خلیق الزماں بولے ’’کن چکروں میں ہو پاکستان تو لوٹ مار کے لیے بنا ہے

بھٹو نے مجیب کو اقتدار دینے کی مخالفت کرکے جمہوریت سے دغا کی

سابق طالب علم رہنما اور ممتاز صحافی حسین نقی سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل

ممتاز ادیب مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں:'' سیاست کی کثافت اور polarizationکی مخرب اقدارکشش سے کتنے صحافی اور کالم نویس ہیں جو خود کو بچاسکے ہیں،ان حالات میں حکومتیں اگر Fourth estateکواپنا زرخریدترجمان و تابع فرمان بنانا چاہیں توتعجب نہیں ہونا چاہیے۔

صحافی ہو یا سیاست دان، جج ہویا بینکراور بیوروکریٹ... یہ سب اسی ترکیب سے ''پکڑائی''دیتے ہیں، جس طرح بعض علاقوںمیں بندرپکڑے جاتے ہیں۔وہ طریقہ یہ ہے کہ ناریل میں اتنا سوراخ بنادیاجاتاہے کہ صرف بندرکاپنجہ اندر جاسکے۔بندرنرم و شیریں کھوپرے کے لالچ میں اس میں ہاتھ ڈال دیتاہے اور مٹھی میں بہت ساکھوپرابھر لیتا ہے۔لیکن بھری مٹھی کو تنگ سوراخ سے نہیں نکال پاتا۔مٹھی کھول کر کھوپرا چھوڑنے اور ہاتھ چھڑانے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔لہٰذااس طرح ایک ہاتھ ناریل میں پھنسائے تین پایہ بنالنگڑاتاپھرتاہے اورآسانی سے پکڑا جاتاہے۔پھرساری عمرمداری کی ڈگڈگی اور اشاروں پرقریہ قریہ، گلی گلی اچھل کود دکھاتااور ہاتھ پھیلاکرپیسے بٹورتاہے۔مداری اگر رحم کھاکراسے جنگل میں آزاد چھوڑ بھی دے توواپس آجاتا ہے اور کسی نئے مداری کی تلاش میں مارا مارا پھرتاہے۔ سو یہی حال ان حضرات کا ہوتا ہے جن کے معززپیشوں کے نام ابھی اوپر گنوائے گئے ہیں۔صحافیوں کی تخصیص نہیں۔ایں خانہ ہمہ داغدار است۔ ''

مشاق لکھاری نے کس قدر بلیغ اور موثرانداز میں ہمارے ہاں کی صحافت اور صحافیوں پرتبصرہ کیا ہے۔اور یہ اس وقت کا لکھاہے، جب الیکٹرانک میڈیا اور اس کے اینکرز اپنی حشرسامانیوںکے ساتھ موجود نہ تھے۔مشتاق احمد یوسفی کی بات سولہ آنے ٹھیک ہے، ہماری صحافت اپنے اعتبار اور ساکھ کے لحاظ سے نازک دورسے گزر تو رہی ہے مگراس گئے گزرے وقت میں بھی چند باصفا صحافی ہمارے درمیان موجود ہیں، جن کے لیے صیاد،ترغیب وتحریص کا کیسا ہی پھندہ لگادے، وہ کبھی پکڑائی نہیں دیں گے۔ایسے عالی مرتبت صحافیوں میں ایک معتبر نام حسین نقی کا ہے،جن کی دیانت داری اور جرات پر کوئی حرف گیری نہیں کرسکتا ۔ ایسے معاشرے میں جہاں وہ صحافتی تنظیمیں جن کا خمیر ہی سرکار مخالفت سے اٹھا، ان کی نگہبان سرکار سے مسکراتے ہوئے ایوارڈ لیں اورصحافی حاکم کے دربار میں رسائی اور اس کے ساتھ غیرملکی دورے کو اپنے فن کی معراج جانیں تو ایسے میں حسین نقی جیسے صحافی کا دم اور بھی غنیمت محسوس ہوتا ہے ۔

صحافت سے وابستہ ہونے سے قبل طالب علم رہنما کی حیثیت سے انھوں نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کے ذریعے اپنی استقامت کا سکہ جمایا۔صحافت میں حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کا ہنر آزمانے کا موقع انھیں اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی میسر آ گیا، جب حیدرآباد میں فیلڈ مارشل صاحب سے تیکھے سوال پران کا تبادلہ کردیا گیا۔حیدرآباد ہی میں زمین کے عوض انھیں خریدنے کی کوشش ہوئی۔1967 ء میں لاہور میں پیپلز پارٹی کی بناپڑنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا جن صحافیوں سے ربط ضبط بہت زیادہ رہا ، ان میں حسین نقی شامل تھے ،لیکن ذاتی تعلق کبھی ان کی صحافیانہ رائے پر اثراندازنہ ہوا۔وہ بھٹو پر70ء کے الیکشن کامینڈیٹ تسلیم کرنے پر زور دیتے رہے۔بھٹو نے مشرقی پاکستان الگ ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار سنبھالا تب بھی حسین نقی نے ان کی پالیسیوں کوآڑے ہاتھوں لیا۔

پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ ایک تقریب میںوزیراعظم بھٹوان کی کڑی تنقید پر بھناگئے اور مجمع ان کی جراتِ رندانہ پر حیران رہ گیا۔ہمارے ہاں!حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی ایسی دوسری مثال ڈھونڈے سے ہی ملے گی۔ہاں!البتہ بند کمرے میں مبینہ طور پر حکمرانوں کو للکارنے والے وافر ہیں،جو اپنی حق گوئی کے آپ ہی راوی ہوتے ہیں۔حسین نقی نے بھٹو کے سلطانی جمہور میں جیل کاٹی اور ضیا آمریت میںبھی قید ہوئے ۔صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم صحافتی تنظیموں کا بھی وہ حصہ رہے۔حکومت وقت سے ٹکر لینا اپنی جگہ بڑی دلاوری کا کام سہی لیکن مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے برتنے والوںسے نبرد آزما ہونا کہیں زیادہ دلیری کا متقاضی ہے، اور اس کار خیر کی انجام دہی میں بڑے بڑوں کی کور دبتی ہے،مگر حسین نقی ان عناصر سے بھی نہیں ڈرے اورجب بھی موقع ملا ان کے رخ سے نقاب اٹھاتے رہے۔

وہ اخبارات وجرائد جنھیں حسین نقی کا قلمی تعاون حاصل رہا ، ان میں،آئوٹ لک، ویو پوائنٹ، فرنٹیئر پوسٹ، ہالیڈے، فرنٹیئر گارجین،پنجاب پنچ، پنجاب ٹائمز، اسٹار، مسلم اور دی نیوز شامل ہیں۔ اردو میں ''نصرت''اور ''مساوات میں لکھتے رہے۔ حنیف رامے کے ساتھ مل کر '' مساوات''کی فزیبلٹی رپورٹ بنائی۔اخبار میںلکھا بھی لیکن اس کا باقاعدہ حصہ نہ بنے۔ منو بھائی نے حسین نقی کو بتایا کہ بھٹو نے انھیں '' مساوات'' کے عملے میں شامل نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

حسین نقی بڑے صحافی ہی نہیں بڑے انسان بھی ہیں۔ایک تو اردگرد کی فضا، دوسرے برصغیر کے تین اہم تہذیبی مراکز لکھنؤ، لاہور اور کراچی میں زیست کرنے سے ان کے مزاج میںاس رواداری اور وسعت نے جنم لیا جوہمارے ہاں جنس نایاب بنتی جارہی ہے ۔وہ اردوبولنے والے ہیں لیکن دوسری زبانوں کے لوگوں سے ان کا بے پایاں محبت کا تعلق رہا۔ پنجابی روزنامہ ''سجن''نکالنے کا منصوبہ بناتواس کی ذمے داری حسین نقی کے سپرد ہوئی۔کراچی یونیورسٹی سے بلوچ طالب علموں کے مستقبل کی خاطر قربانی دی اور ان کی جگہ یونیورسٹی سے خود Rusticateہونا قبول کیا۔ طالب علم رہنما کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی میں سندھی زبان کی چیئر قائم کرنے کے سلسلے میں آواز اٹھائی۔حسین نقی دھیمے لہجے میں اور صراحت سے بات کرتے ہیں، ہر بات کا پس منظر ذہن میں تازہ ہوتا ہے۔ ذہنی و جسمانی اعتبار سے چاق وچوبند ہیں، باقاعدگی سے انسانی حقوق کمیشن کے دفتر میں آتے ہیں ۔

لیپ ٹاپ کا استعمال کرنے والے حسین نقی ابھی تک خود کو موبائل فون کے استعمال پرآمادہ نہیں کرپائے۔اہل سیاست اور صحافت سے ان کا تعلق خاطر تو رہا ہی ادیبوں سے بھی دوستیاں رہیں، ممتازشاعرمنیرنیازی ایک زمانے میں ان کے گھر کے پاس رہنے لگے تو تو ملنا جلنا زیادہ ہوگیا اور اس منفرد شاعر نے اس صحافی کو اپنا مشیر مقررکرلیا، ایک بارشاعر کو سیاست کا شوق چرایا تویہ حسین نقی کا مشورہ ہی تھاجس نے انھیں سیاست میں آنے سے بازرکھا۔تین دھائیوں سے امریکا میں مقیم اردو کے ممتاز شاعراحمد مشتاق ، ملکی سیاست کا احوال جاننے کے لیے ان سے اب بھی برابر رابطے میں رہتے ہیں۔ زندگی سے وہ مطمئن ہیں۔1966ء میں محترمہ زہرا قزلباش سے شادی ہوئی جنھوں نے ہر کڑے وقت میں ان کا ساتھ دیا ۔اکبر نقی، اصغر نقی اور محسن نقی ان کے بیٹے ہیں۔

حسین نقی سے بات چیت کا سلسلہ ہم صحافت کے ذکر سے شروع کرتے ہیں ۔ وہ میڈیا کے پھیلائو سے خوش ضرور ہیں لیکن اس کے معیارپر کڑے سوال بھی قائم کرتے ہیں۔ان کے بقول ''صحافیوں میں تجسس اور مختلف چیزوں کے بارے میں جاننے کا شوق نہیں رہا۔ تحقیق نہیں کرتے۔سامنے کی چیزوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔باقی تاریخ کو تو چھوڑدیں، پانچ برس قبل کے واقعات سے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔اپنا اخبارتو درکناراپنی چھپی رپورٹ تک نہیں پڑھتے۔اب تو سنتے ہیں، ایسے بھی رپورٹرزہیں، جو اپنی رپورٹ بغیر کاٹ چھانٹ کے شائع کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ایسے کسی رپورٹر کا ظفر اقبال مرزا ایسے ایڈیٹرسے واسطہ پڑ جاتا تو وہ اس کی خوب خبر لیتا۔ میڈیاکے پھیلائو کا فائدہ تو یہ تھاکہ وہ لوگوں کی تربیت کرتا۔انھیں معلومات فراہم کرتا، لیکن میڈیا زیادہ تر غلط خبریں دیتا ہے۔خبروں کوسنسنی خیز بناکر پیش کرتا ہے۔

غیراخلاقی چیزیں دکھاتاہے۔یہ تو میڈیا ہائوسز کی مینجمنٹ کی ذمے داری تھی کہ وہ کچھ تو ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتے، جو علم رکھتے، چیزوں کی حساسیت سے واقف ہوتے اورانھیں دیکھ کر چلنے دیتے۔ اخبار اور ٹی وی میں بزنس منیجراگر کسی چیز کو چھاپنے سے منع کردے تو وہ چل نہیں سکتی۔آگہی کے متبادل ذرائع ضرور آگئے ہیں ،جیسے انٹرنیٹ ہے، سوشل میڈیا ہے ،لیکن ان پر اعتبار کرنے سے قبل چیزوں کی چھان پھٹک ضروری ہے، کیوں کہ اس کے بغیر گڑبڑ ہو سکتی ہے۔صحافت کے پروفیشن میں ایسے لوگ بہت کم ہوگئے ہیں، جوپیشہ ورانہ ذمے داری اور دیانت کو مقدم جانتے ہوں۔پریس ٹرسٹ کے قبضے کے بعد صحافیوں کی کلیئرنس پولیس اور آئی ایس آئی سے کرائی جانے لگی۔پاکستان میں اس وقت کم ہی ایسے اینکرز ہوں گے، جو آزاد اور چینل میں اپنے بوتے پربیٹھے ہوں۔ زیادہ تر اینکرز کو یا تو ایجنسیاں بھرتی کرتی ہیں یا ان کی کلیئرنس وہاں سے ہوتی ہے۔ان سب باتوں سے میڈیا زوال پذیر ہوا ہے۔صحافت میں لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آگئے ہیں، ایسے لوگ پہلے بھی آتے تھے لیکن ان کے مقابلے میں دیانت دار اور باصلاحیت لوگ بھی ہوتے تھے،اب ایسا نہیں ہے اور غلط لوگ زیادہ قوت پکڑگئے ہیں۔ حکومتوں کے قریب ہونا صحافیوں کے لیے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔''

رپورٹرز کونوٹس نہ لیتے دیکھ کر انھیں تعجب ہوتا ہے ، ان کے خیال میں یہی وجہ ہے ، اکثررپورٹرزاصل بات رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ نوٹس لینے سے بڑھ کر وہ تو گفتگو ریکارڈ کرنے کے حق میںہیں۔اس مناسبت سے اپنی یادوں کو آوازدیتے ہوئے یہ واقعہ سناتے ہیں ''بش سینئر پاکستان آیاتواس کی پریس کانفرنس کو میں نے رپورٹ کیا۔میں نے اس سے سوال پوچھاکہ ضیاء الحق نے خود کوlegitimizeکرنے کے لیے جو لوکل گورنمنٹ کا نظام دیا ہے، کیا وہ اسے جمہوری سمجھتے ہیں؟اس پربش نے جوجواب دیا، میں نے اسے رپورٹ کر دیا۔ 48گھنٹے گزرنے کے بعد صاحبزادہ یعقوب خان نے تردید کردی کہ صدر بش نے بات اس طرح نہیں کی تھی، جس طرح میں نے رپورٹ کیا۔ اس بیان پربہت شور مچا اور کہا گیاکہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثرکرانے کی کوشش کی گئی ہے۔پی پی آئی پر بڑا دبائو پڑا۔اس پرمیں نے ٹرانسکرپٹ بھیج دیا۔میرا موقف تھا کہ تردید کرنا تھی تو اسی وقت کردیتے، اڑتالیس گھنٹے بعد اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔امریکا میں بش پراس بیان کی وجہ سے کافی لے دے ہوئی کہ اس نے ایک شرمناک سیاسی عمل کو جمہوری کیسے کہہ دیا۔معروف دانشور اقبال احمد نے اس معاملہ کو امریکا میں اٹھایا اور ڈاکٹر مبشر حسن کے ذریعے مجھ سے پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ کی کاپی منگائی۔''

حسین نقی سے جس کمرے میں بیٹھے ہم بات چیت کررہے تھے، ادھر ہر طرف کتابوں کا انبارتھا، ایک شیلف میںبااصول ضمیرنیازی کی کتابیں دیکھ کر اس باضمیرصحافی کے کام کے بارے میں ان کی رائے جاننے کے مشتا ق ہوئے تو انھوں نے بتایا ''ضمیر نیازی بہت دیانت دار اور محنتی صحافی تھے۔ پاکستانی صحافت پرکام کرنے والا کوئی بھی شخص ضمیر نیازی کاکام نظر انداز نہیںسکتا۔ان کی کتابیں اچھے کرانیکلز ہیں۔ ان کا کام ریفرنس کا درجہ رکھتا ہے۔''صحافت پابند سلاسل '' میںپی ایف یوجے کا ذکر کم ہونے کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ پی ایف یو جے پر الگ سے کتاب بنارہے تھے،جس میں اس کی تمام جدوجہد کا ذکر ہونا تھا لیکن بیماری کے باعث وہ اسے مکمل نہیں کرپائے۔ویسے کتاب میں پی ایف یو جے کا تذکرہ تو ہے۔ ''سول اینڈ ملٹری گزٹ ''کو بند کرنے کامطالبہ جن مدیروں نے کیا ان میں فیض صاحب بھی شامل تھے، اس کا ذکر ضمیر نیازی نے کردیا تو پروگریسیو لوگوں نے اعتراض کیا، مگر یہ ایک تاریخی بات ہے، اگر آپ نے غلطی کی ہے، اور آپ نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اخبار بند کردو تو یہ بات تاریخ کا حصہ ہے۔

انسان غلطی کرسکتے ہیں، اگر زندہ ہوں تو انھیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے اور اگر اس دنیا میں نہیں ہیں توغلطی کو ریکارڈ کرنا چاہیے۔محمود علی قصوری بہت اچھے انسان تھے لیکن مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان نے جوضمنی الیکشن کرایا، اس میں سے پیپلز پارٹی کا جو وفداس وقت حصہ وصول کرنے گیا، اس میں قصوری صاحب بھی تھے،جب کہ پیپلز پارٹی کا ادھر وجود ہی نہیں تھا۔جسٹس اے آر کارنیلس بہت دیانت دار جج تھے، لیکن یحییٰ خان کے دور میں وزیر قانون بننے کی غلطی انھوں نے کی۔آئی ایچ برنی اور زہیر صدیقی دونوں اعلیٰ پائے کے صحافی تھے personel integrityکے آدمی تھے مگر انھوں نے ضیاء دور میں بھٹو حکومت کے بارے میں وائٹ پیپر لکھا، جس میںانھوں نے انٹیلی جنس رپورٹس کو سورس کے طور پر استعمال کیا۔''

حسین نقی ایسی صحافت اور صحافیوںکے ناقد ہیں،جو حکومتیں گرانے کے لیے Campaigner بن جائیں۔اس بابت وہ دو ٹوک بات کرتے ہیں۔''ایک میڈیا گروپ کہتا رہا کہ ہم فیصلہ کریں گے کہ حکومت رہے گی یا نہیں۔تین سال وہ حکومت گرانے میں لگے رہے، اور جس حکومت کے خلاف تھے، وہ سب سے زیادہ عرصہ نکال گئی۔صحافت سے وابستہ ایک شاہین پیپلز پارٹی حکومت کے بارے میں Partisan بڑھ کر باقاعدہ Campaigner بن گیا۔ بیرون ملک بیٹھ کر اس نے کئی بارکہا کہ یہ فلاں وقت پر جارہے ہیں ، لیکن وہ نہیں گئے،میں بہت دیر رکا رہا لیکن پھر میں نے اسے ای میل بھیجاکہ تمھاری تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، اب تم کو صحافت کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔ میرے ای میل کا جواب نہیں آیا۔''

ہمارے ہاں لیفٹ کے پرانے لوگوں کے بارے میں ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ امریکا کی حمایت کرنے لگے ہیں یا پھر انھوں نے خود کو این جی اوز سے جوڑ لیا ہے۔امریکا کی حمایت کی جہاں تک بات ہے تو ان کے ساتھ ایسا معاملہ ہرگز نہیں۔اس کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ ایک تقریب میں امریکا پر ان کے خوب گرجنے برسنے نے ممتاز ادیب انتظار حسین کو یہ لکھنے پرمجبور کیا کہ حسین نقی کو چاہیے کہ وہ اپنی طرز فغان میں تھوڑی تبدیلی کریں تاکہ امریکی مخالفت پر منور حسن اوران کی آواز میںوہ تمیز تو کرسکیں۔امریکا سے متعلق سوال کا جواب، ہم نے خود فراہم کردیا۔اب رہا این جی اوز کا معاملہ تو اس کا جواب ان سے حاصل کرتے ہیں۔ '' اب جتنی بھی فلاحی تنظیمیں ہیں، ان کا نام این جی اوز رکھ دیں تو کیا کہا جاسکتا ہے۔چودہ ہزاراین جی اوزتو پنجاب میں رجسٹرڈ ہیں۔سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کوکون سا ملک سپورٹ کرتا ہے؟سوشل ویلفیئرکے لیے پاکستان کی جوامداد ملتی ہے، اس کو پہلے بھی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ استعمال کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہے۔یوایس ایڈ بھی تمام محکمے استعمال کرتے رہے۔

مجھے ایک غیر ملکی ادارے کے سربراہ نے بتایا کہ انھوں نے این جی اوزکو اس لیے امداد دینا شروع کی کہ وہ جو کچھ حکومتوں کو دیتے ، اس میں سے 75 فیصد گاڑیوں، فرنیچر، کمروں کی آرائش وغیرہ پر خرچ ہوجاتا اور نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوتاتھا۔ اس پر انھوں نے یہ کیا کہ جو رقم وہ حکومتوں کو دیتے تھے، اس رقم کا مخصوص حصہ براہ راست ویلفیئر آرگنائزیشن کو دینا شروع کردیاجس کا بہتر نتیجہ نکلا۔ پیسا جو بھی دیتا ہے، اس کا مقصد ضرور ہوتا ہے، اب یہ آپ پر ہے کہ آپ ان کامقصد پوراکرتے ہیں، یاآپ کے اپنے کچھ مقاصد ہیں، مثلاً ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جب بنا تو اس کی قیادت نے شروع میں فیصلہ کرلیا کہ بڑی پاورز سے امداد نہیں لی جائے گی۔یوایس ایڈ ہمیں بہت زیادہ مالی امداد کی پیش کش کرتا رہا لیکن ہم نے کتابوں کے سواکچھ نہیں لیا۔وہ کہتے رہے کہ کم سے کم ایکوپمنٹ ہی لے لیں لیکن ایچ آرسی پی نہیں مانا۔ ایچ آرسی پی کو سکینڈے نیوین ملکوں سے امداد ملتی ہے، کمیشن پلان بناکر بھیج دیتا ہے، جس پر اسے ادارہ جاتی امدادملتی ہے۔ ایسے اداروں سے وابستگی ہمارے نظریے سے متصادم نہیں۔ہمارانظریہ یہ ہے کہ ہم مجبور ومقہور لوگوں کے لیے آسانی پیدا کریں۔انھیں شعور دیں،

کچھ لکھنؤکے بارے میں

لکھنؤ میں پیداہوا۔ادھر ہی پلا بڑھا۔والد سید محمد نقی، وکالت کرتے تھے۔ معروف افسانہ نگارعلی عباس حسینی، والد کے دوست اور ہم جماعت رہے۔ہم چھ بھائی اور ہماری چھ بہنیں تھیں۔1936 ء میں پیدا ہوا۔بہن بھائیوں میں میرا پانچواں نمبرہے۔ہم بہن بھائیوں کا اسکول میں داخلہ عموماً براہ راست چھٹی جماعت میں ہوا ، اس سے قبل سب گھر میں پڑھا۔میں نے بھی پانچویں تک گھر میں تعلیم حاصل کی۔چھٹی جماعت میں شیعہ اسکول میں داخلہ لیا۔یہیں سے میٹرک کیا ۔شیعہ اسکول لکھنؤ شہر میں جس جگہ واقع تھا، ادھر شیعہ بہت کم تھے، اس لیے سنی اور ہندو طالب علم بھی تھے۔ کالج کے پرنسپل علامہ ابن حسن چارجوی، مسلم لیگ کے ابتدائی لوگوں میں سے تھے، تقسیم کے بعد ان کا کراچی میں انتقال ہوا۔ماحول میں بڑی کشادگی اور مذہبی رواداری تھی۔ایک بارکامرس کے استاد طاہر صاحب سے بدسلوکی ہوئی توسنی ہونے کے باوجود ان کے حق میں ہڑتال ہوئی۔

انٹرمیڈیٹ کے لیے شیعہ کالج کا انتخاب کیا۔شیعہ اسکول، شیعہ کالج میں ہی تھا۔اس درس گاہ میں تیسری جماعت سے بی ایس سی تک پڑھایا جاتا۔ادھرکے ایک ہندو استاد رام لال محرم میں ہمارے ہاں مجلسوں میں آتے تھے، ہماری والدہ انھیں محب اہل بیت سمجھتی تھیں۔ہماری والدہ تعلیم کے بہت زیادہ حق میں تھیں، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں، ہمارے والد سے ایک بار انھوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگربیٹیوں کو تعلیم نہ دلائی تو وہ انھیں لے کر علی گڑھ چلی جائیں گے۔وہ بڑیdominatingخاتون تھیں، ان کے پاس کافی مکانات تھے، اس لیے وہ بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اپنے کہے پر عمل کرگزرتیں،ہمارے والد کوان کی بات ماننا پڑی بصورت دیگر انھیں اکیلے رہنا پڑتا۔میرا مشاہدہ ہے، ماں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ،باپ خلاف ہوتے ہیں۔بچپن اور لڑکپن کا زمانہ لکھنؤ میں گزرا۔یہ شہر ٹیلوں پر بنا ہے۔ہمارا گھر وزیر گنج میں ہے۔چھوٹا بھائی اب بھی ادھر رہتا ہے۔لکھنؤ کے قریب کاکوری بڑی مشہوربستی ہے، جہاں کے سیخ کباب بہت مشہور ہیں ،اتنے نرم کباب آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔1946ء کا الیکشن اچھی طرح یاد ہے،لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے بھی لے کر گیا۔

میں نے لکھنؤ میںایک بار بھی پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الاللہ کا نعرہ نہیں سنا۔ لکھنؤمیں تقسیم کے وقت فسادات نہیں ہوئے تھے، اور میرا پاکستان آنے کاas suchکوئی ارادہ نہیں تھا، یہ تومجھ سے جو فوری بڑی بہن تھیں، ان کی میرے کزن سے شادی ہوئی تھی، تو میں ان کے ساتھ آگیا اور پھر یہیں ٹھہر گیا۔یہاں یہ فائدہ تھا کہ ماں باپ سے دور رہ کرکچھ پابندیوں سے آپ بچ جاتے ہیں،جیسے باہر نہیں رہنا اور سورج غروب ہونے پر گھر واپس آنا وغیرہ ہے۔بعد میں میرے تایا اور چچاسب آگئے۔چھوٹے چچاستر کی دھائی میں آئے۔میرے والداور بھائی ہندوستان میں رہے۔میرا ادھر جانا رہا ،ابھی کچھ ماہ قبل بھی وہاں سے ہوکرآیا ہوں۔اس زمانے اور اب کے لکھنؤ میں بڑا فرق آیا ہے مثلاً،ہمارے خاندان میں کوئی بچہ ٹوپی پہنے بغیرگھرسے باہر نہیں جاسکتاتھا۔بڑوں کے سامنے بولتے نہیں تھے۔بحث نہیں کرتے تھے۔لقمہ چباتے وقت خیال رکھا جاتا کہ منہ سے آوازنہ آئے۔ اب بھی بعض روایات کا پاس کیا جاتاہے۔

مثلاً بولنے میں اب بھی بداحتیاطی نہیں ہوتی، برا لہجہ اور خراب زبان استعمال نہیں کرتے۔بڑے سے اونچی آواز میں بات کرنا اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میرے بھائی پھاٹک بند کرنا بھول بھی جاتے ہیں مگر کبھی چوری نہیں ہوئی۔ محلے داروں کااب بھی بہت خیال کرتے ہیں۔ماضی کے مقابلے میں اب اونچی اونچی عمارتیں بن گئی ہیں۔رئیل اسٹیٹ کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔لکھنئومیں جوخاص کردارہوتے تھے،وہ اب بھی مل جاتے ہیں، 1952ء میں لکھنؤ میں پاکستان ٹیم نے پہلی بار ٹیسٹ میچ جیتاتو میں شہر میں ہی تھا۔وہ ٹیسٹ مجھے یاد ہے۔میچ میںپاکستان کی کامیابی کے لیے ہم نماز میں باقاعدہ دعامانگتے تھے۔پاکستانی کھلاڑی بہت مقبول تھے، جس ہوٹل میں پاکستان ٹیم ٹھہری تھی، سیکڑوں مسلمان ادھر جمع ہوجاتے اور ان کے حق میں نعرے لگاتے۔ میںنے میچ گرائونڈ میں جا کر دیکھا۔ ہمارے ایک ماموں جو سیتا پور میںزمیندار تھے،وہ کھیلوں کے بڑے شیدائی تھے، ان کی وجہ سے کرکٹ میں دلچسپی پیدا ہوئی۔اس زمانے میںحنیف محمد ، فضل محمود، خان محمد ، نذرمحمد سب بہت مقبول تھے۔

نذرمحمد اسٹائلش بیٹسمین تھے، اس ٹیسٹ میں انھوں نے سنچری بنائی اور بیٹ کیری بھی کیا۔ امیرالٰہی کا گگلی کرنے کا انداز ابھی تک یاد ہے۔بھارتی کھلاڑیوں میں لالہ امرناتھ، ونومنکنڈ، پولی امریگر اور گپتے بڑے اچھے کھلاڑی تھے۔کرکٹ سے اب بھی دلچسپی ہے۔ ریڈیو پر میچوں کی کمنٹری بہت سنی۔ بچپن میں پہلی بار لکھنؤ میں ہی مضمون لکھا، جو اردو میں تھا۔میرے والد شیعہ کالج کی مینجمنٹ کمیٹی میں تھے۔میں بھی ادھر پڑھتا تھا، اس لیے ادارے کی بہت ساری ایسی چیزوں کے بارے میں جانتا تھا، جو ٹھیک نہیں چل رہی تھی،میں نے ان مسائل پر مضمون لکھا اور لکھنؤ سے نکلنے والے شیعوں کے اخبار''سرفراز'' میں چھپوادیا۔میرے والدکو یقین نہیں آیا کہ یہ میرا لکھا ہوا ہے، اس لیے کہنے لگے کہ یہ کسی نے مجھے لکھوایا ہے، اس پر میری والدہ جو میری بڑی حمایتی تھیں،انھوں نے مجھے کہا کہ ان سے کہو میں ابھی آپ کو لکھ کر دکھا سکتا ہوں،میں نے یہ چیلنج قبول کیااور والد کے میز پر بیٹھ کر نیا مضمون لکھ ڈالا، جس پرمیری والدہ نے والد سے کہا کہ اب بتائو! تم کہتے تھے، یہ خود نہیں لکھ سکتا، اس نے لکھ دیا نا۔پاکستان آکر تعلیم سے ٹوٹا ناتا دوبارہ جوڑااور اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ کراچی یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کے دوران Rusticate کردیا گیا۔

بھٹو کے ساتھ جو ہوا ان کا مقسوم تھا

مشرقی پاکستان میںفوجی آپریشن شروع ہونے پربھٹونے کہا کہ شکرہے!پاکستان بچ گیا۔ فلیٹزہوٹل میں پریس کانفرنس کرنے آئے تو میں نے کہا کہ 'آپ نے تاریخ پڑھی ہے اورآپ سے بہترکوئی نہیں جانتا کہ پاکستان نہیں بچا۔ اس پربولے:نہیں نہیں ہم کو حکومت دے دی جائے تو معاملات سدھار دیں گے۔میں بولا'' حکومت بنانا آپ کا حق ہی نہیں، اس لیے آپ کو کیوں دی جائے؟''بھٹونے یحییٰ خان سے ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیرخارجہ کے عہدے لیے، جو بڑی غلط بات تھی۔حنیف رامے سے میں نے بعد میں کہابھی کہ اپنے لیڈر سے کہو، انھیں اقتدار مل گیا لیکن پاکستان نہیں بچا۔ بھٹو کے ساتھ جو ہوا میری نظر میںوہ ان کا مقسوم تھا۔انھوں نے شیخ مجیب کو اقتدار دینے کی مخالفت کرکے جمہوری نظام سے دغا کیا۔اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے دیا اور باقاعدہ دھمکی دی کہ جواس میں شریک ہوگا، وہ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔بھٹو کا الیکشن کے بعد مجیب سے پاور شئیر کرنے کا مطالبہ غلط تھا۔

میں نے ان سے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ، ایک پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے، حکومت بنانا اس کا جمہوری حق ہے،آپ مضبوط اپوزیشن ہوں گے،اس لیے سیاسی نظام میں بڑا توازن ہوگا۔مجیب کو اقتدار اس لیے نہیں دیا گیا کہ ایک تو انھوں نے زرعی اصلاحات کرنے کا عزم ظاہر کیا ، دوسرے ان کا موقف تھاکہ جب تک مشرقی پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے ، فوج اور بیوروکریسی میںملازمت کا تناسب برابر نہیں ہوجائے گا، مغربی پاکستان سے بھرتی نہیں ہوگی، اس باعث پیپلز پارٹی، بیوروکریسی اور فوج کی تگڈم بن گئی۔بھٹو بیوروکریسی اور فوج سے ملے ہوئے تھے۔پیپلز پارٹی کو چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ میں جاتی اور ادھر concession مانگتی،لیکن یہ لوگ حکومت میں شامل ہونا چاہتے تھے،اور اس قسم کی ڈیل چاہتے تھے جس میں یحییٰ صدر، مجیب وزیراعظم اور بھٹو وزیرخارجہ ہوں، تو یہ سب چیزیں تو نہیں ہوسکتی تھیں۔ یحییٰ خان نے بھٹو کو استعمال کیااور ان کے تعاون سے اجلاس ملتوی کرایا۔یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں جو ڈھونگ ضمنی الیکشن کرایا، اسے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں نے سپورٹ کیا ۔

سعودی سفیرکو مذاکرات میں ڈالنا بیوقوفی تھی

بھٹونے جاگیرداروں کو ساتھ ملایا۔پارٹی کا آرگنائزیشن نہیں بننے دیا۔ پیپلز پارٹی کو لشکرکے طور پررکھا۔صوبائی حکومتیں غیرقانونی طور پر ختم کیں۔جنگی قیدیوںنے مشرقی پاکستان میں جو کچھ کیا، ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا لیکن کسی پرمقدمہ نہیں چلایا۔کم سے کم جو اوپرکے لوگ تھے، ان کا ٹرائل توکرتے۔ 1977ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت تو مل ہی جاتی لیکن دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی سے دھاندلی کرائی گئی۔بھٹو نے خود کو بلامقابلہ منتخب کرایا۔ جان محمد عباسی کو اغوا کرایا، آخر وہ بھٹوکے مقابلے میں کتنے ووٹ حاصل کرلیتے۔بھٹوکی تقلید میں وزرائے اعلیٰ بھی بلامقابلہ منتخب ہوگئے ۔ پی این اے کی تحریک کے دوران بھٹو نے ناراض دوستوں سے مشورے کے لیے رابطے شروع کئے،اس ضمن میں رائو رشید ملنے آئے تو میں نے ان سے کہا کہ بھٹو سے کہیں دھاندلی میں ملوث تین وزرا کوگرفتارکریں۔ بھٹو اپنی کرسی مضبوط ہونے کی بات کرتے رہے، جو بالکل غلط تھی۔انھیں ہٹانے کے لیے باہر سے پیسہ بھی آیا۔

امریکا اور سعودی عرب کی قربت ظاہرتھی۔اس لیے پی این اے کی تحریک کے دوران سعودی سفیرکو بیچ میں ڈال کر بھٹو نے بیوقوفی کی، جس وقت معاملات سدھرسکتے تھے، اس وقت مانے نہیں اور کرسی مضبوط ہونے کی بات کرتے رہے۔ کئی سنیئر جرنیلوںکو سپرسیڈ کرکے ضیاء جیسے خوشامدی کوآرمی چیف بنانے کی فاش غلطی کا ارتکاب کیا۔ضیاء الحق آرمی چیف بننے سے قبل غالباً جس وقت وہ ملتان میں جی او سی تھے تو لاڑکانہ گئے اور بھٹو کے والد کے مزارپر جھاڑودی، اور ادھرموجود مجاور سے کہا کہ میرے اس عمل کی خبربڑے صاحب کو ملنی چاہیے۔کوثرنیازی جیسے آدمی کو وزیراطلاعات بنایا، جس کے بارے میں خود بھٹو صاحب نے مجھے بتایا تھاکہ ایوب دور میں انھوں نے مذہبی سیاسی جماعتوں کی جاسوسی کے لیے ان کے پانچ سو مقرر کرائے تھے۔فلیٹز میں پریس کانفرنس کے بعد بھٹو نے مجھے روک لیا،ادھر کوثرنیازی بھی تھا، میں نے کہا ، بھٹو صاحب!یہ وہی آدمی نہیں ہے، جس کے آپ نے پانچ سو مقرر کرائے تھے، بھٹو کہنے لگے، میں اسے ابھی یہاں سے بھیج دیتا ہوں۔بھٹو نے آواز لگائی، او مولوی ادھر آئو، ذرا دو کافیوں اور سینڈوچ کا آرڈر دو، اس پر کوثرنیازی بھاگتا ہوا گیا، حالانکہ وہ فون پر بھی آرڈر دے سکتا تھا۔

زرعی اصلاحات اور بھٹو کے بال

1977ء میں ہمارا خیال تھاکہ پیپلز پارٹی پڑھے لکھے اور مڈل کلاس کے لوگوںکو ٹکٹ دے گی۔لیکن پنجاب اور خصوصاً جنوبی پنجاب کے وہ جاگیردارجو بھٹوکے خلاف عملی طور پر سرگرم رہے تھے، جنھوں نے ملتان میں ان کا جلسہ ناکام بنانے کے لیے سانپ اور پانی چھوڑ دیا تھا، انھیں بھٹو صاحب خط لکھ رہے ہیں کہ ان کی پارٹی میں آجائیں کیوںکہ الیکشن وہ جیتے گی۔میں نے اس سلسلے میں ان سے بات کی تو کہنے لگے، نہیں نہیں،ہم مڈل کلاس کے لوگوں کو بھی ٹکٹ دے رہے ہیں،میں نے کہا کہ ہاں!دس فیصد مڈل کلاس اور باقی سارے فیوڈل ۔بھٹو نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ میں انھیں قیوم خان کی طرح ٹریٹ کرتا ہوں ، جس پر میں نے کہا کہ ایسی بات نہیں، وہ تو سیاسی مفاد پرست ہے، اس سے تو میں بات بھی نہیں کرتا۔ بھٹو سے میں نے ایک بار پوچھا،آپ بڑی بڑی صنعتیں تو لینا چاہتے ہیں لیکن زرعی اصلاحات نہیں کرنا چاہتے،اس پر کہنے لگے کہ ایوب خان کی اصلاحات سے میرے بال کم ہوگئے، اور اب تم چاہتے ہو، جو بال بچ گئے ہیں، وہ بھی نہ رہیں۔


پھانسی پر نیپال جیسا احتجاج کہیں اور نہیں ہوا

بھٹو کی پھانسی پر نیپال جیسا احتجاج پاکستان میں بھی نہیں ہوا۔ شاہ بریندرا نے مظاہرین سے کہا کہ وہ ان کا احتجاج حکومت پاکستان تک پہنچائیں گے۔ لوگوں نے بادشاہ کے محل تک بہت بڑا مارچ کیا۔ ایسا نیپالی نیشنل ازم کے تصور کے زیراثر ہوا ہوگا کیونکہ بھٹو نے بھی پاکستانی نیشنل ازم کو ابھاراتھا۔بھٹو ان کی نظر میں ایسے سیاسی لیڈر تھے،جو تبدیلی کے لیے کام کررہے تھے۔بھٹو کی پھانسی رکوانے کی کوشش تو بہت سے ملکوں نے کی لیکن پھانسی کے خلاف سب سے بڑا احتجاج نیپال میں ہوا اور یہ بات بہت کم لوگوں کو پتا ہے۔

نقی! تم توہر وقت میری مخالفت کرتے ہو

حنیف رامے نے بتایا کہ بھٹو صاحب دانشوروں سے گفت وشنید چاہتے ہیں اس سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی میں انٹرایکٹو قسم کی تقریب ہوگی ، لیکن ہم ادھرگئے تو ایسا نہیں تھا ،بھٹو کو ہی تقریر کرنا تھی۔ دوران تقریرجب انھوں نے کہا کہ سرمایہ دار اگر اپنا پیسہ باہر سے واپس لے آئیں تو انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا، جس پر میں کھڑ ا ہوگیا اور کہا کہ سرمایہ ان کا نہیں، سرمایہ تو ہمارا ہے، قوم کا ہے ، اس لیے وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کچھ نہیں کہیں گے۔ایک بار پھر کوئی بات کی تو میں نے پھر انھیں ٹوکا، اس پر کہنے لگے کہ نقی تم تو ہر وقت میری مخالفت کرتے ہو۔ادھر موجود پولیس افسر مجھے پکڑنے کے لیے بڑھا تو بھٹو نے اسے منع کردیا اور کہا کہ نقی میرا دوست ہے اور ہمارے درمیان ایسا ہوجاتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کوپارٹی کا سیکریٹری بنانے کی تجویز

ایوب دور میں جب ہم ان کی تعلیمی پالیسی کو ہدف تنقید بنارہے تھے تو ان دنوں مسلم لیگ کنونشن کا اجلاس ہونا تھا، جس کے روح رواں پرانے مسلم لیگی چوہدری خلیق الزماں تھے۔انھیں معلوم تھا کہ ہم مظاہرے کررہے ہیں ، اس لیے کنونشن لیگ کے اجلاس میں بھی کہیںہم احتجاج نہ کریں ، انھوں نے طلبہ تحریک کے سارے بڑے رہنمائوں کو گھر بلایا۔چوہدری صاحب!نے ہم سے فرمایاکہ بھئی!تم لوگ کن چکروں میں ہو، پاکستان تو لوٹ مار کے لیے بنا ہے، اس پر میں نے ان سے کہا کہ اس کام میں آپ کافی ماہر ہیں، ہم جو کررہے ہیں، ہمیں کرنے دیں۔ کنونشن لیگ کے اجلاس میں ہم گئے اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس اجلاس میں بھٹو کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ادھرانھوں نے ڈپٹی کمشنر کوضلع میں پارٹی کا سیکریٹری اورکمشنر کوڈویژن میں سیکریٹری جنرل بنانے کی تجویز پیش کی، مطلب یہ کہ وہ بیوروکریسی کو براہ راست سیاست کا حصہ بنانے کی بات کررہے تھے۔بھٹو صاحب کو میں نے پہلی باریہیں دیکھا۔

لیفٹ کو مذہب مخالف عناصر سے بھی نقصان پہنچا : لیفٹ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے پاکستان کا جو مین اسٹریم ہے، اسے جمہوریت سے ہٹنے نہیں دیا۔پارلیمانی جمہوریت پرفوج کی طرف سے تین بڑے حملے ہوئے، لیکن اس کے باوجود یہ بات وہ راسخ نہیں کرسکے کہ پاکستان میں پارلیمانی طرز حکومت نہیں چل سکتا، اوراس عمل میں لیفٹ کا بڑا بنیادی کنٹری بیوشن ہے۔لیفٹ آمریت کی مخالفت میں پیش پیش رہا۔ فوجی حکمران کو اگر کبھی سپورٹ کیابھی تو وہ صرف کسی خاص پالیسی ایکشن پر مثلاً ایوب خان نے امریکا کے خلاف اسٹینڈ لیا تو اسے سپورٹ کیا، یا مشرف نے پارلیمنٹ میں عورتوں کی نمائندگی بڑھائی یا حدودآرڈیننس کو ختم کیا تو لیفٹ نے اسے سپورٹ کیا۔لیفٹ کی دوسری اہم کامیابی پاکستان میںرجعت پسندانہ سوچ کے بجائے ترقی پسند فکرکی بالا دستی قائم رکھنا ہے،پاکستان میں جو ریلیجو پالیٹکل پارٹیاں ہیں، انھیں انتخابی سیاست میں کبھی بڑی کامیابی نہیں ملی۔

قیام پاکستان کے بعد ہمارا ملک امریکی چنگل میں چلا گیا لیکن اس کے باوجود لیفٹ ختم نہیں ہوسکا، جب کہ اس کے خلاف بڑی قوتیں سرگرم تھیں۔ تقسیم کے وقت سکھوں کے یہاں سے چلے جانے کاپاکستان میں لیفٹ کوبہت نقصان ہوا کیوں کہ وہ لوگ بہت زیادہ سرگرم تھے، لیفٹ نے46ء کے الیکشن میںمسلم لیگ کو کامیاب کرانے میں اہم کردار اد کیا،پنجاب کے وہ علاقے جو جاگیرداروں کا گڑھ تھے، اور جہاںبڑی بڑی زمینداریاںتھیں،ادھروڈیروں کے مقابلے میں مسلم لیگ والے تو الیکشن مہم نہیں چلاپاتے تھے،سکھ کمیونسٹ مہم چلاتے، اور کسان کمیٹی جلسوں کا انتظام کرتی۔لیفٹ سے غلطی یہ ہوئی کہ اس میں ایک عنصر ایسا تھا جو کمیونسٹ اور مارکسٹ نہیں بلکہ مذہب مخالف تھا۔کمیونزم بنیادی تو پر مذہب مخالف فلاسفی نہیں ، یہ کیپٹلسٹ مخالف فلاسفی ہے۔کمیونزم کا اصل ہدف تو سرمایہ داری نظام تھا لیکن اس کے بارے میں مذہب مخالف ہونے کے تاثرسے لیفٹ کو نقصان پہنچا۔

سجاد ظہیر کو کمیونسٹ پارٹی کا سیکریٹری بناناغلط تھا:کمیونسٹ پارٹی نے تقسیم کو سپورٹ کیا، اس لیے اسے یہ حق نہیں تھا کہ وہ کسی کوبھی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا جنرل سیکریٹری نامزد کرے ،یہ ایک طریقے سے کالونیل سوچ تھی۔بالادستی جمانے والی اپروچ تھی۔جب آپ نے تقسیم کو مان لیا، نئے آزاد ملک کو مان لیا تو پھرسجاد ظہیر نہیں یہاں کے کسی رکن کا حق تھا کہ وہ یہاں کے ارکان کی مرضی سے جنرل سیکریٹری بنتا۔اور یہ کمیونسٹوں کابنیادی اصول رہا ہے کہ جو لوگ گرائونڈ پر ہوں وہ فیصلہ کریں گے، لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا ، اس لیے میرا خیال ہے سجاد ظہیر کوامپوز یا انفورس کرنا بنیادی غلطی تھی، جس کویہاں مانا گیا، اس زمانے میں لوگ اس بات کے مخالف تھے لیکن کمیونسٹ ڈسپلن میں یہ کہنا ممکن نہیں تھا۔کمیونسٹ پارٹی یہاں متحد نہیں رہی۔ایک تو چھوٹی تنظیم،اور اس میں بھی اتنے گروہ بن گئے، جس سے نقصان ہوا۔یہاں کی انٹیلی جنس سروس نے ان میں اپنے بہت سے لوگ داخل کردیے، جس نے تقسیم کو اور بھی گہرا کردیا۔ طالبان کے سامنے بھی وہ جمہوری قوت کھڑی ہوسکتی ہے ،جس کو لیفٹ سپورٹ کررہا ہو۔ہندوستان میں مڈل کلاس فاشزم کی طرف بڑھ رہی ہے، اس لیے لیفٹ کوچاہیے جمہوریت مضبوط بنائے، ہندوستان میں آرمی چیف کبھی اتنا vocal نہیں ہوا، جتنا اب ہے۔اندراگاندھی کے سامنے جب آرمی چیف نے کچھ کہا تھا تو اس نے فوراً اسے ہٹادیا تھا۔

جماعت اسلامی نے ایوب کی مخالفت کیوں کی؟جماعت اسلامی پاکستان بننے کی مخالفت تھی،اس لیے وہ ایوب خان کی مخالفت کرکے خود کوrecognizeکرانا چاہتی تھی، مادر ملت ، قائد اعظم کی بہن تھیں، اس لیے ان کی حمایت سے وہ پاکستان مخالف جماعت کا تاثر زائل کرکے پاکستانی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش میں تھے، اس لیے،مولانا مودودی جوعورت کی حکمرانی کے خلاف تھے، انھوں نے فاطمہ جناح کی حمایت کی اور کہا کہ ایک طرف عورت ہے، جس میں عورت ہونے کے علاوہ کوئی خامی نہیں ، اور دوسری طرف مرد ہے، جس میں مرد ہونے کے سوا خوبی نہیں۔ مادرملت کا ساتھ دے کر وہ پاکستانیت کو قبول کررہے تھے۔ جماعت اسلامی نے ایوب خان کوبعد میں سپورٹ بھی کیا۔فوج کے وہ اس لیے حامی ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ میں داخل ہوسکیں ،ایوب خان سے قبل یہ لوگ بیوروکریسی میں اپنا رسوخ بڑھاتے رہے تھے، فوجی حکومت آگئی تو انھیں اندازہ ہوگیاکہ طاقت کا اصل مرکزفوج ہے، تو یہ اس طرف جانے لگے ۔ان کی طرف سے ایوب کی حمایت کا سلسلہ جنگ ستمبر سے پہلے شروع ہوگیا تھا۔ایوب خان کے آنے کے بعد اس لیے بھی سپورٹ نہیں کیا کہ فوجی حکومت کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا گیاتھا۔مشرقی پاکستان تو سارا اس کے خلاف تھا اور جماعت اسلامی کی تھوڑی موجودگی ادھر بھی تھی۔ایوب کے بعد جماعت اسلامی نے یحییٰ خان کا ساتھ دیا ،ضیاء الحق کے دور میںتو فوج میں ان کا رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا۔

اصغر خان فوج کے ہاتھوں استعمال ہوئے : یحییٰ خان کے دور میں نظریہ پاکستان کی اصطلاح کا جو بہت زیادہ ذکر ہونے لگا تو اس میں جنرل شیر علی خان کے ساتھ ساتھ اصغر خان کا بھی کنٹری بیوشن تھا۔نظریہ پاکستان کی تھیوری امریکی، سعودی اور اس وقت کی پاکستانی حکومت سب کے مفاد میں تھی، سب نے اس سلسلے میں اپنا حصہ ڈالا۔کیوں کہ اس زمانے میں وہ باقاعدہ اس کوشش میں تھے کہ پاکستان کو بالکل رائٹ کی طرف جھکا دیا جائے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے، اصغر خان نے نظریہ پاکستان کے حق میں چودہ مضمون لکھے۔اس کام میں شیر علی پیش پیش تھے، وہ مضامین کا پورا متن جاری کراتے۔نفس مضمون ان تحریروں کا یہی ہوتا کہ پاکستان کو نظریاتی مملکت ثابت کیا جائے۔اصغر خان سرکاری افسر شاہی میں ایماندار تھے، سیاسی طور پر ناسمجھ تھے۔ وہ شروع میں بھٹو کی حمایت میں آئے لیکن ان کے اقتدار میں آنے پر راستہ الگ کرلیا۔پی این اے تحریک میں تو انھوں نے حد کردی،جنرل نیازی جلسوں میں قیادت کے ساتھ کھڑا ہوتا۔پی این اے کی تحریک کے پیچھے امریکا کا ہاتھ تھا۔بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کی بات بھی وہ کرتے رہے ۔ وہ فوج کے ہاتھوں استعمال ہوئے،وہ سمجھ رہے تھے کہ پی این اے تحریک کے بعد اقتدار ان کے پاس آئے گا۔ جب وہ فضائیہ کے سربراہ بنے اس وقت ایسے بڑے فیصلوں میں امریکا کی رائے شامل ہوتی تھی،امریکا اگر ان کے خلاف ہوتا تو وہ یہ عہدہ نہ حاصل کرپاتے۔

ہندوستانی مسلمان ، پاکستان سے کب مایوس ہوئے؟تقسیم سے قبل مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ ہندوستانی مسلمان اس لیے جذباتی طورپر وابستہ تھے ، کہ ان کا خیال تھا، انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے لیا اور اب جب وہ واپس آرہا ہے تو ان کے پاس جارہا ہے، جن کے پاس نہیں تھا۔کچھ ظاہر ہے، جیسے مسلمانوں میں عصبیت تھی، ویسے ہی ہندوئوں کے ایک حلقے میںبھی تھی۔ہندو مہاسبھا تھی۔شدھی کی تحریک چلائی گئی۔تقسیم کے بعد جو مسلمان پڑھ رہے تھے یا کوئی تعلیم مکمل کرچکتاتو اس کی خواہش پاکستان جانے کی ہوتی۔ہندو بھی کہتے تھے کہ بھئی!تم یہاں کیوں رہ رہے ہو؟ اب تم نے پاکستان بنالیا ہے تو وہاں جاتے کیوں نہیں؟یوپی کے مسلمانوں نے یہ نعرے بھی لگائے کہ سینے پہ گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے۔لے کر رہیں گے پاکستان، بن کر رہے گا پاکستان۔چٹیا راج نہیں چلے گا۔دھتیا راج نہیں چلے گا، وغیرہ وغیرہ۔

1947ء کے فوراً بعد ہی ہندوستانی مسلمانوں کو امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑا۔اس زمانے میں جو تعلیم یافتہ ہے، وہ تو پاکستان آرہا ہے، اور اس کے آنے کی وجہ ہے کہ اسے ادھر نوکری نہیں مل رہی، سوائے چند پیشوں کے، مثلاً انجینئرنگ وغیرہ میں۔جیسے میرے بھائی نے علی گڑھ سے انجینئرنگ کیا تو انھیں نوکری مل گئی۔لوگ کہتے تھے کہ پاکستان جائویہاں تم کیا کررہے ہو۔اس صورت حال میں لوگوں نے کاروبار کیا، اس میں کامیاب بھی ہوئے۔اس سے پہلے تو نادرن انڈیا کے مسلمان تو کاروبار میں نہیں تھے، سوائے ایک دو شہروں کے۔مسلمانوں نے کاروبار میں ترقی کی ، جس سے تقسیم کے بعد کئی جگہوں پر فسادہوا۔مثلاً بریلی میں ہوا۔لکھنؤ میں جہاں تقسیم کے وقت بھی فساد نہیں ہوا ادھر بھی فساد ہوا ۔ہندوستانی مسلمانوںکی پاکستان سے امید 65ء کی جنگ کے بعد بھی قائم رہی۔ 1971ء کی جنگ کے بعد وہ پاکستان سے مایوس ہوئے، جب انھوں نے دیکھا کہ ہم نے مشرقی پاکستان میں مسلمانوں کو مارا۔عورتوں کا ریپ کیا۔ اور اب تو ہندوستانی مسلمان ہماری طرف بالکل بھی امید کے نگاہ سے نہیں دیکھتے۔

ایوب خان مسکرا کر چل دیے: ایک بار ایوب خان شکار کے لیے حیدرآباد آئے، تو میں رپورٹنگ کے لیے ائیرپورٹ گیا،اس زمانے میں دو تین صحافیوں کو ہی اجازت ہوتی تھی، ایوب خان نے کہا کہ آپ نے کوئی سوال نہیں کیا۔میں نے کہا کہ ہم کیوں آپ کا شکارخراب کریں، وہ کہنے لگے نہیں آپ سوال پوچھیں، اس پر ہم نے کہا کہ آج کل بڑی خبریں ہیں کہ کواپریٹو کے لاکھوں روپے لوگ واپس نہیں کررہے ہیں، اور اس میں آپ کے دوست بھی شامل ہیں۔کہنے لگے''میرے کون سے دوست؟کوئی نام؟میں نے کہا کہ ہاں نام ہیں ۔آپ کے دوست بہاولپور کے حسن محمود اس معاملے میں ملوث ہیں۔اس پرایوب خان مسکرا کر چل دیے۔ میرے سوال پوچھنے پرکمشنرمسرور حسن خان ناراض ہوئے اور پی پی آئی کے معظم علی سے میرے بارے میں کہا کہ یہ تم نے کس کو بھیج دیا۔یہ بندہ ٹھیک نہیں ہے،پہلے تو سیدھا سا آدمی تھا۔

جو حقوق آئین نے دیے ہیں، ان سے متعلق آگاہ کیا جائے اور یہ ادارہ عین انہی مقاصد کے لیے کام کرتا ہے ۔''

حسین نقی جس زمانے میں کراچی میں تھے ، اس وقت ہماری قومی سیاست میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے، جن کے اثرات سے روشنیوں کا شہر ابھی تک باہر نہیں آسکا، ان میں سے دوایک واقعات کے بارے میں ہم نے جاننا چاہا تو انھوں نے جواب دیا ''کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل کرنے کے فیصلے سے کراچی کے لوگوں کے علاوہ بنگالی بھی خوش نہیں تھے۔کراچی کے لوگوں میں یہ احساس تھا کہ سارے دفاتریہاں سے منتقل ہوجائیں گے۔بنگالیوں کے لیے ڈھاکا سے اسلام آباد جانے کی بہ نسبت کراچی آنا کہیں زیادہ آسان تھا، کراچی تو وہ پانی کے جہازپربیٹھ کرآسکتے تھے۔ پہلے تو گڈاپ کے علاقے میں دارلحکومت بننا تھا ۔''

٭ ''اور وہ جو ایوب خان نے'' آگے سمندر ہے'' والی بات کی اور صدارتی الیکشن کے بعد کراچی کے ایک علاقے میں گوہر ایوب کی مہم جوئی کے بارے میں کچھ بتائیں؟''

''یہ بات درست ہے،ایوب خان نے اردو بولنے والوں سے کہا تھا کہ وہ یہاں سے کہاں جائیں گے ''آگے سمندر ہے۔''ایوب خان کے ایک جلسے میں جوتے پھینکے گئے،لیکن انٹیلی جنس پتانہیں چلاسکی کہ یہ کام کس نے کیا۔گوہرایوب نے اپنے باپ کی فاطمہ جناح کے مقابلے میں جیت کی خوشی میں جلوس نکالا جس میں ایوب خان کے حامیوں نے فائرنگ کی تھی، اس زمانے میں فائرکوئی نہیں کرتا تھا۔بڑے سے بڑے بدمعاش کے پاس بھی سب سے بڑا ہتھیار خنجر ہوتا۔شیرو اور دادل جو بڑے بدمعاش تھے، ان کے پاس بھی خنجرہوتا تھا۔فائرنگ کی روایت گوہر ایوب کے اس جلوس سے پڑی۔''

حسین نقی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایوب خان کا مارشل لاء1959ء میں ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کا راستہ روکنے کے لیے لگاکیونکہ اسکندر مرزا اور ایوب خان دونوں کا خیال تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں وہ سیاسی قوتیں اقتدار میں آجائیں گی جنھیں وہ ناپسند کرتے ہیں۔

حسین نقی سمجھتے ہیں:'' ممتاز بھٹو کی وزارت اعلیٰ میں سندھی اور اردو بولنے والوں میں دوری بڑھی۔ ان کے اقدامات کے پیچھے بھٹوتھے۔سندھی گریجویٹ ایسوسی ایشن کی بھٹو نے سرپرستی کی۔انھیں بہت ساری نوکریاں دیں۔سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا گیا جس سے ساری فضا تعصب پرمبنی ہوگئی تھی، رئیس امروہوی جیسے میچور لوگوں نے بھی ''اردو کا جنازہ ہے، ذرادھوم سے نکلے'' جیسی بات کی۔سوال یہ ہے کہ جب سندھی کا جنازہ نکلا تھا، کیا اس وقت ان لوگوں نے احتجاج کیا تھا؟ ''

٭ ''نقی صاحب!سندھی زبان کے ساتھ ایسے کب ہوا تھا؟''

'' ایوب خان کے دور میں حیدرآباد میں غالباً ٹکا خان سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربنے اور ان کا بیٹا اسکول گیا تو روتا ہوا واپس آیا کیوں کہ اسکول سندھی میڈیم تھا، اور وہ اس سے پہلے اردو میڈیم میں پڑھتا رہا ہوگا۔ سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹراس پر بڑے پریشان ہوئے تو ڈائریکٹر ایجوکیشن رضی الدین صدیقی نے ان سے کہا کہ صاحب !اس میں پریشانی کی کیا بات ہے، ایک مارشل لاء آرڈر لکھ دیں تو آج سے سندھی کی جگہ اردو ذریعۂ تعلیم ہوجائے گی۔ اس پرٹکا خان نے کہا کہ آپ ہی لکھ دیں،تو پھررضی الدین صدیقی نے آرڈرلکھا، جس پرسب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے دست خط کردیے اور سندھی ذریعۂ تعلیم نہیں رہی۔یہ بالکل غلط ہوا۔میں اس کے خلاف تھا۔اس وقت اردو والوں کو اس عمل کے خلاف آوازاٹھانی چاہیے تھی۔میں نے طالب علم رہنما کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی میں ہمیشہ سندھی چیئرقائم کرنے پر زور دیا کہ جب باقی چیئرز ہیں تو سندھی کیوں نہیں؟ آخر یہ یونیورسٹی سندھ میں ہے۔ٹیلنٹیڈکزن بھٹوکی حمایت کے بغیرخود کچھ نہیں کرسکتے تھے۔دونوں میں فرق یہ تھا کہ ممتازبھٹوBlatant تھے۔ بھٹو Sophisticated تھے۔ بھٹو دور میں سائٹ میں مزدوروں کی تحریک کو کچلا گیا، دوسرے ملتان میں بھی مزدوروں کو مارا گیا۔دونوں بڑے افسوسناک واقعات ہیں۔''

٭ ''کراچی یونیورسٹی سے آپ کے Rusticate ہونے کے پیچھے کیا کہانی تھی؟''

'' ہاسٹل میں بلوچ طالب علموں کا جھگڑا ہو گیا، جس پرتین بلوچ طالب علموں کو Rusticateکردیا گیا۔ بلوچ لڑکوں نے یونین کے الیکشن میں میری حمایت کی تھی،جب کہ وی سی اشتیاق حسین قریشی میری جگہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مکرم علی خان شیروانی کی کامیابی چاہتے تھے۔اسلامک اسٹڈیزڈیپارٹمنٹ میں میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا کہ میں شیعہ ہوں ، اس لیے مجھے ووٹ نہ دیا جائے۔شعبہ انگریزی میں مجھے کمیونسٹ قرار دے کر مہم چلائی گئی،اس سب کے باوجودمیں اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن جیت گیا۔ ہاسٹل میں بلوچ لڑکوں کی جن سے لڑائی ہوئی تھی،ان سے صلح ہوگئی تھی لیکن وائس چانسلران بلوچ لڑکوں کو یونین کے الیکشن میں میری حمایت کی سزا دینا چاہتا تھا۔بلوچستان سے لڑکے اسکالرشپ پر آتے تھے، ہم نے وی سی سے کہا کہ اب معاملہ ختم ہو گیاہے ، اس لیے آپ فیصلہ واپس لے لیں ، لیکن وہ مانے نہیں اور کہنے لگے کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی ہوئی ہے،اس لیے سزا ضرور ملے گی۔میں نے زیادہ زور دیا تو کہنے لگے، ان کی جگہ کیوں نہ آپ کو Rusticateکردیں؟ میں نے کہا کہ ہاں،ضرور اگر ایسا ہوسکتا ہے تو مجھے کردیں لیکن بلوچ طالب علموں کو نہ کریں،اس پروہ مان گئے اور مجھے تین برس کے لیے Rusticateکردیا، اس وقت میں کراچی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کررہا تھا۔

٭ ''صحافت میں کیسے آئے؟''

'' یونیورسٹی سے فارغ ہونے پر سوچا کہ ''جنگ'' اخبار جوائن کر لوں۔ سجاد باقر رضوی کو اپنے ارادے سے آگاہ کیاتو وہ کہنے لگے کہ صحافت ہی کرنی ہے تو انگریزی صحافت میں جائو ، اردو اخبار میں بیکارہے۔پی آئی ڈی کے ضیاء الحسن موسوی کی وساطت سے ''پی پی آئی'' میں گیا ،ایجنسی کے جنرل منیجر جاوید بخاری سے ملاتو انھوں نے کہا کہ تم لیڈر ٹائپ آدمی ہو، صحافت کرلو گے؟میںنے جواب دیا: 'وہ الگ بات ہے، لیکن جو کام میرے ذمے لگائیں گے وہ کروں گا۔'اس پران کا کہنا تھا کہ دو سال جم کرکام کرو، اور اس دوران میں اور کچھ نہ کرنا۔دو سال خوب کام کیا۔رپورٹنگ کی۔ سب ایڈیٹری کی۔اکثر دفتر میں سوجاتا تھا۔کچھ عرصہ کراچی میں کام کیا ، پھر حیدرآباد تبادلہ ہوگیا، ادھر سے تبادلہ ہوا تو لاہور آگیا۔ یہاں نیوز ایجنسی کا چیف رپورٹر بنا اور جب اسے چھوڑا تو بیورو چیف کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ ''

٭ '' منور حسن بھی تو کبھی این ایس ایف میں آپ کے ساتھیوں میں شامل تھے، ان سے بعد میںملناجلنا رہا؟

'' منور حسن جماعت اسلامی کے سیکرٹری بننے کے بعد ہمارے گھر آئے تو کہنے لگے کہ اب ہم دونوں امریکا کے خلاف ہیں، اس لیے اب ہم دونوں ساتھ بھی کچھ کرسکتے ہیں۔میں نے کہا کہ امریکا کی مخالفت کی تمھاری وجہ اور ہے اور ہماری وجہ اور ہے۔نظریاتی اختلاف کے باوجود ہمارے سوشل تعلقات ہمیشہ رہے۔یہ گورنمنٹ کالج میں تھے،اور ہم تین نمبرناظم آباد میں رہتے تھے۔دوستی ان کی نفیس صدیقی کے ساتھ زیادہ تھی۔گورنمنٹ کالج یونٹ کے ممبر تھے۔مارشل لاء لگا تو ان کے بھائی جو انجینئرتھے،اور پشاور میں تعینات تھے، وہ ان کو اپنے ساتھ لے گئے تھے، اب بعد میں کہیں میں نے ان کا بیان پڑھاکہ پشاور میں انھوں نے مولانامودودی کے مضامین پڑھے اور متاثر ہوئے۔ پشاور سے واپس آئے تو این ایس ایف کے بجائے جمعیت میں چلے گئے۔''

حسین نقی قیام پاکستان کے بعد کے حالات سے خوب اچھی طرح واقف ہیں، اور ان کے خیال میں معاشرے میں گڑبڑ اس وقت ہی شروع ہوگئی تھی، جس کی بنیاد متروکہ املاک کی نیلامی کے غلط طریقہ کار سے پڑی۔ان کے بقول''میاں افتخار الدین نے اس وقت کہا بھی کہ متروکہ املاک کے بارے میں پالیسی ٹھیک نہیں لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ ہندوستان میں ساری متروکہ املاک نیلام ہوئیں، جس میں ہر کوئی حصہ لے سکتاتھا،بولی دے سکتا تھا۔یہاں پرتو دوگواہ لے آئیں، جو اگر گواہی دے دیں کہ ہندوستان میں آپ کا اتنے مرلے کا مکان تھا تو آپ کو اس کے بدلے میں الاٹمنٹ ہوجاتی، میاں افتخارالدین اس طریقہ کار کے خلاف تھے لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی،اور پاکستان بنتے ہی کرپشن کی بنیاد پڑگئی۔سابق چیف جسٹس پاکستان شیخ ریاض احمد نے کچھ عرصہ قبل کہا بھی ہے کہ پاکستان بننے کے وقت سے تالے ٹوٹ رہے ہیں۔قائد اعظم کی فکر کو ہم نے ملک بننے کے فوراً بعد رد کردیا۔ ''

حسین نقی کے خیال میں، ضیاء آمریت نے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور ان کی افغان پالیسی کا خمیازہ قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔ سوویت یونین کے گرم پانیوں تک آنے کی بات سے متعلق سوال پر کہنے لگے '' ہمارے ہاں سوویت یونین کے افغانستان آنے کا مقصد گرم پانیوں تک رسائی کی خواہش بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بات میرے خیال میں درست نہیں۔ اس بات کوتو لڑنے کا بہانہ بنایا گیا،سوویت یونین آپ کے ملک پر حملہ تو نہیں کرناچاہتا تھا۔ سوویت یونین کے ہمسائے میں آنے سے ہم پریشان ہوگئے جبکہ ہمارے ملک میںتو 1947 ء کے بعد سے سپر پاور بیٹھی تھی۔ اب تو ساری چیزیں سامنے آرہی ہیں۔اب توامریکا کے بڑے لکھنے والوں نے مان لیا ہے کہ افغانستان میں مداخلت کی وجہ یہ نہیں تھی، کہ وہ گرم پانیوں میں آنا چاہتے تھے۔وہ تو پہلے سے جاپان کے اردگرد تھے، مشرق وسطیٰ میں وہ تھے،گلف کے مائوتھ پران کے جہاز کھڑے تھے۔ بحرہ ہند میںان کے جہازتھے۔ بحرہ عرب میں ان کے جہاز تھے۔''

ایک سویلین حکومت سے دوسری کو انتقال اقتدار کی روایت کو وہ جمہوریت کے لیے مثبت پیش رفت سمجھتے ہیں۔ ان کی دانست میں،آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ بھٹو کے مقابلے میں زیادہ ہوشیاری سے کیا ۔ وہ نواز شریف کو عمران خان سے زیادہ ماڈریٹ مسلمان تصور کرتے ہیں۔ان کے خیال میں '' اپنے گذشتہ دور حکومت میں تو نوازشریف امیر المومنین بننے چلے تھے لیکن اب وہ کچھ بدلے ہیں، انھوں نے انتخابی جلسوں میں مذہب کا نام استعمال نہیں کیا، جبکہ عمران خان نے تو اپنے ایک جلسے میں اسٹیج پر نمازپڑھی۔ڈرون کے معاملے میں بھی وہ اسے گرانے کی بات کرکے ایک طرح سے Extreme پوزیشن لے رہے ہیں۔'' وہ نوازشریف کی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی کوبھی سراہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ نوازشریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جب بھارت سے تنائو کم کرنے کی کوشش کی تو لیفٹ نے اسے سپورٹ کیا اور اس اقدام کے حق میںسب سے زیادہ کالم عبداللہ ملک نے لکھے تھے۔
Load Next Story