گردشی پیدائشی اور بخشاکشی قرضے
آیندہ نسلیں جب پیدا ہوں گی تو ان کو کسی بھی طرح کی تکلیف نہیں ہو گی.
کسی دانا نے شاید سقراط یا پھر بقراط نے یا پھر کسی اور یونانی ایرانی نے کہا ہے کہ انسان زندہ ہو تو آخری دم تک کچھ نہ کچھ سیکھنے اور دیکھنے سننے کو ملتا ہے، اسی بات کو لے کر شاید سقراط اتنا دکھی ہو گیا تھا کہ بے چارے نے خود کو سزا دینے کے لیے زہر کا پیالہ غٹا غٹ پی لیا، یہ کہتے ہوئے کہ میں ساری زندگی میں یہ جان پایا کہ میں کچھ نہیں جانتا، یہی بات ہم بھی دہرانا چاہتے ہیں لیکن ذرا زہر کی پیالی سے معذرت کے ساتھ کہ اتنا عرصہ قلم گھسانے اور کاغذ سیاہ کرنے کے بعد اب کہیں جا کر ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمیں تو کچھ پتہ نہیں ہے، اب آپ ہی بتایئے کیا آپ نے گردشی قرضے کا نام پہلے کبھی سنا ہے، ہم نے بھی نہیں سنا تھا بلکہ ہم تو صرف ایک قرضے کے بارے میں جانتے ہیں اور اس کا نام پیدائشی بلکہ صحیح معنوں میں ''قبل پیدائشی قرضہ'' ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔
اتنا زیادہ مقبول ہے کہ موجودہ نسل انتہائی محنت سے کام لیتے ہوئے اپنی آیندہ سات نسلوں تک کے لیے یہ قرضے جمع کیے ہیں بلکہ کر رہے ہیں، خدا اور برکت دے، قبل پیدائشی اور پیدائشی قرضوں کے بارے میں ہماری معلومات اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ ہم ان میں باقاعدہ شامل ہیں بلکہ اپنی آیندہ سات نسلوں کو بھی ان میں شامل کر چکے ہیں، آیندہ نسلیں جب پیدا ہوں گی تو ان کو کسی بھی طرح کی تکلیف نہیں ہو گی نہ ساہوکار ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، نہ قرضے کے لیے درخواستیں وغیرہ دینا ہوں گی، نہ ضمانتیں فراہم کرنا ہوں گی اور نہ ہی قرض لی ہوئی رقم کو ٹھکانے لگانے کی تکلیف اٹھانا پڑے گی، آنکھیں کھولتے ہی ان کو پہلے ہی سے تیار قرضے کا حساب ملے گا ان کو صرف ان قرضوں کی ادائیگی کرنا پڑے گی بس ۔۔۔ یہ بھی کوئی قید نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں یہ قرضے ضرور ادا کریں جتنا کر سکیں گی وہ کر لیں گی باقی اپنی آیندہ نسل کے لیے چھوڑ دیں گی یہ کہہ کر کہ
سپردم بتو قرضہ خویش را
تو دانی حسابٍ کم و بیش را
ذرا سوچئے ان پیدائشی اور قبل پیدائشی قرضہ جات کی برکت سے پاکستانی عوام کی زندگی کتنی ''بے غم اور بے غل و غش'' گزرے گی، دوسرے ملکوں کے لوگ تو جب پیدا ہوتے ہیں تو ہزار غم اپنے ساتھ لے آتے ہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں تگ و دو کرتے ہیں اپنی آمدنی اور خرچ کو مینج کرتے ہیں بجٹ بناتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا کرتے ہیں، لیکن پاکستانی عوام دنیا کے خوش نصیب ترین عوام ہیں کہ ان کو ایسا کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ پیدا ہوتے ہی ان کو بنا بنایا پروگرام مل جائے گا، کام کام اور کام کرنا یعنی خون پسینہ بہانا اور آرام سے قرضے اتارنا، اس کے ساتھ ہی بونس کے طور پر یہ سہولت بھی کہ آیندہ نسلوں پر جتنے بھی قرضے چڑھا سکتے ہیں، وہ ایک مشہور اور گھسا پٹا لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا جس میں ایک ایسے ہوٹل کا ذکر ہے جس پر بورڈ لگا تھا کہ آیئے کھایئے بِل کی فکر نہ کریں وہ آپ کے پوتے ادا کریں گے۔
ایک شخص جو یقیناً پاکستانی بلکہ پاکستانی لیڈر ہی ہو گا بڑی خوشی سے ہوٹل کے اندر گیا سوچا خوب خوب پیٹ بھروں گا بلکہ اتنا کھاؤں گا کہ تاحیات مراعات کی بھی چیخ نکل جائے گی ایک میز پر بیٹھ کر اس نے خوب خوب تاحیات مراعات ٹھونسنا شروع کیں ہوٹل میں تاحیات مراعات کی ایک کوئی ڈش نہیں تھی جو اس نے چھوڑی ہو پھر اس نے اطمینان سے ریٹائرڈ کی ڈکار لی اور جانے لگا کہ اتنے میں بیرے نے آ کر ایک لمبا چوڑا بِل پیش کیا حیران بلکہ غصہ ہو کر اس نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بیرے نے کہا بِل ہے حضور ۔۔۔ اس پر وہ مزید آگ بگولہ ہو کر بولا مگر باہر تو تم لوگوں نے لکھا ہے کہ... بیرے نے قطع کلامی کرتے ہوئے دست بستہ عرض کیا حضور وہ بالکل ٹھیک ہے اور آپ نے جو کچھ کھایا ہے یہ اس کا بل نہیں ہے وہ بل تو آپ کے پوتوں کے نام درج کر دیا گیا ہے یہ جو بھی ابھی آپ ادا کریں گے یہ آپ کے پرکھوں کا بل ہے جو وہ اپنے پوتوں یعنی آپ کے ذمے چھوڑ گئے تھے، اس واقعے کے بارے میں مزید معلومات تو موجود نہیں ہے۔
لیکن اتنا سنا ہے کہ ہوٹل کا وہ بیرہ بھی بڑا ہوشیار نکلا اس نے بھی اپنے پوتوں کے لیے ایک الگ ہوٹل کھول لیا جس کا نام آئی ایم ایف ہے، اس ہوٹل کی ایک شاخ سنا ہے پاکستان میں بھی ہے جہاں آجکل سیاسی رہنماؤں کا بڑا ہجوم رہتا ہے اور وہ تاحیات مراعات ٹھونس ٹھونس کر اپنی آیندہ نسلوں کے ذمے ادائیگی چھوڑ رہے ہیں چونکہ یہ ہوٹل نیا نیا کھلا ہے اس لیے ابھی گذشتہ نسلوں کے بل نہیں پیش کیے جاتے صرف تاحیات مراعات ٹھونسے جا رہے ہیں، مطلب یہ کہ ہم پیدائشی قبل پیدائشی اور بعد پیدائشی قرضوں کے بارے میں تو جانتے ہیں لیکن یہ ''گردشی'' قرضے نہ کبھی دیکھے نہ سنے، ممکن ہے یہ پہلے بھی رہے ہوں لیکن ہمیں علم نہ ہوا ہو یا اس سے پہلے اس کا کوئی اور نام رہا ہو۔ چنانچہ ہم نے بھی یہ گردشی قرضے کا ٹپہ پہلی بار سنا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ ابھی اور کتنے ایسے قرضے ہوں گے جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہے شاید ہماری آیندہ نسل کو علم ہو جائے گویا
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے سے ہی سہی
ہیں کتنے بے حجاب جو یاں ہیں حجاب میں
چونکہ یہ سلسلہ ''شی'' کے ساتھ چلا ہے حالانکہ قرضے مونث نہیں ہوتے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی مذکر ہوتے ہیں لیکن ''ہی'' کے بجائے ''شی'' کا لاحقہ بھی کچھ معنی تو رکھتا ہی ہو گا اس لیے اس طرز پر نہ جانے اور کتنے قرضے ہوں گے جسے نمائشی قرضے، آرائشی قرضے، فرمائشی قرضے، آلائشی قرضے، بابائشی قرضے، مامائشی، چاچا ئشی قرضے وغیرہ
ہے غیب، غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
البتہ ایک اور قرضے کا بھی ہمیں علم ہے سرکاری طور پر تو اس کا نام نہیں رکھا گیا ہے لیکن اپنے طریقہ واردات میں یہ قرضے ''بخشائشی'' قرضے کہلائے جا سکتے ہیں لیکن یہ صرف خاص بلکہ خاص الخاص لوگوں کو ملتے ہیں کیوں کہ ان قرضوں کو حاصل کرنے کے لیے پہلے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مجھے قرضہ لینے کی ضرورت بالکل نہیں ہے اور میں اسے صرف بخشنے کے لیے لے رہا ہوں اور یہ بڑا آسان معاملہ ہوتا ہے مثلاً ابھی جاتے جاتے بھی ''عوامی مینڈیٹ'' نے ایسے بے شمار قرضے بخشے ہیں اندازہ اس سے لگایئے کہ وہ جو ایک چھوٹی سی ننھی سی پیاری سی چھوٹی بینظیر جیسی اسمبلی میں بیٹھی تھی اس نے بھی جاتے جاتے اپنے شوہر نامدار مزرا ذوالفقار کی شوگر مل کا ایک چھوٹا سا صرف پچاس کروڑ کا قرضہ بخشوا دیا۔