حکومت عوام کا غصہ کم کرسکتی ہے

ہم انتخابات سے پہلے بھی جانتے تھے اور اب بھی جانتے ہیں کہ ملک معاشی تباہی کے کنارے کھڑا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari June 23, 2013
[email protected]

الیکشن مہم کے دوران میں نے عوام سے بار بارکہاتھا کہ وہ ہمارے محترم سیاسی رہنمائوں کی تقاریر، بیانات ریکارڈ کرکے رکھ لیں اور اقتدار میں آنے کے بعد یہ رہنما جو بیانات دیتے ہیں ان کا موازنہ الیکشن سے قبل کیے جانے والے وعدوں اور دعوئوں سے کریں تو ان کے وعدوں اور دعوئوں کی حقیقت سامنے آجائے گی۔ الیکشن مہم کے دوران سیاسی رہنمائوں کے پاس ہر مسئلے کا ریڈی میٹ حل موجود ہوتا ہے اور ہر بڑے سے بڑا مسئلہ پلک جھپکتے میں حل کرنے کی یقین دہانی ہوتی ہے لیکن جیسے ہی یہ معزز اور سچے حضرات اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں ان کا پہلا فرمان یہ ہوتاہے کہ ہمارے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ اسے رگڑ کر عوام کے مسائل پلک جھپکتے میں حل کردیں۔ پھر اگلے پانچ سال تک عوام کو ایسا رگڑتے ہیں کہ ان کی کھال تک نکل جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابی مہم کے دوران ہر شعبے کے ماہرین کے اندازوں کو سامنے رکھ کر عوام سے ایسے وعدے کیے جاتے ہیں جو وفا کیے جاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ عوام کسی دھوکے میں رہتے ہیں نہ حکمرانوں کو عوام کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتاہے۔ بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے عوام سے یہی کہا جارہا کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو اﷲ کے فضل سے چند ہفتوں میں عوام کو اس عذاب سے نجات دلادیںگے۔ سابقہ حکومت پر یہی الزام لگایا جاتا رہاکہ وہ کشکول اٹھائے ساری دنیا میں بھیک مانگ کر قوم کو رسوا کررہی ہے اگر ہم اقتدار میں آئے تو کشکول توڑ دیںگے لیکن آج عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ حکمران ملک کی65سالہ تاریخ کے سب سے بڑے کشکول ہاتھوں میں اٹھائے پھررہے ہیں اور انھیں کوئی غیر مشروط خیرات دینے والا نظر نہیں آرہاہے۔

الیکشن مہم کے دوران کہا جاتا رہا کہ ہم آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیں گے اور آجکل آئی ایم ایف کا ایک بڑا وفد پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہاہے کہ کیا اس دیوالیہ معیشت والے ملک کو قرض دیاجا سکتا ہے یا نہیں۔ دوست مسلم ملکوں سے ریال، درہم ودینار کے علاوہ فری تیل کے لیے دامن پھیلائے جارہے ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے یہ کہا جارہا ہے کہ اسے ختم کرنے میں پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ ہمارے ایک نئے رہنما کا ارشاد رہا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو وہ نوے(90) دن میں کرپشن ختم کردیں گے۔

ہم نے ان ہی کالموں میں ان بادشاہوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس نظام میں کرپشن90دن تو کیا90سال میں بھی ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ اس نظام کی بنیادیں ہی کرپشن پر رکھی گئی ہیں۔ ہمارے محترم بڑے میاں صاحب فرمارہے ہیں کہ نہ میں کرپشن کروںگا نہ کسی کو کرپشن کرنے دوںگا جیسی باتوں کو ہم ''خیال است ومحال است وجنوں'' کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے اپنی تمام تر نالائقیوں کا معاہدہ کیا تھا اب افواہیں ہیں کہ ہماری حکومت امریکی سرکار کے شدید دبائو کے آگے ایران سے کیے گئے گیس معاہدے کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کی تصدیق اس حکومت کے وزیر پیٹرولیم فرمارہے ہیں کہ اگر گیس کے معاہدے پر عمل در آمد میں دیر ہوئی تو ہمیں روزانہ30لاکھ ڈالر بطور جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

ہمارے میاں برادران اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ اگر عوام نے انھیں منتخب کیا تو ہم سب سے پہلے انھیں مہنگائی سے نجات دلائیںگے۔ لیکن عوام حیرت سے دیکھ رہے ہیں کہ مہنگائی پر لگاکر اڑ رہی ہے، مرغی جو دو ہفتے پہلے160روپے کلو فروخت ہورہی تھی اچانک اس کی قیمت میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ کردیاگیاہے اور اس اضافے کو روکنے کے لیے ہمارے حکمرانوں نے مرغی کے گوشت کی قیمت فی کلو 280 روپے کردی ہے۔ لیکن پولٹری فارمر مرغی کا گوشت 320روپے کلو سے کم بیچنے کے لیے تیار نہیں اور انھوںنے سرکاری نرخوں کے خلاف احتجاج کے طورپر اپنی دکانیں بند کردی ہیں اور ہوٹلوں اور پی آئی اے وغیرہ کو گوشت کی سپلائی بند کردی ہے۔ آٹے کی قیمت بڑھادی گئی ہے، بجلی کے ریٹ میں اضافہ کردیا گیا ہے، جی ایس ٹی میں ایک روپے اضافہ کردیاگیاہے جس کی وجہ سے تمام اشیا صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

ماضی کی ہر حکومت نے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں عموماً20فیصد تک اضافہ کیا ہے لیکن ہماری مہربان حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے انکار کردیا۔ جب ملازمین اپنے دفاتر کو تالے لگاکر سڑکوں پر آگئے تو مجبوراً حکومت نے تنخواہوں میں10فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے جسے ملازمین ماننے کے لیے تیار نہیں اور سڑکوں پر مظاہرے اور دھرنے دے رہے ہیں۔ میاں صاحب یقیناً جانتے ہوں گے کہ آٹے، چینی، مرغی، انڈوں، تیل، گھی، پیٹرول، سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے تو اس کے ذمے دار انسان کروڑوں روپے کی رشوت لے لیتے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی جنس کی قیمت میں فی کلو لگ بھگ10روپے کا اضافہ کردیا گیا جب کہ ہمارے ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں ہے۔ لاکھوں ٹن گندم گوداموں میں موجود ہے اور ایکسپورٹ بھی ہورہی ہے اگر اس اسکینڈل کی تحقیقات کی جائے تو اس کے پیچھے کروڑوں نہیں اربوں کی کرپشن نظر آئے گی۔ اب کرپشن اس قدر سائنٹیفک طریقوں سے کی جاتی ہے کہ بڑے بڑے احتسابی ادارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔

ایک ہاتھ سے کی جانیوالی کرپشن کا دوسرے ہاتھ کو پتہ نہیں چلتا۔ ہمارے ملک کی انتظامیہ اور عدلیہ کی بے بسی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ دودھ کی قیمتوں کے ریٹ بار بار فکس ہوتے رہے اور ڈیری فارمروں نے کھلے عام عدالتی فیصلوں کو ماننے سے انکار کردیا اور اپنی مرضی کی قیمت پر دودھ، دہی فروخت کررہے ہیں۔ کل تک یہ دہی100روپے کلو فروخت ہورہی تھی، آج اس کی قیمت میں12روپے فی کلو اضافہ کردیاگیاہے۔ ان منافع خوروں کو نہ حکومت کا ڈر ہے نہ اعلیٰ عدالتوں کا خوف۔ ٹماٹر جو 30روپے کلو فروخت ہورہے تھے نئی حکومت کی ناک کے نیچے80روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔ پیاز جو 15،20روپے فروخت ہورہی تھی وہ اب 50،60روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ سبزیوں کی قیمت سو روپے کلو سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ یہ نظام آخر کار عوام کو سڑکوں پر لائیںگے۔ ہمارا میڈیا بہت فعال ہے اس کے پاس انتخابی مہم کے جلسوں کی مکمل رپورٹنگ موجود ہے۔ کیا میڈیا سیاسی رہنمائوں کے انتخابی وعدوں اور حکومت کی آج کی کارکردگی کا موازنہ عوام کے سامنے پیش کرنے کی زحمت کرے گا۔ تاکہ عوام کو سیاسی دروغ گوئی کا اندازہ ہوسکے۔

ہم انتخابات سے پہلے بھی جانتے تھے اور اب بھی جانتے ہیں کہ ملک معاشی تباہی کے کنارے کھڑا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آگئے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کی اربوں ڈالرز کی قسطیں واجب الادا ہیں۔ نئے قرضے ملنے کی امید کم ہے۔ اگر قرض ملیںگے تو مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر قرض دیںگے اور ان شرائط پر ٹیکسوں میں اضافہ، پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈی کا خاتمہ سر فہرست ہوںگے جس سے مہنگائی کا ایک اور طوفان آجائے گا۔ ہمیں حکومت کی مجبوریوں کا پوری طرح احساس ہے لیکن روایت کے مطابق موجودہ حکومت بھی عوام ہی سے قربانیوں کا مطالبہ کررہی ہے۔ عوام پر ہی ٹیکسوں کا بوجھ لادا جارہاہے۔ مہنگائی کا شکار عوام ہی ہورہے ہیں۔ بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام ہی بھگت رہے ہیں اور اربوں کھربوں کی دولت پر سانپ بنی بیٹھی اشرافیہ عیش کررہی ہے۔ ایسا اس لیے ہورہاہے کہ65سالوں سے یہی اشرافیہ حکومت بھی ہے اور اپوزیشن بھی۔

ایک مہنگائی حقیقی ہوتی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہوتی ہے۔ ایک مہنگائی مصنوعی ہوتی ہے جو صنعتکاروں، تاجروں کی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ اگر حکومت مصنوعی مہنگائی کے خلاف سخت اقدامات کرکے آٹے، دال، تیل، گھی، مرغی، انڈے، دودھ، دہی وغیرہ کی قیمتوں میں بلا جواز اضافے کو روکے تو پھر عوام کا غصہ اور اشتعال کم ہوسکتاہے جو خود حکومت کے حق میں ایک نیک نامی ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ حکومت محض لفاظی کے بجائے عملی اقدامات کی طرف آئے۔ ہمارے عوام اگر دو تین دن دودھ دہی نہ خریدیں تو ڈیری مالکان کی سیل کم ہوجائے گی لیکن عوام میں اتحاد کا فقدان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں