نئے ایرانی صدر حسن روحانی انتخابی معرکہ جیت گئے اصل امتحان اب شروع ہوگا
جوہری تنازعے کے تناظر میں امریکا اور مغرب سے تعلقات نومنتخب صدر کے لیے سب سے بڑا چیلنیج ہے
ایرانی قوم نے 65 سالہ حسن روحانی کو اپنا نیا صدر منتخب کرلیا ہے، ووٹنگ کے پہلے ہی مرحلے میں انھوں نے تقریباً51فی صد ووٹ حاصل کرلیے جس کے بعد دوسرے انتخابی مرحلے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
ایران کے صدارتی الیکشن میں کام یابی کے لیے کسی بھی امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کا کم ازکم 50 فی صد حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ حسن فرویدون روحانی کو سابق صدور ہاشمی رفسنجانی اور سید محمد خاتمی کے علاوہ آیت اﷲ خمینی کے پوتے حسن خمینی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
حسن روحانی تعلیم، مذہب، سیاست، سفارت کاری، سائنس و تحقیق کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا ان کے انتخاب کو ''اصلاح پسندوں کی فتح'' سے تعبیر کررہا ہے۔ عالمی حالات و واقعات کے حوالے سے ایرانی صدر کا منصب سنبھالنا آسان نہیں۔ حسن روحانی کے سامنے سب سے بڑا چیلینج تو یہ ہوگا کہ وہ جوہری تنازعے کے تناظر میں امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے تعلقات کس طرح آگے لے کر چلتے ہیں۔ انقلابِ ایران سے قبل اور بعد میں انھوں نے ایرانی حکومت کے لیے بہت کام کیا۔ اب وہ ایسے منصب پر آگئے ہیں کہ ساری دنیا کی نگاہیں ان پر ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای نے بھی حسن روحانی کو کام یابی پر مبارکباد دی ہے اور پوری ایرانی قوم سے کہا ہے کہ وہ نومنتخب صدر کے ساتھ تعاون کریں۔
ہم حسن روحانی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نومنتخب ایرانی صدر کی شخصیت اور علمیت ایران جیسے عالمی سیاست میں اہم مقام رکھنے والے ملک کی صدارت کے شایانِ شان ہے۔
ابتدائی زندگی، تعلیم
ماہر تعلیم، سفارت کار اور سیاست داں حسن روحانی 12نومبر 1948کو صوبہ سمنان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے آنکھ ہی ایک ایسے گھرانے میں کھولی تھی جو اس وقت کے حاکم شاہ ایران کے خلاف تحریک مزاحمت میں شامل تھا۔ لڑکپن ہی میں وہ مذہبی تعلیم کی جانب مائل ہوئے۔ 1960 میں انھوں نے سمنان کی ایک دینی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی، جس کے بعد مزید مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ قُم چلے گئے۔ مذہبی تعلیم کے حصول کے دوران انھوں نے اس وقت کے بڑے اسکالرز شیخ مرتضیٰ حائری، سید محقق دماد، سید محمد رضا گلپائیگانی، سلطانی، فضل لنکرانی اور شیخ محمد شاہ آبادی کیزیر نگرانی علمی سفر کی منازل طے کیں۔
مذہبی تعلیمات کے ساتھ جدید علوم سے آگاہی کا شوق حسن روحانی کو 1969 میں تہران یونیورسٹی لے گیا، جہاں سے انھوں نے عدالتی قانون (جوڈیشل لا) کے مضمون کے ساتھ 1972 میں گریجویشن مکمل کیا۔ روحانی کے علم کا سفر یہیں نہیں رکا، بلکہ انھوں نے گلاسگو یونیورسٹی سے بھی ڈگری حاصل کی اور پھر 1999 میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی سند اپنے نام کی۔
سیاسی کیریر
حسن روحانی کا سیاسی کیریر ایرانی انقلاب کے بانی آیت اﷲ خمینی کی قیادت میں شروع ہوا۔ یہ انقلابِ ایران کے آغاز کی بات ہے۔ حسن روحانی ایران کے مختلف شہروں کے دورے کرتے اور شاہ ایران کی حکومت کے خلاف تقاریر کرتے۔ اس عرصے میں وہ کئی بار پابند سلاسل بھی ہوئے۔ ان پر عوامی اجتماعات میں تقریریں کرنے کی پابندی بھی لگائی گئی، لیکن حسن روحانی نے ظلم کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے۔
نومبر 1977 میں تہران کی ایک مسجد میں منعقدہ اجتماع میں حسن روحانی نے پہلی بار آیت اﷲ خمینی کو ''امام'' کا لقب دیا۔ جب شاہ ایران کی زیادتیاں بڑھنے لگیں، تو آیت اﷲ بہشتی اور آیت اﷲ مطہری جیسے جید علماء نے آیت اللہ خمینی کو ملک چھوڑدینے کا مشورہ دیا، جس کے بعد ایرانی انقلاب کے بانی بیرون ملک چلے گئے اور وہاں سے شاہ ایران کی حکومت کے خلاف صف بندی کرنے لگے۔ اس دور میں حسن روحانی جیسے وہ ایرانی طالب علم جو بیرون ملک مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم تھے، آیت اﷲ خمینی کے پیغامات و افکار کو آگے پہنچانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔
ذاتی زندگی
حسن روحانی کیے والد اسداﷲ صوبے سمنان کی ایک کاروباری شخصیت تھے، جب کہ ان کی والدہ سکینہ اب بھی سمنان میں رہائش پذیر ہیں۔1969 میں حسن روحانی کی شادی ہوئی۔ ان کے 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔ تاہم ان کے پہلے صاحب زادے نے اپریل 1992 میں خودکشی کرلی تھی۔
انقلاب ایران کے بعد
انقلاب ایران کی کام یابی کے بعد حسن روحانی نے، جو دو دہائیوں سے اسلامی انقلاب کے لیے بہت متحرک تھے، اپنی بھرپور کوشش کی کہ ایرانی افواج اور ان کے انفرااسٹرکچر کی تنظیم نو موثر انداز میں کی جائے۔ اس حوالے سے انھوں نے بہت سے اقدامات کیے۔ 1980 میں انھیں ایرانی اسلامی مجلس شوریٰ کا رکن مقرر کیا گیا۔1980 سے 2000 کے عرصے میں وہ 5 بار مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ اس طویل عرصے کے دوران انھوں نے مختلف عہدوں اور ذمے داریوں پر اپنی اہلیت ثابت کی۔ مجلس شوریٰ کے ڈپٹی اسپیکر، دفاعی اور خارجہ کمیٹیوں کے سربراہ اور دیگر عہدوں پر انھوں نے اپنی محنت، معاملہ فہمی، سیاسی سوجھ بوجھ کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ وہ 1999 سے ایرانی ماہرین کی مجلس (اسمبلی)، 1989 سے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل، 1991 سے ایرانی Expediencyکونسل کے رکن اور اس کے علاوہ 1992 سینٹر فار اسٹریٹجک ریسرچ کے سربراہ ہیں۔1989 سے 2005 کے عرصے میں وہ ملک کی اسلامی مجلس شوریٰ کے دوبار اسپیکر بھی رہے، جب کہ انھوں نے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی ذمے داریاں انجام دیں۔ وہ عالمی طاقتوں، یورپی یونین، انگلینڈ، فرانس اور جرمنی سے جوہری پروگرام کے حوالے سے کیے گئے مذاکرات میں بھی شامل رہے ہیں۔
حسن روحانی کا نام اس سال 7 مئی کو صدارتی انتخابات کے لیے بہ طور امیدوار رجسٹر ہوا۔ اپنی انتخابی مہم میں انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ معیشت کی بحالی اور ایران کے مغربی ممالک سے تعلقات کی بہتری کے لیے کوششیں کریں گے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ''سول رائٹس چارٹر '' کا بھی اعلان کیا تھا۔
80 کی دہائی کے دوران ایران عراق جنگ کے تلاطم خیز عرصے میں 1982 سے 1988کے دوران حسن روحانی ایرانی کی سپریم دفاعی کونسل کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جنگ کے حوالے سے قائم کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی میں (1986-1988)، ڈپٹی کمانڈر آف وار کی حیثیت میں (1983-1985)، خاتم الانبیا آپریشن سینٹر کے کمانڈر کی حیثیت میں (1985-1988)اور ایرانی ایئر ڈیفینس فورس کے کمانڈر کے طور پر (1986-1991) کے عرصے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔1988 تا 1989 کے عرصے میں حسن روحانی کو مسلح افواج کا ڈپٹی کمانڈر انچیف بھی مقررکیا گیا۔
ایران عراق جنگ ختم ہونے کے بعد
اس طویل جنگ کے خاتمے کے بعد حسن روحانی کو عسکری میدان میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے پر دیگر فوجی کمانڈروں کے ساتھ اس وقت کے کمانڈر انچیف آیت اﷲ خامنہ ای کے ہاتھوں ''فتح '' اور ''نصر'' نامی تمغے بھی دیے گئے۔ بعدازاں حسن روحانی کو سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای کا نمائندہ بھی مقرر کیا گیا۔ وہ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے پہلے سیکریٹری ہونے کے ساتھ اس منصب پر 16 سال تک فائز رہے، 1989سے2005 کے عرصے میں انھوں نے اس عہدے پر ایرانی حکومت اور اپنے ہم وطنوں کے لیے شان دار خدمات انجام دیں۔ 2 ایرانی صدور ہاشمی رفسنجانی اور سید محمد خاتمی کے ادوارِ صدارت میں بھی وہ اس عہدے پر تھے۔ محمود احمدی نژاد کے دور میں انھوں نے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے سیکریٹری کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
حسن روحانی کو ایران کی اہم مجلس Expediency Council کا بھی رکن بنایا گیا۔ یہ کونسل سپریم لیڈر کے مقرر کردہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے، جس کا اہم ترین کام آئینی اصلاحات کے حوالے سے اسمبلی اور کونسل آف گارڈین کے درمیان ربط پیدا کرنا ہے۔ وہ صدر منتخب ہونے کے وقت بھی اس کونسل میں شامل تھے اور ان کے ذمے دفاعی، سیاسی اور سیکیوریٹی کے معاملات کی نگرانی کرنا تھا۔ حسن روحانی 2000 میں سمنان صوبے سے جب کہ 2006 میں تہران سے ماہرین کی شوریٰ کے لیے منتخب کیے گئے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حسن روحانی نے سیاسی، تعلیمی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود سائنسی میدان میں بھی خود کو مشغول رکھا۔1995 سے 1999 کے عرصے میں وہ تہران یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ 1991 سے سینٹر فار اسٹریٹجک ریسرچ بھی حسن روحانی کی پہچان بنا ہوا ہے۔ وہ فارسی اور انگریزی میں شایع ہونے والے 3سائنسی و تحقیقی جرائد کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ یہ 15 روزہ جریدے سائنسی میدان اور تحقیقی شعبے کے حوالے سے مضامین شایع کرتے ہیں۔
جوہری پروگرام پر مغرب کی ناراضی
ایران اور مغرب کا جوہری تنازعہ دنیا بھر کے میڈیا کے لیے ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ حسن روحانی نے کچھ عرصہ مغربی ممالک سے مذاکرات کرنے والی ایرانی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے بھی گزارا۔ امریکا کی دھمکیاں، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے وفود کی جانب سے ایران میں جوہری ہتھیاروں کی تلاش کے لیے دورے، مغرب کی پابندیاں ، یہ سب معاملات حسن روحانی کے سامنے رہے اور انھوں نے سفارت کاری کی بہترین حکمت عملی کے ذریعے مشکل حالات کو ایران کے لیے بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بہ طور مصنف
حسن روحانی نے عالمی طاقتوں سے مذاکرات اور ایران ، امریکا اور مغرب کے تعلقات میں پیدا ہونے والے نشیب و فراز کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس میں ان کی یادداشتیں ہیں۔National Security and Nuclear Diplomacy نامی اس کتاب کو ایران میں اور دیگر ممالک میں کافی پذیرائی ملی۔ اس کے علاوہ ماہر تعلیم ہونے کی حیثیت میں حسن روحانی نے فارسی، انگریزی اور عربی میں متعدد کتابیں تحریر کیں اور سیکڑوں مضامین اور تحقیقی مقالے لکھے۔
فارسی زبان میں انھوں نے جو کتابیں لکھی ہیں، ان میں اسلامی انقلاب: جڑیں اور چیلینج، امام خمینی کی سیاسی سوچ کی بنیاد، اپنی یادداشتیں، اسلامی ممالک کا تعارف، اسلامی سیاسی سوچ، خارجہ پالیسی، ایران کی قومی سلامتی اور معاشی نظام، قومی سلامتی و جوہری سفارت کاری، معاشرے کی اخلاقی اور سیاسی ترقی میں مدارس کا کردار، ائمہ کرام کی تاریخ شامل ہیں۔
انگریزی میں انھوںer The Islamic Legislative Pow اورThe Flexibility of Shariah; Islamic Law کے عنوان سے کتب لکھیں جبکہ عربی زبان میں حسن روحانی نے فقہ، اصول مرحوم حائری اور دیگر موضوعات کو کتابی شکل دی۔
امید کی جاسکتی ہے کہ حسن روحانی کے آنے سے ایران کو معاشی، سیاسی اور دیگر میدانوں میں مزید ترقی ملے گی اور مغرب بالخصوص امریکا کا رویہ بھی ایران کے حوالے سے مثبت ہوجائے گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ صدور کی تبدیلی سے ایران کی قومی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آئے گی، تاہم صدر حسن روحانی ذاتی حیثیت میں امریکا اور مغرب سے کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا اور کشیدگی کے گرم ماحول میں امن کی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی محسوس کیا جائے گا۔
ایران کے صدارتی الیکشن میں کام یابی کے لیے کسی بھی امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کا کم ازکم 50 فی صد حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ حسن فرویدون روحانی کو سابق صدور ہاشمی رفسنجانی اور سید محمد خاتمی کے علاوہ آیت اﷲ خمینی کے پوتے حسن خمینی کی حمایت بھی حاصل تھی۔
حسن روحانی تعلیم، مذہب، سیاست، سفارت کاری، سائنس و تحقیق کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا ان کے انتخاب کو ''اصلاح پسندوں کی فتح'' سے تعبیر کررہا ہے۔ عالمی حالات و واقعات کے حوالے سے ایرانی صدر کا منصب سنبھالنا آسان نہیں۔ حسن روحانی کے سامنے سب سے بڑا چیلینج تو یہ ہوگا کہ وہ جوہری تنازعے کے تناظر میں امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے تعلقات کس طرح آگے لے کر چلتے ہیں۔ انقلابِ ایران سے قبل اور بعد میں انھوں نے ایرانی حکومت کے لیے بہت کام کیا۔ اب وہ ایسے منصب پر آگئے ہیں کہ ساری دنیا کی نگاہیں ان پر ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای نے بھی حسن روحانی کو کام یابی پر مبارکباد دی ہے اور پوری ایرانی قوم سے کہا ہے کہ وہ نومنتخب صدر کے ساتھ تعاون کریں۔
ہم حسن روحانی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نومنتخب ایرانی صدر کی شخصیت اور علمیت ایران جیسے عالمی سیاست میں اہم مقام رکھنے والے ملک کی صدارت کے شایانِ شان ہے۔
ابتدائی زندگی، تعلیم
ماہر تعلیم، سفارت کار اور سیاست داں حسن روحانی 12نومبر 1948کو صوبہ سمنان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے آنکھ ہی ایک ایسے گھرانے میں کھولی تھی جو اس وقت کے حاکم شاہ ایران کے خلاف تحریک مزاحمت میں شامل تھا۔ لڑکپن ہی میں وہ مذہبی تعلیم کی جانب مائل ہوئے۔ 1960 میں انھوں نے سمنان کی ایک دینی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی، جس کے بعد مزید مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ قُم چلے گئے۔ مذہبی تعلیم کے حصول کے دوران انھوں نے اس وقت کے بڑے اسکالرز شیخ مرتضیٰ حائری، سید محقق دماد، سید محمد رضا گلپائیگانی، سلطانی، فضل لنکرانی اور شیخ محمد شاہ آبادی کیزیر نگرانی علمی سفر کی منازل طے کیں۔
مذہبی تعلیمات کے ساتھ جدید علوم سے آگاہی کا شوق حسن روحانی کو 1969 میں تہران یونیورسٹی لے گیا، جہاں سے انھوں نے عدالتی قانون (جوڈیشل لا) کے مضمون کے ساتھ 1972 میں گریجویشن مکمل کیا۔ روحانی کے علم کا سفر یہیں نہیں رکا، بلکہ انھوں نے گلاسگو یونیورسٹی سے بھی ڈگری حاصل کی اور پھر 1999 میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی سند اپنے نام کی۔
سیاسی کیریر
حسن روحانی کا سیاسی کیریر ایرانی انقلاب کے بانی آیت اﷲ خمینی کی قیادت میں شروع ہوا۔ یہ انقلابِ ایران کے آغاز کی بات ہے۔ حسن روحانی ایران کے مختلف شہروں کے دورے کرتے اور شاہ ایران کی حکومت کے خلاف تقاریر کرتے۔ اس عرصے میں وہ کئی بار پابند سلاسل بھی ہوئے۔ ان پر عوامی اجتماعات میں تقریریں کرنے کی پابندی بھی لگائی گئی، لیکن حسن روحانی نے ظلم کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے۔
نومبر 1977 میں تہران کی ایک مسجد میں منعقدہ اجتماع میں حسن روحانی نے پہلی بار آیت اﷲ خمینی کو ''امام'' کا لقب دیا۔ جب شاہ ایران کی زیادتیاں بڑھنے لگیں، تو آیت اﷲ بہشتی اور آیت اﷲ مطہری جیسے جید علماء نے آیت اللہ خمینی کو ملک چھوڑدینے کا مشورہ دیا، جس کے بعد ایرانی انقلاب کے بانی بیرون ملک چلے گئے اور وہاں سے شاہ ایران کی حکومت کے خلاف صف بندی کرنے لگے۔ اس دور میں حسن روحانی جیسے وہ ایرانی طالب علم جو بیرون ملک مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم تھے، آیت اﷲ خمینی کے پیغامات و افکار کو آگے پہنچانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔
ذاتی زندگی
حسن روحانی کیے والد اسداﷲ صوبے سمنان کی ایک کاروباری شخصیت تھے، جب کہ ان کی والدہ سکینہ اب بھی سمنان میں رہائش پذیر ہیں۔1969 میں حسن روحانی کی شادی ہوئی۔ ان کے 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔ تاہم ان کے پہلے صاحب زادے نے اپریل 1992 میں خودکشی کرلی تھی۔
انقلاب ایران کے بعد
انقلاب ایران کی کام یابی کے بعد حسن روحانی نے، جو دو دہائیوں سے اسلامی انقلاب کے لیے بہت متحرک تھے، اپنی بھرپور کوشش کی کہ ایرانی افواج اور ان کے انفرااسٹرکچر کی تنظیم نو موثر انداز میں کی جائے۔ اس حوالے سے انھوں نے بہت سے اقدامات کیے۔ 1980 میں انھیں ایرانی اسلامی مجلس شوریٰ کا رکن مقرر کیا گیا۔1980 سے 2000 کے عرصے میں وہ 5 بار مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ اس طویل عرصے کے دوران انھوں نے مختلف عہدوں اور ذمے داریوں پر اپنی اہلیت ثابت کی۔ مجلس شوریٰ کے ڈپٹی اسپیکر، دفاعی اور خارجہ کمیٹیوں کے سربراہ اور دیگر عہدوں پر انھوں نے اپنی محنت، معاملہ فہمی، سیاسی سوجھ بوجھ کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ وہ 1999 سے ایرانی ماہرین کی مجلس (اسمبلی)، 1989 سے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل، 1991 سے ایرانی Expediencyکونسل کے رکن اور اس کے علاوہ 1992 سینٹر فار اسٹریٹجک ریسرچ کے سربراہ ہیں۔1989 سے 2005 کے عرصے میں وہ ملک کی اسلامی مجلس شوریٰ کے دوبار اسپیکر بھی رہے، جب کہ انھوں نے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی ذمے داریاں انجام دیں۔ وہ عالمی طاقتوں، یورپی یونین، انگلینڈ، فرانس اور جرمنی سے جوہری پروگرام کے حوالے سے کیے گئے مذاکرات میں بھی شامل رہے ہیں۔
حسن روحانی کا نام اس سال 7 مئی کو صدارتی انتخابات کے لیے بہ طور امیدوار رجسٹر ہوا۔ اپنی انتخابی مہم میں انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ معیشت کی بحالی اور ایران کے مغربی ممالک سے تعلقات کی بہتری کے لیے کوششیں کریں گے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ''سول رائٹس چارٹر '' کا بھی اعلان کیا تھا۔
80 کی دہائی کے دوران ایران عراق جنگ کے تلاطم خیز عرصے میں 1982 سے 1988کے دوران حسن روحانی ایرانی کی سپریم دفاعی کونسل کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جنگ کے حوالے سے قائم کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی میں (1986-1988)، ڈپٹی کمانڈر آف وار کی حیثیت میں (1983-1985)، خاتم الانبیا آپریشن سینٹر کے کمانڈر کی حیثیت میں (1985-1988)اور ایرانی ایئر ڈیفینس فورس کے کمانڈر کے طور پر (1986-1991) کے عرصے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔1988 تا 1989 کے عرصے میں حسن روحانی کو مسلح افواج کا ڈپٹی کمانڈر انچیف بھی مقررکیا گیا۔
ایران عراق جنگ ختم ہونے کے بعد
اس طویل جنگ کے خاتمے کے بعد حسن روحانی کو عسکری میدان میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے پر دیگر فوجی کمانڈروں کے ساتھ اس وقت کے کمانڈر انچیف آیت اﷲ خامنہ ای کے ہاتھوں ''فتح '' اور ''نصر'' نامی تمغے بھی دیے گئے۔ بعدازاں حسن روحانی کو سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای کا نمائندہ بھی مقرر کیا گیا۔ وہ ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے پہلے سیکریٹری ہونے کے ساتھ اس منصب پر 16 سال تک فائز رہے، 1989سے2005 کے عرصے میں انھوں نے اس عہدے پر ایرانی حکومت اور اپنے ہم وطنوں کے لیے شان دار خدمات انجام دیں۔ 2 ایرانی صدور ہاشمی رفسنجانی اور سید محمد خاتمی کے ادوارِ صدارت میں بھی وہ اس عہدے پر تھے۔ محمود احمدی نژاد کے دور میں انھوں نے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے سیکریٹری کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
حسن روحانی کو ایران کی اہم مجلس Expediency Council کا بھی رکن بنایا گیا۔ یہ کونسل سپریم لیڈر کے مقرر کردہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے، جس کا اہم ترین کام آئینی اصلاحات کے حوالے سے اسمبلی اور کونسل آف گارڈین کے درمیان ربط پیدا کرنا ہے۔ وہ صدر منتخب ہونے کے وقت بھی اس کونسل میں شامل تھے اور ان کے ذمے دفاعی، سیاسی اور سیکیوریٹی کے معاملات کی نگرانی کرنا تھا۔ حسن روحانی 2000 میں سمنان صوبے سے جب کہ 2006 میں تہران سے ماہرین کی شوریٰ کے لیے منتخب کیے گئے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حسن روحانی نے سیاسی، تعلیمی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود سائنسی میدان میں بھی خود کو مشغول رکھا۔1995 سے 1999 کے عرصے میں وہ تہران یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ 1991 سے سینٹر فار اسٹریٹجک ریسرچ بھی حسن روحانی کی پہچان بنا ہوا ہے۔ وہ فارسی اور انگریزی میں شایع ہونے والے 3سائنسی و تحقیقی جرائد کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ یہ 15 روزہ جریدے سائنسی میدان اور تحقیقی شعبے کے حوالے سے مضامین شایع کرتے ہیں۔
جوہری پروگرام پر مغرب کی ناراضی
ایران اور مغرب کا جوہری تنازعہ دنیا بھر کے میڈیا کے لیے ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ حسن روحانی نے کچھ عرصہ مغربی ممالک سے مذاکرات کرنے والی ایرانی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے بھی گزارا۔ امریکا کی دھمکیاں، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے وفود کی جانب سے ایران میں جوہری ہتھیاروں کی تلاش کے لیے دورے، مغرب کی پابندیاں ، یہ سب معاملات حسن روحانی کے سامنے رہے اور انھوں نے سفارت کاری کی بہترین حکمت عملی کے ذریعے مشکل حالات کو ایران کے لیے بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بہ طور مصنف
حسن روحانی نے عالمی طاقتوں سے مذاکرات اور ایران ، امریکا اور مغرب کے تعلقات میں پیدا ہونے والے نشیب و فراز کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس میں ان کی یادداشتیں ہیں۔National Security and Nuclear Diplomacy نامی اس کتاب کو ایران میں اور دیگر ممالک میں کافی پذیرائی ملی۔ اس کے علاوہ ماہر تعلیم ہونے کی حیثیت میں حسن روحانی نے فارسی، انگریزی اور عربی میں متعدد کتابیں تحریر کیں اور سیکڑوں مضامین اور تحقیقی مقالے لکھے۔
فارسی زبان میں انھوں نے جو کتابیں لکھی ہیں، ان میں اسلامی انقلاب: جڑیں اور چیلینج، امام خمینی کی سیاسی سوچ کی بنیاد، اپنی یادداشتیں، اسلامی ممالک کا تعارف، اسلامی سیاسی سوچ، خارجہ پالیسی، ایران کی قومی سلامتی اور معاشی نظام، قومی سلامتی و جوہری سفارت کاری، معاشرے کی اخلاقی اور سیاسی ترقی میں مدارس کا کردار، ائمہ کرام کی تاریخ شامل ہیں۔
انگریزی میں انھوںer The Islamic Legislative Pow اورThe Flexibility of Shariah; Islamic Law کے عنوان سے کتب لکھیں جبکہ عربی زبان میں حسن روحانی نے فقہ، اصول مرحوم حائری اور دیگر موضوعات کو کتابی شکل دی۔
امید کی جاسکتی ہے کہ حسن روحانی کے آنے سے ایران کو معاشی، سیاسی اور دیگر میدانوں میں مزید ترقی ملے گی اور مغرب بالخصوص امریکا کا رویہ بھی ایران کے حوالے سے مثبت ہوجائے گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ صدور کی تبدیلی سے ایران کی قومی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آئے گی، تاہم صدر حسن روحانی ذاتی حیثیت میں امریکا اور مغرب سے کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا اور کشیدگی کے گرم ماحول میں امن کی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی محسوس کیا جائے گا۔