تحقیق ہونی چاہیے

عمران خان نے جب کوششیں شروع کیں تو انھیں بدنام کیا جانے لگا


Zaheer Akhter Bedari November 12, 2018
[email protected]

دنیا کے جمہوری ملکوں میں یہ روایت رہی ہے کہ منتخب حکومت کو آزادی کے ساتھ اپنی میعاد پوری کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، یہ روایت ترقی یافتہ ملکوں ہی میں نہیں پسماندہ ملکوں میں بھی محفوظ ہے، لیکن غالباً پاکستان واحد ملک ہے جہاں منتخب حکومتوں کو عموماً اپنی میعاد پوری کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ 2008ء سے پہلے منتخب حکومتوں کو سویلین صدر برخاست کرتے رہے اور برخاست کی جانے والی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں اس لیے کرپشن عام ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کرپشن کی بنیادوں پر ہی کھڑا رہتا ہے۔

پاکستان میں کرپشن کی جڑیں نسبتاً زیادہ مضبوط ہیں کیونکہ یہاں قیام پاکستان کے ساتھ ہی اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض رہی ہے، 2008ء کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی یکے بعد دیگرے اقتدار میں آئیں، اس پروسس کو باری باری کے کھیل کا نام دیا گیا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کو بچوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کے استحکام کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 71 سال میں پہلی بار پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ پیپلز پارٹی زرداری کی صدارت کے دور میں کرپشن کے حوالے سے بہت بدنام رہی لیکن مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا اور یہ ایک انوکھی بات بن گئی۔

2018ء کے انتخابات میںپی ٹی آئی الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی، یہ تبدیلی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹیکو کسی طرح قبول نہیں، تحریک انصاف پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاکر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر احتجاج کیا جاتا رہا اور حکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ لیکن عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف ڈٹی رہی۔ اپوزیشن کا خیال تھا کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت کو ایک دو سال کا موقع مل گیا تو وہ اپنے کام کے ذریعے عوام میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر لے گی کہ پھر اسے اقتدار سے ہٹانا مشکل ہو جائے گا، سو اپوزیشن حکومت کے خلاف مسلسل مشکلات پیدا کرتی رہی لیکن عمران حکومت مقروض ملک کو قرض کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کرتی رہی۔ ادھر ملک میں ڈالر کی قیمت بڑھ گئی، ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پٹرول، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو گیا اور پھر اچانک اشیائے صرف کی چیزوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوتا چلا گیا۔

اپوزیشن نے مہنگائی کا الزام حکومت پر لگایا۔ عمران حکومت کے لیے سابقہ حکومت کے کارنامے، عذاب بن گئے۔ ماضی کی حکومت نے جو قرض لیا تھا اس کا سود ہی آٹھ ارب ڈالر ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان بدترین مشکل معاشی حالات سے ملک کو نکالنے کے لیے حکومت نے دوست ممالک سے اقتصادی امداد حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی اور سعودی عرب سے مجموعی طور پر 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا پیکیج حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی، عمران خان کی اس کامیابی کو سراہنے کے بجائے اپوزیشن نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ حکومت بھیک مانگتی پھر رہی ہے۔ سابقہ حکومت نے ملک کو مقروض کر کے رکھ دیا تھا، اس عذاب سے ملک کو نکالنے کے لیے عمران خان نے جب کوششیں شروع کیں تو انھیں بدنام کیا جانے لگا۔

سابقہ حکومتوں کے خلاف اربوں ڈالر کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ عدالتوں میں ریفرنسز داخل ہیں، نواز شریف، شہباز شریف، ان کی اولاد، ان الزامات کی زد میں ہے۔ ان سابقہ حکمران خاندان کو گھیرے میں لے لیا ہے اور اب ریفرنسز تیزی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ حکمران خاندان کے جو لوگ بیرون ملک چلے گئے ہیں انھیں واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے، اس پر یہ دلچسپ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ عمران خان نے ملک کو قرضوں میں جکڑ دیا ہے اور عمران حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی ہے۔

اسے اتفاق کہیں کہ حسنِ اتفاق کہ جب عمران خان کے دورہ چین کی خبریں میڈیا میں آئیں تو بعض مذہبی جماعتوں نے احتجاج شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حیرت انگیز طور پر یہ احتجاج سارے ملک میں پھیل گیا اور جلاؤ گھیراؤ کا ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا گیا کہ سارا ملک مفلوج ہو کر رہ گیا۔ ملک بھر میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا، نئی حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی۔ اپوزیشن کے گھروں میں گھی کے چراغ جلائے جانے لگے۔

وزیراعظم عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ ملک کو اقتصادی بدحالی سے نکالنے کے لیے مشن پر چین میں چینی حکمرانوں سے مذاکرات کر رہے تھے، ایسے اہم موقع پر ملک بھر میں انارکی پیدا کر کے عمران خان کے دورے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ بہرحال احتجاج ختم کر دیاگیا ہے اور ملک میں نارمل حالات پیدا ہو رہے ہیں لیکن اس ہمہ گیر اور پر تشدد تحریک کی جامع تحقیق ہونا چاہیے جس کا نشانہ نئی حکومت بنی ہوئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں