امریکا یہودیوں کے لیے غیرمحفوظ
گزرا ہوا سال یہودیوں کے لیے امریکی زمین کو نہایت تنگ کرگیا
فرینک نیویارک کا رہائشی ایک یہودی تھا، جواپنی خاندانی فیکٹری کا انتظام سنبھالنے کے لیے جارجیا آگیا۔ 1913میں اس کی فیکٹری میں ایک سفید فام عیسائی عورت کا قتل ہوگیا، جس کا الزام فرینک پر آیا اور اسے گرفتارکر لیا گیا۔ طویل مقدمے کے بعد امریکی عدالت نے فرینک کو سزائے موت سنا دی۔ سپریم کورٹ میں رحم کی اپیل داخل کی گئی جسے مسترد کردیا گیا۔ 1915میں سزائے موت سے صرف ایک دن قبل جارجیا کے گورنر نے فرینک کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کردیا ۔اس فیصلے کے خلاف امریکی عیسائیوں میں غضب کا اشتعال پیدا ہوگیا اور اسی رات چھبیس لوگوں پر مشتمل ایک گروہ نے جیل سے فرینک کو اغوا کیا اور اسے مقتول لڑکی کے آبائی شہر لے گئے، جہاں مشتعل ہجوم نے اسے ایک درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی۔ اس واقعے کے بعد جارجیا میں یہودیوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر پھیل گئی جس سے خوف زدہ ہو کر تین ہزار یہودیوں نے جارجیا کو خیر باد کہنے میں عافیت جانی ۔
اس نفرت انگیز فضا میں دوبارہ پیدا ہونے والی گرمی نے دوسری جنگِ عظیم کے سائے گہرے کردیے۔ یہ وہ وقت تھا جب مذہب کی بالادستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی چرچ یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز تبلیغ کرنے میں مصروف تھے، جس سے کئی ملین امریکی شہریوں کی کچھ ہی مہینوں میں یہودیوں کے خلاف ذہن سازی کردی گئی۔
اسی منفی پروپیگنڈے اور مذہبی عوامل کی وجہ سے امریکا نے دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں میں قدم دھر دیے۔ اس تاریخی جنگ میں بلاشبہ یہودیوں نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ۔ صد افسوس جنگ کے شعلے ٹھنڈے پڑنے کے بعد بھی امریکا میں یہودیوں پر سوچے سمجھے منظم حملے ختم نہ ہوئے بلکہ وقتاً فوقتاً جاری رہے۔ 1957-58 کے دوران اٹلانٹا میں امریکی نسل پرستانہ سوچ کے حامل لوگوں نے یہودیوں کی تاریخی عبادت گاہ پر آٹھ بار بم حملے کیے ۔1967میں مسیسپی میں یہودی عبادت گاہ کی تعمیرکے فقط چھ ماہ بعد ایک حملے میں اس کو تباہ کردیا گیا، ساتھ ہی یہودی پیشوا کے گھر پر آدھی رات کو دھاوا بول دیا گیا، جس میں اگرچہ وہ محفوظ رہے لیکن امریکا میں یہودیوں کی بقا کا سوالیہ نشان اورگہرا ہوگیا۔
پچھلی دو دہائیوں میں اشتعال کے یہ سیاہ بادل اور بڑھے تو 1994 جون کے بعد ان حملوں میں مزید تیزی آگئی، جس کے نتیجے میں یہودی عبادت خانوں،کمیونٹی سینٹرز اور ان میں موجود کتب خانوں کو نذرِآتش کردیا گیا۔ گزرنے والے بارہ سال امریکا میں یہودیوں کے لیے سخت پریشان کن ثابت ہوئے اور کئی یہودی جان سے گئے۔ 2009 میں امریکی ہولوکاسٹ سینٹر میں 88 سالہ بوڑھا کیتھولک عیسائی رائفل لے کر گھسا اور اندھادھند فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر کئی یہودی ہلاک ہوگئے۔ بوڑھے حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا لیکن اس پر مقدمے کی ''رسمی کارروائی'' کا ابھی کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا کہ وہ جیل میں طبعی موت کا شکار ہوکر قید سے آزاد ہوگیا۔
گزرا ہوا سال یہودیوں کے لیے امریکی زمین کو نہایت تنگ کرگیا، جب یہودیوں پر بم حملوں کی ٹیلیفونک دھمکیاں دی گئیں اور اب پیٹس برگ میں ہونے والا تازہ ترین حملہ نفرت کے اس باب کو مزید بڑھا گیا۔ کیونکہ یہ امریکا میں اب تک یہودیوں پر ہونے والے حملوں میں بدترین حملہ تھا، جس میں یہودی عبادت گاہ ''ٹری آف لائف ''کے اندر عبادت میں مصروف گیارہ یہودی جان سے مار دیے گئے۔
عدم برداشت اور نسل پرستی سے صرف تیسری دنیا کے ممالک متاثر نہیں بلکہ امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک بھی ایک صدی سے اس کی لپیٹ میں ہے۔ بس فرق ہے تو اتنا کہ تیسری دنیا کے ممالک پر ایسے واقعات کے نتیجے میں پھبتیاں کسی جاتی ہیں، انگلیاں اٹھتی ہیں اور تنقید ہوتی ہے لیکن امریکا کو شاید اس معاملے میں بھی دیگر اقوام سے برتر سمجھ لیا گیا ہے کہ وہاں ایسے اندوہناک سانحات کسی کا دماغی خلل قرار دے کر سرد خانے کی نذر کر دیے جاتے ہیں۔ دوسروں کی معمولی باتوں کو بھی برداشت نہ کرنے والے امریکا میں ہر غیرمعمولی فعل اور تشدد کو سرکاری سطح پر خوش دلی سے برداشت کرلیا جاتا ہے۔ اس کے فوجی یا عام شہری کسی بھی ملک میں مقتول یا مغوی بنا دیے جائیں سرکار بدلہ لیے بنا چین نہیں پاتی لیکن افسوس اپنی زمین پر امریکا کو نہ انسانی حقوق یاد آتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور قانون۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اپنی انتخابی مہم میں ہی اول سے لے کر آخر تک گلا پھاڑ پھاڑ کر یہودیوں کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس میں وہ ''یہودی گلوبل ازم '' کے کڑے نقاد بنے رہے۔ یوں تو انھوں نے صدر بننے کے بعد بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیا، لیکن ان کے اقتدار کے منصب پر براجمان ہونے کے بعد ''امریکا سب سے پہلے '' کے تناظر میں نسل پرستی اور عدم برداشت کو مزید فروغ ملا ۔ اپنی تمام ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ٹرمپ نے پیٹس برگ سانحے کے بعد ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پیٹس برگ حملے کا ذمے دار مبینہ طور پر ایک مہاجر ہے جو قافلوں کے ساتھ نقل مکانی کرتے ہوئے امریکا میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے چیختے ہوئے کہا'' ہمیں مہاجرین کے یہ قافلے نہیں بلکہ ایک دیوار بنانے کی ضرورت ہے۔''
شاید اسی کوکہتے ہیں سوال گندم اور جواب چنا ۔ اس بیان کے بعد امریکا میں اور باہر شدید ردِعمل سامنے آیا اور مرنے والے یہودیوں کی تدفین کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے ایک یہودی ربی نے کہا کہ'' مرنے والے ان گیارہ یہودی امریکیوں کی روحیں بے چین رہیں گی، یہاں تک کہ ہمارا صدر اپنا طریقہ نہ بدل لے یا پھر ہم اپنے صدر کو'' یہودیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی یہ وہی امریکی سر زمین ہے جس کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے 1790میں یہودی پیشواؤں کو ایک تاریخی خط لکھا تھا جس میں انھوں نے امریکا کی زمین پر یہودیوں کے سُکھ، چین، امن اور آزادی سے رہنے کی ضمانت دی تھی۔ ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر تو نہیں البتہ ہر دہائی میں شرمندہ ضرور ہوا ، لیکن ٹرمپ کے دور میں تو انتہا ہی ہوگئی۔ یہودیوں کے خلاف امریکا میں اٹھنے والا ہر نفرت انگیز قدم حیران کن تو نہیں لیکن صدمے سے بھرپور اور ناقابل قبول ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی یورپ کی طرح امریکا میں بھی یہودی مخالف جذبات تیزی سے پنپ رہے ہیں۔
ریسرچ رپورٹس کے مطابق 2016کے مقابلے میں 2017 میں امریکا میں یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں ساٹھ فی صد اضافہ ہوا، جن میں ایک ہزار واقعات ہراسانی کے، ڈیڑھ سو واقعات بم سے اڑانے کی دھمکیوں کے، ساڑھے نو سو یہودی املاک کو نقصان پہنچانے اور انیس واقعات جسمانی ضرر پہنچانے کے رونما ہوئے۔ امریکا میں سوشل میڈیا پر یہودیوں کے خلاف اشتعال کو مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ یہاں اگر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو'' بیرونی حملہ آور'' قرار دیتے ہیں، وہیں بائیں بازو والے بھی یہودی املاک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ نیو نازی گروپ کا ٹارگٹ امریکی کالج اور یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں، جہاں وہ یہودیوں کے خلاف نفرت آمیز نظریات کی ترویج کرتے ہیں ۔
یہ قوم پرست، یہودیوں کو سفید فام ماننے کو تیار نہیں، ان کے نزدیک سفید فام صرف عیسائی ہیں ۔ لہٰذا پیٹس برگ حملے کا ذمے دار تنہا کسی فرد کو قرار دینا انتہائی غیرمعقول رویہ ہے۔ ایسے تمام سانحات کے ذمے دار بہت سارے لوگ، ادارے ، میڈیا اور وہ حکمراں ہیں جو کھل کر یہودی مخالف جذبات کا پرچار کرتے ہیں۔ دنیا کو رہنے کے قابل جگہ بنانے کے خواہش مند امریکی ان یہودیوں کو بھی اپنی سر زمین پر بستا نہیں دیکھنا چاہتے، جن سے ان کے بد ترین مفادات وابستہ ہیں۔ امریکا میں یہودیوں پر ہونے والا ہر حملہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑتا جارہا ہے کہ کیا واقعی امریکا یہودیوں کے لیے غیر محفوظ ہے؟ اور یہ بھی کہ اگر یہ حملہ آور سفید فام امریکی نہیں بلکہ کوئی مسلمان ہوتا تو پھر بھی امریکا درگزرکا یہی رویہ اپنائے رکھتا؟
اس نفرت انگیز فضا میں دوبارہ پیدا ہونے والی گرمی نے دوسری جنگِ عظیم کے سائے گہرے کردیے۔ یہ وہ وقت تھا جب مذہب کی بالادستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی چرچ یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز تبلیغ کرنے میں مصروف تھے، جس سے کئی ملین امریکی شہریوں کی کچھ ہی مہینوں میں یہودیوں کے خلاف ذہن سازی کردی گئی۔
اسی منفی پروپیگنڈے اور مذہبی عوامل کی وجہ سے امریکا نے دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں میں قدم دھر دیے۔ اس تاریخی جنگ میں بلاشبہ یہودیوں نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ۔ صد افسوس جنگ کے شعلے ٹھنڈے پڑنے کے بعد بھی امریکا میں یہودیوں پر سوچے سمجھے منظم حملے ختم نہ ہوئے بلکہ وقتاً فوقتاً جاری رہے۔ 1957-58 کے دوران اٹلانٹا میں امریکی نسل پرستانہ سوچ کے حامل لوگوں نے یہودیوں کی تاریخی عبادت گاہ پر آٹھ بار بم حملے کیے ۔1967میں مسیسپی میں یہودی عبادت گاہ کی تعمیرکے فقط چھ ماہ بعد ایک حملے میں اس کو تباہ کردیا گیا، ساتھ ہی یہودی پیشوا کے گھر پر آدھی رات کو دھاوا بول دیا گیا، جس میں اگرچہ وہ محفوظ رہے لیکن امریکا میں یہودیوں کی بقا کا سوالیہ نشان اورگہرا ہوگیا۔
پچھلی دو دہائیوں میں اشتعال کے یہ سیاہ بادل اور بڑھے تو 1994 جون کے بعد ان حملوں میں مزید تیزی آگئی، جس کے نتیجے میں یہودی عبادت خانوں،کمیونٹی سینٹرز اور ان میں موجود کتب خانوں کو نذرِآتش کردیا گیا۔ گزرنے والے بارہ سال امریکا میں یہودیوں کے لیے سخت پریشان کن ثابت ہوئے اور کئی یہودی جان سے گئے۔ 2009 میں امریکی ہولوکاسٹ سینٹر میں 88 سالہ بوڑھا کیتھولک عیسائی رائفل لے کر گھسا اور اندھادھند فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر کئی یہودی ہلاک ہوگئے۔ بوڑھے حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا لیکن اس پر مقدمے کی ''رسمی کارروائی'' کا ابھی کوئی نتیجہ نہ نکلا تھا کہ وہ جیل میں طبعی موت کا شکار ہوکر قید سے آزاد ہوگیا۔
گزرا ہوا سال یہودیوں کے لیے امریکی زمین کو نہایت تنگ کرگیا، جب یہودیوں پر بم حملوں کی ٹیلیفونک دھمکیاں دی گئیں اور اب پیٹس برگ میں ہونے والا تازہ ترین حملہ نفرت کے اس باب کو مزید بڑھا گیا۔ کیونکہ یہ امریکا میں اب تک یہودیوں پر ہونے والے حملوں میں بدترین حملہ تھا، جس میں یہودی عبادت گاہ ''ٹری آف لائف ''کے اندر عبادت میں مصروف گیارہ یہودی جان سے مار دیے گئے۔
عدم برداشت اور نسل پرستی سے صرف تیسری دنیا کے ممالک متاثر نہیں بلکہ امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک بھی ایک صدی سے اس کی لپیٹ میں ہے۔ بس فرق ہے تو اتنا کہ تیسری دنیا کے ممالک پر ایسے واقعات کے نتیجے میں پھبتیاں کسی جاتی ہیں، انگلیاں اٹھتی ہیں اور تنقید ہوتی ہے لیکن امریکا کو شاید اس معاملے میں بھی دیگر اقوام سے برتر سمجھ لیا گیا ہے کہ وہاں ایسے اندوہناک سانحات کسی کا دماغی خلل قرار دے کر سرد خانے کی نذر کر دیے جاتے ہیں۔ دوسروں کی معمولی باتوں کو بھی برداشت نہ کرنے والے امریکا میں ہر غیرمعمولی فعل اور تشدد کو سرکاری سطح پر خوش دلی سے برداشت کرلیا جاتا ہے۔ اس کے فوجی یا عام شہری کسی بھی ملک میں مقتول یا مغوی بنا دیے جائیں سرکار بدلہ لیے بنا چین نہیں پاتی لیکن افسوس اپنی زمین پر امریکا کو نہ انسانی حقوق یاد آتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور قانون۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اپنی انتخابی مہم میں ہی اول سے لے کر آخر تک گلا پھاڑ پھاڑ کر یہودیوں کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس میں وہ ''یہودی گلوبل ازم '' کے کڑے نقاد بنے رہے۔ یوں تو انھوں نے صدر بننے کے بعد بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیا، لیکن ان کے اقتدار کے منصب پر براجمان ہونے کے بعد ''امریکا سب سے پہلے '' کے تناظر میں نسل پرستی اور عدم برداشت کو مزید فروغ ملا ۔ اپنی تمام ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ٹرمپ نے پیٹس برگ سانحے کے بعد ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پیٹس برگ حملے کا ذمے دار مبینہ طور پر ایک مہاجر ہے جو قافلوں کے ساتھ نقل مکانی کرتے ہوئے امریکا میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے چیختے ہوئے کہا'' ہمیں مہاجرین کے یہ قافلے نہیں بلکہ ایک دیوار بنانے کی ضرورت ہے۔''
شاید اسی کوکہتے ہیں سوال گندم اور جواب چنا ۔ اس بیان کے بعد امریکا میں اور باہر شدید ردِعمل سامنے آیا اور مرنے والے یہودیوں کی تدفین کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے ایک یہودی ربی نے کہا کہ'' مرنے والے ان گیارہ یہودی امریکیوں کی روحیں بے چین رہیں گی، یہاں تک کہ ہمارا صدر اپنا طریقہ نہ بدل لے یا پھر ہم اپنے صدر کو'' یہودیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی یہ وہی امریکی سر زمین ہے جس کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے 1790میں یہودی پیشواؤں کو ایک تاریخی خط لکھا تھا جس میں انھوں نے امریکا کی زمین پر یہودیوں کے سُکھ، چین، امن اور آزادی سے رہنے کی ضمانت دی تھی۔ ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر تو نہیں البتہ ہر دہائی میں شرمندہ ضرور ہوا ، لیکن ٹرمپ کے دور میں تو انتہا ہی ہوگئی۔ یہودیوں کے خلاف امریکا میں اٹھنے والا ہر نفرت انگیز قدم حیران کن تو نہیں لیکن صدمے سے بھرپور اور ناقابل قبول ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی یورپ کی طرح امریکا میں بھی یہودی مخالف جذبات تیزی سے پنپ رہے ہیں۔
ریسرچ رپورٹس کے مطابق 2016کے مقابلے میں 2017 میں امریکا میں یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں ساٹھ فی صد اضافہ ہوا، جن میں ایک ہزار واقعات ہراسانی کے، ڈیڑھ سو واقعات بم سے اڑانے کی دھمکیوں کے، ساڑھے نو سو یہودی املاک کو نقصان پہنچانے اور انیس واقعات جسمانی ضرر پہنچانے کے رونما ہوئے۔ امریکا میں سوشل میڈیا پر یہودیوں کے خلاف اشتعال کو مزید بھڑکایا جا رہا ہے۔ یہاں اگر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو'' بیرونی حملہ آور'' قرار دیتے ہیں، وہیں بائیں بازو والے بھی یہودی املاک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ نیو نازی گروپ کا ٹارگٹ امریکی کالج اور یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں، جہاں وہ یہودیوں کے خلاف نفرت آمیز نظریات کی ترویج کرتے ہیں ۔
یہ قوم پرست، یہودیوں کو سفید فام ماننے کو تیار نہیں، ان کے نزدیک سفید فام صرف عیسائی ہیں ۔ لہٰذا پیٹس برگ حملے کا ذمے دار تنہا کسی فرد کو قرار دینا انتہائی غیرمعقول رویہ ہے۔ ایسے تمام سانحات کے ذمے دار بہت سارے لوگ، ادارے ، میڈیا اور وہ حکمراں ہیں جو کھل کر یہودی مخالف جذبات کا پرچار کرتے ہیں۔ دنیا کو رہنے کے قابل جگہ بنانے کے خواہش مند امریکی ان یہودیوں کو بھی اپنی سر زمین پر بستا نہیں دیکھنا چاہتے، جن سے ان کے بد ترین مفادات وابستہ ہیں۔ امریکا میں یہودیوں پر ہونے والا ہر حملہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑتا جارہا ہے کہ کیا واقعی امریکا یہودیوں کے لیے غیر محفوظ ہے؟ اور یہ بھی کہ اگر یہ حملہ آور سفید فام امریکی نہیں بلکہ کوئی مسلمان ہوتا تو پھر بھی امریکا درگزرکا یہی رویہ اپنائے رکھتا؟