اصلاح معاشرہ کی ضرورت

آج ہم غیر مسلموں کے مقابلے کے لیے جس اسلامی تاریخ کو بطور ہتھیار یا جواب استعمال کرتے ہیں.

apro_ku@yahoo.com

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخبارات میں شایع ہونے والی دلخراش خبروں میں سے کوئی ایک خبر آپ کی آنکھیں نم کردیتی ہے۔ گزشتہ دنوں شایع ہونے والی خبر بھی ایسی ہی تھی جس میں مظفرگڑھ کے ایک زمیندار نے پیاز اکھیڑنے پر اپنے ہی ایک عزیز کی 6 سالہ بچی پر پالتو کتا چھوڑ ڈالا جس نے اس معصوم بچی کے چہرے کو بری طرح زخمی کردیا اور ناک کو بری طرح کاٹ ڈالا۔ گوکہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے فوری طور پر اس خبر کا نوٹس لیا اور ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا حکم جاری کردیا تاہم اس کے باوجود ہم سب خاص کر ذرایع ابلاغ کی ذمے داری ہے کہ وہ ملزمان کو عبرت ناک سزا ہونے تک مذکورہ متاثرین کے کیس کو زندہ رکھیں اور اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی اس قسم کی کئی خبریں وقفے وقفے سے منظر عام پر آئی ہیں کہ جن میں پاکستان کے دیہی علاقوں میں بدلہ لینے کے لیے معصوم بچوں اور بالغ خواتین پر کتے چھوڑ کر درندگی کا مظاہرہ کیا گیا۔

اس خبر کے پڑھتے ہی نہ صرف آنکھ نم ہوئی اور پھر فوراً ذہن میں یہ جملہ آیا کہ اگر کسی دریا کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کا حساب روز قیامت حاکم وقت سے لیا جاسکتا ہے۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ یہ جملے صرف لکھنے یا تقاریر میں سنانے کے لیے ہی استعمال ہورہے ہیں مگر ہماری بے حسی اس قدر ہے کہ ان واقعات کے تدارک کے لیے کبھی کوئی بڑا احتجاج یا ردعمل سامنے نہیں آیا نہ ہی کسی صاحب اقتدار یا اختیار نے اس قسم کے مسئلوں پر مجرمان کو فوری اور سخت سزائیں دیں۔ اس واقعے پر فوری نوٹس لے لیا گیا ہے، اگر مجرموں کو فوری اور عبرت ناک سزا مل جائے تو آیندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام میں بہت حد تک مدد مل سکے گی ۔ جس قدر احادیث اور احکامات اسلام میں ملتے ہیں ان کو سامنے رکھا جائے تو ہمارے ذمے داروں کی نیندیں ہی اڑجائیں مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ ہماری اکثریت خواب غفلت میں پڑی ہے۔

آج ہم غیر مسلموں کے مقابلے کے لیے جس اسلامی تاریخ کو بطور ہتھیار یا جواب استعمال کرتے ہیں اس تاریخ میں ایسے واقعات بھرے پڑے ہیں کہ جن میں خلیفہ وقت اور قاضی دونوں خوف خدا کے باعث ایسی زندگی گزارتے تھے جو انتہائی نچلے درجے کی ہوتی تھی اور ایسے فیصلے دیتے تھے کہ جس میں اولاد بھی زد میں آتی تھی۔


اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے حضرت معاذ بن جبلؒ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو نصیحت و ہدایت کے طور پر کہا کہ مظلوم کی آہ سے ڈرنا کیونکہ مظلوم کی آہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس قسم کے واقعات بھرے پڑے ہیں کہ جب کسی فرد کو کسی صوبے کا گورنر یا کسی بھی قسم کا حکومتی عہدہ ملا تو اس کی زندگی کا طرز یک دم ہی تبدیل ہوجاتا۔ عمر بن عبدالعزیز جو اس قدر مال دار اور عمدہ پوشاک پہننے والے تھے کہ ایک لباس دوبارہ نہیں پہنتے تھے مگر جب اقتدار ملا اور ذمے داری کندھوںپر آن پڑی تو بس ایک ہی جوڑا زیب تن کرتے، اسی کو دھو کر پہنتے۔ اسلامی سلطنت کے حکمران اقتدار میں آنے کے بعد چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانا چھوڑ دیتے، فرش پر بستر بنالیتے اور بھیس بدل کر گلیوں کے چکر کاٹتے اور عوام کی خبر گیری کرتے تھے کہ کسی کو انصاف کی ضرورت تو نہیں؟ کوئی بھوکا پیاسا تو نہیں؟

آج بلاشبہ مسلمان اعمال کے اعتبار سے بہت پیچھے ہیں جن میں حکمراں اور عوام دونوں ہی شامل ہیں لیکن ہماری اخلاقی اور قانونی اعتبار سے جو صورت حال ہے وہ مغرب سے بھی بہت پیچھے ہے جس کو درست کرنے کے لیے اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ مساجد کا کردار اس ضمن میں اہمیت کا حامل ہے اگر مساجد کے پیش امام کم ازکم اپنے جمعے کے خطبے میں ہی ان تعلیمات کو بیان کریں جس میں بندوں کے حقوق کی اہمیت اور آخرت میں حساب کے ساتھ ساتھ مال و دولت اکٹھا کرنے کے بارے میں ہدایات موجود ہیں تو صورت حال بہت حد تک بدل سکتی ہے۔ مثلاً ایک روایت کے مطابق کسی غزوہ میں مشرکین کے چند بچے لڑنے والوں کی جھپٹ میں آگئے۔ آپؐ اس واقعے پر بے حد افسردہ ہوئے۔ اسی طرح ہم روزانہ نماز میں قرآن کی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے ہیں اگر ان کا ترجمہ نمازیوں کو ذہن نشین کرادیا جائے تو بھی اس عمل سے ہمارے معاشرتی کردار میں بہت بہتری آسکتی ہے مثلاً 30 ویں سپارے میں سورہ حمزہ میں واضح طور پر ہدایت ہے کہ خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو منہ پر عیب، پیٹھ پیچھے بدی کرتے ہیں۔

مال جوڑ جوڑ کر اور گن گن کر رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کو جہنم کی آگ میں ڈالنے کی بات کی گئی ہے۔ اس طرح کی اور بھی کئی قرآنی آیات اور احادیث بھی ملتی ہیں کہ جن کو ذہن نشین کراکے اس جاگیردارانہ سوچ والے معاشرے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ بھی عربی زبان سے نابلد ہونے کے باعث سورہ تو زبانی پڑھ لیتے ہیں مگر اس میں پیش کی گئیں تعلیمات کے پیغام کو سمجھ نہیں پاتے۔ ایسی تعلیمات کو جو معاشرے میں موجود تمام مکاتب فکر کے لیے قابل قبول ہوں عام کرنے اور ذہن نشین کرانے کی بھی ضرورت ہے اس عمل میں سب سے اہم کردار مساجد کے پیش امام ادا کرسکتے ہیں اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی۔ اسی ضمن میں باشعور لوگ بھی مساجد کے پیش اماموں اور اساتذہ کو یہ کردار ادا کرنے کے لیے راغب کرسکتے ہیں اور متوجہ کرسکتے ہیں۔

اس وقت درحقیقت دیہی اور شہری دونوں معاشروں میں مال کی جائز و ناجائز محبت دینی تعلیمات پر بھی غالب آچکی ہے جب کہ دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی اور خاص کر حصول انصاف کا ناپید ہونا ایسے واقعات کی بنیادی وجہ ہے۔ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیاں اور ناانصافیاں اپنی جگہ مگر معاشرے کو درست کرنے کے لیے درحقیقت آج ایک اصلاح معاشرے کی تحریک کی ضرورت بھی ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو وہاں اسلامی تعلیمات عام کرکے اصلاح معاشرے کی تحریک کو کامیاب بنانا بہت زیادہ دشوار بھی نہیں ہوسکتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مذکورہ بالا تعلیمات جن کا ہمارے دین سے براہ راست تعلق بھی ہے دیہی علاقوں میں مساجد و تعلیمی اداروں اور محلے میں بزرگوں کی بیٹھک کے ذریعے دی جائیں اور شہری علاقوں میں جدید ذرایع ابلاغ کے ذریعے بھی دی جائیں۔ اس میں انفرادی طور پر بھی کردار ادا کیا جاسکتا ہے مثلاً فیس بک پر نوجوان اس قسم کی احادیث و قرآنی آیات کا تبادلہ بھی کرکے پیغام پھیلاسکتے ہیں کہ جس میں اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق اور آخرت میں حساب کا واضح طور پر ذکر ہو۔ یہ معاشرہ ہمارا ہی ہے اور اس کے بہتر بنانے کی کوشش بھی ہم ہی نے کرنا ہے۔
Load Next Story