تاریخ پیچھے نہیں دھکیلی جاسکتی

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اٹھارہویں اور انیسویں صدی لوٹ آئی ہے اور سیاہ فام غلاموں پر عذاب نازل ہو رہے ہیں۔

zahedahina@gmail.com

صدر امریکا اور ان کے حامیوں کو شاید ان نتائج کا اندازہ نہیں تھا جو چند دنوں پہلے ہمارے سامنے آئے ہیں۔ صدر محترم کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کی ''زیرو ٹالرینس'' کی پالیسی کیا رنگ لائے گی۔ درمیانی مدت کے انتخابات کے نتائج کا ایک سبب زیرو ٹالرینس پالیسی بھی ہے۔

مہینوں ہوگئے کہ امریکی سرحدوں سے دل دہلا دینے والی خبریں چلی آتی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے غیرقانونی تارکین وطن کے بارے میں جب سے یہ نئی پالیسی اختیار کی، اس وقت سے ہر دوسرے چوتھے ہچکیاں لیتے ہوئے بچوں اور چیختی ہوئی، باوردی اہل کاروں سے ہاتھا پائی کرتی ہوئی ماؤں کی تصویریں امریکا اور ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ یہ وہ مائیں ہیں جن کی گود سے ان کے بچے چھین لیے گئے۔

غربت کی ماری ہوئی سیکڑوں میل کے سفر سے نڈھال، آنے والے دنوں کے خوف سے بے حال، یہ وہ عورتیں ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق نکاراگوا، ال سلواڈور، گوئٹے مالا اور ہنڈراس سے ہے۔ ان پر بھوک کی مار کے ساتھ میں جب اپنے جگر گوشوں سے جدا ہونے کا عذاب نازل ہوا تو وہ نیم پاگل ہوگئیں۔

امریکی اٹارنی جنرل Jeff Sessias جنھوں نے 6 اپریل 2018ء کو اس نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا، وہ صدر گرامی سے اس وفاداری کے باوجود ہٹائے جا چکے ہیں اس قانون کے بارے میں صدر ٹرمپ غلط طور پر یہ کہتے ہیں کہ جمہوری اصولوں کے تحت ماں کو بچے سے جدا کر دینا درست ہے اور بھی کہ امریکی قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں۔

چند دنوں پہلے سی این این نے ہنڈراس سے امریکا میں پناہ لینے کی خواہش مند ایک عورت کی ویڈیو نشر کی جس میں اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی تھی۔ اس عورت کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شیرخوار بچے کو دودھ پلا رہی تھی جب اس کی گود سے اس کا بچہ نوچ لیا گیا، اسے ہتھکڑی لگا دی گئی اور اب یہ نہیں جانتی کہ اس کا بچہ کہاں ہے۔

اس بارے میں ایگزیکٹیو آرڈر 2017, 13769ء کی ابتدا میں جاری کیا گیا تھا۔ یہ ٹرمپ صاحب کا وہ ایگزیکٹیو آرڈر تھا جو سات ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں پہ سفری پابندیوں کے لیے تھا جسے مختلف امریکی عدالتوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ ملک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن ہیں۔ اس بارے میں ٹرمپ صاحب کا کہنا ہے کہ جن ملکوں کے لوگوں سے ہمیں اپنے ہم وطنوں کی زندگی یا املاک کو خطرہ محسوس ہو گا، انھیں ہم دشمن سمجھیں گے اور ان کے ساتھ اسی طور پیش آئیں گے۔

ایک طرف مسلمانوں پر عائد ہونے والی سفری پابندیوں کا معاملہ ہے، دوسری طرف امریکا میں جنوب سے آنے والے تارکین وطن کا مسئلہ ہے جس نے امریکا کے باشعور شہریوں کو مضطرب کر رکھا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صدر امریکا پناہ کے لیے آنے والے ان رنگدار افراد کو ڈاکو، قاتل، رسہ گیر اور جنسی جرائم میں ملوث خیال کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور ان کے ساتھ سلوک بھی ڈھور ڈنگروں والا ہونا چاہیے۔


یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اٹھارہویں اور انیسویں صدی لوٹ آئی ہے اور سیاہ فام غلاموں پر عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو ڈل بانکو نے امریکی غلاموں کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ جو آج ہو رہا ہے ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ ہم سب جو تاریخ سے دلچسپی رکھتی ہے، ہم نے یہ باتیں اس سے پہلے بھی سنی اور پڑھی ہیں۔ ہم نے اب سے پہلے بھی رنگداروں کی آہ و بکا سنی ہے جو مختلف ملکوں میں بدترین غیر انسانی حالات سے دوچار تھے اور بھاگ کر امریکا آتے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ امریکی صدور گزرے ہیں جو ان آفت زدہ لوگوں کو گھڑ سوار امریکی فوجی دستوں کے ذریعے ان علاقوں میں دھکیل دینا چاہتے تھے جہاں زندگی ان کے لیے جہنم سے کم نہ تھی۔ اس سے بڑھ کر کہیں مسئلہ ان سیاہ فام غلاموں کا تھا جو امریکی شہریوں کی ملکیت تھے۔

ڈل بانکو امریکی تاریخ سے وہ حوالے دیتا ہے جب رنگدار امریکیوں کو غیر انسان خیال کیا جاتا تھا اور ان کے ساتھ باڑے میں بند کیے جانے والے جانوروں سے بدتر سلوک ہوتا تھا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ انیسویں صدی میں امریکا نے اپنی سرزمین سے غلامی ختم کرنے کے لیے ایک خونیں جنگ لڑی ہے۔ ہمیں اس دور کے امریکی مدبرین بہ طور خاص ابراہم لنکن اور اس کے ساتھیوں کی تعظیم کرنی چاہیے جنھوں نے رنگدار امریکیوں کو غلام کے بجائے انسان تصور کیا اور ان کے حق کے لیے بھائی، بھتیجے، بیٹے اور دوست قربان کر دیے۔

وہ امریکی سیاستدان اور دانشور جو ایک نئی قوم کو وجود میں لانے کے خواب دیکھ رہے تھے، ان کے لیے یہ بہت مشکل تھا کہ وہ جنوب کے ان سفید فام امریکیوں کو یہ سمجھا سکیں کہ رنگدار امریکی بھی انسان ہیں، امریکی قوم کا حصہ ہیں اور انھیں اپنے اندر جذب کیے بغیر، ان کے حقوق کا احترام کیے بغیر، ایک عظیم امریکی قوم کی تشکیل ممکن نہیں۔ مشکل یہ تھی کہ جنوب کے سفید فام امریکیوں کے لیے یہ رنگدار غلام ان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ اگر انھیں برابری کے حقوق دے دیتے تو ان کے کھیتوں میں کون ہل چلاتا اور کارخانوں میں کون جان توڑ محنت کرتا۔

یہی وجہ تھی کہ ایسے قوانین بنائے گئے کہ جن کے ذریعے کسی بھی امریکی ریاست سے بھاگا ہوا کوئی سیاہ فام غلام ڈھونڈ کر اس کے مالک کے پاس لایا جاتا تو اسے شدید سزائیں دی جاتیں اور جانوروں کی طرح پہچان کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ اس نے اپنے مالک کے پاس سے بھاگ کر گناہ عظیم کیا ہے، اسے پیشانی اور پشت پر داغ دیا جاتا۔ ان قوانین پر غلاموں کے مالکان فخر کرتے اور یہ بات بہ اصرار کہتے کہ آخر کار ہمیں ان قوانین کے ذریعے اپنے غلاموں پر مکمل اختیار حاصل ہوگیا ہے۔

آج صدر ٹرمپ اور ان کے ہم خیال میکسیکو اور دوسرے سرحدی علاقوں پر دیوار تعمیر کرنے اور خار دار تاروں کی باڑ لگانے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ سات مسلمان ملکوں اور آس پاس کے غریب ملکوں کے تارکین وطن کو روکنے کے لیے وہ نئے قوانین بنائیں گے اور سیکڑوں میل کا سفر کر کے آنے والوں کو واپس ان کی سرحدوں میں دھکیل دیں گے۔ اس کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آنے والے امریکا کے دشمن ہیں اور ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک ہونا چاہیے۔

مشکل یہ ہے کہ چند دنوں پہلے جو وسط مدتی انتخابات ہوئے ہیں اس میں کانگریس صدر ٹرمپ کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ وہاں بہت سے ایسے لوگ پہنچے ہیں جو نوجوان ہیں اور نئے خیالات رکھتے ہیں۔ ان میں امریکی عورتیں، مسلمان، رنگدار اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روشن خیال لوگ ہیں جو امریکی روح کی حفاظت کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افتاد میں گرفتار خاندان اگر پناہ کی تلاش میں امریکا کی سمت آ رہے ہیں تو انھیں خوش آمدید کہنا چاہیے، یہ لوگ امریکی روح کے لیے نئی قوت کا سبب بنیں گے۔

یوں بھی یہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا زمانہ نہیں ہے جب پکڑ کر لائے جانے والے سیاہ فاموں کے چہرے بگاڑ دیے جاتے تھے اور ان کی پنڈلیوں کی نسیں کاٹ دی جاتی تھیں تاکہ وہ دور کا سفر کرنے کا خیال بھی ذہن میں نہ لائیں۔ اس سے کہیں زیادہ کارآمد اور آسان ترکیب یہ تھی کہ کھیتوں، باغوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لیے ان غلاموں کو بھدے اور مضبوط جوتے دیے جاتے تھے جنھیں پہن کر وہ اپنے فرائض انجام دیتے تھے لیکن شام ہوتے ہی یہ جوتے ان سے واپس لے لیے جاتے تھے۔ یہ جوتے تھے جو انھیں راستے کے کنکروں، پتھروں اور کانٹوں سے محفوظ رکھتے تھے۔ کیا کمال ترکیب تھی جس پر عمل کر کے جنوب کے سفید فام آقاؤں نے اپنے غلاموں کے فرار کو تقریباً ناممکن بنا دیا تھا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ تاریخ کا پہیہ الٹا نہیں گھمایا جا سکتا اور اب انسانوں کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔

صدر ٹرمپ کی زیرو ٹالرینس پالیسی کے تحت بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر دیا گیا ہے اور یہ بچے امریکا کے طول و عرض میں بکھیر دیے گئے ہیں۔ مائیں اور باپ کیمپوں میں قید ہیں اور بچے مختلف خیراتی اداروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ قانون کے تحت حکومت بھی ان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ذمے دار ہے۔ آخر کار ان بچوں پر کیا گزرے گی؟ اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بے شمار صحافیوں، قانون دانوں اور چرچ سے وابستہ لوگوں نے امریکی روح کو بچانے کے لیے سر جوڑ لیا ہے اور وہ جی جان سے بچھڑے ہوئے بچوں کو ان کے والدین سے ملانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نہیں جانتے لیکن یہ لوگ جانتے ہیں کہ تاریخ کو پیچھے نہیں لے جایا جاسکتا، وہ آگے کی طرف ہی سفر کرتی ہے۔
Load Next Story