اب بھی وقت ہے سنبھلنے کا

امن وامان کی ابتر صورتحال کا سبب پولیس سمیت انتظامی اداروں کاPoliticiseہونا ہے۔


Muqtida Mansoor June 23, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: شدید بیماری کے سبب دو اظہاریوں کا ناغہ۔ چار روز اسپتال میں اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر سید مظہر حیدرکی نگہداشت میںگذرے ۔جنہوں نے ایک دوست اور طبیب کے طور پر ہر طرح خیال رکھا۔مگر تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔پہلے سے پریشانیوں میں گھرے قارئین کو اپنی داستانِ غم سنا کر مزید ذہنی کوفت میں مبتلا کرنا دانشمندی نہیں۔ویسے بھی یہ صفحات فردِ واحد کے ذاتی مسائل کے بجائے قومی مسائل کے لیے مختص ہوتے ہیں، اس لیے موضوع سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ پوری قوم اس وقت مسائل کے کوہ ِ گراں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔اس کی نظر یں نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لگی ہوئی ہیں،جن کی نیت اور اخلاص پر شک کرنے کا فی الحال کوئی جواز بھی نہیںہے،مگر جس انداز میں معاملات آگے بڑھ رہے ہیں ،وہ زیادہ اطمینان بخش نظر نہیں آرہا۔

ملکی صورتحال پر نظر ڈالیں، تو دہشت گردی سے جڑا امن وامان کا سنگین ہوتا مسئلہ۔ معیشت کی زبوں حالی سے جڑا توانائی کا بحران۔ انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی اورخواندگی کی تشویشناک صورتحال نے پورے ریاستی نظام کو تباہی کے دہانے تک پہنچادیا ہے۔ یہ تمام مسائل اتنے پیچیدہ اور گھمبیرہیں کہ انھیں ایک اظہارئیے میں سمیٹنا ممکن نہیں، بلکہ کئی جلدوں پر مشتمل کتاب درکارہے۔ لیکن انھی مسائل سے جڑا ایک مسئلہ ایسا بھی ہے، جوحکومتوں کی عدم توجہی، سیاسی جماعتوں کی بے اعتناعی اور اہل دانش کی لاپروائی کے سبب عفریت کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ یہ مسئلہ جس کی وجہ سے ملک کی سیاست اور معیشت ہی نہیں،بلکہ پورا سماجی Fabric بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے، وہ سندھ میں شہری اور دیہی کی بڑھتی ہوئی تقطیب(Polarization)ہے۔ یہ مسئلہ ریاستی اسٹبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں، مختلف شراکت داروں کی اناپرستی اورسیاسی جماعتوں کی لاپرواہی کے سبب پیچیدہ ہوچکا ہے۔

سندھ میں دیہی اور شہری کی تقسیم خاصی پرانی ہے۔ اس کا آغاز تقسیمِ ہندکے موقعے پرمہاجرین کی سندھ میں بڑی تعداد میں آمد کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ خاص طورپر جب اس وقت کی وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی مرضی ومنشا کے بغیرکراچی کو سندھ سے الگ کرکے وفاقی حیثیت دی تھی۔پھر1955ء میں، جب ون یونٹ کے غیر فطری قیام نے اس تقسیم کو مزید گہرا کیا۔1970ء کے عام انتخابات میں یہ تقسیم سیاسی شکل اختیارکرگئی۔1972ء میں ہونے والے لسانی فسادات کا ٹھوس اور دیر پاحل تلاش کرنے کے بجائے محض وقتی لیپاپوتی سے کام چلانے کی کوشش کی گئی۔جب کہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچانے اور اپنے اقتدارکو طول دینے کے لیے اس تقسیم کومزید ہوادی۔

1988ء کے عام انتخابات کے بعد سے یہ تقسیم مزید گہری ہوتی چلی گئی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے، جہاں شہری اور دیہی کی تقسیم بہت زیادہ گہر ی ہے، بلکہ آبادی کے مختلف حصوں کے درمیان تنائو کاسبب بنی ہوئی ہے۔اس پورے عمل میں جہاںایک طرف شہری اوردیہی سندھ کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں کے اپنے مخصوص انتخابی مفادات انھیں جرأت مندانہ اقدامات کرنے سے روکتے ہیں۔وہیں دوسری طرف بعض دیگر شراکت دار جن میں قوم پرست جماعتیں اور دیگر عناصر شامل ہیں،کسی ٹھوس اور پائیدار حل کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کاروایتی کردارپہلے ہی ایک بہت بڑا مسئلہ بناہوا ہے۔ایسی صورتحال میں کسی صائب حل تک پہنچنا انتہائی مشکل نظر آتاہے۔

چند برس پہلے تک یہ تصور عام تھا کہ دیہی اور شہری سندھ کی نمایندگی کرنے والی جماعتیں یعنی پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم اگر ایک دوسرے کے قریب آجائیں تو سندھ میں دیہی اور شہری کی تفریق پر قابو پاکرصوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے لیکن 2008ء سے2013ء کے دوران ان دونوں جماعتوں نے جن بدترین رویوں کامظاہرہ کیا،اس نے اس تصورکوشدیدزک پہنچائی کہ نمایندہ جماعتیں معاملات کو بہتربنانے میں بنیادی کرداراداکرسکتی ہیں۔ان دونوں جماعتوں نے پانچ برس کا پوراعرصہ صوبے کے مسائل کو سمجھنے اوران کے ٹھوس اور دیر پاحل تلاش کرنے کے بجائے فروعی معاملات کو ہوادینے میں ضایع کردیا۔جس کی واضح مثال مقامی حکومتی نظام ہے۔اس اہم مسئلے پرپیپلزپارٹی کی غیر سنجیدہ روش اور لیت لعل کی پالیسی نے نہ صرف غیر نمایندہ قوتوں کو فعال ہونے کا موقع فراہم کیا، بلکہ ہر سطح پرلسانی تقسیم کو گہراکیا۔یوں پانچ برسوں کے دوران نہ امن وامان کی صورتحال میں کسی قسم کی بہتری لائی جاسکی اور نہ ترقیاتی سرگرمیاں شروع ہوسکیں۔

امن وامان کی ابتر صورتحال کا سبب پولیس سمیت انتظامی اداروں کاPoliticiseہونا ہے۔ سول سوسائٹی اور ذرایع ابلاغ کی باربارنشاندہی کے باوجود سندھ کی مخلوط حکومت نے انتظامی اداروں میں اصلاحات کے لیے کوئی پیش قدمی نہیں کی۔اس کی بنیادی وجہ سیاسی عزم و بصیرت کا فقدان تھا۔ دوسرے مخصوص سیاسی مفادات بھی پولیس اور انتظامی اداروں میں کسی قسم کی مثبت اصلاحات میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔اس لیے پانچ برس تک کراچی جس بدامنی اور انتشار کا شکار رہا،اس کی ذمے داری سے منتخب جماعتوں خاص طورپر پیپلز پارٹی کو مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حالانکہ سابقہ دورمیں پیپلز پارٹی،ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی شامل تھیں،جو نظریاتی طورپرایک دوسرے کے خاصی قریب تصور کی جاتی ہیں۔ مگرانھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے دست وگریباں ہوکر پورے پانچ برس ضایع کردیے۔دراصل پاکستان جیسے ممالک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی اتحاد کبھی سیاسی نظریات کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتے۔بلکہ مخصوص مفادات سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں، جس کی وجہ سے اول تو یہ اتحاد دیرپا نہیں ہوتے۔دوئم،ان سے مثبت نتائج حاصل نہیں ہوتے۔اس صورتحال کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں جو جماعتیں مختلف صوبوں میں اقتدار میں آئیں،وہ نظریاتی طورپر ایک دوسرے کے خاصی قریب تھیں۔جن میں پیپلزپارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام شامل تھیں۔ یہ جماعتیں اگر ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتیں تو ملک کا نقشہ بدل چکاہوتا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکرائو کا فائدہ دائیں بازوکی جماعتوں نے اٹھایا۔اسی طرحPNA کی تحریک میںدیگرجماعتوں کے ساتھ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل تھی، جو کسی بھی طورفکری اعتبار سے پیپلز پارٹی سے متصادم نہیں تھی، لیکن حالات کے جبر نے اسے پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد کا فعال حصہ بننے پر مجبورکیا۔

آج ایک بار پھر یہ کوششیں کی جارہی ہیں کہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے ساتھ سندھ حکومت کا حصہ بن جائے تاکہ شہری اور دیہی کی تفریق کے تصور کو ختم کیا جاسکے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اس طرح سیاسی جماعتوںکے اقتدار کا حصہ بننے سے وہ پیچیدہ معاملات حل ہوسکیں گے، جو خود سیاسی جماعتوں کی انا،ہٹ دھرمی اور ضد کے سبب پیچیدہ ہوئے ہیں۔یہ طے ہے کہ سندھ میں اب کوئی کسی کو صوبہ بدر نہیں کرسکتا،اس لیے صوبے کے وسیع تر مفادات اور معاشی وسماجی ترقی کے لیے ماضی کی تمام کوتاہیوں، غلطیوں اور خرابیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تنائو کی سیاست کی جگہ تعاون اور قبولیت کی سیاست کو پروان چڑھاناوقت کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے سندھ کی سطح پر اہل دانش کے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، جو سندھ کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل دینے کی ذمے داری سنبھال سکے۔ ابتداء میں یہ سندھی اور اردو بولنے والوںکے درمیان طے کیا جائے پھر اس عمل میں سندھ میں مستقل آباد بلوچوں،پنجابیوں اور پختونوں کو بھی شامل کیا جائے۔سندھ کے دانشور ایک ایسا قابل قبول مقامی حکومتی نظام بھی تشکیل دیں جو اقتدار واختیار کی صحیح معنی میں نچلی سطح تک منتقلی کا سبب بن سکے اور تمام شہریوں کے لیے ترقیاتی منصوبہ بندی میں شرکت کا موقع فراہم کرسکے۔

سندھ کا مسئلہ قومی مسئلہ ہے، جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والی نمایندہ جماعتوں کے علاوہ دیگر قومی جماعتوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اس صوبے کے مسئلے کو احسن طورپر حل کرنے میں معاونت کریں اور فوری سیاسی مفادات سے بلند ہوکر وسیع ترقومی مفاد میں کراچی کو پرامن بنانے اور سندھ میں شہری اور دیہی کے تفاوت کو ٹھوس بنیادوں پر ختم کرنے کی کوشش کریں ۔اس لیے اب بھی وقت ہے سنبھلنے کا ۔کیونکہ یہ وقت اگر گذرگیا،توشاید ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ باقی نہ رہ سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔