ملتان سلطانز کا دھڑن تختہ کیوں ہوا

ملتان سلطانز کی ٹیم جب فروخت ہوئی تب ہی سے معاملات کچھ اچھے نہیں لگ رہے تھے

ملتان سلطانز کی ٹیم جب فروخت ہوئی تب ہی سے معاملات کچھ اچھے نہیں لگ رہے تھے ۔ فوٹو : فائل

کچھ عرصے قبل کی بات ہے میں نے چیئرمین پی سی بی احسان مانی سے پوچھا کہ ''بعض فرنچائزز بار بار کی ڈیڈ لائنز کے باوجود واجبات ادا نہیں کر رہیں، کہیں آپ کو ہلکا تو نہیں لیا جا رہا''،اس پر ان کا جواب دیا کہ ''اگر کسی نے معاہدے کی پاسداری نہ کی تو ہم سخت ایکشن لیں گے'' سچی بات ہے کہ اس وقت میں نے اسے ایک رسمی سا بیان سمجھا لیکن ملتان سلطانز کے ساتھ جو ہوا اس نے ثابت کر دیا کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا تھا، پی ایس ایل فور میں تین ماہ باقی ہیں، براڈ کاسٹنگ و دیگر معاہدے سر پر ہیں، دس روز بعد پلیئرز ڈرافٹ ہونے والے تھے اس کے باوجود پی سی بی نے اگر اتنا بڑا قدم اٹھایا تو کوئی نہ کوئی ٹھوس وجہ تو ضرور ہو گی، دراصل ملتان سلطانز کی ٹیم جب فروخت ہوئی تب ہی سے معاملات کچھ اچھے نہیں لگ رہے تھے، یہ ایونٹ کی سب سے مہنگی فرنچائز ثابت ہوئی۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز 10برس کیلیے11ملین ڈالرز میں فروخت ہوئی جبکہ ملتان سلطانز سے 8 برس کیلیے 41.6 ملین ڈالر (5.2 ملین سالانہ) کا معاہدہ ہوا، شعیب ملک کپتان، ٹام موڈی کوچ، وسیم اکرم ڈائریکٹر و بولنگ کوچ مقرر ہوئے،اونرز نے مہنگے داموں ٹیم خرید تو لی مگر انھیں خاصی مشکلات کا سامناکرنا پڑا، مقررہ تاریخ سے ایک دن قبل تک فرنچائز اور پلیئرز فیس کی ادائیگی نہیں ہوئی تھی، میرے پاس اس حوالے سے خبر آئی تو آفیشلز نے تصدیق سے گریز کیا البتہ پھر ایک اعلیٰ عہدیدار کی کال آئی کہ ''پلیز خبر نہ دیں ہمارا اسپانسر شپ معاہدہ ہونے والا ہے اسے نقصان پہنچ جائے گا'' ایک اور شخصیت سے بھی فون کرایا گیا،میں نے پھر چند روز کیلیے خبر روک لی تھی،ملتان سلطانز کو بورڈ کی جانب سے بینک گارنٹی کیش کرانے کی دھمکی بھی ملی تھی۔

اس نے 33 فیصد شیئرز پراپرٹی ودیگر کاروبار سے منسلک ایک شخصیت کو فروخت کیے،جنھوں نے ابتدائی طور پر 20کروڑ روپے دے کر ٹیم کو مشکلات سے نکالا، پی سی بی کی ایک سابق اعلیٰ شخصیت نے ملتان سلطانز کو مین اسپانسر دلانے کا وعدہ بھی کیا تھا، ایک بینک سے 15 کروڑ روپے کی ڈیل تقریباً فائنل ہو گئی تھی مگر عین وقت پر بینک پیچھے ہٹ گیا،52 لاکھ ڈالر سالانہ بہت بڑی رقم تھی، سب کا یہ خیال تھا کہ فرنچائز اونرز نے گھاٹے کا سودا کیا ہے، پھر جلد ہی انھیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہو گیا، اس برس بھی بینک گارنٹی کے معاملے میں بعض فرنچائزز نے پی سی بی کو پریشان کیا، ان میں ملتان سلطانز بھی شامل تھی، چند روز قبل اونرز نے بورڈ سے ملاقات کر کے کچھ مہلت اور مزید شیئرز فروخت کرنے کی اجازت بھی مانگی۔

اس وقت حکام کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ٹیم سروایو نہیں کر سکے گی، اسی لیے گورننگ بورڈ، فرنچائزز اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ملتان سلطانز کا معاہدہ ختم کر دیا، دبئی میں جائیدادیں ضبط ہونے سے مالکان کی مشکلات مزید بڑھ گئیں، فرنچائز مالی معاملات میں ہمیشہ تنگ ہی کرتی رہتی آج نہیں تو کل ایسا ہونا ہی تھا، البتہ اس سے پی سی بی کو سبق مل گیا، آئندہ ٹیمیں فروخت کرتے ہوئے اداروں کی سابقہ اور موجودہ ساکھ و دیگر معاملات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا،آئی پی ایل بھی واجبات کی ادائیگی پر کوچی، پونے اور دکن چارجرز کے معاہدے ختم کر چکی،البتہ پی ایس ایل ابھی انڈین لیگ کی طرح مضبوط نہیں، نہ ہی ہمارے بورڈ کے پاس اتنا پیسہ ہے ، لہذا اس فیصلے کے سائیڈ ایفیکٹس بھی دیکھنا ہوں گے۔


اتنی جلدی نئی پارٹی کو ٹیم فروخت کرنا ممکن نہیں تھا لہذا پی سی بی نے خود ہی معاملات سنبھالنے کا درست قدم اٹھایا، البتہ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ایک اور فرنچائز نے بھی تو بینک گارنٹی جمع نہیں کرائی تھی اس کا کیا ہوا؟ کیا اس کا بھی معاہدہ ختم کیا جائے گا یا اس نے بورڈ کی شرط پوری کر دی، اس حوالے سے وضاحت ضروری ہے، طاقتوراور بااثر شخصیات کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنا چاہیے جو آپ دیگرسے کرتے ہیں، پی ایس ایل کے کئی معاملات غور طلب ہیں جنھیں احسان مانی کو دیکھنا ہوگا، فرنچائزز سے ملاقات کر کے ان سے مسائل پوچھیں اور پھر انھیں حل بھی کریں،اس وقت تمام فرنچائزز کو ایک ہی انداز سے منافع کی ادائیگی ہوتی ہے۔

اس میں بھی دیکھنا ہوگا کہ جس نے جتنے کی ٹیم خریدی اسے اسی تناسب سے رقم دی جائے، بینک گارنٹی اور فیس کے معاملے میں کسی سے کوئی رعایت نہ برتیں سب سے یکساں سلوک کریں، پی ایس ایل ہمارا برانڈ ہے اور اسے بڑی محنت سے تیار کیا گیا جسے تباہ نہیں ہونے دینا چاہیے،براڈ کاسٹنگ ڈیل پر لیگز کا بہت زیادہ انحصار ہوتا ہے، فرنچائزز بھی منافع کیلیے اسی کی جانب دیکھتی ہیں مگر اب دیکھنا ہوگا کہ حالیہ فیصلے کے اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں بورڈ نے اتنا انتظار کیا چند دن اور رک جاتے، معاہدے ہونے کے بعد کوئی قدم اٹھایا جاتا۔

مگر شاید حکام سمجھ گئے تھے کہ مزید وقت ضائع کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اسی لیے فوراً فیصلہ کر لیا،بس اب پالیسی بنا لی ہے تو اس پر عمل بھی کریں چاہیں سامنے کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو، صرف اس ڈر سے کہ لیگ کی بدنامی ہو گی، ساکھ پر بْرا اثر پڑے گا کسی سے بلیک میل نہ ہوں، جو بھی تنگ کرے اسے سبق سکھائیں، فرنچائز خریدنے والوں کی کمی نہیں ہے، نئی بڈنگ کے وقت ہی اس کا اندازہ ہو جائے گا، بس فیصلہ کرتے وقت پیسے کے ساتھ دیگر عوامل بھی دیکھیں، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد فرنچائز سے معاہدے کی منسوخی پی ایس ایل کیلیے دوسرا بڑا جھٹکا ہے، امید ہے کہ لیگ اس مسئلے سے نمٹتے ہوئے بدستورکامیابی کی شاہراہ پرگامزن رہے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story