بجٹ اور عوامی توقعات
عوام نے مسلم لیگ ن کو بھاری مینڈیٹ روائتی نہیں انقلابی اقدامات کے لئے دیا ہے
لاہور:
''آئندہ سے کپڑوں کے ایک جوڑے کے پانچ روپے زیادہ لوں گا''دھوبی نے کپڑے دیتے ہوئے کہا
''وہ کیوں؟بھئی خیریت ہے، ایکدم معاوضہ بڑھا دیا '' اشرف نے تھوڑی حیرانگی سے پوچھا
''آپ کو نہیں پتہ بجٹ آ گیا ہے، ہر چیز مہنگی ہورہی ہے، آخر ہم نے بھی تو گزارہ کرنا ہے'' دھوبی نے کہا
اشرف کو کچھ ایسی ہی صورتحال بازار میں بھی پیش آئی۔ مرغی کا گوشت خریدنے لگا تو اس کی قیمت فی کلو 50روپے بڑھ چکی تھی ۔ دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ اشرف کے لئے یہ کایا پلٹ کوئی نئی نہیں تھی کیونکہ ہر سال بجٹ کے موقع پر اشیاء کی قیمتیں بڑھنا معمول تھا ۔ اس مرتبہ پتہ نہیں کیوں اس کے ذہن میں تھا کہ شائد ایسا نہ ہو مگر وہی ہوا جو ہوتا آ رہا تھا ۔ مایوسی کے بادل پھر سے اشرف کی طرف بڑھنے لگے تھے جو گزشتہ چند دنوں چھٹ چکے تھے ، کیونکہ نئی حکومت سے سب نے توقعات وابستہ کر لیں تھیں کہ اب معمول سے ہٹ کر کچھ ہو گا۔
اس سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل تمام سیاسی پارٹیوں نے بڑے بڑے دعوے کئے ، یوں دکھائی دیتا تھا جیسے اس مرتبہ سیاسی پارٹیوں نے ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ عوام کی نظریں بھی ان سیاسی پارٹیوں پر لگی ہوئی تھیں جو حکومت کی اتحادی نہیں رہی تھیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں عوام کا رش اور جوش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اسی جوش و جذبے نے ایسے ووٹرکو بھی متحرک کیا جو مایوس ہو کر عرصہ دراز سے ووٹ ڈالنے ہی نہیں جاتا تھا، میڈیا نے اس حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، اسی وجہ سے عوام تمام تر سکیورٹی خدشات کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لئے جوق در جوق گھروں سے نکلے ۔ الیکشن نتائج نے ثابت کیا کہ عوام نے سابق حکومت کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے مسترد کیا۔ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتیں بھی بری طرح شکست سے دوچار ہوئیں۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے مقدر نے ایک مرتبہ پھر یاوری کی اور اس نے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے نئی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود پورے ملک میں نشستیں حاصل کیں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوا تو مسلم لیگ ن کو بھاری مینڈیٹ دینے والے عوام نے ساری توقعات مسلم لیگ ن سے وابستہ کر لیں کہ وہ گزشتہ ادوار کو نظر انداز کرتے ہوئے اس مرتبہ اپنے وعدے پورے کرے گی، میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم بنتے ہی صوبائی حکومتوں اور ڈرون حملوں کے حوالے سے جو پالیسی اپنائی اسے تمام طبقات نے سراہا ، خاص طور پر بلوچستان میں اپنی پارٹی کی بجائے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کرنے پر بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا کیونکہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ درمیانے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں ، مسلم لیگ ن کے ان اقدامات سے یوں دکھائی دے رہا تھا کہ وہ ملک کے مسائل حل کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ حکومت چونکہ مئی میں قائم ہوئی اور اس کے فوراً بعد جون میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے اس لئے عوام کو مسلم لیگ ن کی حکومت سے توقع تھی کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کا پورا خیال رکھا جائے گا ۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔
16 کھرب 51 ارب روپے خسارے کے ساتھ 35 کھرب 91 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بجٹ متوازن ہے اور اتنے سنگین معاشی حالات میں اس سے اچھا بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بجٹ کے ذریعے عوام پر بم گرا دیا گیا ہے اور ان کی مشکلات بڑھیں گی ، اس معاملے میں حامی اور مخالفین دونوں ہی مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں بجٹ نہ تو متوازن ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے عوام پر بم گرایا گیا ہے ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ عوام کو اس سے کسی قسم کا ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا ۔
اتنے بھاری حجم کے بجٹ میں عوام کے لئے صرف ایک بڑی خوشخبری ہے کہ 225ارب روپے توانائی کے بحران کے حل کے لئے مختص کئے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ وزیر خزانہ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ 500 ارب روپے کا سرکلر ڈیبٹ جلد ہی کنٹرول کرلیا جائے گا جس سے لوڈشیڈنگ میں کمی ہو گی ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کا وعدہ ایفاء تو نہیں کیا گیا تھا مگر جب پورے ملک سے احتجاج کی صدائیں بلند ہونے لگیں تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بادل نخواستہ دس فیصد تنخواہیں بڑھانے کا اعلان کر دیا، اسی طرح مزدور کی ماہانہ آمدن کم از کم پندرہ ہزار روپے ماہانہ کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس کا بجٹ تقریر میں ذکر تک نہیں کیا گیا ، عوام کو سب سے زیادہ مایوسی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے اس بیان سے ہوئی کہ وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا ٹائم فریم نہیں دے سکتے ، حالانکہ الیکشن مہم میں تین سال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کا بڑے زور شور سے دعویٰ کیا گیا تھا۔
عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں کئی سالو ں سے جس بری طرح پس رہے ہیں اس کا اندازہ سب کو ہے ، اس لئے سب کا خیال تھا کہ شائد اس مرتبہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا مگر اس کے برعکس ہوا اور حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کر دیا جو بظاہر تو مصنوعات بنانے والی کمپنیوں پر لگتا ہے مگر اس کا ان ڈائریکٹ بوجھ بالآ خر عوام کو اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ کمپنیاں اپنے منافع میں کمی نہیں آنے دیتیں ، سارا ٹیکس قیمت میں شامل کر دیا جاتا ہے، جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا سہرہ بھی میاں نواز شریف کے سر بندھتا ہے ، اس ٹیکس کو محصول چنگی اور ضلع ٹیکس کے متبادل کے طور پر نافذ کیا گیا تھا ، تب عوام کو یہ نوید سنائی گئی تھی کہ اس سے عوام پر بوجھ نہیں پڑے گے۔
مصنوعات تیار کرنے والے یہ ٹیکس اد اکریں گے، جب جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ عمل میں آیا تو تب پتہ چلا کہ اس سے تو ہر غریب آدمی زد میں آ گیا ہے ، غریب مزدور جس کی آمدنی تین سو روپے روزانہ ہے وہ بھی ایک چیز خریدنے پر اتنا ہی ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ روزانہ لاکھوں کا کاروبار کرنے والے کو بھی اتنا ہی ٹیکس اد اکرنا پڑتا ہے، ا س کی مثال یو ں دی جا سکتی ہے، ایک غریب آدمی صابن خریدے تو اسے تین روپے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جبکہ دولت مند کو بھی تین روپے ہی ادا کرنا پڑیں گے، گویا اس ٹیکس کے ذریعے پوری قوم کو اپنے نرغے میں لے لیا گیا ہے ، ایسی بات نہیں کہ حکومت محصول چونگی اور ضلع ٹیکس کو بھول گئی ، اس کی جگہ سڑکوں پر ٹال ٹیکس کا نفاذ شروع کیا گیا جو پہلے صرف پلوں پر لاگو تھا ۔
یوں ہر نئی بننے والی سڑک پر ٹال ٹیکس لگا دیا گیا اور اب تقریباً ہر بڑی سڑک اس کی زد میں آ چکی ہے، حالانکہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے حوالے سے ٹیکس پہلے ہی تمام گاڑیوں سے وصو ل کیا جا رہا تھا اوراب بھی گاڑیوں کے کاغذات پر ٹوکنوں کی صورت میں وصول کیا جا رہا ہے۔ ٹال ٹیکس بظاہر ٹرانسپورٹرز ادا کرتے ہیں مگر اصل میں یہ مسافروں کی جیبوں سے جاتا ہے۔ یوں عوام جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کے دوہرے نظام میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے سے تقریباً تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ خاص طور پر گھی ، چینی اور تیل جن کی قیمتوں سے عوام پہلے ہی پریشان ہیں، اب مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ بجٹ بنانے والوں کو شائد یہ اندازہ نہیں ہے کہ ایک عام آدمی کا مہینے کا بجٹ کتنا ہوتا ہے اور وہ کیسے گزارہ کرتا ہے ۔
اسی طرح بجٹ میں حجاج کرام کو بھی نہیں بخشا گیا اور فی حاجی پانچ ہزار روپے ٹیکس لگا دیا گیا ہے، کہا تو یہ جا رہا ہے کہ یہ ٹیکس آپریٹر اد ا کریںگے مگر ایسا کبھی ہوا نہیں کہ سروسز فراہم کرنے والے کسی ادارے پر ٹیکس لگایا گیا ہو اور وہ اسے اپنی جیب سے ادا کرے ، یہ بوجھ بھی ہر حاجی کو ہی اٹھانا ہو گا ۔ بینک سے 25ہزار روپے یا اس سے زائد پیسے نکلوانے پر اعشاریہ تین فیصد ٹیکس لگا دیا ہے اس سے بھی عام آدمی متاثر ہو گا اور محسوس یہ ہو رہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہوگا ، جیسے دوسرے ٹیکسوں میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ ایک طرف تو ٹیکسوں میں اضافہ کرنے پر زور دیا گیا ہے تو دوسری طرف ایسے منصوبے شروع کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کی اس نازک وقت میں ملک کو قطعی ضرورت نہیں ، مسلم لیگ ن جب اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی تو سب سے زیادہ تنقید بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر کی جاتی تھی کہ اس کے ذریعے جیالوں کو نوازا جاتا ہے۔
اب اس پرو گرام میں تھوڑی تبدیلی کر کے اس کا نام انکم سپورٹ پروگرام رکھ دیا گیا ہے جس کے لئے 70 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے، کیا اب مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے ؟۔ اسی طرح طالبعلموں کو لیپ ٹیپ دینے اور نوجوانوں کو قرضے دینے کے لئے اربوں روپے مختص کئے گئے ہیں ، ایسے منصوبے تو اس وقت شروع کئے جاتے ہیں جب ملک خوشحال ہو ، جس ملک میں توانائی کا شدید بحران ہو اور بیس بیس گھنٹے بجلی میسر نہ ہو وہاں تو ایسے منصوبوں کے بارے میں غور بھی نہیں کرنا چاہیے، ایک ہزار رہائشی کالونیاں کی تعمیر کی جو منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس کی بھی فی الحال کوئی ضرورت نہیں ، صرف ان سرکاری عمارتوں یا سڑکوں کی تعمیر کی جانی چاہیے جو بہت ضروری ہیں، یہاں سے بچنے والی رقم کو بھی بجلی اور گیس کی فراہمی کے منصوبوں یا عوام کو ریلیف دینے کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے۔اگر یہ سب کیا جائے تو کسی قسم کے نئے ٹیکس کی ضرورت نہیں اور کم سے کم قرضے سے کام چلایا جا سکتا ہے۔
ہماری سیاسی پارٹیوں کا اصل مسئلہ صرف حکمرانی ہے، وہ خود کو عوامی نمائندے صرف اس وقت تک سمجھتے ہیں جب تک وہ حکومت میں نہیں ہوتے جب انھیں اقتدار مل جا تا ہے تو سیکڑوں مصلحتیں ان کے آڑے آنے لگتی ہیں ، وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں نہیں ٹھہریں گے تاکہ حکومتی اخراجات میں کمی ہو سکے، مگر اب سکیورٹی وجوہات آڑے آ گئی ہیں اور انھیں وزیر اعظم ہائوس میں ہی ٹھہرنا پڑے گا، یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم ہائوس کے بجٹ میں چالیس فیصد کمی کا اعلان کیا ہے۔ اگر وہ خود کو عوام کا نمائندہ سمجھیں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے خلوص اور صحیح معنوں میں کوشش کریں تو سکیورٹی وجوہات خود بخود ختم ہو جائیں گی اور عوام ان کی ڈھال بن جائیں گے ۔ وطن عزیز کو اب روائتی سیاست نہیں بلکہ انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ، حکمرانوں کو عوام کے دل کی آواز سننا ہو گی ، اگر ایسا نہ کیا گیا تو عوام کے پاس پھر ایک ہی راستہ بچتا ہے جب وہ عنان اقتدار خود سنبھال لیں گے۔
''آئندہ سے کپڑوں کے ایک جوڑے کے پانچ روپے زیادہ لوں گا''دھوبی نے کپڑے دیتے ہوئے کہا
''وہ کیوں؟بھئی خیریت ہے، ایکدم معاوضہ بڑھا دیا '' اشرف نے تھوڑی حیرانگی سے پوچھا
''آپ کو نہیں پتہ بجٹ آ گیا ہے، ہر چیز مہنگی ہورہی ہے، آخر ہم نے بھی تو گزارہ کرنا ہے'' دھوبی نے کہا
اشرف کو کچھ ایسی ہی صورتحال بازار میں بھی پیش آئی۔ مرغی کا گوشت خریدنے لگا تو اس کی قیمت فی کلو 50روپے بڑھ چکی تھی ۔ دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ اشرف کے لئے یہ کایا پلٹ کوئی نئی نہیں تھی کیونکہ ہر سال بجٹ کے موقع پر اشیاء کی قیمتیں بڑھنا معمول تھا ۔ اس مرتبہ پتہ نہیں کیوں اس کے ذہن میں تھا کہ شائد ایسا نہ ہو مگر وہی ہوا جو ہوتا آ رہا تھا ۔ مایوسی کے بادل پھر سے اشرف کی طرف بڑھنے لگے تھے جو گزشتہ چند دنوں چھٹ چکے تھے ، کیونکہ نئی حکومت سے سب نے توقعات وابستہ کر لیں تھیں کہ اب معمول سے ہٹ کر کچھ ہو گا۔
اس سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل تمام سیاسی پارٹیوں نے بڑے بڑے دعوے کئے ، یوں دکھائی دیتا تھا جیسے اس مرتبہ سیاسی پارٹیوں نے ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ عوام کی نظریں بھی ان سیاسی پارٹیوں پر لگی ہوئی تھیں جو حکومت کی اتحادی نہیں رہی تھیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں عوام کا رش اور جوش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اسی جوش و جذبے نے ایسے ووٹرکو بھی متحرک کیا جو مایوس ہو کر عرصہ دراز سے ووٹ ڈالنے ہی نہیں جاتا تھا، میڈیا نے اس حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، اسی وجہ سے عوام تمام تر سکیورٹی خدشات کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لئے جوق در جوق گھروں سے نکلے ۔ الیکشن نتائج نے ثابت کیا کہ عوام نے سابق حکومت کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے مسترد کیا۔ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتیں بھی بری طرح شکست سے دوچار ہوئیں۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے مقدر نے ایک مرتبہ پھر یاوری کی اور اس نے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے نئی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود پورے ملک میں نشستیں حاصل کیں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوا تو مسلم لیگ ن کو بھاری مینڈیٹ دینے والے عوام نے ساری توقعات مسلم لیگ ن سے وابستہ کر لیں کہ وہ گزشتہ ادوار کو نظر انداز کرتے ہوئے اس مرتبہ اپنے وعدے پورے کرے گی، میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم بنتے ہی صوبائی حکومتوں اور ڈرون حملوں کے حوالے سے جو پالیسی اپنائی اسے تمام طبقات نے سراہا ، خاص طور پر بلوچستان میں اپنی پارٹی کی بجائے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کرنے پر بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا کیونکہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ درمیانے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں ، مسلم لیگ ن کے ان اقدامات سے یوں دکھائی دے رہا تھا کہ وہ ملک کے مسائل حل کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ حکومت چونکہ مئی میں قائم ہوئی اور اس کے فوراً بعد جون میں بجٹ پیش کیا جاتا ہے اس لئے عوام کو مسلم لیگ ن کی حکومت سے توقع تھی کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کا پورا خیال رکھا جائے گا ۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔
16 کھرب 51 ارب روپے خسارے کے ساتھ 35 کھرب 91 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بجٹ متوازن ہے اور اتنے سنگین معاشی حالات میں اس سے اچھا بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بجٹ کے ذریعے عوام پر بم گرا دیا گیا ہے اور ان کی مشکلات بڑھیں گی ، اس معاملے میں حامی اور مخالفین دونوں ہی مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں بجٹ نہ تو متوازن ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے عوام پر بم گرایا گیا ہے ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ عوام کو اس سے کسی قسم کا ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا ۔
اتنے بھاری حجم کے بجٹ میں عوام کے لئے صرف ایک بڑی خوشخبری ہے کہ 225ارب روپے توانائی کے بحران کے حل کے لئے مختص کئے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ وزیر خزانہ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ 500 ارب روپے کا سرکلر ڈیبٹ جلد ہی کنٹرول کرلیا جائے گا جس سے لوڈشیڈنگ میں کمی ہو گی ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کا وعدہ ایفاء تو نہیں کیا گیا تھا مگر جب پورے ملک سے احتجاج کی صدائیں بلند ہونے لگیں تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بادل نخواستہ دس فیصد تنخواہیں بڑھانے کا اعلان کر دیا، اسی طرح مزدور کی ماہانہ آمدن کم از کم پندرہ ہزار روپے ماہانہ کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس کا بجٹ تقریر میں ذکر تک نہیں کیا گیا ، عوام کو سب سے زیادہ مایوسی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے اس بیان سے ہوئی کہ وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا ٹائم فریم نہیں دے سکتے ، حالانکہ الیکشن مہم میں تین سال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کا بڑے زور شور سے دعویٰ کیا گیا تھا۔
عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں کئی سالو ں سے جس بری طرح پس رہے ہیں اس کا اندازہ سب کو ہے ، اس لئے سب کا خیال تھا کہ شائد اس مرتبہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا مگر اس کے برعکس ہوا اور حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کر دیا جو بظاہر تو مصنوعات بنانے والی کمپنیوں پر لگتا ہے مگر اس کا ان ڈائریکٹ بوجھ بالآ خر عوام کو اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ کمپنیاں اپنے منافع میں کمی نہیں آنے دیتیں ، سارا ٹیکس قیمت میں شامل کر دیا جاتا ہے، جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا سہرہ بھی میاں نواز شریف کے سر بندھتا ہے ، اس ٹیکس کو محصول چنگی اور ضلع ٹیکس کے متبادل کے طور پر نافذ کیا گیا تھا ، تب عوام کو یہ نوید سنائی گئی تھی کہ اس سے عوام پر بوجھ نہیں پڑے گے۔
مصنوعات تیار کرنے والے یہ ٹیکس اد اکریں گے، جب جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ عمل میں آیا تو تب پتہ چلا کہ اس سے تو ہر غریب آدمی زد میں آ گیا ہے ، غریب مزدور جس کی آمدنی تین سو روپے روزانہ ہے وہ بھی ایک چیز خریدنے پر اتنا ہی ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ روزانہ لاکھوں کا کاروبار کرنے والے کو بھی اتنا ہی ٹیکس اد اکرنا پڑتا ہے، ا س کی مثال یو ں دی جا سکتی ہے، ایک غریب آدمی صابن خریدے تو اسے تین روپے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جبکہ دولت مند کو بھی تین روپے ہی ادا کرنا پڑیں گے، گویا اس ٹیکس کے ذریعے پوری قوم کو اپنے نرغے میں لے لیا گیا ہے ، ایسی بات نہیں کہ حکومت محصول چونگی اور ضلع ٹیکس کو بھول گئی ، اس کی جگہ سڑکوں پر ٹال ٹیکس کا نفاذ شروع کیا گیا جو پہلے صرف پلوں پر لاگو تھا ۔
یوں ہر نئی بننے والی سڑک پر ٹال ٹیکس لگا دیا گیا اور اب تقریباً ہر بڑی سڑک اس کی زد میں آ چکی ہے، حالانکہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے حوالے سے ٹیکس پہلے ہی تمام گاڑیوں سے وصو ل کیا جا رہا تھا اوراب بھی گاڑیوں کے کاغذات پر ٹوکنوں کی صورت میں وصول کیا جا رہا ہے۔ ٹال ٹیکس بظاہر ٹرانسپورٹرز ادا کرتے ہیں مگر اصل میں یہ مسافروں کی جیبوں سے جاتا ہے۔ یوں عوام جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کے دوہرے نظام میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے سے تقریباً تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ خاص طور پر گھی ، چینی اور تیل جن کی قیمتوں سے عوام پہلے ہی پریشان ہیں، اب مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ بجٹ بنانے والوں کو شائد یہ اندازہ نہیں ہے کہ ایک عام آدمی کا مہینے کا بجٹ کتنا ہوتا ہے اور وہ کیسے گزارہ کرتا ہے ۔
اسی طرح بجٹ میں حجاج کرام کو بھی نہیں بخشا گیا اور فی حاجی پانچ ہزار روپے ٹیکس لگا دیا گیا ہے، کہا تو یہ جا رہا ہے کہ یہ ٹیکس آپریٹر اد ا کریںگے مگر ایسا کبھی ہوا نہیں کہ سروسز فراہم کرنے والے کسی ادارے پر ٹیکس لگایا گیا ہو اور وہ اسے اپنی جیب سے ادا کرے ، یہ بوجھ بھی ہر حاجی کو ہی اٹھانا ہو گا ۔ بینک سے 25ہزار روپے یا اس سے زائد پیسے نکلوانے پر اعشاریہ تین فیصد ٹیکس لگا دیا ہے اس سے بھی عام آدمی متاثر ہو گا اور محسوس یہ ہو رہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہوگا ، جیسے دوسرے ٹیکسوں میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ ایک طرف تو ٹیکسوں میں اضافہ کرنے پر زور دیا گیا ہے تو دوسری طرف ایسے منصوبے شروع کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کی اس نازک وقت میں ملک کو قطعی ضرورت نہیں ، مسلم لیگ ن جب اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی تو سب سے زیادہ تنقید بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر کی جاتی تھی کہ اس کے ذریعے جیالوں کو نوازا جاتا ہے۔
اب اس پرو گرام میں تھوڑی تبدیلی کر کے اس کا نام انکم سپورٹ پروگرام رکھ دیا گیا ہے جس کے لئے 70 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے، کیا اب مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے ؟۔ اسی طرح طالبعلموں کو لیپ ٹیپ دینے اور نوجوانوں کو قرضے دینے کے لئے اربوں روپے مختص کئے گئے ہیں ، ایسے منصوبے تو اس وقت شروع کئے جاتے ہیں جب ملک خوشحال ہو ، جس ملک میں توانائی کا شدید بحران ہو اور بیس بیس گھنٹے بجلی میسر نہ ہو وہاں تو ایسے منصوبوں کے بارے میں غور بھی نہیں کرنا چاہیے، ایک ہزار رہائشی کالونیاں کی تعمیر کی جو منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس کی بھی فی الحال کوئی ضرورت نہیں ، صرف ان سرکاری عمارتوں یا سڑکوں کی تعمیر کی جانی چاہیے جو بہت ضروری ہیں، یہاں سے بچنے والی رقم کو بھی بجلی اور گیس کی فراہمی کے منصوبوں یا عوام کو ریلیف دینے کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے۔اگر یہ سب کیا جائے تو کسی قسم کے نئے ٹیکس کی ضرورت نہیں اور کم سے کم قرضے سے کام چلایا جا سکتا ہے۔
ہماری سیاسی پارٹیوں کا اصل مسئلہ صرف حکمرانی ہے، وہ خود کو عوامی نمائندے صرف اس وقت تک سمجھتے ہیں جب تک وہ حکومت میں نہیں ہوتے جب انھیں اقتدار مل جا تا ہے تو سیکڑوں مصلحتیں ان کے آڑے آنے لگتی ہیں ، وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہائوس میں نہیں ٹھہریں گے تاکہ حکومتی اخراجات میں کمی ہو سکے، مگر اب سکیورٹی وجوہات آڑے آ گئی ہیں اور انھیں وزیر اعظم ہائوس میں ہی ٹھہرنا پڑے گا، یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم ہائوس کے بجٹ میں چالیس فیصد کمی کا اعلان کیا ہے۔ اگر وہ خود کو عوام کا نمائندہ سمجھیں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے خلوص اور صحیح معنوں میں کوشش کریں تو سکیورٹی وجوہات خود بخود ختم ہو جائیں گی اور عوام ان کی ڈھال بن جائیں گے ۔ وطن عزیز کو اب روائتی سیاست نہیں بلکہ انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ، حکمرانوں کو عوام کے دل کی آواز سننا ہو گی ، اگر ایسا نہ کیا گیا تو عوام کے پاس پھر ایک ہی راستہ بچتا ہے جب وہ عنان اقتدار خود سنبھال لیں گے۔