پولیس سسٹم کو جدید بنانا ضروری ہے

پولیس کے نظام میں بہت سی خامیاں موجود ہیں جن پر قابو پانا اشد ضروری ہے۔

عوامی سطح پر کہا جاتا ہے کہ مجرم اور پولیس ایک دوسرے کے ہمنوا و ہم پیالہ بن چکے ہیں‘ ایسے میں عام آدمی کو انصاف کہاں سے ملے گا۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سربراہی میں ہفتے کو لاہور میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں محکمہ پولیس میں اصلاحات' اسے جدید خطوط پر آراستہ کرنے' تھانہ کلچر کے خاتمے اور عوام کو سستا انصاف فراہم کرنے سے متعلق تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔ عوام کا کسی جرم یا شکایت کی صورت میں پہلا رابطہ تھانے ہی سے ہوتا ہے۔ شومئی قسمت سے تھانے کا نظام فرسودہ اور روایتی انداز ہی سے چل رہا ہے۔ عام شہری کو تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ جب تک پولیس اہلکاروں کی مٹھی گرم نہ کی جائے، عام شہری کی شنوائی ہی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کسی زیادتی یا ظلم کی صورت میں تھانے کا رخ کرنے کے بجائے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموش ہو جاتا ہے۔

ایسے میں مجرموں کو ہلہ شیری ملتی ہے اور وہ جرم پر پہلے سے بھی زیادہ دیدہ دلیر ہو جاتے ہیں۔ عوامی سطح پر کہا جاتا ہے کہ مجرم اور پولیس ایک دوسرے کے ہمنوا و ہم پیالہ بن چکے ہیں' ایسے میں عام آدمی کو انصاف کہاں سے ملے گا۔ ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار اور اس کے مقابل ججوں کی تعداد کم ہے نتیجتاً مقدمہ کا فیصلہ آنے میں تاخیر کا عمل شہریوں کو مشکلات میں ڈال رہا ہے۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے تھانے کا نظام بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ عدالتی مسائل کا فی الفور حل بھی ناگزیر ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ پولیس فورس کو جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے تاکہ بدلتے حالات اور نئے چیلنجز سے اس میں نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔


اس ضمن میں پولیس کی اعلیٰ ٹریننگ' اچھی ریکروٹمنٹ اور تفتیش کا معیار بہتر بنایا جائے' اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ نئے پڑھے لکھے سب انسپکٹرز کی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بطور انویسٹی گیٹرز بھرتی کی جائے گی اور انھیں اعلیٰ معیار کی تربیت دی جائے گی' اس سے تفتیش کا معیار بہتر ہو گا۔ اس وقت پولیس کے نظام میں بہت سی خامیاں موجود ہیں جن پر قابو پانا اشد ضروری ہے۔ پولیس بھرتی کا نظام بھی شفاف بنانا ناگزیر ہے جب کوئی رشوت دے کر بھرتی ہو گا تو وہ اپنے فرائض ایمانداری سے کیسے سر انجام دے سکتا ہے' سفارش اور سیاسی مداخلت کے کلچر نے بھی پولیس سسٹم کو نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ دہشت گرد اعلیٰ تربیت یافتہ' جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہیں، موجودہ تربیت کا معیار اس قابل ہی نہیں کہ پولیس دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکے۔

پولیس کو پاک فوج کی نگرانی میں جدید خطوط پر ٹریننگ دینے کے فیصلے سے پولیس کی استعداد کار میں یقیناً اضافہ ہو گا جس سے وہ جرائم کے ساتھ ساتھ دہشت گردی جیسے ناسور پر قابو پانے کے قابل ہو جائے گی۔ گزشتہ دور میں جاری کیے گئے غیر ضروری اور غیر قانونی اسلحہ لائسنس کو فوری ختم کرنے کے فیصلہ سے بھی جرائم میں کمی ہو گی۔ تھانہ کلچر سے چھٹکارا پانے کے لیے عدالتوں کی تعداد میں اضافہ اور شام کو بھی عدالتیں لگانے کا فیصلہ درست سمت قدم ہے' اس سے طویل عرصہ سے التوا میں پڑے مقدمات جلد نمٹانے میں مدد ملے گی۔ ماضی میں بھی پولیس نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی بار اصلاحات کی گئیں مگر اس سے قابل ذکر تبدیلی نہ آ سکی۔ ایک بار پھر موجودہ حکومت نے بھی اصلاحات لانے کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ یہ اصلاحات اسی وقت بار آور ہو سکتی ہیں جب ان پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے۔
Load Next Story