امریکا کا طرز عمل مکمل طور پر واضح نہیں تھا لیکن کم از کم یہ تاثر دیا گیا کہ دوحہ مذاکرات امریکہ کیلئے مستقبل کی لائن آف ایکشن طے کرینگے جبکہ حامد کرزئی سے کہا گیا کہ یہ کوئی فیصلہ کن مرحلہ نہیں ہے۔ پاکستان کے ساتھ رابطوں میں دو نکتوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی، پہلا یہ کہ طالبان کو قائل کیا جائے کہ وہ القاعدہ سے فاصلہ پیدا کریں اور افغان سرزمین کو امریکی مفادات کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں، انتخابی عمل کا حصہ بنیں اور افغان آئین کو تسلیم کریں۔ دوسرا نکتہ ان پوائنٹس کو مذاکرات کا حصہ بنانے اور نتائج سے متعلق تھا، اسلام آباد اور واشنگٹن میں عمومی اتفاق تھا کہ دوحہ مذاکرات کیلئے کوئی شرائط نہیں رکھی جائیں گی اور اس عمل کو نتائج کے حصول کیلئے استعمال کیا جائیگا۔
پاکستانی حکام کے مطابق واشنگٹن کیساتھ رابطوں میں طالبان کو امن کونسل سے مذاکرات کیلئے تیار کرنا بنیادی نکتہ نہیں رہا بلکہ امریکا نے بتایا کہ اسلام آباد کے جائزے کے مطابق طالبان حامد کرزئی سے مذاکرات نہیں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ امن کونسل حامد کرزئی کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے۔ پاکستانی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینیئر امریکی حکام نے بارہا یہ کہا ہے حامد کرزئی اہم ہے مگر اس پورے امن عمل میں اس کا کردار محدود ہے۔ امریکہ کی طرف سے متضاد موقف اختیار کرنے کے باعث مذاکرات سے فریقین کی توقعات میں بھی فرق آیا۔ حامد کرزئی کیلئے دوحہ مذاکرات افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اپنے آپ کو محفوظ بنانے، اپنے اتحادی گروپس کے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ اور طالبان سے اپنے آپ کو منوانے کا راستہ ہے۔
طالبان کے مطابق امریکہ کے پاس آپشنز محدود ہوتے جارہے اور وہ افغانستان میں امن کیلئے کم از کم ابتدائی طور پر کرزئی کو بائی پاس کرے براہ راست چاہتا ہے۔ پاکستان کی نظر میں اوباما انتظامیہ نے افغانستان کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے یہ جان لیا ہے کہ بحفاظت اور باوقار انخلاء کی چابی کابل حکومت کے پاس نہیں، طالبان کے پاس ہے۔ امریکہ نے شاید سمجھا تھا کہ وہ طالبان کو سیاسی اور سفارتی جگہ دے کر کرزئی کے ساتھ بیٹھنے پر تیار کرلیں گے مگر امریکہ کا خیال غلط ثابت ہوا اور امریکہ کے تضادات سے بھرپور موقف کی وجہ سے فریقین میں تصادم کی فضا پیدا ہوگئی اور دوحہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے، طالبان کرزئی سے مذاکرات پر تیار نہیں اور نہ ہی ہونگے اور نہ ہی پاکستان انہیں یہ کرنے پر مجبور کرسکتا ہے جبکہ کرزئی امریکہ کیساتھ سکیورٹی معاہدے اور مذاکرات میں اپنے مرکزی کردار پر مول تول کرنا چاہتا ہے اور آسانی سے اپنی جگہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔
پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ اپنے وعدے کے مطابق طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے اور نہیں چاہتا کہ امن کے اس تاریخی موقع کو کرزئی ویٹو کردے۔ ایسی صورتحال میں جان کیری یہ کہنے کی بجائے کہ ہم امن کے قریب ہیں ایک تسلسل کی امید لگائے بیٹھے ہیں، ہیجانی باتیں کر رہے ہیں اور دوحہ میں طالبان کے دفتر کے باہر 'اسلامی امارات افغانستان' کی پلیٹ لگانے پر عجیب و غریب رویہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوحہ میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ طالبان پراپیگنڈا کر رہے ہیں یا انہیں شہرت حاصل ہورہی ہے، یہ ناقابل تصور ہے کہ قطر اتھارٹیز جنہیں طالبان دفتر کے انتظام کا کہا گیا تھا وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ طالبان کا ایک جھنڈا بھی ہے اور انہوں نے دفتر کے باہر لگانے کیلئے ایک تختی بھی بنوائی ہے اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ قطری اتھارٹیز کے حوالے سے امریکہ کو ان باتوں کا علم نہ ہو۔
دراصل مذاکرات میں اس تعطل کے ذمہ دار وہ تضادات ہیں جو امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنے رویے میں دکھائے اور اب بھی وہ اسے واضح انداز میں دور کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے، اب بھی جان کیری طالبان، امریکہ مذاکرات کو امن کونسل سمیت دیگر شراکت داروں کیساتھ مذاکرات سے علیحدہ کرکے دوحہ کے پلیٹ فارم کو بامقصد بناسکتے ہیں اور جب مذاکرات کا آغاز ہوجائے تو دوسرے معاملات کو بھی میز پر لایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے حامد کرزئی سے کیسے نمٹنا ہے اور ایک سال بعد حامد کرزئی کتنا اہم ہوگا۔
بظاہر مذاکرات میں تعطل کی وجہ طالبان دفتر کا نام 'اسلامی امارات افغانستان' رکھنا بنا، تاہم امن عمل میں پیدا ہونیوالی رکاوٹوں کا تعلق دوحہ میں طالبان کی پیش قدمی سے کم اور واشنگٹن کے تضادات سے زیادہ ہے، ایک طرح سے جان کیری اپنے ہی پیدا کردہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ افغانستان میں امن کیلئے مذاکرات اور تمام شراکت داروں کو انتخابی عمل میں لانے کیلئے امریکہ نے اپنی پس پردہ سفاتکاری میں مختلف شراکت داروں سے مختلف وعدے کئے اور اس بات کا خیال نہ رکھا کہ یہ تمام اہداف ہم آہنگ نہیں ہیں۔ افغان حکومت کیساتھ مذاکرات میں مرکزی کردار دینے کا وعدہ کیا اور واشنگٹن مذاکرات کیلئے مشکوک مزاج کرزئی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
افغان صدر جوابی طور پر امریکہ کے افغانستان میں طویل المدت اہداف کے حصول کیلئے دوطرفہ سکیورٹی معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے راضی ہوگیا۔ معاہدے میں طے کیا جائیگا کہ اگلے سال انخلاء کے بعد امریکہ افغانستان میں کتنے فوجی رکھے گا۔ طالبان کیساتھ بھی امریکا کا طرز عمل مکمل طور پر واضح نہیں تھا لیکن کم از کم یہ تاثر دیا گیا کہ دوحہ مذاکرات امریکہ کیلئے مستقبل کی لائن آف ایکشن طے کرینگے جبکہ حامد کرزئی سے کہا گیا کہ یہ کوئی فیصلہ کن مرحلہ نہیں ہے۔ پاکستان کے ساتھ رابطوں میں دو نکتوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی، پہلا یہ کہ طالبان کو قائل کیا جائے کہ وہ القاعدہ سے فاصلہ پیدا کریں اور افغان سرزمین کو امریکی مفادات کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں، انتخابی عمل کا حصہ بنیں اور افغان آئین کو تسلیم کریں۔ دوسرا نکتہ ان پوائنٹس کو مذاکرات کا حصہ بنانے اور نتائج سے متعلق تھا، اسلام آباد اور واشنگٹن میں عمومی اتفاق تھا کہ دوحہ مذاکرات کیلئے کوئی شرائط نہیں رکھی جائیں گی اور اس عمل کو نتائج کے حصول کیلئے استعمال کیا جائیگا۔
پاکستانی حکام کے مطابق واشنگٹن کیساتھ رابطوں میں طالبان کو امن کونسل سے مذاکرات کیلئے تیار کرنا بنیادی نکتہ نہیں رہا بلکہ امریکا نے بتایا کہ اسلام آباد کے جائزے کے مطابق طالبان حامد کرزئی سے مذاکرات نہیں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ امن کونسل حامد کرزئی کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے۔ پاکستانی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینیئر امریکی حکام نے بارہا یہ کہا ہے حامد کرزئی اہم ہے مگر اس پورے امن عمل میں اس کا کردار محدود ہے۔ امریکہ کی طرف سے متضاد موقف اختیار کرنے کے باعث مذاکرات سے فریقین کی توقعات میں بھی فرق آیا۔ حامد کرزئی کیلئے دوحہ مذاکرات افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اپنے آپ کو محفوظ بنانے، اپنے اتحادی گروپس کے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ اور طالبان سے اپنے آپ کو منوانے کا راستہ ہے۔
طالبان کے مطابق امریکہ کے پاس آپشنز محدود ہوتے جارہے اور وہ افغانستان میں امن کیلئے کم از کم ابتدائی طور پر کرزئی کو بائی پاس کرے براہ راست چاہتا ہے۔ پاکستان کی نظر میں اوباما انتظامیہ نے افغانستان کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے یہ جان لیا ہے کہ بحفاظت اور باوقار انخلاء کی چابی کابل حکومت کے پاس نہیں، طالبان کے پاس ہے۔ امریکہ نے شاید سمجھا تھا کہ وہ طالبان کو سیاسی اور سفارتی جگہ دے کر کرزئی کے ساتھ بیٹھنے پر تیار کرلیں گے مگر امریکہ کا خیال غلط ثابت ہوا اور امریکہ کے تضادات سے بھرپور موقف کی وجہ سے فریقین میں تصادم کی فضا پیدا ہوگئی اور دوحہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے، طالبان کرزئی سے مذاکرات پر تیار نہیں اور نہ ہی ہونگے اور نہ ہی پاکستان انہیں یہ کرنے پر مجبور کرسکتا ہے جبکہ کرزئی امریکہ کیساتھ سکیورٹی معاہدے اور مذاکرات میں اپنے مرکزی کردار پر مول تول کرنا چاہتا ہے اور آسانی سے اپنی جگہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔
پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ اپنے وعدے کے مطابق طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے اور نہیں چاہتا کہ امن کے اس تاریخی موقع کو کرزئی ویٹو کردے۔ ایسی صورتحال میں جان کیری یہ کہنے کی بجائے کہ ہم امن کے قریب ہیں ایک تسلسل کی امید لگائے بیٹھے ہیں، ہیجانی باتیں کر رہے ہیں اور دوحہ میں طالبان کے دفتر کے باہر 'اسلامی امارات افغانستان' کی پلیٹ لگانے پر عجیب و غریب رویہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوحہ میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ طالبان پراپیگنڈا کر رہے ہیں یا انہیں شہرت حاصل ہورہی ہے، یہ ناقابل تصور ہے کہ قطر اتھارٹیز جنہیں طالبان دفتر کے انتظام کا کہا گیا تھا وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ طالبان کا ایک جھنڈا بھی ہے اور انہوں نے دفتر کے باہر لگانے کیلئے ایک تختی بھی بنوائی ہے اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ قطری اتھارٹیز کے حوالے سے امریکہ کو ان باتوں کا علم نہ ہو۔
دراصل مذاکرات میں اس تعطل کے ذمہ دار وہ تضادات ہیں جو امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنے رویے میں دکھائے اور اب بھی وہ اسے واضح انداز میں دور کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے، اب بھی جان کیری طالبان، امریکہ مذاکرات کو امن کونسل سمیت دیگر شراکت داروں کیساتھ مذاکرات سے علیحدہ کرکے دوحہ کے پلیٹ فارم کو بامقصد بناسکتے ہیں اور جب مذاکرات کا آغاز ہوجائے تو دوسرے معاملات کو بھی میز پر لایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے حامد کرزئی سے کیسے نمٹنا ہے اور ایک سال بعد حامد کرزئی کتنا اہم ہوگا۔